چھینکنے والے کاجواب دینا

 تحریر:مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

اہل ایمان کو ہر وقت اللہ کی تعریف اور اس کے شکر میں مشغول رہنا چاہئے اور اس کی بے پایاں رحمتوں کا استحضار ہمیشہ کرتے رہنا چاہئے۔نبی کریم ﷺ نے ہر بدلتے وقت کے لئے کوئی نہ کوئی دعا تعلیم فرمائی ہے۔ انسان کو جوبھی خوشی یاتکلیف پہنچتی ہے یا وہ جوبھی کام کرتاہے اس وقت اور حالت کے لئے نبی کریم ﷺ نے دعائیں تعلیم فرمائی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک دعا آپ ﷺ نے یہ تعلیم فرمائی کہ جب چھینک آئے تو چھینکنے والے کو الحمد للہ کہنا چاہئے۔ایک تو اس لئے کہ چھینکنے والے کو چھینکنے کے بعد ایک طرح کی راحت محسوس ہوتی ہے اس راحت کے احساس کے ساتھ ہی اللہ تعالی کا شکر اداکرنے کاطریقہ ہے کہ آدمی الحمد للہ کہے۔ دوسرے اس لئے کہ جس وقت آدمی کوچھینک آتی ہے اس وقت انسان اپنے اعضا پر بے اختیار ہوجاتاہے، رگیں بالکل تن جاتی ہیں اور عین اس وقت جب کہ چھینک آرہی ہو انسان ایک لمحہ کے لئے بے بس ہوجاتاہے وہ اس وقت کچھ نہیں کرسکتا ہے یہاں تک کے اگر اس کے ہاتھ میں کوئی چیز ہو تو چھینک آنے کے وقت بسااوقات وہ چیز اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے یا کوئی چھلکنے والی چیز مثلا پانی وغیرہ ہاتھ میں ہو تو وہ گرجاتی ہے، اسی طرح اس کے چہرے کی ہیئت بدل جاتی ہے۔ چھینک آنے کے معا ً بعد اللہ تعالیٰ اس کی پرانی حالت کو واپس کردیتے ہیں اس حالت و کیفیت کے واپس آنے پر اللہ کا شکر اداکرنا چاہئے جس کے لئے نبی کریم ﷺ  کی تعلیم یہ ہے کہ چھینکنے والا الحمد للّٰہ کہے۔  

مسلمان بہ حیثیت مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور بھائیوں کے درمیان ایک دوسرے سے متعلق بھلائی اور خیر خواہی کاجذبہ ہونا چاہئے۔ اسی جذبے کے تسلسل اور بقا کے لئے نبی کریم ﷺ کی یہ تعلیم ہے کہ جب چھینکنے والا الحمد للہ کہے تو سننے والا یرحمک اللہ کہے اور اس کی تاکید احادیث میں بکثر ت آئی ہے۔ یہاں تک کہ آپﷺ نے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق لازم رکھا ہے۔

عن علی رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لِلْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ بِالْمَعْرُوفِ: يُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ، وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ، وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ، وَيَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ، وَيَتْبَعُ جَنَازَتَهُ إِذَا مَاتَ، وَيُحِبُّ لَهُ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ “، (سنن ترمذی۔ کتاب الادب عن رسول اللہ ﷺ،باب  ما جاء فی تشمیت العاطس۔حدیث نمبر٢٧٣٦ )

حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حسن سلوک کے چھ عمومی حقوق ہیں، (۱) جب اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کرے، (۲) جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرے، (۳) جب اسے چھینک آئے تواس کی چھینک کا جواب دے، (۴) جب وہ بیمار پڑ جائے تو اس کی عیادت کرے، (۵)جب وہ مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ (قبرستان) جائے، (۶) اور اس کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو”۔

مذکور ہ بالاحدیث میں نبی کریم ﷺ نے چند اخلاقی حقوق بیان فرمایاہے جن کی ادائیگی آپسی اخوت و بھائی چارگی اور الفت و محبت کا باعث ہے۔ یہ حقوق دیکھنے میں معمولی لگتے ہیں لیکن ان کے اثرات اور فوائد بہت بڑے ہیں اور ان کی وجہ سے جذبہئ محبت کو جلا ملتی ہے۔اس لئے مسلمانوں کوچاہئے کہ ان مواقع کو ضائع نہ کریں۔

چھینکنے والے کو جواب جب کہ وہ الحمد للہ کہے

 نبی کریم ﷺ نے چھینکنے کے وقت جو مختلف الفاظ کے ساتھ دعائیں سکھائی ہیں ان میں سے کوئی بھی دعا پڑھی جاسکتی ہیں۔واضح رہے کہ چھینک کے جواب میں یَرْحَمُکَ اللّٰہُ اسی وقت کہا جائے گا جبکہ چھینکنے والا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہے اور اگر چھینکنے والا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ نہ کہے تو سننے والے پر بھی اس کاجواب دینا ضروری نہیں۔

عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعُطَاسَ وَيَكْرَهُ التَّثَاؤُبَ، فَإِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، فَحَقٌّ عَلَى كُلِّ مَنْ سَمِعَهُ أَنْ يَقُولَ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَأَمَّا التَّثَاؤُبُ فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرُدَّهُ مَا اسْتَطَاعَ وَلَا يَقُولَنَّ: هَاهْ هَاهْ فَإِنَّمَا ذَلِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ يَضْحَكُ مِنْهُ “، (سنن الترمذی۔ کتاب الادب عن رسول اللہ ﷺ۔باب ماجاء ان اللہ یحب العطاس و یکرہ التثاؤب۔حدیث نمبر٢٧٤٧ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند، پس جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہے تو ہر مسلمان پر حق ہے کہ جو اسے سنے یَرْحَمُکَ اللّٰہُ کہے۔ اب رہی جمائی کی بات تو جس کسی کو جمائی آئے، اسے چاہئے کہ وہ اپنی طاقت بھر اسے روکے اور ہاہ ہاہ نہ کہے، کیونکہ یہ شیطان کی طرف سے ہے، اور شیطان اس سے ہنستا ہے۔“

عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ أَنَّ رَجُلَيْنِ عَطَسَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” فَشَمَّتَ أَحَدَهُمَا، وَلَمْ يُشَمِّتِ الْآخَرَ “، فَقَالَ الَّذِي لَمْ يُشَمِّتْهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، شَمَّتَّ هَذَا وَلَمْ تُشَمِّتْنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَإِنَّكَ لَمْ تَحْمَدِ اللَّهَ “۔ (سنن الترمذی۔ کتاب الادب عن رسول اللہ ﷺ۔باب ماجاء فی ایجاب التشمیت بحمد العاطس۔حدیث نمبر٤٧٤٢ )

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمیوں کو چھینک آئی، آپ نے ایک کی چھینک پر  یَرْحَمُکَ اللّٰہُ کہہ کر دعا دی اور دوسرے کی چھینک کا آپ نے جواب نہیں دیا، تو جس کی چھینک کا آپ نے جواب نہ دیا تھا اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے اس کی چھینک پر یَرْحَمُکَ اللّٰہُکہہ کر دعا دی اور میری چھینک پر آپ نے مجھے یہ دعا نہیں دی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(چھینک آئی تو) اس نے اللہ کی حمد بیان کی اور (تجھے چھینک آئی تو) تم نے اس کی حمد نہ کی۔

حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کسی کو چھینک آئے تواَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ (تمام تعریفیں ہر حال میں اللہ کے لیے ہیں) کہے اور جو اس کا جواب دے وہ یَرْحَمُکَ اللّٰہُ کہے اور اس کے جواب میں چھینکنے والا کہے یَھْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ(اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت درست فرما دے)۔

عن  ابوایوب انصاری رضی اللہ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ، وَلْيَقُلِ الَّذِي يَرُدُّ عَلَيْهِ يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَلْيَقُلْ هُوَ يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ “، (سنن الترمذی۔ کتاب الادب عن رسول اللہ ﷺ۔باب ماجاء کیف تشمیت العاطس۔حدیث نمبر2741)

مسنون دعائیں باعث برکت

نبی کریم ﷺ نے جن مواقع میں جس طرح کی دعائیں سکھائی ہیں ان مواقع میں ان ہی الفاظ کے ساتھ دعائیں کرنا باعث برکت ہیں او ر ان پر اجرو ثواب بھی نبی کریم ﷺ  کے ارشاد کے موافق مرتب ہوگا۔ دیگر دعائیں اگر چہ لفظی اعتبار سے کتنے ہی بلیغ وفصیح کیوں نہ ہوں،مگر نبی کریم ﷺ  نے اس موقع کے لئے جو دعائیں جن الفاظ کے ساتھ سکھائی ہیں وہی باعث برکت ہیں۔

عن سالم بن عبید رضی اللہ عنہ أَنَّهُ كَانَ مَعَ الْقَوْمِ فِي سَفَرٍ فَعَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَقَالَ: عَلَيْكَ وَعَلَى أُمِّكَ، فَكَأَنَّ الرَّجُلَ وَجَدَ فِي نَفْسِهِ، فَقَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ أَقُلْ إِلَّا مَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عَلَيْكَ وَعَلَى أُمِّكَ، إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَلْيَقُلْ لَهُ مَنْ يَرُدُّ عَلَيْهِ يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَلْيَقُلْ يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ “، (سنن الترمذی۔ کتاب الادب عن رسول اللہ ﷺ۔باب   ماجاء کیف تشمیت العاطس۔حدیث نمبر٢٧٤٠ )

حضرت سالم بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ ایک سفر میں تھے، ان میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ (اس کے جواب میں) سالم رضی اللہ عنہ نے کہا: عَلَیْکَ وَعَلٰی اُمِّکَ (سلام ہے تم پر اور تمہاری ماں پر)، یہ بات اس شخص کو ناگوار معلوم ہوئی تو سالم نے کہا: بھئی میں نے تو وہی کہا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: عَلَیْکَ وَعَلٰی اُمِّکَ (تم پر اور تمہاری ماں پر بھی سلامتی ہو)۔ (آپ نے آگے فرمایا) جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو اسے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ کہنا چاہئے۔ اور جواب دینے والا یَرْحَمُکَ اللّٰہُ اور (چھینکنے والا) یَغْفِرُ اللّٰہُ لَنَا وَلَکُمْ کہے، (نہ کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہے)۔

عن نافع اَنَّ رَجُلًا عَطَسَ إِلَى جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ، قَالَ ابنُ عمر: وَأَنَا أَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ، وَلَيْسَ هَكَذَا عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَنَا، أَنْ نَقُولَ: ” الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ “، (سنن الترمذی۔ کتاب الادب عن رسول اللہ ﷺ۔باب مایقول العاطس اذا عطس۔حدیث نمبر٢٧٣٨ )

حضرت نافع کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسْوْلِ اللّٰہِ یعنی تمام تعریف اللہ کے لیے ہے اور سلام ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: کہنے کو تو میں بھی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسْوْلِ اللّٰہِ کہہ سکتا ہوں لیکن اس طرح کہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نہیں سکھلایا ہے۔ آپ نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم اَلْحَمْدُلِلّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی کُلِّ حَالٍ سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور ہر حال میں سلامتی ہو،کہیں۔

دیگر ادیان وملل والوں کے چھینک کاجواب

دیگر ادیان وملل کے ماننے والوں کے لئے مسلمانوں کی طرف سے سب سے بہتر ہدیہ، یہ ہے کہ ان کی ہدایت کی فکر کریں۔اسی لئے نبی کریم ﷺ کے پاس جب یہود چھینکتے تو آپ ﷺ ان کے لئے ہدایت کی دعا کیاکرتے تھے۔

حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے تو یہ امید لگا کر چھینکتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے رَحِمَکُمُ اللّٰہُ ”اللہ تم پر رحم کرے“ کہیں گے۔ مگر آپ (اس موقع پر صرف) یَھْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ”اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارا حال درست کر دے“ فرماتے تھے۔

عن ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ  قَالَ: ” كَانَ الْيَهُودُ يَتَعَاطَسُونَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَرْجُونَ أَنْ يَقُولَ لَهُمْ: ” يَرْحَمُكُمُ اللَّهُ، فَيَقُولُ: يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ ” (سنن الترمذی۔ کتاب الادب عن رسول اللہ ﷺ۔باب ماجاء کیف تشمیت العاطس۔حدیث نمبر٢٧٣٩ )

اتفاقی چھینک کاجواب واجب ہے

چھینکنے والے کو جواب اسی وقت تک دیاجائے گاجب کہ اتفاقی طور پر چھینک آئے زیادہ سے زیادہ تین بار اور اگر کسی کو نزلہ یازکام کی وجہ سے بار بار چھینک آرہی ہوتوباربار جواب دینا ضروری نہیں ہے۔

عن عبید بن رفاعہ رضی اللہ عنہ  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” يُشَمَّتُ الْعَاطِسُ ثَلَاثًا، فَإِنْ زَادَ فَإِنْ شِئْتَ فَشَمِّتْهُ وَإِنْ شِئْتَ فَلَا ” (سنن الترمذی۔ کتاب الادب عن رسول اللہ ﷺ۔باب ماجاء کم یشمت العاطس۔حدیث نمبر٢٧٤٤ )

حضرت عبید بن رفاعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”چھینکنے والے کی چھینک کا جواب تین بار دیا جائے گا، اور اگر تین بار سے زیادہ چھینکیں آئیں تو تمہیں اختیار ہے جی چاہے تو جواب دو اور جی چاہے تو نہ دو”۔

حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص کو چھینک آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یرحمک اللہ (اللہ تم پر رحم فرمائے) پھر اسے دوبارہ چھینک آئی تو آپ نے فرمایا: ”تجھے تو زکام ہو گیا ہے۔“

عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ لَهُ فِي الثَّالِثَةِ: ” أَنْتَ مَزْكُومٌ ” (سنن الترمذی۔ کتاب الادب عن رسول اللہ ﷺ۔باب ماجاء کم یشمت العاطس۔حدیث نمبر٢٧٤٣ )

چھینکتے وقت منھ پرکپڑا رکھ لینا چاہئے

چھینکنے والے کو چاہئے کہ جب چھینک آئے تو اپنے منھ پر کوئی کپڑا رکھ لئے یا ہاتھ رکھ لے تاکہ منھ سے نکلنے والے ذرات کسی دوسرے کے بدن پر نہ پڑیں۔بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ چھینکتے وقت ایسی آواز نکالتے ہیں کہ ان کی آواز آس پاس کے کئی مکانوں تک چلی جاتی ہے۔ اس طرح آواز نکالنے سے کبھی کبھی پاس میں بیٹھاہو ایاسویا ہواآدمی ڈر بھی جاتاہے۔ اس لئے چھینک آتے وقت اپنی آواز کو پست رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چھینک آتی تھی تو اپنے ہاتھ سے یا اپنے کپڑے سے منہ ڈھانپ لیتے اور اپنی آواز کو دھیمی کرتے۔

عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ  أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” كَانَ إِذَا عَطَسَ غَطَّى وَجْهَهُ بِيَدِهِ أَوْ بِثَوْبِهِ وَغَضَّ بِهَا صَوْتَهُ “، (سنن الترمذی۔ کتاب الادب عن رسول اللہ ﷺ۔باب ما جاء فی خفض الصوت وتخمیر الوجہ عند العطاس۔حدیث نمبر٢٧٤٥ )

چھینکنا اللہ کی جانب اور جمائی شیطان کی جانب سے

عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ   أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” الْعُطَاسُ مِنَ اللَّهِ، وَالتَّثَاؤُبُ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَضَعْ يَدَهُ عَلَى فِيهِ، وَإِذَا قَالَ: آهْ آهْ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَضْحَكُ مِنْ جَوْفِهِ، وَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعُطَاسَ وَيَكْرَهُ التَّثَاؤُبَ فَإِذَا قَالَ الرَّجُلُ: آهْ آهْ إِذَا تَثَاءَبَ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَضْحَكُ فِي جَوْفِهِ ” (سنن الترمذی۔ کتاب الادب عن رسول اللہ ﷺ۔باب ماجاء ان اللہ یحب العطاس و یکرہ التثاؤب۔حدیث نمبر٢٧٤٦ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”چھینکنا اللہ کی جانب سے ہے اور جمائی شیطان کی جانب سے ہے۔ جب کسی کو جمائی آئے تو اسے چاہئے کہ جمائی آتے وقت اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لے، اور جب جمائی لینے والا آہ آہ کرتا ہے تو شیطان جمائی لینے والے کے پیٹ میں گھس کر ہنستا ہے۔ اور بیشک اللہ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی لینے کو ناپسند کرتا ہے۔ تو (جان لو) کہ آدمی جب جمائی کے وقت آہ آہ کی آواز نکالتا ہے تو اس وقت شیطان اس کے پیٹ کے اندر گھس کر ہنستا ہے”۔

جمائی کو حتی الامکان روکنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر بے اختیار ہوجائے تو منھ پر ہاتھ رکھ لینا چاہئے اور آواز نہیں نکالنا چاہئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *