مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

دجال کا عظیم فتنہ: آخری زمانے کی سب سے بڑی آزمائش

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

 

دجال

آخری زمانے کا سب سے بڑا فتنہ دجال

دجّال کا فتنہ آخری زمانے کا سب سے بڑا اور سب سے خطرناک فتنہ ہے، جس کی ہولناکی اور آزمائش کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے امت کو باربار متنبہ فرمایا۔ دجّال غیر معمولی طاقتوں کا مظاہرہ کرے گا، بارش برسائے گا، زمین کو سرسبز کرے گا، اپنے پیروکاروں کو دنیاوی آسائشیں دے گا اور نہ ماننے والوں کے لیے سختی و فتنہ پیدا کرے گا۔ وہ جھوٹے معجزات دکھا کر لوگوں کو اپنے ربّ ہونے کا دعویٰ کرے گا، حالانکہ وہ ایک آنکھ سے اندھا، دھوکے باز اور شیطان کا ایجنٹ ہوگا۔ اس کے ساتھ جنت اور جہنم بھی ہوگی، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوگی، اس کی جنت جہنم اور اس کی جہنم جنت ہے۔ وہ دنیا کے ہر شہر میں جائے گا، سوائے مکہ و مدینہ کے، جہاں فرشتے اس کے داخلے کی راہ روکیں گے۔ اس کے فتنے سے بچنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ایمان، علم، سورۃ الکہف کی ابتدائی آیات کی تلاوت اور اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ ہے۔ دجّال کا خاتمہ بالآخر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں ہوگا، اور اسی کے ساتھ یہ عظیم ترین آزمائش ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔

دجال ایک انسان ہے

دجّال ایک حقیقی انسان ہوگا، کوئی محض علامتی قوت، نظریہ یا نظام نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اسے آخر الزمان کا سب سے بڑا فتنہ قرار دیا ہے۔ وہ ایک آنکھ سے اندھا ہوگا، لیکن غیر معمولی آزمائشوں اور شیطانی قوتوں کے ذریعے لوگوں کو دھوکا دے کر اپنے رب ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرے گا۔ وہ بارش برسانے، زمین سرسبز کرنے اور ظاہری معجزاتی امور دکھانے جیسی آزمائشوں کے ذریعے کمزور ایمان والوں کو گمراہ کرے گا۔
مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ دجّال خدا نہیں، بلکہ جھوٹا اور فتنہ انگیز انسان ہے، خواہ اس کے پاس کتنی ہی طاقتیں نظر آئیں۔ایک مومن کویہ بھی یقین رکھنا چاہئے کہ دجّال مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہوسکے گا، کیونکہ ان کی حفاظت اللہ کے فرشتے کریں گے۔ مسلمانوں کوچاہئے کہ وہ دجّال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگیں، خصوصاً نمازوں میں وہ دعا پڑھیںجو نبی ﷺ نے سکھائی:”اللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّال”اور سورۃ الکہف کی ابتدائی آیات یاد رکھیں، جو حفاظت کا ذریعہ ہیں۔مسلمان اس بات پر بھی ایمان رکھیں کہ دجّال کا قتل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں بیت المقدس کے قریب ہوگا، جس کے ساتھ اس عظیم آزمائش کا خاتمہ ہو جائے گا۔ لہٰذا دجّال کے بارے میں صحیح عقیدہ یہ ہے کہ وہ ایک مخصوص شخص ہے، حقیقی وجود رکھتا ہے، آخری زمانے میں ظاہر ہوگا، اور اس سے بچنے کا واحد راستہ ایمان، علم، تقویٰ اور اللہ پر کامل بھروسہ ہے۔

خروج دجال

دجال کے آمد کی خبریں اور اس کے حالات احادیث میں کثرت سے آئے ہیں۔ یہ فتنہ اتنا بڑا ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ نے امت کو اس فتنہ سے پناہ مانگنے کی باضابطہ تعلیم وھدایت دی ہے اور دجال کے فتنہ سے ڈرایا بھی ہے آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے اور اللہ کی تعریف اس کی شان کے مطابق بیان کی۔ پھر دجال کا ذکر فرمایا کہ میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اس سے نہ ڈرایا ہو، البتہ میں تمہیں اس کے بارے میں ایک بات بتاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی تھی اور وہ یہ کہ وہ کانا ہو گا اور اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے۔‘‘
(صحیح بخاری ۔کتاب الفتن ،باب ذکر الدجال حدیث نمبر7127)
رسول اللہ ﷺ اپنی نمازوں میں دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے۔

’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ اپنی نماز میں دجال کے فتنے سے پناہ مانگتے تھے۔‘‘
(صحیح بخاری ۔کتاب الفتن ،باب ذکر الدجال حدیث نمبر7129)
حق بات یہ ہے کہ دنیا میں جتنے بھی فتنے پیدا ہوئے یا پیدا ہوں گے ان میں سب سے بڑا فتنہ دجال کافتنہ ہوگا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بہت سی چیزوں میں چھوٹ دے دیا ہے ۔شیطان اس کا مددگار ہوگا اور یہ شیطان کو آخری چھوٹ ہوگی اس لئے وہ اس میں اپنی پوری طاقت جھونک دے گا کہ ایمان والوں کو زیادہ سے زیادہ دین سے پھیردیا جائے ۔اب سے پہلے جتنے لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیایا خدائی کا دعویٰ کیا ان کا دعویٰ محض دعویٰ تھا یا زیادہ سے زیادہ ظاہری اسباب ان کے پاس تھوڑے زیادہ تھے جن کے بل پر انہوں نے خدائی کا دعویٰ کردیا لیکن ان کاجھوٹ لوگوں کے سامنے ظاہر ہوگیا ۔ لیکن دجال جو خدائی کا دعویٰ کرے گا اس کے اثبات کے لئے اس کے پاس خرق عادت علامات ہوں گی جن کی وجہ سے سیدھے سادے لوگ اس کی جال میںپھنس جائیں گے جس چیز کا وہ دعویٰ کرے گا اس کو ہاتھوں ہاتھ کرکے دکھائے گا ۔ اس کے پاس اسباب و آلات کی کمی نہیں ہوگی ، نعمتوں کا انبارہوگا جو وہ اپنے ماننے والوں پر لٹائے گا، طاقت و قدرت حاصل ہوگی جس کو وہ اپنے مخالفین پر آزمائے گا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

” اس کے ساتھ پانی اور آگ ہو گی اور اس کی آگ ٹھنڈا پانی ہو گی اور پانی آگ ہو گا۔‘‘
(صحیح بخاری ۔کتاب الفتن ،باب ذکر الدجال حدیث نمبر7130)
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جن سے دجال خوش ہوگا اسے ٹھنڈا پانی پلائے گا لیکن وہ ٹھنڈا پانی درحقیقت جہنم کی آگ ہے جسے لوگ ایمان بیچ کر حاصل کریں گے اور جن سے وہ ناخوش ہوگا ان کو وہ آگ میں ڈالے گا ظاہر ہے آگ سے تکلیف تو ہوگی لیکن اس تکلیف کے بدلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے ایسا ٹھنڈا پانی پلایا جائے گا کہ کبھی پیاس محسوس نہیں ہوگی ۔
رسول اللہ ﷺ کوچونکہ اپنی امت کی فکر ہر وقت لگی رہتی تھی اور صرف ان کی ہی نہیں جو آپ ﷺ کے سامنے موجود تھے بلکہ ان کی بھی فکر ہمیشہ رہتی تھی جو قیامت تک آپ ﷺ کی امت میں پید ا ہونے والے ہیں اس لئے آپ ﷺ نے دجال کی علامات اور اس کے فتنوں سے بچنے کی ترکیبیں بھی بتائی ہیں ۔ احادیث میں اس کی جسمانی علامات میں نمایاں علامت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ کانا ہوگا اور اس کی پیشانی پر کافر لکھا ہوا ہوگا جس کو دیکھ کر ہر مومن پہچان لے گا کہ یہ دجال ہے اس لئے اس کے دجل و فریب میں نہیںآئے گا بلکہ اس کی مخالفت کرے گا اور اس ضمن میں اگر اس کو تکلیفیں بھی اٹھانی پڑیں تواٹھائے گا اور اللہ سے اجرو ثواب کی امید رکھے گا۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو نبی بھی مبعوث کیا گیا تو انہوں نے اپنی قوم کو کانے جھوٹے سے ڈرایا، آگاہ رہو کہ وہ کانا ہے اور تمہارا رب کانا نہیں ہے۔ اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ’’کافر‘‘ لکھا ہوا ہے۔‘‘
(صحیح بخاری ۔کتاب الفتن ،باب ذکر الدجال حدیث نمبر7131)

دجال کہا ں سے نکلے گا؟

دجال کی نکلنے جگہ کیاہوگی اس سے متعلق روایات مختلف ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ خراسان سے نکلے گا:
’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا: ’’دجال مشرق میں ایک جگہ سے نکلے گا جسے خراسان کہا جاتا ہے، اس کے پیچھے ایسے لوگ ہوں گے جن کے چہرے تہ بہ تہ ڈھال کی طرح ہوں گے۔‘‘
(سنن الترمذی کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء من این یخرج الدجال۔ حدیث نمبر2237)
ترمذی ہی کی ایک دوسری روایت جس کا ذکر آگے آرہا ہے اس میں ہے کہ وہ عراق اور شام کے درمیان نکلے گا۔مسند ابویعلیٰ موصلی کی روایت کے الفاظ ہیں

: یھبط الد جال خوزَ وکرمانَ فی ثمانین الفا یتنعلون الشعر و یلبسون الطیالسۃ کان وجوھھم المجان المطرقہ۔

(حدیث نمبر ۵۹۸۶جلد ۱۰ ، ص ۳۸۰)

’’دجال، خوز اور کرمان میں اسی ہزار (ہمرایوں )کے ساتھ اترے گا، وہ بالوں کا جوتاپہنیں گے اور ریشمی کپڑے پہنیں گے، اور ان کے چہرے ڈھالوں کی طرح ہوں گے۔‘‘مستدرک حاکم کی ایک روایت کے الفاظ ہیں : یخرج الدجال من یہودیۃ اصبھان’’دجال یہودیہ اصبھان سے نکلے گا‘‘

(مستدرک حاکم مترجم اردو حدیث نمبر۸۶۱۱۔جلد ۶ ۔ ص۶۹۷)
ان چاروں روایات میں چار جگہوں کا ذکر آیا ہے جہاں سے دجال کا خروج ہوگا ان تمام روایات میں تطبیق کی صورت مفتی سعید احمد پالنپوری نے اس طرح لکھا ہے :
’’ان روایات میں تطبیق اس طرح دی گئی ہے کہ دجال کاخروج اولین شام وعراق کی وسطی گھاٹی سے ہوگا ، مگر اس وقت اس کی شہرت نہ ہوگی اور اس کے اعوان و انصاریہودیہ گاؤں میں اس کے منتظر ہوں گے ، وہ وہاں جائے گا اور ان کو ساتھ لے کر پہلا پڑاؤ حوز وکرمان میں کرے گا ،پھر مسلمانوں کے خلاف خراسان سے حملہ آور ہوگا‘‘ (تحفۃ الالمعی جلد ۵، ص ۶۰۶۔۶۰۷)
ترمذی کی ایک طویل روایت ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے قیامت کے مختلف علامات ، خروج دجال ، نزول عیسیٰ علیہ السلام ،خروج یاجوج ماجوج اور ان کی ہلاکت نیز قیام قیامت کو تفصیل سے بیان کیاہے۔ ذیل میں وہ روایت دیکھیں :

’’حضرت نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح دجال کا ذکر کیا، تو آپ نے آواز کو بلند اور پست کیا حتیٰ کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ کھجوروں کے جھنڈ میں ہے، پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے واپس آگئے، پھر آپ کے پاس گئے تو آپ نے ہم پر دجال کے خوف کا اثر جان لیا اور فرمایا:

’’کیا معاملہ ہے؟‘

‘ ہم نے عرض کیا:

اللہ کے رسول! آپ نے صبح دجال کا ذکر کرتے ہوئے اپنی آواز کو بلند اور پست کیا یہاں تک کہ ہمیں گمان ہونے لگا کہ وہ کھجوروں کے درمیان ہے۔

آپ نے فرمایا:

’’دجال کے علاوہ دوسری چیزوں سے میں تم پر زیادہ ڈرتا ہوں، اگر وہ نکلے اور میں تمہارے بیچ موجود ہوں تو میں تمہاری جگہ خود اس سے نمٹ لوں گا، اور اگر وہ نکلے اور میں تمہارے بیچ موجود نہ رہوں تو ہر آدمی خود اپنے نفس کا دفاع کرے گا، اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ ہے،

دجال گھونگھریالے بالوں والا جوان ہو گا، اس کی ایک آنکھ انگور کی طرح ابھری ہوئی ہو گی تو میں اسے عبدالعزیٰ بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں، پس تم میں سے جو شخص اسے پالے اسے چاہئے کہ وہ سورۃ الکہف کی ابتدائی آیات پڑھے،

وہ شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا اور دائیں بائیں فساد پھیلائے گا، اللہ کے بندو! ثابت قدم رہنا‘‘۔

ہم نے عرض کیا:

اللہ کے رسول! روئے زمین پر ٹھہرنے کی اس کی مدت کیا ہو گی؟

آپ نے فرمایا:

’’چالیس دن، ایک دن ایک سال کے برابر ہو گا، ایک دن ایک مہینہ کے برابر ہو گا، ایک دن ہفتہ کے برابر ہو گا اور باقی دن تمہارے دنوں کی طرح ہوں گے‘‘،

ہم نے عرض کیا:

اللہ کے رسول! بتائیے وہ ایک دن جو ایک سال کے برابر ہو گا کیا اس میں ایک دن کی نماز کافی ہو گی؟

آپ نے فرمایا:

’’نہیں بلکہ اس کا اندازہ کر کے پڑھنا‘‘۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! زمین میں وہ کتنی تیزی سے اپنا کام کرے گا؟

آپ نے فرمایا:

’’اس بارش کی طرح کہ جس کے پیچھے ہوا لگی ہوتی ہے ، وہ کچھ لوگوں کے پاس آئے گا، انہیں دعوت دے گا تو وہ اس کو جھٹلائیں گے اور اس کی بات رد کر دیں گے، لہٰذا وہ ان کے پاس سے چلا جائے گا مگر اس کے پیچھے پیچھے ان کے مال بھی چلے جائیں گے، ان کا حال یہ ہو گا کہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں رہے گا،

پھر وہ کچھ دوسرے لوگوں کے پاس جائے گا، انہیں دعوت دے گا، اور اس کی دعوت قبول کریں گے اور اس کی تصدیق کریں گے، تب وہ آسمان کو بارش برسانے کا حکم دے گا۔ آسمان بارش برسائے گا، وہ زمین کو غلہ اگانے کا حکم دے گا، زمین غلہ اگائے گی، ان کے چرنے والے جانور شام کو جب واپس آئیں گے، تو ان کے کوہان پہلے سے کہیں زیادہ لمبے ہوں گے، ان کی کوکھیں زیادہ کشادہ ہوں گی اور ان کے تھن کامل طور پر بھرے ہوں گے،

پھر وہ کسی ویران جگہ میں آئے گا اور اس سے کہے گا:

اپنا خزانہ نکال، پھر وہاں سے واپس ہو گا تو اس زمین کے خزانے شہد کی مکھیوں کے سرداروں کی طرح اس کے پیچھے لگ جائیں گے، پھر وہ ایک بھرپور اور مکمل جوان کو بلائے گا اور تلوار سے مار کر اس کے دو ٹکڑے کر دے گا۔ پھر اسے بلائے گا اور وہ روشن چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آ جائے گا،

پس دجال اسی حالت میں ہوگا کہ اسی دوران عیسیٰ بن مریم علیہما السلام دمشق کی مشرقی جانب سفید مینار پر زرد کپڑوں میں ملبوس دو فرشتوں کے بازو پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے، جب وہ اپنا سر جھکائیں گے تو پانی ٹپکے گا اور جب اٹھائیں گے تو اس سے موتی کی طرح چاندی کی بوندیں گریں گی، ان کی سانس کی بھاپ جس کافر کو بھی پہنچے گی وہ مر جائے گا اور ان کی سانس کی بھاپ ان کی حد نگاہ تک محسوس کی جائے گی، وہ دجال کو ڈھونڈیں گے یہاں تک کہ اسے باب لد کے پاس پا لیں گے اور اسے قتل کر دیں گے۔
(سنن الترمذی ۔ کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء فی فتنۃ الدجال ۔ حدیث نمبر ۔2240)
اس روایت کے مطابق واقعات کی جو ترتیب بنتی ہے وہ یہ ہے کہ دجال کا خروج پہلے ہوگا ظاہر ہے یہ حضرت مہدی علیہ الرضوان کی موجودگی میں ہوگا اور وہ مسلمانوں کے ساتھ اس سے قتال کریں گیں ۔اس کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول آسمان سے ہوگا ۔حضرت عیسیٰ ؑ کا نزول دجال کاخاتمہ ہوگا اس لئے کہ ان کے نزول کے ساتھ ہی وہ پگھلنا شروع ہوجائے گائے یہاں تک کہ وہ اسے قتل کردیں گے ۔دجال کے قتل کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ ؑ سے فرمائیں گے کہ مومنین کو لے کر طور پر چلے جاؤ اس لئے کہ اب یاجوج ماجوج کا خروج ہونے والا ہے اور پھر یاجوج ماجوج کا فتنہ رونما ہوگا جس سے پوری انسانیت پریشان ہوجائے گی ۔پھر حضرت عیسی ؑ کی دعاء سے یاجوج ماجوج کی ہلاکت ہوگی اور کچھ دنوں کے بعد قیامت قائم ہوگی ۔واقعات کی اسی ترتیب کے ساتھ پہلے دجال سے متعلق باقی چیزیں اور پھر نزول عیسیٰ ؑ اور خروج یاجوج ماجوج کا ذکر کیا جائے گا۔
دجال کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتنی ڈھیل دی جائے گی کہ وہ اپنے مدت قیام میں دنیا میں جو کرنا چاہے گا وہ کرلے گا ۔ جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے مترشح ہوتاہے کہ بادل اس کے حکم کے مطابق بارش برسائیں گے ، زمین اس کے حکم سے غلہ اگائے گی اور اپنے دفینے اس کے حوالے کردے گی ۔اسی طرح وہ کسی شخص کو قتل کرکے اس کو زندہ کردینے پر بھی قادر ہوگا۔انکار کرنے والوں کو سزادے گا اور ماننے والوں کوانعام واکرام سے نوازے گا۔دجال پوری دنیا کا چکر لگالے گا اور اس کا دجل وفریب ہر آدمی تک پہنچ جائے گے لیکن مدینہ میں اس کا داخلہ ممنوع ہوگا اور لاکھ کوشش کے بعد بھی وہ مدینہ میں داخل نہ ہوسکے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ دجال کے فتنہ کے وقت مدینہ ایک محفوظ مقام ہوگا ۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’دجال مدینہ آئے گا تو فرشتوں کو اس کی نگرانی کرتے ہوئے پائے گا، اللہ نے چاہا تو اس میں دجال اور طاعون نہیں داخل ہو گا۔‘‘
(سنن الترمذی ۔کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب ماجا ء فی الدجال لایدخل المدینۃ ۔ حدیث نمبر 2242)
ایک دوسری روایت جسے امام بخاری نے روایت کیا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:
’’حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے دجال کے متعلق ایک طویل حدیث بیان کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’دجال آئے گا اور اس کے لیے ناممکن ہو گا کہ مدینہ کی گھاٹیوں میں داخل ہو۔ چنانچہ وہ مدینہ منورہ کے قریب کسی شور والی زمین پر قیام کرے گا۔ پھر اس دن اس کے پاس ایک مرد مومن جائے گا اور وہ افضل ترین لوگوں میں سے ہو گا۔ اور اس سے کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان فرمایا تھا۔ اس پر دجال کہے گا کیا تم دیکھتے ہو اگر میں اسے قتل کر دوں اور پھر زندہ کروں تو کیا تمہیں میرے معاملہ میں شک و شبہ باقی رہے گا؟ اس کے پاس والے لوگ کہیں گے کہ نہیں، چنانچہ وہ اس صاحب کو قتل کر دے گا اور پھر اسے زندہ کر دے گا۔ اب وہ صاحب کہیں گے کہ واللہ! آج سے زیادہ مجھے تیرے معاملے میں پہلے اتنی بصیرت حاصل نہ تھی۔ اس پر دجال پھر انہیں قتل کرنا چاہے گا لیکن اس مرتبہ اسے مار نہ سکے گا۔‘‘
اس حدیث سے پتہ چلتاہے کہ جو اہل ایمان ہوں گے ان پر دجال کا رعب نہیں پڑے گا اور اس کی شعبدہ بازیاں اور خرق عادت احوال دیکھ کر ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہوگا اور ان کے ایمان کی پختگی کی وجہ سے دجال ان پر قابو نہ پاسکے گا۔

One thought on “دجال کا عظیم فتنہ”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index