مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

حسنِ خلق کی اہمیت اور اس کی نوعیت

خلق حسن

 

 تحریر:  مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

خلق کا لغوی و شرعی  مفہوم

اردو میں خُلق اچھی خصلتوں، پسندیدہ طریقوں، ملنساری، مروت اورخوش مزاجی کوکہتے ہیں۔اصطلاحی اعتبار سے علی ابن محمد بن علی جرجانی نے خُلق کی تعریف یہ کی ہے:

اَلْخُلْقُ عِبَارَتٌ عَنْ ھَیْءَۃٍ لِلنَّفْسِ رَاسِخَۃٍ تَصْدُرُ عَنْھَا الْاَفْعَالُ بِسُہُوْلَۃٍ وَ یَسِرُ مِنْ غَیْرِ حَاجَۃٍ اِلٰی فِکْرٍ وَرُوْیَۃٍ، فَاِنْ کَانَتِ الْھَیْءَۃُ بِحَیْثُ تَصْدُرُ عَنْھَا الْاَفْعَالُ الْجَمِیْلَۃُ  عَقْلاً وَشَرْعًا بِسُہُوْلَۃٍ،سُمِّیَتِ الْھَیْءَۃُ: خُلْقًا حَسَنًا، وَاِنْ کَانَ الصّادِرُ مِنْھَا الْاَفْعَالُ الْقَبِیْحَۃُ، سُمِّیَتِ الْھَیْءَۃُ: خُلْقًا سَیِّئاً(التعریفات للجرجانی  ص١٣٦ )

خلق سے مراد انسان کے وہ پختہ اوصاف ہیں جو اس کی فطرت اور طبیعت کا اس طرح حصہ بن جائیں کہ ان کا ظہور روز مرہ کی زندگی میں غور وفکر کی سہولت اور آسانی سے ہوتا رہے۔اگر یہ اوصاف عقلی اور شرعی اعتبار سے پسندیدہ ہیں تو وہ خلق حسن ہیں اور وہ افعال قبیحہ ہیں تو خلق سیۂ ہیں۔ 

خلق حسنہ اور خلق سیئہ

مندرجہ بالا تعریف کی رو سے ہمارے سامنے خلق یا اخلاق کی دوقسمیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک خلق حسن یا اخلاق حسنہ اور دوسری خلق سیئہ یا اخلاق سیۂ۔خلق حسن میں وہ تمام اوصاف داخل ہیں جنہیں شریعت میں اچھا سمجھا گیا ہے یا شریعت نے انہیں کرنے کا حکم دیا گیا ہے اگر وہ چیزیں انسان کے اندر اس طرح موجود ہیں کہ وہ اس کی فطرت میں شامل ہوگئیں ہیں تو اس کو اس خلق کی طرف منصوب کرکے سیئہ الخلق یا حسن الخلق کا حکم لگایا جاسکتاہے۔یعنی اگر انسان کی فطرت میں وہ اخلاق شامل ہیں جنہیں عقلی اور شرعی دونوں طریقوں پر اچھا سمجھا گیا ہے، اس کی تعریف یا مطالبہ کیا گیا ہے تو وہ خلق حسن اور خوش خلقی ہے اور اگر اس صفت کو عقلی اور شرعی دونوں میں برا سمجھا گیا ہے تو وہ سوء خلق اور بد خلقی ہے۔

خلق عظیم نبی کریم ؐ کی خاص صفت

نبی کریم ﷺ اخلاق کے سب سے اونچے مرتبہ پر فائز تھے۔اخلاقیات کے باب میں جتنی بھی چیزیں حسن کادرجہ رکھتی ہیں نبی کریم کے اندر وہ چیزیں کامل واکمل طریقہ پر موجود تھیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آ پ ﷺ کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا ہے:وَاِِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (قلم۔۴) (اور بے شک آپؐ بہت بڑے اخلاق پر ہیں۔)رسول اللہ ﷺ کے اخلاق حسنہ کا ہی کمال تھا کہ عرب جیسی اکھڑ مزاج قوم آپؐ کے اردگرد صرف جمع ہی نہیں ہوئی بلکہ آپؐ پر فریفتہ ہوگئی اور آ پ ؐ کے ادنیٰ اشارے پر اپنی جانیں لُٹادینے کو تیار ہوگئی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَ اسْتَغْفِرْلَھُمْ وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ(١٥٩ ۔آل عمران)

ترجمہ:        اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، سو آپ ان سے درگزر کریں اور ان کے لئے استغفار کریں اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں، پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

خلق حسن کی چند مثالیں

نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اسی لئے مبعوث فرمایا کہ آپؐ کے ذریعہ اخلاق کے تمام ابواب کومکمل طور سے اجاگر کردیا جائے اور بنی نوع انسان کے سامنے خلقِ حسن، خلقِ احسن اور خلق عظیم کے نمونے پیش کردیئے جائیں۔آپ ﷺ کا مشن اور آپ ؐ کے ترجیحی پیغامات مکارم اخلاق ہی تھے جس کی بناء پر پور اجزیرۃ العرب اسلام کی طرف سمٹ آیا اور آپ ؐ کے اخلاق کاپرتو صحابۂ کرام پرپڑا تو وہ جہاں جہاں گئے اسلام کی روشنی بکھیرتے چلے گئے۔

عفوو درگذر

 اوپر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ جن صفات کی تعریف شریعت میں کی گئی ہے وہ تمام چیزیں اخلاق حسنہ کے اندر شامل ہیں۔ اللہ کے لئے تقویٰ اختیار کرنا، اللہ کے بندوں پرخرچ کرنا،غصہ پر قابو رکھنا،عفو درگذر سے کام لینا اور احسان وفضل کارویہ ہمیشہ قائم رکھنا یہ سب خلق حسن میں شامل ہیں۔

نبی کریم  ﷺ بذات خود عفو و درگذر سے کام لینے والے تھے اس کے باوجود آپ کو عفو و درگزر کرنے کا حکم ہے اوراگر کسی موقع پرجاہلوں کا سامنا ہوجائے او روہ بدتمیزی کرنے لگیں تو بھی آپؐ ان سے رحم وکرم اور عفور درگزر کا معاملہ فرمائیں۔ خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ(١٩٩ ۔اعراف)ترجمہ:آپ درگزر کو اختیار کریں نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہو جائیں۔

 جور و جفا اور ظلم وستم بداخلاقی میں شامل ہیں اگر کسی کے ساتھ ظلم و ستم ہو تو اس شخص کو بھی اتنا اختیار ہے کہ جب اس کو طاقت وقدرت حاصل ہو تو وہ اتنا ہی بدلہ لے سکتاہے جتنی اس کو تکلیف پہنچائی گئی اس پرزیادتی کرنا یہ بذات خود مظلوم کو ظالم بنادیتاہے۔ اس کے برعکس جو شخص معافی اور درگذ ر سے کام لے کر صلح جوئی کا راستہ اختیار کرے تووہ شخص اللہ تعالیٰ کے یہاں بہت پسندیدہ ہے اور وہ اخلاق کے نہایت اونچے عہدے پرفائز ہے۔

وَجَزَآءُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُہَا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہُ عَلٰی اللّٰہِ اِِنَّہٗ لاَ یُحِبُّ الظٰلِمِیْنَ (٤٠ ۔ شوریٰ)

ترجمہ:        اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جو معاف کر دے اور اصلاح کرلے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، اللہ تعالیٰ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔

عفو و درگذر کی مثالیں نبی کریم ﷺ کی سیرت میں بھری پڑی ہیں آپ ؐ کے ساتھ جو اصحاب رہا کرتے تھے ان کے ساتھ تو آپ نے عفوو درگذر کا معاملہ کیا ہی ہے، جانی دشمنوں کے ساتھ بھی آپؐ نے نہایت شفقت اور مہربانی کا معاملہ فرمایا۔آپ کو اذیتیں پہونچانے والوں نے اذیتوں کی انتہا کردی لیکن جب وہ آپ ؐ کے ہاتھ میں آئے اور آپؐ کو طاقت وقدرت حاصل ہوئی تو آپ نے کسی سے بدلہ نہیں لیا بلکہ ان کی تمام تر ایذا رسانیوں کو معاف کردیا بلکہ ان کے حق میں دعائیں بھی فرمائی۔ فتح مکہ کا واقعہ تاریخ میں آپؐ کی عفو و درگذر کی زندہ مثال ہے۔کہ مکی زندگی میں تو ان لوگوں نے آپ کے ساتھ نہایت ظالمانہ رویہ رَوا رکھاتھا مکہ سے ہجرت کے بعد بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا بلکہ ہمیشہ آپ کو اور آپ کے ماننے والوں کو مشق ستم بناتے رہے۔ لیکن فتح مکہ کے بعد جب تمام مکہ والے مجرموں کے طرح اپنے آپ کو قابل سزا سمجھ رہے تھے،آپؐ نے ان کے لئے عام معافی کااعلان کردیا اور کسی سے بدلہ نہیں لیا۔یہی آپؐ کے کریمانہ اخلاق تھے جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے چار دانگ عالم میں اسلام کی روشنی پہونچادی اور رہتی دنیا تک کے لئے آپؐ کی لائی ہوئی شریعت کو محفوظ کردیا۔

سخاوت

اللہ کے بندوں پرخرچ کرنا اور سخاوت کو اپنی عادت بنانا بھی خلق حسن میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس صفت کو جنتیوں کی صفات میں شمار کیا ہے۔ ارشاد ہے:

وَ سَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ(١٣٣ ) الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (١٣٤ ۔ اٰل عمران)

ترجمہ:        اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دوڑو اپنے رب کی جانب سے بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین (کے برابر)ہے، ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔جو لوگ آسانی میں اور سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو متقین کی صفات میں شمار کیا گیا ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا شریعت میں بھی پسندیدہ ہے اور یہ خرچ کرنے کی صفت جسے سخاوت سے تعبیر کیا جاتاہے عقلی اعتبار سے بھی مستحسن اور لائق تحسین ہے۔ دنیا میں جتنے قسم کے انسان رہتے بستے ہیں وہ سب اس صفت کی تعریف کرتے ہیں اور جو شخص اس صفت سے متصف ہوتاہے اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی ایسے لوگ نہایت محبوب ہیں جواس کے بندوں کی ضرورتوں کو اپنی ضروریات پر ترجیح دیتے ہیں اور چاہے تنگی کی حالت ہو یا خوشحالی کی ہر حال میں اللہ کی راہ میں محض اللہ کی رضا جوئی کے لئے خرچ کرتے ہیں۔نبی کریم ﷺ اس صفت میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے اور آپ کی جود وسخا سے دوست و دشمن سب فیضیاب ہوتے تھے۔ آپؐ  کے دروازے سے کوئی سائل کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتاتھا۔ بلکہ اگر گھر میں کچھ موجود نہیں ہوتا تو قرض لے کر آپ ؐ سائل کو عطاکرتے تھے۔

عن عبد اللہ بن عباس رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” أَجْوَدَ النَّاسِ وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ جِبْرِيلُ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ فَلَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ”(صحیح بخاری۔کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملئکۃ۔حدیث نمبر٣٢٢٠ )

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ کی سخاوت رمضان شریف کے مہینے میں اور بڑھ جاتی، جب جبرئیل علیہ السلام آپ سے ملاقات کے لیے ہر روز آنے لگتے۔ جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان کی ہر رات میں ملاقات کے لیے آتے اور آپ سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خصوصاً اس دور میں جب جبرئیل علیہ السلام روزانہ آپ سے ملاقات کے لیے آتے تو آپ خیرات و برکات میں تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔

ہوا اللہ تعالیٰ کی پیداکردہ ایسی نعمت ہے جس کی ضرورت ہر جاندار بلکہ بے جان چیزوں کو بھی ہے اور حق جل شانہ نے اس کو ایسا عام کردیاہے کہ ہر جگہ ہر ایک کے لئے وافر مقدار میں میں موجود ہے۔ ا س کو حاصل کرنے کے لئے کسی تگ و دو کی ضرورت نہیں،بہت ہی آسانی سے یہ دستیاب ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سخاوت اور آپؐ کی داد ودہش اس ہواسے بھی زیادہ عام تھی۔ آپ ؐ کی دادو دہش سے کوئی محتاج محروم نہیں رہتاتھا۔اس صفت کوصحابۂ کرام نے نمایا ں طور پر آپ ؐ کے مکارم اخلاق میں بیان کیا ہے۔   

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ وَأَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ، وَقَالَ أَبُو ذَرٍّ لَمَّا بَلَغَهُ مَبْعَثُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَخِيهِ: ارْكَبْ إِلَى هَذَا الْوَادِي فَاسْمَعْ مِنْ قَوْلِهِ فَرَجَعَ فَقَالَ: رَأَيْتُهُ يَأْمُرُ بِمَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ۔(صحیح بخاری۔ کتاب الادب،باب حسن الخلق، والسخاء،ومایکرہ من البخل۔حدیث نمبر٦٠٣٣ )

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان کے مہینے میں تو سب دنوں سے زیادہ سخاوت کرتے تھے۔ جب ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی خبر ملی تو انہوں نے اپنے بھائی انس سے کہا کہ وادی مکہ کی طرف جاؤ اور اس شخص کی باتیں سن کر آؤ۔ جب وہ واپس آئے تو ابوذر سے کہا کہ میں نے دیکھا کہ وہ صاحب تو اچھے اخلاق کا حکم دیتے ہیں۔

آپ ؐ کی مثالی جودو سخا کوحضرت ابوذر غفاری کے بھائی نے آ پ ؐ کے مکارم اخلاق میں شمار کیا اور جب حضرت ابوذر غفاریؓ کو اس خبر کی ملی تو وہ فوراً مکہ حاضر ہوئے اورمشرف بہ اسلام ہوئے۔

غصہ کو پی جانا

سورۂ آل عمران کی مندرجہ بالا آیت میں  الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ (غصہ کو پی جانے والوں) کو بھی متقین کی صفات میں شمار کیا گیا ہے۔یہ بھی اخلاق حسنہ میں سے ایک بڑی صفت ہے جومومنین میں موجود ہونی چاہئے اور جولوگ اس صفت سے متصف ہوتے ہیں انہیں معاشرے میں اونچا مقام ملتاہے اور لوگ ان کی عزت واکرام کرتے ہیں۔حالت غضب میں اپنے غصے پرقابو پانے والوں کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

عن ابی ھریرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ، إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ”( صحیح بخاری۔کتاب الادب، باب الحذر من الغضب۔حدیث نمبر٦١١٤ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پہلوان وہ نہیں ہے جو کشتی لڑنے میں غالب ہو جائے بلکہ اصل پہلوان تو وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پائے بے قابو نہ ہو جائے۔

عن ابی ھریرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، اَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْصِنِي، قَالَ:” لَا تَغْضَبْ” فَرَدَّدَ مِرَارًا، قَالَ:” لَا تَغْضَبْ”.(صحیح بخاری۔کتاب الادب، باب الحذر من الغضب۔حدیث نمبر٦١١٦ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے آپ کوئی نصیحت فرما دیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ نہ ہوا کر۔ انہوں نے کئی مرتبہ یہ سوال کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ نہ ہوا کر۔

جوشخص غصہ آنے کے بعد غصہ کو پی جائے درانحالیکہ وہ اپنا غصہ نافذ کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہو اس کے لئے بہت بڑی بشارت ہے اور اس کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ یہ اعزاز عطا فرمائیں گے کہ وہ جنت کی حوروں میں سے جس کو چاہے اپنے لئے پسند کرلے۔

عن معاذ رضی اللہ عنہ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يُنْفِذَهُ، دَعَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، حَتَّى يُخَيِّرَهُ اللَّهُ مِن الْحُورِ الْعِينِ مَا شَاءَ۔(سنن ابوداؤد۔ کتاب الادب،باب من کظم غیظا۔حدیث نمبر٤٧٧٧ )

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنا غصہ پی لیا حالانکہ وہ اسے نافذ کرنے پر قادر تھا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے سب لوگوں کے سامنے بلائے گا یہاں تک کہ اسے اللہ تعالیٰ اختیار دے گا کہ وہ بڑی آنکھ والی حوروں میں سے جسے چاہے چن لے۔

غصہ ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو آپے سے باہر کردیتی ہے اور غصہ کی حالت میں انسان کو یہ ہوش نہیں رہتاہے کہ وہ کیاکہہ رہا ہے اور کیاکررہاہے۔ اس لئے نبی کریم ﷺ نے غصہ پر قابو پانے کی ترغیب بھی فرمائی ہے اور اس کی ترکیب بھی سکھلائی ہے۔آپ ؐ نے فرمایا کہ جب کسی کو غصہ آنے لگے تو وہ تعوذ پڑھ لیاکرے۔

عن سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ  قَالَ: اسْتَبَّ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ عِنْدَهُ جُلُوسٌ وَأَحَدُهُمَا يَسُبُّ صَاحِبَهُ مُغْضَبًا قَدِ احْمَرَّ وَجْهُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَوْ قَالَهَا لَذَهَبَ عَنْهُ مَا يَجِدُ، لَوْ قَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ”، فَقَالُوا لِلرَّجُلِ: أَلَا تَسْمَعُ مَا يَقُولُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنِّي لَسْتُ بِمَجْنُونٍ. (صحیح بخاری۔کتاب الادب، باب الحذر من الغضب۔حدیث نمبر٦١١٥ )

حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ دو آدمیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں جھگڑا کیا، ہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک شخص دوسرے کو غصہ کی حالت میں گالی دے رہا تھا اور اس کا چہرہ سرخ تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ شخص اسے کہہ لے تو اس کا غصہ دور ہو جائے۔ اگر یہ ”اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم“ کہہ لے۔ صحابہ نے اس سے کہا کہ سنتے نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما رہے ہیں؟ اس نے کہا کہ کیا میں دیوانہ ہوں؟

شجاعت

شجاعت و بہادری کوبھی حسن خلق میں شمار کیا جاتاہے اور ایک مومن کی صفات میں یہ داخل ہے کہ وہ بزدل نہیں ہوسکتاصحابہئ کرام کی پوری زندگی اور اس میں بہادری کے ایسے ایسے نمونے اور جوہر موجود ہیں جن کی مثال پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔ آخر وہ سید المرسلین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے تربیت یافتہ تھے جن کی بہادری کی مثال پیش ہی نہیں کی جاسکتی۔  خطرناک حالات میں بھی آپﷺ سے نے کتنے صبر کے ساتھ مقابلہ کیا جس کو جاننے کے بعد انسان بے یقینی کاشکار ہوجاتا ہے کہ کیا ایسا بھی ہوسکتاہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ مکہ کی سنگلاخ وادیوں میں جب کہ ہرطرف مخالفت کی تند وتیز ہوائیں چل رہی تھیں آپ ؐ اللہ کے کلمے کی سربلندی کے لئے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر عرب کے سرداروں کے پاس جاتے اور انہیں دین کی تبلیغ کیا کرتے تھے۔جب کہ سارے لوگ آپ ؐ کی جان کے دشمن بنے ہوئے تھے۔مدنی دور میں بھی جب کوئی ناگہانی صورت حال پید اہوتی تو آپ ﷺ سب سے آگے رہا کرتے تھے۔

عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ  قَالَ: ” كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَحْسَنَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَشْجَعَ النَّاسِ، وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَانْطَلَقَ نَاسٌ قِبَلَ الصَّوْتِ، فَتَلَقَّاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَاجِعًا، وَقَدْ سَبَقَهُمْ إِلَى الصَّوْتِ وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ، عُرْيٍ فِي عُنُقِهِ السَّيْفُ، وَهُوَ يَقُولُ: لَمْ تُرَاعُوا، لَمْ تُرَاعُوا، قَالَ: وَجَدْنَاهُ بَحْرًا، أَوْ إِنَّهُ لَبَحْرٌ، قَالَ: وَكَانَ فَرَسًا يُبَطَّأُ “. (صحیح مسلم۔کتاب الفضائل باب شجاعتہ صلی اللہ علیہ وسلم۔حدیث نمبر٦٠٠٦ )

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت تھے اور سب سے زیادہ سخی تھے اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ والوں کو  (کسی دشمن کے آنے کا)خوف ہوا جدھر سے آواز آ رہی تھی ادھر لوگ چلے، راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹتے ہوئے ملے اور سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آواز کی طرف تشریف لے گئے تھے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے پر جو ننگی پیٹھ تھا اور آپ کے گلے میں تلوار تھی اور فرماتے تھے کچھ ڈر نہیں کچھ ڈر نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ گھوڑا تو دریا ہے اور پہلے وہ گھوڑا آہستہ چلتا تھا۔

تحمل و بردباری

تحمل و بردباری بھی اخلاق حسنہ میں داخل ہے اور ہر مومن کو تحمل وبردباری سے کام لینا چاہئے۔ بردباری کی صفت انسان کو معاشرے میں عزت کے مقام پربِٹھاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی اس کی قدر کی جاتی ہے۔ نیز لوگ ایسے شخص سے جس کی صفت بردباری کی ہے اس کے قریب رہنا پسند کرتے ہیں اس سے بدکتے نہیں۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت یہی ہے کہ آپ کی شخصیت بردباری اور تحمل میں کامل واکمل تھی۔ آپ ﷺ کے قریب رہنے والے لوگ روز بروز آپ ؐ سے قریب تر ہوتے جاتے تھے اور کبھی شکایت نہیں کرتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ جب زید ؓابن حارثہ کو نبی کریم ﷺ نے یہ اختیار دے دیا کہ تم چاہو تو اپنے گھر والوں کے ساتھ چلے جاؤیا میرے ساتھ رہو تو حضرت زیدؓ نے غلامی کی زندگی پسند کی لیکن آپؐ کا ساتھ چھوڑ کر اپنے گھر والوں کے ساتھ جانا پسند نہیں کیا۔حضرت انسؓ بچپن سے ہی آپؐ کی خدمت میں تھے اور ایک طویل مدت تک آپؓ نے حضور ؐ کی خدمت کی لیکن کبھی ایسا وقت نہیں آیا کہ آپ ؐ نے ان کو ڈانٹا ہو یا کوئی سزادی ہو یا ان کے کسی عمل پر ناراضگی کااظہا ر کیا ہو۔

 قال انس رضی اللہ عنہ  ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ خُلُقًا، فَأَرْسَلَنِي يَوْمًا لِحَاجَةٍ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَا أَذهَبُ وَفِي نَفْسِي أَنْ أَذهَبَ لِمَا أَمَرَنِي بِهِ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَخَرَجْتُ حَتَّى أَمُرَّ عَلَى صِبْيَانٍ وَهُمْ يَلْعَبُونَ فِي السُّوقِ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَابِضٌ بِقَفَايَ مِنْ وَرَائِي، فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ يَضْحَكُ، فَقَالَ: يَا أُنَيسُ، اذْهَبْ حَيْثُ أَمَرْتُكَ”، قُلْتُ: نَعَمْ، أَنَا أَذّهَبُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ أَنَسٌ: وَاللَّهِ لَقَدْ خَدَمْتُهُ سَبْعَ سِنِينَ أَوْ تِسْعَ سِنِينَ، مَا عَلِمْتُ قَالَ لِشَيْءٍ صَنَعْتُ: لِمَ فَعَلْتَ كَذَا وَكَذَا؟ وَلَا لِشَيْءٍ تَرَكْتُ: هَلَّا فَعَلْتَ كَذَا وَكَذَا”. (سنن ابو داؤد۔ کتاب الادب، باب فی الحلم واخلاق النبی ﷺ۔حدیث نمبر ٤٧٧٣ )

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے بہتر اخلاق والے تھے، ایک دن آپ نے مجھے کسی ضرورت سے بھیجا تو میں نے کہا: قسم اللہ کی، میں نہیں جاؤں گا، حالانکہ میرے دل میں یہ بات تھی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے، اس لیے ضرور جاؤں گا، چنانچہ میں نکلا یہاں تک کہ جب میں کچھ بچوں کے پاس سے گزر رہا تھا اور وہ بازار میں کھیل رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پیچھے سے میری گردن پکڑ لی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مڑ کر دیکھا، آپ ہنس رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ننھے انس! جاؤ جہاں میں نے تمہیں حکم دیا ہے“ میں نے عرض کیا: ٹھیک ہے، میں جا رہا ہوں، اللہ کے رسول، انس کہتے ہیں: اللہ کی قسم، میں نے سات سال یا نو سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے کبھی میرے کسی ایسے کام پر جو میں نے کیا ہو یہ کہا ہو کہ تم نے ایسا اور ایسا کیوں کیا؟ اور نہ ہی کسی ایسے کام پر جسے میں نے نہ کیا ہو یہ کہا ہو کہ تم نے ایسا اور ایسا کیوں نہیں کیا؟۔

خوش دلی اور نرم گوئی

لوگوں کے ساتھ نرمی سے بات کرنا اور خوش دلی سے ملنا بھی حسن خلق میں داخل ہے۔ چاہے ملنے والا بدخلق ہی کیوں نہ ہو، مومنین کو کشادہ دلی سے ملنا چاہئے ان کے عیوب کی وجہ سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی ان کے ساتھ سختی سے پیش آنا چاہئے بلکہ خوشدلی اور خندہ پیشانی سے ملنا چاہئے اور انہیں اسلامی آداب واخلاق سے روشناس کرانا چاہئے۔ یہ خوشدلی ایک دن انہیں بھی اسلام  کے قریب کھینچ کرلائے گی۔بالخصوص مبلغین کے اند ر اس صفت کا پایاجانا نہایت ضروری ہے تاکہ لوگ ان کے قریب آئیں اور ان سے دور بھاگنے کی کوشش نہ کریں۔ نبی کریم ﷺ کی سنت سے ہمیں یہی تعلیم ملتی ہے۔

عن عائشہ رضی اللہ عنہا  قالت ،أَنَّ رَجُلًا اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ، فَلَمَّا دَخَلَ انْبَسَطَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَلَّمَهُ، فَلَمَّا خَرَجَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمَّا اسْتَأْذَنَ؟ قُلْتَ: بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ، فَلَمَّا دَخَلَ انْبَسَطْتَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَاحِشَ الْمُتَفَحِّشَ”.(سنن ابوداؤد۔ کتاب الادب، باب حسن العشرۃ۔حدیث نمبر٤٧٩٢ )

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپؐ نے فرمایا: ”اپنے کنبے کا برا شخص ہے” جب وہ اندر آ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کشادہ دلی سے ملے اور اس سے باتیں کیں، جب وہ نکل کر چلا گیا تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جب اس نے اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا: ”اپنے کنبے کا برا شخص ہے اور جب وہ اندر آ گیا تو آپ اس سے کشادہ دلی سے ملے” آپ نے فرمایا: ”عائشہ! اللہ تعالیٰ کو فحش گو اور منہ پھٹ شخص پسند نہیں”۔

تواضع او رخاکساری

تواضع او رخاکساری انسان کی رفعت بلندی کاسبب ہے جو شخص جتنا متواضع ہے اللہ کی نظر میں وہ اتنا ہی بلند مرتبہ ہے اس لئے انسان کو کبھی فخرو غرور نہیں کرنا چاہئے۔بلکہ ہمیشہ خاکسارانہ چال چلنی چاہئے۔ یہی خاکساری اسے بلندیوں کے اعلیٰ مقام تک پہونچائے گی۔

عن عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ  أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” إِنَّ اللَّهَ أَوْحَى إِلَيَّ أَنْ تَوَاضَعُوا حَتَّى لَا يَبْغِيَ أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ وَلَا يَفْخَرَ أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ”.(سنن ابوداؤد۔ کتاب الادب، باب فی التواضع۔حدیث نمبر٤٨٩٥ )

حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ نے مجھ کو وحی کی ہے کہ تم لوگ تواضع اختیار کرو یہاں تک کہ تم میں سے کوئی کسی پر زیادتی نہ کرے اور نہ کوئی کسی پر فخر کرے”۔

یہ چند صفات یہاں بطورنمونہ بیان کی گئیں، حقیقت یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کی پوری سیرت خلق حسن ہے۔ آپؐ  نے جن جن کاموں کوکرنے کاحکم دیا ہے،  وہ تمام کے تمام اخلاق حسنہ ہیں اور جن جن کاموں سے رک جانے کاحکم دیا ہے، وہ تمام اخلاق سیۂ ہیں۔ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہؓ سے کسی نے آپ ؐ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا تو آپ ؓ نے فرمایا کان خُلقُہ القرآن یعنی قرآنی تعلیمات آپؐ کے اخلاق ہیں۔قرآن کریم اللہ کی طرف سے نازل کردہ ایسی کتاب ہے جس میں پوری انسانیت کے لئے خیر جمع کردی گئی ہے،قرآن کریم جن جن چیزوں کو اختیار کرنے کا حکم دیتاہے وہ تمام کی تمام خلق حسن ہیں اور جن جن چیزوں سے رک جانے کا حکم دیتاہے ان سے رک جانا بھی خلق حسن ہے۔اسی طرح قرآن کریم نے جن چیزوں کو اختیارکرنے کا حکم دیا ہے ان کو اختیار نہ کرنا اور جن چیزوں سے منع کیا ہے ان کو اختیا رکرنا خلق سئیہ ہے۔ اس لئے ایمان والوں کوقرآن کی تعلیمات پرعمل پیراہونا چاہئے اور اسی کواپنی زندگی کے لئے مشعل راہ بنانا چاہئے۔

2 thoughts on “حسنِ خلق کی اہمیت اور اس کی نوعیت”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index