سلام کاجواب دینا

تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
سلام مومن کی طرف سے ہدیہ
سلام کرنا مسنون عمل ہے اور اس کا جواب دینا واجب ہے۔اس لئے جب کوئی سلام کرے تو اس کاجواب ضرور دینا چاہئے یہ ایک مسلمان بھائی کاحق ہے کہ اس کے سلام کا جواب دیا جائے۔یہ مومن کی طرف سے ایک ہدیہ ہے جو ایک مومن اپنے دوسرے مومن بھائی کو بھیجتاہے اس لئے اس ہدیہ کوقبول کرنا اور اس کے جواب میں اس سے بہتر ہدیہ اپنے بھائی کو بھیجناایک معاشرتی اور اخلاقی حق ہے۔ اس لئے سلام کا اس سے زیادہ بہتر انداز سے جواب دینا چاہیے جس انداز سے پہل کرنے والے نے کیا ہے۔ نہیں تو کم سے کم اتناتو ضرور لوٹائے جتنے الفاظ کااس نے استعمال کیا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا(٨٦ ۔نساء)
ترجمہ: اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو، بے شبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔

عمران بن حصین رضی اللہ عنہما قَالَ:” جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ , فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ , ثُمَّ جَلَسَ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَشْرٌ , ثُمَّ جَاءَ آخَرُ , فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ , فَرَدَّ عَلَيْهِ , فَجَلَسَ , فَقَالَ: عِشْرُونَ , ثُمَّ جَاءَ آخَرُ , فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ , فَرَدَّ عَلَيْهِ , فَجَلَسَ , فَقَالَ: ثَلَاثُونَ”.(سنن ابوداؤد۔ ابواب السلام۔باب کیف السلام۔حدیث نمبر٥١٩٥ )
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے”السلام علیکم” کہا، آپ نے اسے سلام کا جواب دیا، پھر وہ بیٹھ گیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اس کو دس نیکیاں ملیں” پھر ایک اور شخص آیا، اس نے”السلام علیکم ورحمتہ اللہ” کہا، آپ نے اسے جواب دیا، پھر وہ شخص بھی بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا: ”اس کو بیس نیکیاں ملیں” پھر ایک اور شخص آیا اس نے ”السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ” کہا، آپ نے اسے بھی جواب دیا، پھر وہ بھی بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا:”اسے تیس نیکیاں ملیں”۔
اگر کہیں کوئی جماعت بیٹھی ہو اور آنے والا سلام کرے توپوری جماعت پر اس کاجواب دینا واجب ہے، لیکن اگر کسی ایک نے بھی جواب دے دیا تو کافی ہوجائے گا۔ ہاں اگر کسی نے بھی جواب نہ دیا تو پوری جماعت ترک واجب کا گنہ گار ہوگی اور اگر سب نے جواب دے دیا تو بہتر ہے۔
عن علی بن ابی طالب رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ أَبُو دَاوُدَ: رَفَعَهُ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ , قَالَ:” يُجْزِئُ عَنِ الْجَمَاعَةِ إِذَا مَرُّوا أَنْ يُسَلِّمَ أَحَدُهُمْ , وَيُجْزِئُ عَنِ الْجُلُوسِ أَنْ يَرُدَّ أَحَدُهُمْ”.(سنن ابوداؤد۔ ابواب السلام۔باب ماجاء فی رد الواحد عن الجماعۃ۔حدیث نمبر٥٢١٠ )
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں اگر جماعت گزر رہی ہو تو ان میں سے کسی ایک کا سلام کر لینا سب کی طرف سے کافی ہو گا، ایسے ہی لوگ بیٹھے ہوئے ہوں اور ان میں سے کوئی ایک جواب دیدے تو وہ سب کی طرف سے کفایت کرے گا۔
ایک ہی مجلس میں اگر کوئی شخص بار بار آرہا ہواوربار بار سلام کرتاہو توبھی سننے والوں کو ہر بار جواب دینا چاہئے۔یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ابھی تو سلام کا جوا ب دیا ہے اب جواب دینے کی کیا ضرورت ہے۔ اس لئے کہ یہ ایک دعا ہے اور سلام کرنے والا اپنے مخاطب کو رحمت کی دعا دیتا ہے اس لئے سننے والے کااخلاقی فرض ہے کہ وہ بھی اس کو دعادے بلکہ اس سے کچھ آگے بڑھ کر دعادے۔ایک مجلس میں نبی کریم ﷺ کو ایک شخص نے تین بار سلام کیا اور آپ ﷺ نے تینوں بار نہایت خوشدلی سے اس کا جواب دیا اور برابر اسے نماز کواچھی طرح پڑھنے کی تلقین کرتے رہے۔
عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَصَلَّى، ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” وَعَلَيْكَ السَّلَامُ، ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ”، فَرَجَعَ فَصَلَّى، ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ، فَقَالَ:” وَعَلَيْكَ السَّلَامُ، فَارْجِعْ فَصَلِّ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ”، فَقَالَ فِي الثَّانِيَةِ أَوْ فِي الَّتِي بَعْدَهَا: عَلِّمْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ:” إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغِ الْوُضُوءَ، ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ فَكَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ بِمَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ، ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَسْتَوِيَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا”، وَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ فِي الْأَخِيرِ: حَتَّى تَسْتَوِيَ قَائِمًا،(صحیح بخاری۔ کتاب الاستئذان۔باب من رد فقال علیک السلام۔حدیث نمبر٦٢٥١ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے نماز پڑھی اور پھر حاضر ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وعلیک السلام واپس جا اور دوبارہ نماز پڑھ، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ واپس گئے اور نماز پڑھی۔ پھر (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آئے اور سلام کیا آپ نے فرمایا وعلیک السلام۔ واپس جاؤ پھر نماز پڑھو۔ کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ واپس گیا اور اس نے پھر نماز پڑھی۔ پھر واپس آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا وعلیک السلام۔ واپس جاؤ اور دوبارہ نماز پڑھو۔ کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ ان صاحب نے دوسری مرتبہ، یا اس کے بعد، عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے نماز پڑھنی سکھا دیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوا کرو تو پہلے پوری طرح وضو کیا کرو، پھر قبلہ رو ہو کر تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہو، اس کے بعد قرآن مجید میں سے جو تمہارے لیے آسان ہو وہ پڑھو، پھر رکوع کرو اور جب رکوع کی حالت میں برابر ہو جاؤ تو سر اٹھاؤ۔ جب سیدھے کھڑے ہو جاؤ تو پھر سجدہ میں جاؤ، جب سجدہ پوری طرح کر لو تو سر اٹھاؤ اور اچھی طرح سے بیٹھ جاؤ۔ یہی عمل اپنی ہر رکعت میں کرو۔
لو گوں کی عام گزرگاہ میں بیٹھنے سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے لیکن اگر کوئی ضرورت کی وجہ سے بیٹھے تو اسے چاہئے کہ آنے جانے والوں کے سلام کا جواب دیا کرے۔
عن ابی سعید خدری رضی اللہ عنہ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أن النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ بِالطُّرُقَاتِ”، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَنَا مِنْ مَجَالِسِنَا بُدٌّ نَتَحَدَّثُ فِيهَا، فَقَالَ:” إِذْ أَبَيْتُمْ إِلَّا الْمَجْلِسَ، فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهُ”، قَالُوا: وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:” غَضُّ الْبَصَرِ، وَكَفُّ الْأَذَى، وَرَدُّ السَّلَامِ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ”.(صحیح بخاری۔ کتاب الاستئذان۔باب قول اللہ تعالیٰ یا ایھا الذین آمنوا ۔حدیث نمبر٦٢٢٩ )
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”راستوں پر بیٹھنے سے بچو! صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہماری یہ مجالس تو بہت ضروری ہیں، ہم وہیں روزمرہ گفتگو کیا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا جب تم ان مجلسوں میں بیٹھنا ہی چاہتے ہو تو راستے کا حق ادا کیا کرو یعنی راستے کو اس کا حق دو۔ صحابہ نے عرض کیا: راستے کا حق کیا ہے یا رسول اللہ! فرمایانظر نیچی رکھنا، راہ گیروں کو نہ ستانا، سلام کا جواب دینا، بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔
اگر کوئی شخص کسی دوسرے کاسلام پیش کرے توجواب دیتے وقت اس پیش کرنے والے کو بھی دعا میں شامل کرلینا چاہئے۔ جیسے یہ کہے علیک و علیہ السلام۔ یاعلیک وعلی فلان السلام۔
عن غالب قال إِنَّا لَجُلُوسٌ بِباب الْحَسَنِ إِذْ جَاءَ رجل , فَقَالَ حَدَّثَنِي ابی عَنْ جَدِی , قَالَ:” بَعَثَنِي أَبِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: ائْتِهِ , فَأَقْرِئْهُ السَّلَامَ , قَالَ: فَأَتَيْتُهُ , فَقُلْتُ: إِنَّ أَبِي يُقْرِئُكَ السَّلَامَ , فَقَالَ: عَلَيْكَ السَّلَامُ وَعَلَى أَبِيكَ السَّلَامُ”.(سنن ابو داؤد۔ابواب السلام،باب فی الرجل یقول فلان یقرئک السلام۔حدیث نمبر٣٢٣١ )
حضرت غالب کہتے ہیں کہ ہم حضرت حسنؓ کے دروازے پر بیٹھے تھے اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا: میرے باپ نے میرے دادا سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: مجھے میرے والد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور کہا: ”آپ کے پاس جاؤ اور آپ کو میرا سلام کہو”میں آپ کے پاس گیا اور عرض کیا: میرے والد آپ کو سلام کہتے ہیں، آپ نے فرمایا:”تم پر اور تمہارے والد پر بھی سلام ہو”۔
غائبانہ سلام کاجواب اگر صرف وعلیہ السلام سے بھی دے دیاجائے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
عن عائشۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ,حَدَّثَتْهُ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا:” إِنَّ جِبْرِيلَ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلَامَ , فَقَالَتْ: وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ”.(سنن ابو داؤد۔ابواب السلام،باب فی الرجل یقول فلان یقرئک السلام۔حدیث نمبر٥٢٣٢ )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: جبرائیل تجھے سلام کہتے ہیں، تو انہوں نے کہا:وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ ان پر بھی سلام اور اللہ کی رحمت ہو۔


[…] سلام کی اہمیت اور اس کی تاکید […]