حیاء
تحریر:مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف فطرتوں سے مالامال کیا ہے جن کے ذریعہ وہ اپنی ضروریات کااظہار یااپنی حفاظت کا سامان مہیا کرتاہے یااپنا دفاع کرتاہے ان ہی میں سے حیاء ایک ممتاز صفت ہے جس کی وجہ سے انسان اپنی زندگی پاک صاف طریقے سے گزارتاہے حیاء کا انسانی زندگی میں اتنا بڑ ا مقام ہے کہ اگر وہ چیز فوت ہوجائے تو ایک انسان اور حیوان میں صرف جسمانی ساخت کافرق رہ جاتاہے تہذیبی اورمعاشرتی طور پر انسان اور جانوروں کے درمیان وجہ امتیاز حیاہی ہے اور یہی وہ صفت ہے جس کے ذریعہ انسان اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے پر فطرۃً مجبور ہوتاہے اور جولوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اللہ کے یہاں ان کابڑ ا اونچا مقام ہے اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۔(احزاب53)
ترجمہ: اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ان سب کے لئے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔
شرم گاہوں کی حفاظت میں شرم وحیا کو ایک خاص مقام حاصل ہے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ایک آدمی جو ایمان کاپختہ نہیں اعمال بھی اس کے اچھے نہیں اور دیگر بہت سارے معاصی میں مبتلا بھی ہوتاہے لیکن جب معاملہ عزت وعصمت کا آتاہے تو اپنی جان دینے کو تیار ہو جاتاہے لیکن اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتاہے یہ وہی فطری جذبہ ہے جسے ہم حیا کے نام سے جانتے ہیں۔
حضرت موسیؑ حضرت شعیب ؑکی بستی میں
حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام جب اپنی قوم سے ناراض ہوکر شعیب علیہ السلام کی بستی میں گئے تو وہاں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔جس کو اللہ تعالیٰ نے اس انداز سے بیان فرمایاہے:
وَ لَمَّا ورَدَ مَآءَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْہِ اُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُوْنَ وَ وَجَدَ مِنْ دُوْنِھِمُ امْرَاَتَیْنِ تَذُوْدٰنِ قَالَ مَا خَطْبُکُمَا قَالَتَ لَا نَسْقِیْ حَتّٰی یُصْدِرَ الرِّعَآءُ وَ اَبُوْنَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ (٢٣ )فَسَقٰی لَھُمَا ثُمَّ تَوَلّٰٓی اِلَی الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ(٢٤ )فَجَآءَ تْہُ اِحْدٰیھُمَا تَمْشِیْ عَلَی اسْتِحْیَآءٍ قَالَتْ اِنَّ اَبِیْ یَدْعُوْکَ لِیَجْزِیَکَ اَجْرَمَا سَقَیْتَ لَنَا فَلَمَّا جَآءَ ہٗ وَ قَصَّ عَلَیْہِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ (٢٥ ۔قصص)
ترجمہ: مدین کے پانی پر جب آپ پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں کی ایک جماعت وہاں پانی پلا رہی ہے اور دو عورتیں الگ کھڑی اپنے (جانوروں کو) روکتی ہوئی دکھائی دیں، پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے، وہ بولیں کہ جب تک یہ چرواہے واپس نہ لوٹ جائیں ہم پانی نہیں پلاتیں اور ہمارے والد بہت بڑی عمر کے بوڑھے ہیں۔ پس آپ نے خود ان جانوروں کو پانی پلا دیا پھر سائے کی طرف ہٹ آئے اور کہنے لگے اے پروردگار! تو جو کچھ بھلائی میری طرف اتارے میں اس کا محتاج ہوں۔ اتنے میں ان دونوں عورتوں میں سے ایک ان کی طرف شرم وحیا سے چلتی ہوئی آئی، کہنے لگی کہ میرے باپ آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے (جانوروں) کو جو پانی پلایا ہے اس کی اجرت دیں، جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس پہنچے اور ان سے اپنا سارا حال بیان کیا تو وہ کہنے لگے اب نہ ڈریں۔آپ نے ظالم قوم سے نجات پائی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ ایک کنواں ہے اور وہاں سے سب لوگ اپنے جانوروں کو پانی بھربھر کر پلا رہے ہیں لیکن دو لڑکیا ں ایک طرف کھڑی اپنے جانوروں کولیے کھڑی ہیں تو آپ نے ان سے پوچھا کہ جب سارے لوگ پانی بھر رہے ہیں تو تم لوگ کیوں نہیں بھررہی ہو۔ ان لڑکیوں نے جواب دیا کہ یہ سارے چرواہے جب اپنے جانوروں کو پانی پلاکر چلے چائیں گے توہم ان کا بچا کھچا پانی اپنے جانوروں کو پلائیں گی۔ہمارے والد صاحب موجود تو ہیں لیکن کافی ضعیف ہیں۔وہ چرواہے جب جانے لگے تو انہوں نے ایک بڑے پتھر سے کنویں کے منھ کو ڈھک دیا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان چرواہوں کے جانے کے بعد کنویں کے منہ سے اس پتھر کو ہٹایا اوران کے جانوروں کو پانی پلادیا۔وہ لڑکیا ں حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیاں تھیں،جب وہ گھر گئیں تو سارا قصہ سنائیں تو حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں بلانے کوبھیجا۔وہ آئی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلا کر لے گئی۔
اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے قرآن کریم کے انداز کو دیکھیں اللہ تعالیٰ نے باقی تمام باتوں کو چھوڑتے ہوئے ان کی صفت حیا کو نمایا ں طور پربیان کیاہے۔ فَجَآءَ تْہُ اِحْدٰیھُمَا تَمْشِیْ عَلَی اسْتِحْیَآءٍ کہ ان میں سے ایک شرماتی ہوئی آئی۔ اس سے پتہ چلتاہے کہ حیاء ایک ایسی صفت ہے جس کو انسانی زندگی میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس کتاب کاعنوان ایمان کے شعبوں کا بیان ہے اور اس کی بنیاد وہ حدیث ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے ایمان کے ستر سے زیادہ شعبوں کاتذکرہ کیا ہے جن میں سے افضل قول لاالہ الا اللہ کو قرار دیاہے اور ادنی راستے سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانا قرار دیا ہے اور حیاء کو ایمان کاایک خاص شعبہ قرار دیا ہے۔غور کرنے کا مقام ہے کہ جب نبی کریم ﷺ نے ایمان کے شعبوں میں سے اعلی اور ادنی کا ذکر فرمادیا تو اوسط میں دیگر شعبہ جات کے بجائے حیاء کا ہی انتخاب کیوں فرمایا۔ وہ اس لئے کہ حیاء ایک ایسی صفت ہے جو انسان کو نیکیوں پر آمادہ کرتی ہے اور برائیوں سے روکنے کاسبب بنتی ہے۔حیاء کی اہمیت وفضیلت کو رسول اللہ ﷺ نے کثرت سے احادیث میں بیان فرمایا ہے۔
اسلام کا اخلاق حیاء ہے
اخلاقی تعلیمات ہر دین ومذہب میں موجود ہیں انہی اخلاق سے صالح معاشرہ کی تشکیل ہوتی ہے اگر معاشرہ میں رہنے والے افراد محاسن اخلاق سے مزین ہیں تو ان کا معاشرہ بھی حسین اور صالح ہوگااور اگر اتفاق سے ان میں کوئی بدخلق بھی آجائے تو اس کو کوئی برائی کرنے کی ہمت نہیں ہوگی۔ ان تمام اخلاقی صفات میں حیاء کامقام سب سے برتر اور نمایا ں ہے اسی لئے نبی کریم ﷺ نے حیاء کو اسلام کااخلاق قرار دیا ہے۔
عن انس رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” إِنَّ لِكُلِّ دِينٍ خُلُقًا , وَخُلُقُ الْإِسْلَامِ الْحَيَاءُ”.(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الزہد، باب الحیاء۔حدیث نمبر٤١٨١ )
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیاء ہے۔
حیاء انسان کونیکیوں پرابھارنے والی ہے اس کے برعکس اگر کوئی شخص حیاء کی صفت سے خالی ہو تو ایسے شخص کا کوئی اعتبار نہیں کہ وہ کب کیا کربیٹھے اسی لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم میں حیاء نہ ہو تو جو چاہے کرو۔
عن ابی مسعود رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلَامِ النُّبُوَّةِ الْأُولَى , إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ”.(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الزہد، باب الحیاء۔حدیث نمبر ٤١٨٣ )
حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گزشتہ کلام نبوت میں سے جو باتیں لوگوں کو ملی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب تم میں حیاء نہ ہو تو جو چاہے کرو۔
مطلب یہ ہے کہ جب حیاء ہی موجود نہیں ہے تو کون سی چیز تمہیں برائیوں سے روکے گی اور کون سی ایسی چیز ہے جو تمہارے اور برائیوں کے درمیان حجاب بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔نبی کریم ﷺ نے حیاء کو ایمان کاضامن اور فحش گوئی کو جہنم کی طرف لے جانے والی چیز سے تعبیر فرمایا ہے۔
عن ابی بکرۃرضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” الْحَيَاءُ مِنَ الْإِيمَانِ , وَالْإِيمَانُ فِي الْجَنَّةِ , وَالْبَذَاءُ مِنَ الْجَفَاءِ , وَالْجَفَاءُ فِي النَّارِ”.(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الزہد، باب لحیاء۔حدیث نمبر٤٢٨٤ )
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حیاء”ایمان سے ہے، اور ایمان کا بدلہ جنت ہے، اور فحش گوئی”جفا“ (ظلم و زیادتی) ہے اور”جفا“ (ظلم زیادتی) کا بدلہ جہنم ہے”۔
حیاخیر ہی خیر ہے
اخلاقی محاسن انسان کولوگوں کی نظر میں حسین بنادیتے ہیں اور اس کی وجہ سے اس کے اعمال میں بھی حسن پید اہوجاتاہے اور یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اخلاقیات میں حیاکامقام بہت اونچاہے۔کیونکہ نبی کریم ﷺ نے حیاکو اسلام کااخلاق قرار دیا ہے۔اس لئے حیادار آدمی خیر سے مملوہوتا ہے۔ اس لئے کہ حیاء بھلائی اور خیر کے علاوہ اور کسی چیز کی ترغیب نہیں دیتی،لیکن بے حیائی انسان اور برائیوں کے درمیان کے سارے پردوں کو چاک کردیتی ہے جس کی وجہ سے انسان کے اعمال عیب دار ہوجاتے ہیں۔
عن انس رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:” مَا كَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا شَانَهُ , وَلَا كَانَ الْحَيَاءُ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا زَانَهُ”. (سنن ابن ماجہ۔ کتاب الزہد، باب الحیاء۔حدیث نمبر٤١٨٥ )
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے حیائی جس چیز میں بھی ہو اس کو عیب دار بنا دے گی، اور حیاء جس چیز میں ہو اس کو خوبصورت بنا دے گی”۔
ان ابا قتادۃ حَدَّثَ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ فِي رَهْطٍ مِنَّا، وَفِينَا بُشَيْرُ بْنُ كَعْبٍ، فَحَدَّثَنَا عمرانُ يَوْمَئِذٍ، قَال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” الْحَيَاءُ خَيْرٌ كُلُّهُ “، قَالَ: أَوَ قَالَ: ” الْحَيَاءُ كُلُّهُ خَيْرٌ “، فَقَالَ بُشَيْرُ بْنُ كَعْبٍ: إِنَّا لَنَجِدُ فِي بَعْضِ الْكُتُبِ أَوِ الْحِكْمَةِ، أَنَّ مِنْهُ سَكِينَةً وَوَقَارًا لِلَّهِ، وَمِنْهُ ضَعْفٌ، قَالَ: فَغَضِبَ عِمْرَانُ، حَتَّى احْمَرَّتَا عَيْنَاهُ، وَقَالَ: أَلَا أُرَانِي أُحَدِّثُكَ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُعَارِضُ فِيهِ، قَالَ: فَأَعَادَ عِمْرَانُ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَأَعَادَ بُشَيْرٌ، فَغَضِبَ عِمْرَانُ، قَالَ: فَمَا زِلْنَا نَقُولُ فِيهِ: إِنَّهُ مِنَّا يَا أَبَا نُجَيْدٍ، إِنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ. (صحیح مسلم کتاب الایمان،باب بیان عدد شعب الایمان وافضلھا وادناہا وفضیلۃ الحیا وکونہ من الایمان۔حدیث نمبر١٥٧ )
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم عمران بن حصین کے پاس ایک رہط میں تھے اور ہم لوگوں میں بشیر بن کعب بھی تھے۔ عمرانؓ نے ایک دن حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حیا خیر ہے بالکل یا حیا بالکل خیر ہے۔“ بشیر بن کعب نے کہا: ہم نے بعض کتابوں میں یا حکمت میں دیکھا ہے کہ حیا کی ایک قسم تو سکینہ اور وقار ہے اللہ تعالیٰ کے لئے اور ایک حیا ضعف نفس ہے۔ یہ سن کر عمرانؓ کو غصہ آیا ان کی آنکھیں لال ہو گئیں اور انہوں نے کہا: میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تو اس کے خلاف بیان کرتا ہے۔ ابوقتادہ نے کہا: عمرانؓ نے پھر دوبارہ اسی حدیث کو بیان کیا۔ بشیر نے پھر دوبارہ وہی بات کہی، جب عمرانؓ غصے ہوئے۔ ہم سب کہنے لگے: اے ابا نجید! بشیر ہم میں سے ہے اس میں کوئی عیب نہیں۔
رہط دس سے کم لوگوں کی جماعت کو کہتے ہیں حضرت عمران ابن حصین کی اس حدیث سے یہ پتہ چلتاہے کہ حیاء خیر ہی خیر ہے او رحیاء کے ساتھ برائی نہیں آسکتی۔صحابہئ کرام کو نبی کریم ﷺ کے قول و عمل سے بے حد محبت تھی اس لئے جب کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کی بات پرکوئی دوسری بات بیان کرتا تو انہیں غصہ آتا تھا اور وہ مرنے مارنے پر تیار ہوجاتے تھے۔ اسی لئے جب حضرت عمران نے حدیث بیان کی اور بشیر ابن کعب نے اس کے مقابلے میں ایک دوسری بات بیان کی تو انہیں نہایت غصہ آیا اور وہ انہیں سزا دینے پر تیار ہوگئے۔
حیاء ایمان کا حصہ ہے
جس شخص کے پاس حیاء ہے اس کے ایمان میں جلاہوتی ہے اور وہ بہت ساری برائیوں سے بچ جاتاہے۔ایک شخص کو نبی کریم ﷺ نے دیکھا کہ وہ اپنے بھائی کو زیادہ حیا ء نہ کرنے کی نصیحت کررہاتھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دے حیاء ایمان کاحصہ ہے۔
عن حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِرَجُلٍ وَهُوَ يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” الْحَيَاءُ مِنَ الْإِيمَانِ ” , قَالَ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ فِي حَدِيثِهِ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ رَجُلًا يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَاءِ (سنن ترمذی۔کتاب الایمان عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء ان الحیاء من الایمان۔حدیث نمبر۔٢٦١٥ )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے وہ اپنے بھائی کو حیاء (شرم اور پاکدامنی) اختیار کرنے پر نصیحت کر رہا تھا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بطور تاکید) فرمایا: ”حیاء ایمان کا ایک حصہ ہے۔“۔(احمد بن منیع (اسی حدیث کے ایک راوی ہیں)نے اپنی روایت میں کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو حیاء کے بارے میں اپنے بھائی کو پھٹکارتے ہوئے سنا۔
حیا بداعمالیوں سے روکنے والی ہے
شرم و حیا ایسی چیز ہے جو بد اعمالیوں،برے خیالات اور ناجائز چیزوں سے انسان کی حفاظت کرتی ہے۔جس طرح انسان اپنے آس پاس رہنے والوں سے حیاء اور شرم کرتاہے اور ان کے سامنے کوئی ایسا عمل نہیں کرتا جو بعد میں اس کے لئے شرمندگی کاباعث بن جائے اسی طرح اللہ تعالیٰ سے بھی حیاء کرنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ چونکہ ہر جگہ موجود ہیں اور ہر چیز کو دیکھتے ہیں نیز ہمارے دلوں میں پید ا ہونے والے ارادے او رہمارے ذہن ودماغ میں اپجنے والے خیالات سے بھی واقف ہیں اس لئے تنہائی میں بھی انسان کو کوئی ایسا عمل نہیں کرنا چاہئے جسے وہ برسر عام نہیں کرسکتا۔اس لئے کہ اگر چہ وہ انسانوں کی نظر سے بچ کر کوئی کام کررہا ہے لیکن اللہ کی نظر سے بچ کر کہاں جائے گا؟ اور اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے کہ و ہ قادر مطلق ہے وہ جس چیز کو حکم دیدے وہی گواہی کے لئے تیار ہوجائے گی۔ یہاں تک کہ زمین کا وہ ٹکڑا جس پرہم نے کوئی گنا ہ کا عمل کیا اللہ تعالیٰ اس ٹکڑے کو بھی قیامت میں بولنے کی قدرت دے کر گواہی طلب کرسکتے ہیں اور ظاہر ہے قیامت کے دن جب حشر کامیدان قائم ہوگا جہاں اولین وآخرین سب جمع ہوں گے اس وقت ہمارے چھپے گناہ جب سامنے آئیں گے تو کس قدر شرمندگی کا سامنا کرناپڑے گا۔
عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” اسْتَحْيُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ ” قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّا لَنَسْتَحْيِي وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، قَالَ: ” لَيْسَ ذَاكَ وَلَكِنَّ الِاسْتِحْيَاءَ مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ أَنْ تَحْفَظَ الرَّأْسَ وَمَا وَعَى، وَتَحْفَظَ الْبَطْنَ وَمَا حَوَى، وَتَتَذَكَّرَ الْمَوْتَ وَالْبِلَى، وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ تَرَكَ زِينَةَ الدُّنْيَا، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدِ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ ” (سنن ترمذی۔کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب منہ۔حدیث نمبر۔2458)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سے شرم و حیاء کرو جیسا کہ اس سے شرم و حیاء کرنے کا حق ہے“، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ہم اللہ سے شرم و حیاء کرتے ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”حیاء کا یہ حق نہیں جو تم نے سمجھا ہے، اللہ سے شرم و حیاء کرنے کا جو حق ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو اور اپنے پیٹ اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں ان کی حفاظت کرواور موت اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے کو یاد کیا کرو اور جسے آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زیب و زینت کو ترک کر دے پس جس نے یہ سب پورا کیا تو حقیقت میں اسی نے اللہ تعالیٰ سے حیاء کی جیسا کہ اس سے حیاء کرنے کا حق ہے”۔
اللہ تعالیٰ سے شرم وحیا ء کا حق یہ ہے کہ انسان گناہ کرناتو دور کی بات ہے گناہ کے بارے میں سوچے بھی نہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ دلو ں کے بھید کو بھی جاننے والا ہے۔
نبی کریم ؐ کا حیامیں سب سے اعلیٰ مقام
یہ تو معلوم ہے کہ اخلاقیات و حسنات کے جتنے بھی مراتب ہیں ان میں سب سے اونچے اور آخری مرتبہ پر رسول اللہ ﷺ فائز تھے اور آپؐ سے سے کوئی سبقت نہیں لے جاسکتا۔شرم و حیاء میں بھی آپ ﷺ سب سے اونچے مرتبے پر ہیں۔
عن ابی سعید خدری رضی اللہ عنہ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” أَشَدَّ حَيَاءً مِنْ عَذْرَاءَ فِي خِدْرِهَا , وَكَانَ إِذَا كَرِهَ شَيْئًا رُئِيَ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ”.۔(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الزہد، باب الحیاء۔٤١٨٠ )
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باپردہ کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرمیلے تھے اور جب آپ کو کوئی چیز ناگوار لگتی تو آپ کے چہرے پر اس کا اثر ظاہر ہو جاتا تھا۔
شرم وحیاء انسان کی فطری صفت تو ہے ہی لیکن یہ صفت کنواری لڑکیوں میں فطرتاً زیادہ ہوتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنی جائز اور ضروری باتیں بھی دوسروں کو کہنے سے جھجکتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے اند ر یہ صفت ان کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ تھی جواپنے گھروں میں باپردہ رہا کرتی ہیں۔یہاں تک کہ جب کوئی بات آپ ﷺ کے مزاج کے خلاف گزرتی تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل جاتا جس سے صحابہئ کرام سمجھ جایا کرتے تھے کہ یہ چیز آپﷺ کو ناگوار گزری ہے۔
کامل الحیاء والایمان حضرت عثمان غنیؓ
نبی کریم ﷺ کا پرتو آپ کے اصحاب میں نظر آتا ہے۔حضرت عثمان غنی ؓ تعالیٰ عنہ کی حیاء مثالی ہے یہاں تک کہ لوگ آپ ؓکو کامل الحیاء والایمان کہا کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ بھی آپ ؓ کے اس حیاء کا پاس و لحاظ رکھاکرتے تھے۔
عن ابی موسیٰ رضی اللہ عنہ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ حَائِطًا وَأَمَرَنِي بِحِفْظِ بَابِ الْحَائِطِ , فَجَاءَ رَجُلٌ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ:” ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ” , فَإِذَا أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ جَاءَ آخَرُ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ:” ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ” , فَإِذَا عُمَرُ ثُمَّ جَاءَ آخَرُ يَسْتَأْذِنُ فَسَكَتَ هُنَيْهَةً، ثُمَّ قَالَ:” ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى سَتُصِيبُهُ” , فَإِذَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، وَزَادَ فِيهِ عَاصِمٌ،” أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ قَاعِدًا فِي مَكَانٍ فِيهِ مَاءٌ قَدِ انْكَشَفَ عَنْ رُكْبَتَيْهِ أَوْ رُكْبَتِهِ فَلَمَّا دَخَلَ عُثْمَانُ غَطَّاهَا”.(صحیح بخاری۔کتاب فضائل الصحابۃ، باب مناقب عثمان بن عفان ابو عمرو القرشی رضی اللہ عنہ۔حدیث نمبر ٣٦٩٥ )
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ کے اندر تشریف لے گئے اور مجھ سے فرمایا کہ میں دروازہ پر پہرہ دیتا رہوں۔ پھر ایک صاحب آئے اور اجازت چاہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری بھی سنا دو، وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر دوسرے ایک اور صاحب آئے اور اجازت چاہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری سنا دو، وہ عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر تیسرے ایک اور صاحب آئے اور اجازت چاہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے پھر فرمایا کہ انہیں بھی اجازت دے دو اور (دنیا میں) ایک آزمائش سے گزرنے کے بعد جنت کی بشارت بھی سنا دو، وہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ تھے۔ عاصم نے اپنی اس روایت میں یہ زیادہ کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے جس کے اندر پانی تھا اور آپ اپنے دونوں گھٹنے یا ایک گھٹنہ کھولے ہوئے تھے لیکن جب عثمان رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو آپ نے اپنے گھٹنے کو چھپا لیا۔
اسماء بنت ابی بکرؓ کاایک واقعہ
عن اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَتْ:” تَزَوَّجَنِي الزُّبَيْرُ وَمَا لَهُ فِي الْأَرْضِ مِنْ مَالٍ وَلَا مَمْلُوكٍ وَلَا شَيْءٍ غَيْرَ نَاضِحٍ وَغَيْرَ فَرَسِهِ، فَكُنْتُ أَعْلِفُ فَرَسَهُ وَأَسْتَقِي الْمَاءَ وَأَخْرِزُ غَرْبَهُ وَأَعْجِنُ، وَلَمْ أَكُنْ أُحْسِنُ أَخْبِزُ، وَكَانَ يَخْبِزُ جَارَاتٌ لِي مِنْ الْأَنْصَارِ وَكُنَّ نِسْوَةَ صِدْقٍ وَكُنْتُ أَنْقُلُ النَّوَى مِنْ أَرْضِ الزُّبَيْرِ الَّتِي أَقْطَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَأْسِي وَهِيَ مِنِّي عَلَى ثُلُثَيْ، فَرْسَخٍ، فَجِئْتُ يَوْمًا وَالنَّوَى عَلَى رَأْسِي، فَلَقِيتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ نَفَرٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَدَعَانِي، ثُمَّ قَالَ: إِخْ إِخْ، لِيَحْمِلَنِي خَلْفَهُ فَاسْتَحْيَيْتُ أَنْ أَسِيرَ مَعَ الرِّجَالِ وَذَكَرْتُ الزُّبَيْرَ وَغَيْرَتَهُ وَكَانَ أَغْيَرَ النَّاسِ، فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي قَدِ اسْتَحْيَيْتُ، فَمَضَى، فَجِئْتُ الزُّبَيْرَ، فَقُلْتُ: لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى رَأْسِي النَّوَى وَمَعَهُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَأَنَاخَ لِأَرْكَبَ فَاسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ وَعَرَفْتُ غَيْرَتَكَ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَحَمْلُكِ النَّوَى كَانَ أَشَدَّ عَلَيَّ مِنْ رُكُوبِكِ مَعَهُ، قَالَتْ: حَتَّى أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَ ذَلِكَ بِخَادِمٍ يَكْفِينِي سِيَاسَةَ الْفَرَسِ فَكَأَنَّمَا أَعْتَقَنِي”.(صحیح بخاری۔کتاب النکاح،باب الغیرۃ۔حدیث نمبر٥٢٢٤ )
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ زبیر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس ایک اونٹ اور ان کے گھوڑے کے سوا روئے زمین پر کوئی مال، کوئی غلام، کوئی چیز نہیں تھی۔ میں ہی ان کا گھوڑا چراتی، پانی پلاتی، ان کا ڈول سیتی اور آٹا گوندھتی۔ میں اچھی طرح روٹی نہیں پکا سکتی تھی۔ انصار کی کچھ لڑکیاں میری روٹی پکا جاتی تھیں۔ یہ بڑی سچی اور باوفا عورتیں تھیں۔ زبیر رضی اللہ عنہ کی وہ زمین جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دی تھی، اس سے میں اپنے سر پر کھجور کی گٹھلیاں گھر لایا کرتی تھی۔ یہ زمین میرے گھر سے دو میل دور تھی۔ ایک روز میں آ رہی تھی اور گٹھلیاں میرے سر پر تھیں کہ راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قبیلہ انصار کے کئی آدمی تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا پھر (اپنے اونٹ کو بٹھانے کے لیے) کہا اخ اخ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ مجھے اپنی سواری پر اپنے پیچھے سوار کر لیں لیکن مجھے مردوں کے ساتھ چلنے میں شرم آئی اور زبیر رضی اللہ عنہ کی غیرت کا بھی خیال آیا۔ زبیر رضی اللہ عنہ بڑے ہی باغیرت تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سمجھ گئے کہ میں شرم محسوس کر رہی ہوں۔ اس لیے آپ آگے بڑھ گئے۔ پھر میں زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور ان سے واقعہ کا ذکر کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہو گئی تھی۔ میرے سر پر گٹھلیاں تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے چند صحابہ بھی تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بٹھانے کے لیے اپنا اونٹ بٹھایا لیکن مجھے اس سے شرم آئی اور تمہاری غیرت کا بھی خیال آیا۔ اس پر زبیر نے کہا کہ اللہ کی قسم! مجھ کو تو اس سے بڑا رنج ہوا کہ تو گٹھلیاں لانے کے لیے نکلے اگر تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہو جاتی تو اتنی غیرت کی بات نہ تھی (کیونکہ اسماء رضی اللہ عنہا آپ کی سالی اور بھاوج دونوں ہوتی تھیں) اس کے بعد میرے والد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک غلام میرے پاس بھیج دیا وہ گھوڑے کا سب کام کرنے لگا اور میں بے فکر ہو گئی گویا والد ماجد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (غلام بھیج کر) مجھ کو آزاد کر دیا۔
نبی کریم ﷺ کے ساتھ سواری پربیٹھ جانا کوئی ایسی بات نہیں تھی جس پرکوئی نکیر کیاجاسکتاہوبلکہ یہ تو ایک سعادت کی بات تھی لیکن حضرت اسماء فطری شرم و حیاء اور جھجک کی وجہ سے آپؐ کی سواری پرنہیں بیٹھیں۔یہ واقعہ ہمارے زمانے کے ان عورتوں کے لئے سامان عبرت ہے جو موٹر سائکلوں پر غیر مردوں کے ساتھ بیٹھ کر سیر سپاٹے کرنے کو نکل جاتی ہیں۔
تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے گھروں میں فطرت کی عطاکردہ اس نعمت عظمیٰ حیاء کی حفاظت کریں اس لئے کہ یہی وہ چیز ہے جوہمیں کامیابی کی طرف لے جانے والی ہیں ورنہ انسان بے لگام ہوکے رہ جاتاہے۔باری تعالیٰ ہمیں حیا کی دولت نصیب فرمائے۔ آمین