مفتی محمدآصف اقبال قاسمی

فتنۂ خوارج سے تاتاری یلغار تک : نبوی پیشین گوئیاں اور ان کا ظہور

فتنہ خوارج

 

تحریر: مفتی محمدآصف اقبال قاسمی

فتنہ خوارج

رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیاتِ پاک میں ہی ایک ایسے گروہ کے نمودار ہونے کی پیشین گوئی فرمائی تھی جو دین کے ظاہر میں تو بہت عبادت گزار، نماز و روزہ میں مشغول اور ظاہری طور پر سخت متقی نظر آئے گا، مگر حقیقت میں وہ دین کی اصل روح اور اعتدال سے بہت دور ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ قرآن تو پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، یعنی ان کے دل تک اس کی حقیقت نہیں پہنچے گی۔ یہی وہ جماعت ہے جسے “خوارج” کہا گیا۔ ان کا سب سے بڑا فتنہ یہ تھا کہ وہ مسلمانوں ہی کو کافر قرار دیتے، حکمرانوں کے خلاف خروج کرتے اور خونِ مسلم کو مباح سمجھ لیتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سیدنا علیؓ کے دور میں یہ گروہ عملی طور پر سامنے آیا اور امت کے لیے شدید فتنہ اور انتشار کا سبب بنا، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے خبردار فرمایا تھا۔

ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تقسیم فرما رہے تھے اتنے میں بنی تمیم کا ایک شخص ذوالخویصرہ نامی آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! انصاف سے کام لیجئے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

’’افسوس! اگر میں ہی انصاف نہ کروں تو دنیا میں پھر کون انصاف کرے گا۔ اگر میں ظالم ہو جاؤں تب تو میری بھی تباہی اور بربادی ہو جائے۔‘‘

عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس کے بارے میں مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو۔ اس کے جوڑ کے کچھ لوگ پیدا ہوں گے کہ تم اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے مقابل ناچیز سمجھو گے۔ وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن وہ ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا۔ یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے زور دار تیر جانور سے پار ہو جاتا ہے۔ اس تیر کے پھل کو اگر دیکھا جائے تو اس میں کوئی چیز نظر نہ آئے گی پھر اس کے پٹھے کو اگر دیکھا جائے تو چھڑ میں اس کے پھل کے داخل ہونے کی جگہ سے اوپر جو لگایا جاتا ہے تو وہاں بھی کچھ نہ ملے گا۔ اس کے نفی کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کچھ نشان نہیں ملے گا۔ اسی طرح اگر اس کے پر کو دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا۔ حالانکہ گندگی اور خون سے وہ تیر گزرا ہے۔ ان کی علامت ایک کالا شخص ہو گا۔ اس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح ہو گا یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہو گا اور حرکت کر رہا ہو گا۔ یہ لوگ مسلمانوں کے بہترین گروہ سے بغاوت کریں گے۔

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کی تھی اس وقت میں بھی علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ اور انہوں نے اس شخص کو تلاش کرایا آخر وہ لایا گیا۔ میں نے اسے دیکھا تو اس کا پورا حلیہ بالکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کئے ہوئے اوصاف کے مطابق تھا۔‘‘

(صحیح بخاری۔کتاب المناقب ۔ باب علامات النبوۃ فی الاسلام۔ حدیث نمبر۔3610)
اس حدیث میں جس فتنے کا ذکر ہے وہ خوارج کا فتنہ ہے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانے میں ظاہر ہو ا ۔ ظاہری طور پر خوارج اسلام کاانکار کرنے والا فرقہ نہیں تھا بلکہ اس نے اسلام کالبادہ اوڑھ کر اسلام کو ایسے ہی نقصان پہنچایا جس طرح تیر کسی کے بدن کو آر پا رکرجائے ۔کہ اس سے بدن میں سوراخ بھی ہوجائے گا اور اگر تیر کو دیکھا جائے تو نہ تو اس کے پھل پر اور نہ ہی اس کے نوک پر کسی طرح کا کوئی داغ نظر آئے گا۔

حدیث کے راوی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے زور دے کر بتایا کہ میں نے اس حدیث کو رسول اللہ ﷺ سے سنا بھی ہے اور اس کے وقوع کا اپنی نظروں سے مشاہدہ بھی کیا ہے۔

رسو ل اللہ ﷺ نے اس شخص کی جو علامت بتائی تھی کہ اس کے ہاتھ عورت کے پستان کی طرح اٹھے ہوئے ہوں گے یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہلتے ہوئے ہوں گے ایسے شخص سے ملاقات کا بھی حضرت ابوسعید خدری نے دعویٰ کیا ہے ۔ آپ ؓ کے دعویٰ کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی یہ پیشین گوئی پوری ہوچکی ہے۔

ایسے لوگوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں اپنی حیات میں انہیں پاؤں تو قوم عاد کی طرح ان کا قتل کروں۔ جس طرح قوم عاد کا کوئی بھی فرد عذاب الہی سے نہیں بچ سکا اسی طرح ان کے ایک فرد کو قتل کردوں گا۔حضرت ابوسعید خدری ہی کی ایک روایت بخاری شریف میں اس طرح ہے ۔
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ:

علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کچھ سونا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس حنظلی، عیینہ بن بدری فزاری، علقمہ بن علاثہ العامری اور زید الخیل الطائی میں تقسیم کر دیا۔

اس پر قریش اور انصار کو غصہ آگیا اور انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نجد کے رئیسوں کو تو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک مصلحت کے لیے ان کا دل بہلاتا ہوں۔

پھر ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، پیشانی ابھری ہوئی تھی، داڑھی گھنی تھی، دونوںکلے پھولے ہوئے تھے اور سر گٹھا ہوا تھا۔ اس نے کہا:

اے محمد!(ﷺ) اللہ سے ڈر۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں بھی اس (اللہ) کی نافرمانی کروں گا تو پھر کون اس کی اطاعت کرے گا؟ اس نے مجھے زمین پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے۔

پھر حاضرین میں سے ایک صحابی میرے گمان کے مطابق خالد رضی اللہ عنہ نے اس کے قتل کی اجازت چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ پھر جب وہ جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کے صرف لفظ پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکال کر پھینک دئیے جائیں گے جس طرح تیر شکاری جانور میں سے پار نکل جاتا ہے، وہ اہل اسلام کو (کافر کہہ کر) قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے اگر میں نے ان کا دور پایا تو انہیں قوم عاد کی طرح نیست و نابود کر دوں گا۔‘‘

(صحیح بخاری ۔کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ تعرج الیہ الملئکۃ والروح۔حدیث نمبر 7432)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے بیان سے یہ پتہ چلتاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جس فتنہ سے متعلق پیشین گوئی فرمائی تھی وہ خوارج کی صورت میں ظاہر ہوا لیکن خوارج کا فتنہ ختم نہیں ہوا بلکہ اس طرح کے لوگ آج بھی ہیں اور قیامت تک آتے رہیں گے جو دین کی آڑ میں گمراہی پھیلائیں گے ۔جس طرح خوارج قرآن کریم کی تفسیر من مانی کیا کرتے تھے اسی طرح آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو صحابہ ، تابعین اور عام مفسرین کی راہ سے ہٹ کر تفسیریں کررہے ہیں او ر قوم کو گمراہ کررہے ہیں۔

حضرت حسن ؓ کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان صلح

رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت دوسال قائم رہی اس درمیان مختلف قسم کے فتنوں نے جنم لیا لیکن حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی فراست اور بہادری نیز صحابۂ کرام کی کثرت کی وجہ سے ان تمام فتنوں کی سرکوبی نہایت کامیابی کے ساتھ کی گئی ۔

حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں کسی فتنہ نے سر اٹھانے کی ہمت نہیں کی ۔

حضرت عثمان غنی ؓ چونکہ نرم طبیعت تھے اس لئے کچھ لوگوں نے سورش برپاکرنے کی کوشش کی اور وہ اس حد تک کامیاب ہوئے کہ آپ ؓ کے گھر میں گھس کر آپؓ کو شہید کردیا ۔

اس کے بعد انہی لوگوں نے حضرت علی ؓ کی دور خلافت میں مختلف قسم کی ریشہ دوانیاں کیں جن سے حضرت علیؓ مسلسل لڑتے رہے ۔ اس ذیل میں جنگل جمل اور جنگ صفین دو عظیم معرکے ہوئے۔ جس میں بالترتیب حضرت علی کے مقابل حضرت عائشہؓ اور حضرت معاویہؓ تھے۔

حضرت عائشہؓ تو خاموش ہوکر بیٹھ گئیں لیکن حضرت امیر معاویہؓ نے ہتھیار نہیں ڈالا نتیجہ کے طور پر مسلمانوں میں دو جماعتیں ایسی پیدا ہوگئیں جو ایک دوسرے کی دشمن تھیں اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اگر جنگ کا یہ سلسلہ جاری رہتا تو مسلمان آپس میں لڑکر اس قدر کمزور ہوجاتے کہ کوئی بھی باہری دشمن آسانی سے ان پر قابض ہوسکتا تھا ۔ ایسے وقت میں حضرت حسن بن علی ؓ نے وہ کارنامہ انجام دیا جس نے امت کے شیرازہ کو بکھرنے سے بچالیا ۔ آپ ؓ نے ان دونوں جماعتوں کے درمیان صلح کا راستہ ہموار کیا جس کی وجہ سے ایک عظیم جنگ مسلمانوں کے سر سے ٹل گئی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی پیشین گوئی پہلے سے ہی فرمادی تھی ۔

’’حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسن رضی اللہ عنہ کو ایک دن ساتھ لے کر باہر تشریف لائے اور منبر پر ان کو لے کر چڑھ گئے پھر فرمایا ’’میرا یہ بیٹا سید ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں ملاپ کرا دے گا۔‘‘

(صحیح بخاری کتاب المناقب ۔ باب علامات النبوۃ فی الاسلام ۔ حدیث نمبر3629)

رسول اللہ ﷺ کی یہ پیشین گوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد پوری ہوئی جب شیعان علیؓ نے ان کو خلافت کی دعوت دی اور حضرت امیر معاویہؓ کی کے خلاف کھڑا کرنا چاہا تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے مقابلہ آرائی کے بجائے صلح کو ترجیح دیا اور مسلمانوں کی ایسی دوجماعتوں کے درمیان جن میں ہر دواطراف میں مومنین صالحین موجود تھے صلح کی راہ ہموار کی ۔نتیجہ کے طور پر حضرت حسنؓ کو بھی حضرت علیؓ کی طرح خوارج کی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا اور جس طرح ان لوگوں نے حضرت علی ؓ پر دشنام طرازی کی تھی اسی طرح ان لوگوں نے حضرت حسنؓ کے ساتھ بھی سلوک کیا۔بخاری کی روایت کے مطابق صلح کا پورا واقعہ اس طرح ہے:

 حسن بصری  بیان کرتے تھے کہ قسم اللہ کی جب حسن بن علی رضی اللہ عنہما پہاڑوں میں لشکر لے کر پہنچے، تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اپنے مقابل کو نیست و نابود کیے بغیر واپس نہ جائے گا۔

معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا اور قسم اللہ کی، وہ ان دونوں اصحاب میں زیادہ اچھے تھے، کہ اے عمرو! اگر اس لشکر نے اس لشکر کو قتل کر دیا، یا اس نے اس کو قتل کر دیا، تو لوگوں کے امور کی میرے ساتھ کون ذمہ داری لے گا، لوگوں کی بیوہ عورتوں کی خبرگیری کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہو گا۔ لوگوں کی آل اولاد کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہو گا۔

آخر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ کے یہاں قریش کی شاخ بنو عبد شمس کے دو آدمی بھیجے۔ عبدالرحمٰن بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر بن کریز، آپ نے ان دونوں سے فرمایا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے یہاں جاؤ اور ان کے سامنے صلح پیش کرو، ان سے اس پر گفتگو کرو اور فیصلہ انہیں کی مرضی پر چھوڑ دو۔

چنانچہ یہ لوگ آئے اور آپ سے گفتگو کی اور فیصلہ آپ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیا۔

حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہم بنو عبدالمطلب کی اولاد ہیں اور ہم کو خلافت کی وجہ سے روپیہ پیسہ خرچ کرنے کی عادت ہو گئی ہے اور ہمارے ساتھ یہ لوگ ہیں، یہ خون خرابہ کرنے میں طاق ہیں، بغیر روپیہ دئیے ماننے والے نہیں۔

وہ کہنے لگے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپ کو اتنا اتنا روپیہ دینے پر راضی ہیں اور آپ سے صلح چاہتے ہیں۔ فیصلہ آپ کی مرضی پر چھوڑا ہے اور آپ سے پوچھا ہے۔

حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ ان دونوں قاصدوں نے کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔

حسنؓ نے جس چیز کے متعلق بھی پوچھا، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ آخر آپ نے صلح کر لی، پھر فرمایا کہ میں نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا تھا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔

(صحیح بخاری ۔کتاب الصلح ، باب قول النبی ﷺ للحسن بن علی ؓالخ۔ حدیث نمبر2704)
واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں جماعتوں کو مسلمان کہاہے اور کسی کوبھی اسلام سے باہر نہیں بتایا اس لئے ہمیں یہ فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کہ ان دونوں جماعتوں میں سے کون حق پر تھا اور کون باطل پر۔

فتنۂ تاتار

رسول اللہ ﷺ نے امت کو دورِ آخر میں پیش آنے والی بڑی بڑی آزمائشوں میں سے ایک عظیم فتنہ کی خبر دی تھی جس میں پوری امت آزمائش میں مبتلا ہوگی، شہروں کی تباہی، خونریزی اور ظلم و بربریت عام ہوگی۔ تاریخ میں یہ پیشین گوئی بڑی حد تک تاتاری یلغار کے ساتھ ظاہر ہوئی، جب چنگیز خان اور ہلاکو خان کی قیادت میں تاتاری لشکروں نے مشرقی اسلامی دنیا کو تباہ کر دیا۔ بغداد جیسے عظیم شہر کی بربادی، لاکھوں مسلمانوں کا قتل اور علمی مراکز کا صفایا اس فتنہ کے آثار میں سے تھا۔ علماء نے بیان کیا ہے کہ تاتار کی تباہی قرآن و حدیث میں مذکور آخری دور کی خونریز فتنوں سے مشابہ تھی، جس کی طرف رسول اللہ ﷺ نے تنبیہ فرمائی تھی کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جب فتنوں کا اندھیرا اس شدت سے چھائے گا کہ انسان صبح مؤمن ہوگا اور شام تک فتنے میں مبتلا ہو جائے گا۔

حبشہ اور ترک اقوام کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ھدایت فرمائی کہ انہیں اپنی طرف سے نہ چھیڑنا جب تک وہ تمہیں نہیں چھیڑیں۔چنانچہ خلفائے راشدین او ر اس کے بعد کے خلفاء نے بھی ان سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی۔

اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے زمانے میں ترکوں سے جھڑپیں شروع ہوئی اور ابتدائی چند شکستوں کے بعد بالآخر اسلامی فوجیں ترکوں پرغالب ہوگئیں ۔ ترکوں کی کثیر تعداد نے اسلام قبول کیا او ر پھر اسلامی افواج میں شامل ہوکر بڑی بڑی جنگیں لڑیں۔ موجودہ ترکی جہاں ترک اقوام آباد ہیں یہ ایک خانہ بدوش قوم تھے جو وسط ایشیاسے سفر کرتے ، جنگیں لڑتے یہاں تک پہنچے۔منگول دراصل ترک ہی ہیں جنہوں نے اسلامی سلطنت کو بہت نقصان پہنچایا جو تاریخ میں فتنہ تاتار کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے متعلق بھی رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی موجود ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک مسلمان ترکوں سے نہ لڑیں گے جن کے چہرے تہہ بتہہ ڈھالوں کی طرح گول مٹول ہوں گے، بالوں کے لباس پہنیں گے اور بالوں میں چلیں گے۔

(سنن نسائی ۔ کتاب الجہاد ۔ باب غزوۃ الترک والحبشۃ۔حدیث نمبر3179)

فتنۂ تاتار ایک ایسا فتنہ ہے جس نے پورے عالم اسلام کو زیر و زبر کرکے رکھ دیا تھا ۔دوسری اقوام بھی اس سے متاثر ہوئیں لیکن سب سے زیادہ مسلمانوں کو اس کے نقصان پہنچا، تاتاری قوم ترکستان سے نکلی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایک منظم گروہ کی شکل اختیار کرلیا ان کے سامنے کوئی واضح منشور یا حکومت کا واضح نقشہ نہیں تھا بلکہ ان کا مقصد غارت گری اورلوٹ مار تھا اور چونکہ اس وقت مسلمان ہی دنیا میں سب سے زیادہ منظم ، مہذب اور ترقی یافتہ قوم تھے اس لئے سیدھے مسلمان ہی ان کی زد میں آئے اس سلسلہ میں خلافت عباسیہ کا خاتمہ اور بغداد خلافت کا زوال اہم واقعہ ہے ۔ انہوں نے خلافت عباسیہ کے آخری فرماںرواں معتصم باللہ کو قتل کیا اور بغداد اور اس کے مضافات میں قتل وخون کی وہ تاریخ رقم کی کہ اس کی مثال آج تک نہیں پائی گئی ۔اس فتنہ سے متعلق رسول اللہ ﷺ نے پہلے ہی بتادیا تھا ۔جو سن ۶۵۶؁ھ میں پورا ہوا۔
’’عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہ:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ تم ایسی قوم سے جنگ کرو گے جو بالوں کی جوتیاں پہنے ہوں گے۔اور قیامت کی ایک نشانی یہ ہے کہ ان لوگوں سے لڑو گے جن کے منہ چوڑے چوڑے ہوں گے گویا ڈھالیں ہیں چمڑا جمی ہوئی۔‘‘

( صحیح بخاری ۔کتاب الجہاد والسیر ،باب قتال الترک، حدیث نمبر2927)

’’حضرت ا بوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک تم ترکوں سے جنگ نہ کر لو گے، جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی، چہرے سرخ ہوں گے، ناک موٹی پھیلی ہوئی ہو گی، ان کے چہرے ایسے ہوں گے جیسے تہ بند چمڑا لگی ہوئی ہوتی ہے اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تم ایک ایسی قوم سے جنگ نہ کر لو گے جن کے جوتے بال کے بنے ہوئے ہوں گے۔‘‘

( صحیح بخاری ۔کتاب الجہاد والسیر ،باب قتال الترک، حدیث نمبر2928)

ان دونوں احادیث میں جس قوم کا ذکر آیا ہے اس سے تاتار مراد ہیں جسے دنیا منگول کے نام سے جانتی ہے ۔ یہ قوم خانہ بدوش تھی ، نسلی اعتبار سے ترک تھی ۔ چنگیز خان کی اولادہیں ہلاکو خان کی قیادت میں انہوں نے بغداد پر حملہ کیااور خلافت عباسیہ کا خاتمہ کیا بلکہ اس کے بعد سے عربوں کی حکومت دنیا سے ختم ہوگئی ۔

امام نووی شارح مسلم اسی زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے اس حدیث کے سلسلے میں اپنے مشاہدات بیان کیا ہے کہ اس حدیث میں جس قوم کا ذکر ہے وہ ترک قوم ہے اور جو صفات رسول اللہ ﷺ نے بتائی ہیں وہ سب کی سب ان میں موجود ہے :
’’اس روایت میں چھوٹی چھوٹی آنکھوں(کا ذکر ہے) اور یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ہیں، کیونکہ میں نے ان ترکوں کو ان تمام خصوصیات کے ساتھ لڑتے ہوئے پایا  جن کا آپ ﷺ نے ذکر کیا۔ چھوٹی آنکھیں ،سرخ چہرے ،ناک چپٹی ، ان کے چہرے ایسے تھے جیسے تہ بہ تہ چمڑا لگا ہوا ہو، بالوں کے کپڑے پہنے ہوئے۔ان تمام صفات کے ساتھ ہمارے زمانے میںپائے گئے ۔ ان سے مسلمانوں نے کئی بار قتال کیا اور اب بھی کررہے ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ مسلمانوں کو ان کے معاملات اور دوسروں کے معاملات میں اور ان کے تمام حالات میں انجام کار خیر و بھلائی عطا فرمائے، اور ان کے لیے مہربانی اور تحفظ کو برقرار رکھے۔اور رسول اللہ ﷺ پر اللہ کی رحمتیں ہوں جو وحی کے علاوہ اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کہتے ۔

 (نووی شرح مسلم ۔کتاب الفتن واشراط الساعۃ ۔ جلد ۱۸ ص ۲۷،۲۸ المطبعۃ المصریہ بالازہر)
منگول یا تاتار جب اٹھے تو پوری دنیا پر چھاگئے لیکن ان کے پاس منظم حکومت نہیں تھی اور نہ ہی ان کے پاس تہذیب نام کی چیز تھی اس لئے وہ وجہاں بھی گئے وہیں کے ہوکر رہ گئے جوتہذیب انہیں پسند آگئی اسی کو اختیار کرلیا ان کی ایک کثیر تعداد اسلام میں بھی داخل ہوئی اور پھر اسلامی قوانین اور اسلامی نظام کے تحت بعض علاقوں میں دیرپا حکومتیں بھی قائم رہیں ۔بہت سے منگولوں نے بدھ مت اور مسیحیت کو اختیار کرلیا۔
’’ مغل ‘‘اور ‘‘ مغول ‘‘لفظ منگول کی بدلی ہوئی شکل ہے منگولوں کے عرب ممالک پر حملوں اور قبضہ کے بعد لفظ ‘‘منگول’’ جب عربی سے متعارف ہوا تو یہ لفظ ‘‘مغول ’’ کی صورت میں تبدیل ہوگیا کیونکہ عربی زبان کے حروف تہجی میں ‘‘گ’’ نہیں ہے اس طرح ‘‘گ’’کی جگہ’’غ ’’ نے لے لی مغولان جمع کا لفظ ہے اس کا واحد مغل یا مغول ہے۔ یورپی مورخین اور محققین انہیں تاتاری بھی لکھتے اور کہتے ہیں، اس وجہ سے عرب ریاستوں میں اور ساتھ ساتھ ایران ، عراق، افغانستان کی ریاستوں میں مغول بولا جانے لگا اور وقت گْزرنے کے ساتھ ساتھ لب و لہجہ کی تبدیلی کی وجہ سے ہندوستان میں مختصر ہوکر مغل رہ گیا اور یہ ایک ہی قوم کے مختلف نام ہیں۔ہندوستان پاکستان میں ان کو اب مغل کہا جاتا ہے۔ہندوستان میں مغل حکومت کی ایک لمبی تاریخ ہے ۔
تاریخ عالم میں مغلوں کی اولین مشہور شخصیت جو تومنہ خان کی پانچویں پْشت میں سے تھا چنگیز خان ہے (پیدائش 1160ء ، وفات: 1227ء ) جس نے چین کے مشرقی ساحلوں سے لے کر یورپ کے وسط تک ایک عظیم منگول سلطنت قائم کی۔ یہ تاریخ عالم کی سب سے بڑی سلطنتوں میں سے ایک تھی جو مغرب میں ہنگری، شمال میں روس، جنوب میں انڈونیشیا اور وسط کے بیشتر علاقوں مثلا افغانستان، ترکی، ازبکستان، گرجستان، آرمینیا، روس، ایران، پاکستان، چین اور بیشتر مشرق وسطی پر مشتمل تھی۔‘‘ (ویکیپیڈیا آزاد دائرۃ المعارف)

فتنۂ خوارج اور فتنۂ تاتار دونوں تاریخِ اسلام کے وہ سنگین واقعات ہیں جن کی طرف رسول اللہ ﷺ نے پہلے ہی امت کو خبردار فرمایا تھا۔ خوارج نے دین کے نام پر شدت پسندی، تکفیر اور خونریزی کو ہوا دی، جب کہ تاتاری یلغار نے امت کے علمی و تمدنی ورثے کو شدید نقصان پہنچایا۔ یہ دونوں فتنوں کا ظہور اس حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺکی پیشین گوئیاں حق ہیں اور امت کو ہمیشہ اعتدال، اتحاد اور سنتِ نبوی ﷺ کی پیروی کے ساتھ ایسے فتنوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index