مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

قیامت کی قریبی علامات

 

قیامت کی قریبی علامات

تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

قیامت کی خاص علامات

قیامت کے بالکل قریب کچھ ایسی علامات کاظہور ہوگا جو دنیا کے نظام کو یکسر بدل کر رکھ دیں گی اور انسانیت کو آخری بار جھنجھوڑ کر حقیقت سے آگاہ کر دیں گی۔ ان علامات میں سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دابۃ الارض،خسف، اور ایک خوشگوار ٹھنڈی ہوا کا چلنا شامل ہے جو ہر مومن کی روح کو قبض کر لے گی۔ ان واقعات کے ظہور کے بعد دنیا میں خیر و ہدایت کا چراغ بجھ جائے گا اور کفر و فساد کی اندھیر ی چھا جائے گی۔ کائناتی نظام میں عجیب تبدیلیاں رونما ہوں گی، زمین اپنے بوجھ نکال پھینکے گی اور انسان حیرت میں ڈوب جائے گا۔ یہ تمام نشانیاں اس بات کا اعلان ہوں گی کہ دنیا کا وقت پورا ہوچکا ہے اور آخرت کا مرحلہ بالکل نزدیک آ چکا ہے، جہاں ہر شخص کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔

قیامت سے پہلے مغرب سے سورج کا نکلنا

دنیا کی تاریخ میں ایک ایسا واقعہ نمودار ہوگا جو تخلیق کائنات کے بعد پہلی بار ہوگا اور وہ سورج کامشرق کے بجائے مغرب سے نکلنا ہے ۔اس کے بعد توبہ کادروازہ بند ہوجائے گا اور اس کے بعد کسی کاتوبہ قبول نہیں ہوگا۔
مغرب سے سورج کا طلوع ہونا قیامت کی بڑی اور حتمی علامات میں سے ہے۔ احادیث کے مطابق جب یہ عظیم اور ہولناک واقعہ پیش آئے گا تو لوگ گھبرا کر ایمان لانے اور توبہ کرنے کی کوشش کریں گے، مگر اس وقت ایمان لانا کسی کے بھی کام نہ آئے گا، کیونکہ آزمائش کا وقت ختم ہوچکا ہوگا۔ سورج کے معمول کے خلاف مغرب سے طلوع ہونے کا یہ منظر نہ صرف کائناتی نظام کی تبدیلی کی علامت ہوگا بلکہ انسانیت کے لیے آخری تنبیہ بھی، جو دنیا کی حقیقت اور آخرت کی حتمیت کو پوری طرح نمایاں کردے گا۔ یہ علامت اس بات کا واضح اعلان ہے کہ اب دنیا اپنے اختتام کے قریب پہنچ چکی ہے اور ہر شخص کو اپنے اعمال کا جواب دینا ہوگا۔
اس سے متعلق رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی ہے آپ ﷺ نے فرمایا :
’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک سورج مغرب سے نہ نکلے گا۔ جب سورج مغرب سے نکلے گا اور لوگ دیکھ لیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے، یہی وہ وقت ہو گا جب کسی کو اس کا ایمان نفع نہیں دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہو گا یا جس نے ایمان کے بعد عمل خیر نہ کیا ہو۔ پس قیامت آ جائے گی اور دو آدمی کپڑا درمیان میں پھیلائے ہوئے ہوں گے۔ ابھی خرید و فروخت بھی نہیں ہوئی ہو گی اور نہ انہوںنے اسے لپیٹا ہی ہو گا۔ اور قیامت اس حال میں قائم ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنی اونٹنی کا دودھ لے کر آ رہا ہو گا اور اسے پی بھی نہیں سکے گا ۔اور قیامت اس حال میں قائم ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنا حوض تیار کرا رہا ہو گا اور اس کا پانی بھی نہ پی پائے گا۔ قیامت اس حال میں قائم ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنا لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گا اور اسے کھانے بھی نہ پائے گا۔‘‘
(صحیح بخار ی۔کتاب الرقاق ، باب ۔حدیث نمبر6506)
ایمان کا اعتبار اسی وقت ہے جب کہ ایمان بالغیب ہو ۔ مشاہدہ کا ایمان معتبر نہیں جیسے قیامت کے دن اللہ کے سامنے تو بہت سے ضدی کفارو ومشرکین بھی اللہ پر ایمان لے آئیں گے اور درخواست کریں گے کہ ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اب واپسی کا راستہ بند ہوگیا اور تمہاری مہلت ختم ہوگئی ۔ اسی طرح موت کے وقت بھی جب بالکل غرغرہ کی کیفیت طاری ہوجائے تو اس وقت کا ایمان معتبر نہیں اس لئے کہ غرغرہ کے وقت آخرت کے امور نظر آنے لگتے ہیں اور اس وقت آدمی یہ سمجھ لیتاہے کہ اب میرا آخری وقت ہے تو اب اس کے سامنے سوائے ایمان کے کوئی چارہ نہیں رہتا اور وہ ایمان لے آتاہے لیکن اس ایمان کا کوئی اعتبار نہیںاس لئے کہ یہ ایمان بالغیب نہیں بلکہ ایمان بالمشاہدہ ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرما یا ہے إِنَّ اللہ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ(سنن ترمذی، کتاب الدعوات،حدیث نمبر 3537) ’’اللہ اپنے بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ اس کے گلے سے خر خر کی آواز نہ آنے لگے‘‘اس طرح تو فرعون بھی ایمان لے آیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کا ایمان قبول نہیں فرمایا ۔اسی طرح جب سورج اپنے معمول کے خلاف بجائے مشرق کے مغرب سے نکلے گا تو کٹر ملحد بھی ایمان لے آئے گا لیکن اس وقت کا ایمان معتبر نہیں ہوگا اور وہ کسی کام نہیں آئے گا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
یَوْمَ یَأْتِی بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ لَا یَنفَعُ نَفْسًا إِیمَانُہَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِہَا خَیْرًا (الانعام:۱۵۸)”جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی، کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہ آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا۔ یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو۔
مغرب سے سورج نکلنے کی کیفیت کیا ہوگی اور روزانہ سورج کہاں جاتاہے اس سے متعلق تفصیل رسول اللہ ﷺ نے ذیل کی حدیث میں بیان فرمایا ہے :
’’ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن پوچھا: ’’جانتے ہو یہ سورج کہاں جاتا ہے؟‘‘ صحابہ نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ عرش کے نیچے اپنے مستقر پر پہنچ جاتا ہے، پھر سجدے میں چلا جاتا ہے، وہ مسلسل اسی حالت میں رہتا ہے حتی کہ اسے کہا جاتا ہے: اٹھو! جہاں سے آئے تھے ادھر لوٹ جاؤ تو وہ واپس لوٹتا ہے اور اپنے مطلع سے طلوع ہوتا ہے، پھر چلتا ہوا عرش کے نیچے اپنی جائے قرار پر پہنچ جاتا ہے، پھر سجدہ ریز ہو جاتا ہے اور اسی حالت میں رہتا ہے یہاں تک کہ اس سے کہا جاتا ہے: بلند ہو جاؤ اور جہاں سے آئے تھے، ادھر لوٹ جاؤ تو وہ واپس جاتا ہے اور اپنے مطلع سے طلوع ہوتا ہے، پھر (ایک دن سورج) چلے گا، لوگ اس میں معمول سے ہٹی ہوئی کوئی چیز نہیں پائیں گے حتی کہ یہ عرش کے نیچے اپنے اسی مستقر پر پہنچے گا تو اسے کہا جائے گا: بلندہو اور اپنے مغرب سے طلوع ہو تو وہ اپنے مغرب سے طلوع ہو گا۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’کیا جانتے ہو یہ کب ہو گا؟ یہ اس وقت ہو گا جب ’’کسی شخص کو اس کا ایمان لانا فائدہ نہ پہنچائے گا جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا تھا یا اپنے ایمان کے دووران میں نیکی نہیں کمائی تھی۔‘‘

دابۃ الارض کا خروج: قیامت کی بڑی نشانی

مغرب سے طلوع آفتاب کے بعد ایک عجیب الخلقت جانور نکلے گا جس کو احادیث میں دابۃ الارض سے تعبیر کیا گیا ہے۔دابہ دابۃ۔ مادہ د ب ب۔ الدب والدبیب کے معنی آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں یہ لفظ حیوانات اور زیادہ تر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے یہ لفظ گو عرف عام میں خاص کر گھوڑے پر بولا جاتا ہے مگر لغت کے اعتبارسے ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے قرآن مجید میں ایک جگہ ہے وَاللہ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّن مَّآٍءٍ فَمِنْہُم مَّن یَمْشِی عَلَیٰ بَطْنِہِ وَمِنْہُم مَّن یَمْشِی عَلَیٰ رِجْلَیْنِ وَمِنْہُم مَّن یَمْشِی عَلَیٰٓ أَرْبَعٍ یَخْلُقُ اللہُ مَا یَشَآءُ إِنَّ اللہَ عَلَیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ(نور۔۴۵) ’’اور اللہ نے ہر جاندار ایک طرح کے پانی سے پیدا کیا،تو ان میں سے کوئی پیٹ کے بل چل رہا ہے تو کوئی دو ٹانگوں پر اور کوئی چار ٹانگوں پر جو کچھ وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘یہ دابہ چار پیروں کا جانور ہوگا۔یہ وہ وقت ہوگا جب کہ نیکی کرنے کا وقت ختم ہوچکے گا اور امر بالمعروف و نہی عن المنکرکا حکم موقوف ہوجائے گا اور کسی کا ایمان کوئی فائدہ نہیں دے گا ۔ یعنی یہ بالکل قیامت کے قریبی علامات میں سے ہے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْہِمْ أَخْرَجْنَا لَہُمْ دَابَّۃً مِنَ الْأَرْضِ تُکَلِّمُہُمْ أَنَّ النَّاسَ کَانُوا بِآیَاتِنَا لَا یُوقِنُونَ(۸۲) سورہ نمل’’ اور جب ان پر بات واقع ہو جائے گی تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک جانور نکالیں گے، جو ان سے کلام کرے گا کہ فلاں فلاں لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ‘‘
اس جانور کی خصوصیت ہو گی کہ وہ کسی جانور کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوگا ، انسانوں سے کلام کرے گا اور ہر مسلم وکافر کی پیشانی پر ایک نشان لگادے گا جس یہ پتہ چل جائے گا کہ کون مومن ہے کون کافر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’زمین سے ’’دابۃ‘‘ ظاہر ہو گا، اس کے ساتھ سلیمان بن داود علیہما السلام کی انگوٹھی اور موسیٰ بن عمران علیہ السلام کا عصا ہو گا، اس عصا سے وہ مومن کا چہرہ روشن کر دے گا، اور انگوٹھی سے کافر کی ناک پر نشان لگائے گا، حتیٰ کہ جب ایک محلہ کے لوگ جمع ہوں گے تو یہ کہے گا: اے مومن! اور وہ کہے گا: اے کافر!‘‘
(سنن ابن ماجہ ۔کتاب الفتن ، باب دابۃ الارض ۔حدیث نمبر4066)
دابۃ الارض سے متعلق صحابہ کرام کے مختلف اقوال ہیں جنہیں امام قرطبی نے مذکورہ بالا آیت کے تحت بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے جن میں سے بعض اقوال سے پتہ چلتاہے کہ وہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا بچہ ہے اس لئے کہ حضرت صالح کی اونٹنی کو تو قتل کردیا گیاتھا لیکن اس کا بچہ جنگل کی طرف بھاگ گیا تھااور ایک پتھر کی سوراخ میں داخل ہوگیا تھاپھرقیامت کے قریب ایک نشانی کے طور پر ظاہر ہوگا ۔ مطالعہ کا ذوق رکھنے والے حضرت تفسیر قرطبی کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔اختصار کے پیش نظر ان اقوال کو یہاں نقل نہیںکیا جارہا ہے۔

دخان(دھواں)

قیامت کے بالکل قریب ایک دھواں ظاہر ہوگا جس کا ذکر قرآن کریم سورہ دخان میں آیا ہے:
فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَأْتِی السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِینٍ (۱۰ دخان) ’’پس انتظار کریں اس دن کاجب آسمان پرنظر آنے والا دھواں ظاہر ہوگا۔‘‘
متعدد احادیث میں بھی دخان کے نام سے اس کا ذکر آیا ہے اس دھواں سے متعلق مختلف اقوال ہیں جنہیں امام تفسیر قرطبیؒ نے بیان کیا ہے یہاں انہیں مختصرا ً ذکر کیا جاتاہے :
(۱) یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے یہ ابھی ظاہر نہیں ہوایہ زمین میں چالیس روز تک رہے گا جو زمین وآسمان کے درمیانی حصہ کو بھر دے گا جہاں تک مومن کا تعلق ہے تو اسے اس قدر تکلیف ہوگی جیسے زکام ہوتاہے ۔اور کافروں کے ناکوں میں داخل ہوگا تو ان کے کانوں میں سراخ کردے گااور ان کی سانسیں تنگ ہوجائیں گی ۔ یہ قول حضرت علیؓ ، ابن عباسؓ ،ابن عمرؓ ، ابوہریرہؓ زید ابن علی ، حسن بصری اور ابن ملیکہ رضوان اللہ علیہم کی طرف منسوب ہے ۔
(۲) اس سے مراد وہ بھوک ہے جو نبی کریم ﷺ کی دعا سے قریش کو پہنچی تھی یہاںتک کہ ایک آدمی آسمان او زمین کے درمیان دھواں دیکھتا ۔ یہ قول حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ کی طرف منسوب ہے۔
(۳) اس سے مراد فتح مکہ ہے جب غبار نے آسمان کو چھپا دیا ۔یہ عبد الرحمن اعرج کاقول ہے۔
(مستفاد: از تفسیر قرطبی مترجم اردو۔ جلد ۸ ، ص ۵۲۴تا۵۲۵ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور کراچی )
ایک حدیث جس کو تمام محدثین نے علامات قیامت کے باب میں بیان کیا ہے جس میںدس نشانیاں بتائیں گئی ہیں اس میں سے ایک دخان بھی ہے :
’’حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اور ہم باتیں کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کیا باتیں کر رہے ہو؟ ہم نے کہا کہ قیامت کا ذکر کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ دس نشانیاں اس سے پہلے نہیں دیکھ لو گے۔ پھر ذکر کیا دھوئیں کا، دجال کا، زمین کے جانور کا، سورج کے مغرب سے نکلنے کا، عیسیٰ علیہ السلام کے اترنے کا، یاجوج ماجوج کے نکلنے کا، تین جگہ خسف کا یعنی زمین کا دھنسنا ایک مشرق میں، دوسرے مغرب میں، تیسرے جزیرہ عرب میں۔ اور ان سب نشانیوں کے بعد ایک آگ پیدا ہو گی جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی ان کے محشر کی طرف لے جائے گی۔‘‘
(صحیح مسلم ۔کتاب الفتن واشراط الساعۃ۔باب فِی الآیَاتِ الَّتِی تَکُونُ قَبْلَ السَّاعَۃِحدیث نمبر7285)
مندرجہ بالا حدیث میں جن دس نشانیوں کی پیشین گوئی کی گئی ہے ان میں سے کچھ کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ اخیر کی دو نشانیاں یعنی خسف اور آگ کانکلنا باقی ہے اب ان کا بھی ذکرکیا جاتاہے ۔

خسف (زمین کا دھنسنا)

خسف کے معنی زمین کے دھنسنے کے ہیں ۔دنیا میں ایسے واقعات تو برابر نمودار ہوتے رہتے ہیں کہ کسی علاقے مین زمین دھنس گئی اور خاص طور سے سیلابی علاقوں میں اس طرح کے واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔لیکن ان کا کوئی چرچا نہیں ہوتا یا کوئی بڑا نقصان نہیں ہوتا لیکن حضورپاک ﷺ نے جس خسف کو پیشین گوئی یاعلامات قیامت کے طور پر بیان کیا ہے تو جس طرح قیامت کا وقوع تاریخ انسانی کا سب سے بڑا واقعہ ہے تویقینا یہ خسف بھی کوئی غیر معمولی واقعہ ہوگا جس سے آپ ﷺ نے امت کو پہلے ہی خبردار کردیاہے۔یہ واقعات متعینہ طور پر کہاں ، کس جگہ اور کس وقت واقع ہوں گے اس کی تعیین تو نہیں کی گئی لیکن آپ ﷺ نے اس کا سمت متعین کردیا ہے کہ ایک خسف مشرق میں ہوگا ، ایک مغرب میں ہوگا اور ایک جزیرۂ عرب میں ہوگا۔حدیث کے بیانیہ ترتیب کو مد نظر رکھا جائے تو کہا جا سکتاہے کہ کہ یہ خسف یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد ہوگا لیکن حتمی طور پر کوئی بات نہیںکہی جاسکتی ۔ اتنی بات ضرور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو قیامت کی بڑی نشانیوں کے ساتھ بیان کیا ہے تو امید ہے کہ اس کاوقوع بھی قیامت کے بہت قریب ہی ہوگا ۔ واللہ اعلم بالصواب۔
جزیرۃ العرب میں جو خسف کاواقعہ نمودار ہوگا اس کا کچھ تذکرہ احادیث میں آیا ہے اور اس کے سیاق و سباق سے پتہ چلتاہے کہ یہ واقعہ حضرت مہدی علیہ الرضوان کی موجود میںہوگا۔ ترمذی کی ایک روایت ملاحظہ ہو:
’’ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اس گھر پر حملہ کرنے سے باز نہیں آئیں گے، یہاں تک کہ ایک ایسا لشکر لڑائی کرنے کے لیے آئے گا کہ جب اس لشکر کے لوگ مقام بیدا میں ہوں گے، تو ان کے آگے والے اور پیچھے والے دھنسا دے جائیں گے اور ان کے بیچ والے بھی نجات نہیں پائیں گے ‘‘۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان میں سے جو ناپسند کرتے رہے ہوں ان کے افعال کو وہ بھی؟ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ان کی نیتوں کے مطابق انہیں اٹھائے گا‘‘۔
(سنن الترمذی ۔کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء فی الخسف ۔حدیث نمبر 2184)

یمن سے آگ کا نکلنا

ایک آگ جس کے حجاز سے نکلنے کی پیشین گوئی کی گئی ہےیمن سے نکلے گی اس کا وقوق قیامت کے قریب بڑی علامت کی شکل میں ہوگا ۔اس علامت کو رسول اللہ ﷺ نے قیامت کی دس نشانیوں میں سب سے آخر میں بیان کیا ہے جس سے پتہ چلتاہے کہ یہ آخری علامت ہے جس کے بعد قیامت قائم ہوجائے گی بعض احادیث کی تصریحات سے پتہ چلتاہے کہ یہ آگ لوگوں کو میدان حشر تک پہنچائے گی لوگوں کے ساتھ چلتی رہے گی اگر وہ رکیں گے تو یہ بھی رک جائے گی اور اگر چلیں گے تو یہ بھی چلی گے یہاں تک کہ شام میں لوگ پہنچ جائیں گے تو یہ آگ غائب ہوجائے گی ۔یہ آگ کہاں سے نکلے گی اور اس وقت مسلمانوں کو کیا کرناچاہئے اس کے بارے میںرسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
” قیامت کے قریب حضرموت کے سمندر سے یا حضر موت سے ایک آگ نکلے گی اور لوگوں کو ہانک کر لے جائے گی، ہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! پھر آپ اس وقت کے لئے ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: ’’ملک شام کو اپنے اوپر لازم کر لینا۔‘‘
حضرموت یمن کا علاقہ ہے جہاں حضرت صالح علیہ السلام اپنے متبعین کے ساتھ گئے تھے اور وہیں پر آپؑ کی وفات بھی ہوئی۔مشہور صحابیِ رسول علاء بن الحضرمی اسی علاقہ کے رہنے والے تھے۔جن کو رسول اللہﷺ نے منذر بن ساویٰ طرف قاصد بناکر بھیجا تھا۔راوی حدیث کو شک ہے کہ یہ آگ حضر موت سمندر سے نکلے گی یا حضرت موت کے خشک علاقے سے ۔ بہر حال یہ آگ وہاں سے نکلے گی اور لوگ اس کے خوف سے بھاگیں گے یہاں تک کہ وہ شام کے علاقے میں پہنچ جائیں گے وہاں جاکر یہ آگ ختم ہوجائے گی۔
یہ آگ لوگوں کو گھیر کر میدان حشر کی طرف لے جائے گی اگر وہ سوئیں گے تویہ بھی سوئے گی ، لوگ اگر جہاںرات گذاریں گے یہ بھی وہیں رات گذارے گی ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’لوگوں کا حشر تین فرقوں میں ہو گا (ایک فرقہ والے) لوگ رغبت کرنے نیز ڈرنے والے ہوں گے۔ (دوسرا فرقہ ایسے لوگوں کا ہو گا کہ) ایک اونٹ پر دو آدمی سوار ہوں گے کسی اونٹ پر تین ہوں گے، کسی اونٹ پر چار ہوں گے اور کسی پر دس ہوں گے۔ اور باقی لوگوں کو آگ جمع کرے گی جب وہ قیلولہ کریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ ٹھہری ہو گی جب وہ رات گزاریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ وہاں ٹھہری ہو گی جب وہ صبح کریں گے تو آگ بھی صبح کے وقت وہاں موجود ہو گی اور جب وہ شام کریں گے تو آگ بھی شام کے وقت ان کے ساتھ موجود ہو گی۔‘‘
(صحیح بخاری ۔کتاب الرقاق، باب کیف الحشر۔حدیث نمبر 6522)
یہ علامات جو اخیر میں بطور علامات کبریٰ کے بیان کیے گئے ہیں ان علامات کے ظہور کا انتظار ہے اس کے بعد قیامت قائم ہوجائے گی ۔

فتنوں سے کیسے بچیں

فتنے آزمائش کا ذریعہ ہوتے ہیں اس سے انسان کے اچھے برے ہونے کی تمیز ہوتی ہے۔اس سے بچنے کی ترکیب یہ ہے کہ انسان اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رہے اور اللہ کی طرف سے دیئے گئے احکام کی مکمل پیروی کرتا رہے۔اس لئے کہ فتنوں کا مقصد ہی نیک وبد اعمال کو اجاگر کرنا ہے۔برے اعمال کا اجاگر ہونا ناکامی کی علامت ہے اور اچھے اعمال کا اجاگر ہونا کامیابی کی علامت ہے ۔اس کے علاوہ ایک بات خاص طور سے یاد رکھنے کی ہے کہ ان فتنوں سے نکلنے کے لئے ہمارے اعمال لاکھ اچھے ہوں لیکن اللہ کی مدد کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا اس لئے ہر وقت اللہ سے دعاگو رہناچاہئے کہ فتنوں کے دور میںاللہ ہمارے دین وایمان کی حفاظت فرمائے ۔رسول اللہ ﷺ معصوم ہونے کے باوجود ہر وقت اللہ سے اپنے دین وایمان کی حفاظت کی دعائیں کیا کرتے تھے۔آپ ﷺ یہ دعا اکثر کیا کرتے تھے:
اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْعَجْزِ، وَالْکَسَلِ، وَالْجُبْنِ، وَالْبُخْلِ، وَالْہَرَمِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ(صحیح بخاری کتاب الدعوات ۔ باب التعوذ من فتنۃ المحیا والممات ۔ حدیث نمبر6367)
’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی سے، سستی سے، بزدلی سے اور بہت زیادہ بڑھاپے سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کی آزمائشوں سے۔‘‘ فتنے جب آزمائش ہیں تو اس میں کامیابی کے لئے ہمیں اللہ کے مدد کی ضرورت ہے اس لئے ہمیں ہروقت اللہ سے دعا کرتے رہنا چاہئے۔
اس کے علاوہ آزمائش میں کامیابی کا گُر اللہ تعالیٰ نے صبر اور استقامت بتایا ہے۔ اس لئے کبھی فتنوں کے زد میں آئیں تو استقامت کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنا چاہئے اور پیش آنے والی مصیبتوں پر صبر کرنا چاہئے۔
گناہوں سے بچنا بھی فتنوں سے بچنے اور مصیبتوں میں گرفتار نہ ہونے کا ایک آلہ ہے اس لئے کہ انسان پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ اس کے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَ مَااَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ(شوریٰ ۳۰)’’اور تم کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوتوں کا نتیجہ ہے اور بہت سی باتوں کو تو وہ معاف فرما دیتا ہے‘‘
فتنوں سے نکلنے کا بہترین راستہ جو رسول اللہ ﷺ نے بتایا ہے وہ قرآن کو مضبوطی سے پکڑنا اور اس کی ہدایات پر عمل کرنااوراسی سے اپنے لئے راہ عمل تیار کرنا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا :
’’عنقریب کوئی فتنہ برپا ہو گا‘‘، میں نے کہا: اس فتنہ سے بچنے کی صورت کیا ہو گی؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ’’کتاب اللہ، اس میں تم سے پہلے کے لوگوں اور قوموں کی خبریں ہیں اور بعد کے لوگوں کی بھی خبریں ہیں، اور تمہارے درمیان کے امور و معاملات کا حکم و فیصلہ بھی اس میں موجود ہے، اور وہ دو ٹوک فیصلہ کرنے والا ہے، ہنسی مذاق کی چیز نہیں ہے۔ جس نے اسے سرکشی سے چھوڑ دیا اللہ اسے توڑ دے گا اور جو اسے چھوڑ کر کہیں اور ہدایت تلاش کرے گا اللہ اسے گمراہ کر دے گا۔ وہ اللہ کی مضبوط رسی ہے یہ وہ حکمت بھرا ذکر ہے، وہ سیدھا راستہ ہے، وہ ہے جس کی وجہ سے خواہشیں ادھر ادھر نہیں بھٹک پاتی ہیں، جس کی وجہ سے زبانیں نہیں لڑکھڑاتیں، اور علماء کو آسودگی نہیں ہوتی، اس کے باربار پڑھنے اور تکرار سے بھی وہ پرانا نہیں ہوتا۔ اور اس کی انوکھی باتیں ختم نہیں ہوتیں، اور وہ قرآن وہ ہے جسے سن کر جن خاموش نہ رہ سکے بلکہ پکار اٹھے: ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو بھلائی کا راستہ دکھاتا ہے، تو ہم اس پر ایمان لے آئے، جو اس کے مطابق بولے گا اس کے مطابق عمل کرے گا اسے اجر و ثواب دیا جائے گا۔ اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے انصاف کیا اور جس نے اس کی طرف بلایا اس نے اس نے سیدھے راستے کی ہدایت دی۔ اعور! ان اچھی باتوں کا خیال رکھو‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم ہی وہ شاہ کلید ہے جو تمام ترمسائل کا حل ہے یہ فتنوں سے نجات کا ذریعہ بھی اورہمارے لئے شاہرا ہ عمل بھی ہے ۔ اس لئے اللہ کی اس رسی کو مضبوطی سے تھام لینا ہی ہمارے لئے دنیا و آخرت میں امن وسلامتی کا باعث ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index