فسادی لوگوں سے دوری اختیار کرنا
تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
جس طرح خوشبو سے انسان کے دل کو فرحت حاصل ہوتی ہے اور دل و دماغ ایک طرح سے سکون محسوس کرتا ہے اوربدبو سے انسان کے ذہن ودماغ میں تعفن پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح اچھے اعمال کے اثرا ت اچھے پڑتے ہیں اور برے اعمال کے اثرات برے پڑتے ہیں۔ نیک لوگوں کی صحبت انسان کو نیکی کی طرف کھینچ کر لے جاتی ہے اور برے لوگوں کی صحبت انسان کو برائی کی طرف کھینچ کر لے جاتی ہے۔ اس لئے اہل ایمان کے لئے مناسب ہے کہ اپنے ایمان والے بھائیوں کے ساتھ رہیں تاکہ ایک دوسرے کے نور ایمانی سے انہیں فائدہ پہنچے۔ فتنہ فساد پیداکرنے والے لوگوں سے دور رہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے فتنہ پرور ذہن کے اثرات ان کے دل ودماغ پر حاوی ہوجائیں اور وہ بھی انہیں کی طرح حرکات کرنے لگیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ وَ مَاْوٰیھُمْ جَھَنَّمُ وَ بِئسَ الْمَصِیْرُ (توبہ۔٧٣ )
ترجمہ: اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد جاری رکھو اور ان پر سخت ہو جاؤ ان کی اصلی جگہ دوزخ ہے جو نہایت بدترین جگہ ہے۔
کفار ومنافقین کے ساتھ ہمدردی کاتقاضا یہ ہے کہ ان کے ہدایت کی فکر کرنی چاہئے اس لئے کہ وہ اپنی نادانی کی وجہ سے اپنے خالق حقیقی کو بھلاکر کفرو شرک کے اندھیروں میں پھنسے ہوئے ہیں ان کو ہدایت کی روشنی دکھانا اور اسلام کی طرف لانے کی تگ و دو کرنا ہی جہاد ہے اور اگر تمام تر کوششوں کے باوجود وہ ایمان نہ لائیں اور کفر وشرک کے اندھیروں میں رہنا ہی ان کو پسندیدہ ہو تو ان سے دوری اختیار کرنا ہی مومنوں کے ایمان کی حفاظت کے لئے ضروری ہے۔
اللہ کا دشمن کبھی بھی مومنوں کا خیرخواہ نہیں ہوسکتا
اللہ تعالیٰ نے اس ساری کائنات کوبنایا اوروہ اس کائنات کے ایک ذرے کی پرورش کرتاہے اور ہرذی روح کو اس کی ضرورت کے مطابق روزی پہنچاتاہے۔اللہ کی رحمت اس قدر عام ہے کہ دنیا کاکوئی بھی شخص اس کی رحمت سے محروم نہیں ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی شخص اللہ کی ربوبیت کااقرار نہیں کرتا اور اس کی نافرمانی میں اپنی زندگی گزارتاہے تو گویا وہ اللہ تعالیٰ کی دشمنی کو مول لیتاہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ کبھی بھی تمہارا خیر خواہ نہیں ہوسکتا وہ ہمیشہ تمہاری جڑ کھودنے کی فکر کرتارہے گا۔ اس لئے ان کی دوستی اور مصاحبت نقصان سے خالی نہیں ہے۔لہذا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ ارشاد ہے:
ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآءَ کُمْ مِّنَ الْحَقِّ یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِِیَّاکُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ رَبِّکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَآءَ مَرْضَاتِیْ تُسِرُّوْنَ اِِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَا اَخْفَیْتُمْ وَمَا اَعْلَنتُمْ وَمَنْ یَّفْعَلْہُ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ (ممتحنہ۔١ )
ترجمہ: اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں،رسول کو اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے جلاوطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو، اگر تم میری راہ میں جہاد کے لیے اور میری رضا مندی کی طلب میں نکلتے ہو(تو ان سے دوستیاں نہ کرو)، تم ان کے پاس محبت کا پیغام پوشیدہ پوشیدہ بھیجتے ہو اور مجھے خوب معلوم ہے جو تم نے چھپایا اور وہ بھی جو تم نے ظاہر کیا، تم میں سے جو بھی اس کام کو کرے گا وہ یقیناً راہ راست سے بہک جائے گا۔
اس آیت کریمہ کی شان نزول یہ ہے کہ حضرت حاطب ابن ابی بلتعہ ایک جلیل القدر صحابی ہیں جن سے ایک غلطی ہوگئی تھی۔ واقعہ یہ ہوا کہ حاطب رضی اللہ عنہ مہاجرین میں سے تھے بدر کی لڑائی میں بھی آپ نے مسلمانوں کے لشکر میں شرکت کی تھی ان کے بال بچے اور مال و دولت مکہ میں ہی تھے اور یہ خود قریشی نہ تھے۔ بلکہ قریش کے حلیف تھے اس وجہ سے مکہ میں انہیں امن حاصل تھا، اب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ شریف میں تھے جب اہل مکہ نے عہد توڑ دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر چڑھائی کرنا چاہی تو آپؐ کی خواہش یہ تھی کہ انہیں اچانک دبوچ لیں تاکہ خونریزی نہ ہونے پائے اور مکہ شریف پر قبضہ ہو جائے، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کی کہ باری تعالیٰ ہماری تیاری کی خبریں ہمارے پہنچنے تک اہل مکہ کو نہ پہنچیں، ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے اس موقعہ پر ایک خط اہل مکہ کے نام لکھا اور ایک قریشیہ عورت کے ہاتھ اسے چلتا کیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارادے اور مسلمانوں کی لشکر کشی کی خبر درج تھی، آپؓ کا ارادہ اس سے صرف یہ تھا کہ میرا کوئی احسان قریش پر رہ جائے جس کے باعث میرے بال بچے اور مال دولت محفوظ رہیں، چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہو چکی تھی ناممکن تھا کہ قریشیوں کو کسی ذریعہ سے بھی اس ارادے کا علم ہو جائے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پوشیدہ راز سے مطلع فرما دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے پیچھے اپنے سوار بھیجے راستہ میں اسے روکا گیا اور خط اس سے حاصل کر لیا گیا،جس کا پورا بیان احادیث کی کتابوں میں تفصیل سے آیا ہے ذیل میں بخاری شریف کی ایک روایت نقل کی جارہی ہے۔
عن علی رضی اللہ عنہ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَالزُّبَيْرَ , وَالْمِقْدَادَ، فَقَالَ:” انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً مَعَهَا كِتَابٌ فَخُذُوا مِنْهَا”، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا حَتَّى أَتَيْنَا الرَّوْضَةَ فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ قُلْنَا لَهَا: أَخْرِجِي الْكِتَابَ، قَالَتْ: مَا مَعِي كِتَابٌ، فَقُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ، قَالَ: فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا فِيهِ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى نَاسٍ بِمَكَّةَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” يَا حَاطِبُ، مَا هَذَا؟”، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ، إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ يَقُولُ: كُنْتُ حَلِيفًا وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا، وَكَانَ مَنْ مَعَكَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ مَنْ لَهُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ أَهْلِيهِمْ وَأَمْوَالَهُمْ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنَ النَّسَبِ فِيهِمْ أَنْ أَتَّخِذَ عِنْدَهُمْ يَدًا يَحْمُونَ قَرَابَتِي , وَلَمْ أَفْعَلْهُ ارْتِدَادًا عَنْ دِينِي وَلَا رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكُمْ”، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ:” إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَى مَنْ شَهِدَ بَدْرًا، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ السُّورَةَ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ إِلَى قَوْلِهِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ سورة الممتحنة آية 1(صحیح بخاری۔ کتاب المغازی، باب غزوۃ الفتح۔حدیث نمبر٤٢٧٤ )
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے، زبیر اور مقداد رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کیا اور ہدایت کی کہ (مکہ کے راستے پر) چلے جانا جب تم مقام روضہ خاخ پر پہنچو تو وہاں تمہیں ہودج میں ایک عورت ملے گی۔ وہ ایک خط لیے ہوئے ہے‘ تم اس سے وہ لے لینا۔ انہوں نے کہا کہ ہم روانہ ہوئے۔ ہمارے گھوڑے ہمیں تیزی کے ساتھ لیے جا رہے تھے۔ جب ہم روضہ خاخ پر پہنچے تو واقعی وہاں ہمیں ایک عورت ہودج میں سوار ملی۔ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ وہ کہنے لگی کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے لیکن جب ہم نے اس سے یہ کہا کہ اگر تو نے خود سے خط نکال کر ہمیں نہیں دیا تو ہم تیرا کپڑا اتار کر (تلاشی لیں گے) تب اس نے اپنی چوٹی میں سے وہ خط نکالا۔ ہم وہ خط لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس ہوئے۔ اس میں یہ لکھا تھا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کے نام!پھر انہوں نے اس میں مشرکین کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض بھیدوں کی خبر بھی دی تھی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اے حاطب! تو نے یہ کیا کیا؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے بارے میں فیصلہ کرنے میں آپ جلدی نہ فرمائیں‘ میں اس کی وجہ عرض کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ میں دوسرے مہاجرین کی طرح قریش کے خاندان سے نہیں ہوں‘ صرف ان کا حلیف بن کر ان سے جڑ گیا ہوں اور دوسرے مہاجرین کے وہاں عزیز و اقرباء ہیں جو ان کے گھر بار مال و اسباب کی نگرانی کرتے ہیں۔ میں نے چاہا کہ خیر جب میں خاندان کی رو سے ان کا شریک نہیں ہوں تو کچھ احسان ہی ان پر ایسا کر دوں جس کے خیال سے وہ میرے کنبہ والوں کو نہ ستائیں۔ میں نے یہ کام اپنے دین سے پھر کر نہیں کیا اور نہ اسلام لانے کے بعد میرے دل میں کفر کی حمایت کا جذبہ ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ واقعی اس نے تمہارے سامنے سچی بات کہہ دی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اجازت ہو تو میں اس منافق کی گردن اڑا دوں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ غزوہ بدر میں شریک رہے ہیں اور تمہیں کیا معلوم اللہ تعالیٰ جو غزوہ بدر میں شریک ہونے والوں کے کام سے واقف ہے سورہ الممتحنہ میں اس نے ان کے متعلق خود فرما دیا ہے کہ ”جو چاہو کرو میں نے تمہارے گناہ معاف کر دیئے“ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃ ”اے وہ لوگو جو ایمان لا چکے ہو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ کہ ان سے تم اپنی محبت کا اظہار کرتے رہو۔ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْل تک۔
اس آیت کریمہ میں یہ بات واضح طور پر بتائی گئی ہے کہ کفارومشرکین کے ساتھ کبھی دوستی نہ رکھو۔
بقائے امن کے لئے مشرکین سے صلح
مشرکین مکہ نے نبی کریم ﷺ اور آپ ؐ کے ماننے والوں کو اس قدر ستایا کہ آپ ﷺ کو اپنے اصحاب کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے لئے مجبور ہونا پڑا۔مدینہ جانے کے بعد بھی ان لوگوں نے مسلمانوں کو سکون کی زندگی نہیں گزارنے دیا اور بار بار مدینہ اور مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیاں کرتے رہے جس کے نتیجے میں غزوہ ئ بدر، احد، احزاب اور دیگر چھوٹی بڑی جنگیں ہوئیں۔ایک بار نبی کریم ﷺ نے مکہ والوں سے صلح کی جس کوہم صلح حدیبیہ کے نام سے جانتے ہیں۔سرسری نگاہ سے دیکھا جائے تو مسلمانوں نے بہت دب کر صلح کی تھی۔ تمام شرائط میں کفار ومشرکین کا پلہ ہی بھاری نظر آتاہے لیکن محض اس لئے کہ صلح کی وجہ سے پرامن ماحول نصیب ہوگا اور خون خرابہ سے بچیں گے آپ ﷺ نے صلح کرلیا۔ لیکن اس کاانجام بھی یہ ہوا کہ مشرکین نے اس صلح اور معاہدہ کو بھی توڑ دیا۔ امن و سکون کے بجائے فتنہ فساد کو پسند کیااور پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اہل مکہ پر فتح عطا فرمائی۔ صلح حدیبیہ کاواقعہ احادیث کی کتابوں میں تفصیل سے آیا ہے۔ ابوداؤد شریف کی ایک روایت ذیل میں نقل کی جارہی ہے۔
عن المسور بن مخرمۃ رضی اللہ عنہ قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِذِي الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْيَ وَأَشْعَرَهُ وَأَحْرَمَ بِالْعُمْرَةِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ قَالَ: وَسَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالثَّنِيَّةِ الَّتِي يُهْبِطُ عَلَيْهِمْ مِنْهَا بَرَكَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ فَقَالَ النَّاسُ: حَلْ حَلْ خَلَأَتِ الْقَصْوَاءُ مَرَّتَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَا خَلَأَتْ وَمَا ذَلِكَ لَهَا بِخُلُقٍ وَلَكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيلِ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَسْأَلُونِي الْيَوْمَ خُطَّةً يُعَظِّمُونَ بِهَا حُرُمَاتِ اللَّهِ إِلَّا أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا، ثُمَّ زَجَرَهَا فَوَثَبَتْ فَعَدَلَ عَنْهُمْ حَتَّى نَزَلَ بِأَقْصَى الْحُدَيْبِيَةِ عَلَى ثَمَدٍ قَلِيلِ الْمَاءِ، فَجَاءَهُ بُدَيْلُ بْنُ وَرْقَاءَ الْخُزَاعِيُّ، ثُمَّ أَتَاهُ يَعْنِي عُرْوَةَ بْنَ مَسْعُودٍ، فَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُلَّمَا كَلَّمَهُ أَخَذَ بِلِحْيَتِهِ والْمُغِيَرةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ السَّيْفُ، وَعَلَيْهِ الْمِغْفَرُ، فَضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ، وَقَالَ: أَخِّرْ يَدَكَ عَنْ لِحْيَتِهِ فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَهُ فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَقَالَ: أَيْ غُدَرُ أَوَلَسْتُ أَسْعَى فِي غَدْرَتِكَ، وَكَانَ الْمُغِيرَةُ صَحِبَ قَوْمًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَتَلَهُمْ وَأَخَذَ أَمْوَالَهُمْ، ثُمَّ جَاءَ فَأَسْلَمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” أَمَّا الْإِسْلَامُ فَقَدْ قَبِلْنَا، وَأَمَّا الْمَالُ فَإِنَّهُ مَالُ غَدْرٍ لَا حَاجَةَ لَنَا فِيهِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اكْتُبْ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، وَقَصَّ الْخَبَرَ فَقَالَ سُهَيْلٌ، وَعَلَى: أَنَّهُ لَا يَأْتِيكَ مِنَّا رَجُلٌ وَإِنْ كَانَ عَلَى دِينِكَ إِلَّا رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَضِيَّةِ الْكِتَابِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: قُومُوا فَانْحَرُوا، ثُمَّ احْلِقُوا، ثُمَّ جَاءَ نِسْوَةٌ مُؤْمِنَاتٌ مُهَاجِرَاتٌ الْآيَةَ، فَنَهَاهُمُ اللَّهُ أَنْ يَرُدُّوهُنَّ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَرُدُّوا الصَّدَاقَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ فَجَاءَهُ أَبُو بَصِيرٍ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ يَعْنِي فَأَرْسَلُوا فِي طَلَبِهِ فَدَفَعَهُ إِلَى الرَّجُلَيْنِ فَخَرَجَا بِهِ حَتَّى إِذْ بَلَغَا ذَا الْحُلَيْفَةِ نَزَلُوا يَأْكُلُونَ مِنْ تَمْرٍ لَهُمْ، فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ لِأَحَدِ الرَّجُلَيْنِ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَى سَيْفَكَ هَذَا يَا فُلَانُ جَيِّدًا، فَاسْتَلَّهُ الْآخَرُ فَقَالَ: أَجَلْ قَدْ جَرَّبْتُ بِهِ فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ: أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْهِ فَأَمْكَنَهُ مِنْهُ فَضَرَبَهُ حَتَّى بَرَدَ وَفَرَّ الْآخَرُ حَتَّى أَتَى الْمَدِينَةَ فَدَخَلَ الْمَسجِدَ يَعْدُو، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ رَأَى هَذَا ذُعْرًا فَقَالَ: قَدْ قُتِلَ وَاللَّهِ صَاحِبِي وَإِنِّي لَمَقْتُولٌ، فَجَاءَ أَبُو بَصِيرٍ فَقَالَ: قَدْ أَوْفَى اللَّهُ ذِمَّتَكَ فَقَدْ رَدَدْتَنِي إِلَيْهِمْ، ثُمَّ نَجَّانِي اللَّهُ مِنْهُمْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَيْلَ أُمِّهِ مِسْعَرَ حَرْبٍ لَوْ كَانَ لَهُ أَحَدٌ فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّهُ سَيَرُدُّهُ إِلَيْهِمْ، فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى سَيْفَ الْبَحْرِ وَيَنْفَلِتُ أَبُو جَنْدَلٍ، فَلَحِقَ بِأَبِي بَصِيرٍ حَتَّى اجْتَمَعَتْ مِنْهُمْ عِصَابَةٌ”.(سنن ابوداؤد۔کتاب الجہاد، باب صلح العدو۔حدیث نمبر٢٧٦٥ )
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے سال ایک ہزار سے زائد صحابہ کے ہمراہ نکلے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ پہنچے تو ہدی کو قلادہ پہنایا، اور اشعار کیا، اور عمرہ کا احرام باندھا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے: اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے یہاں تک کہ جب ثنیہ میں جہاں سے مکہ میں اترتے ہیں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آپ کو لے کر بیٹھ گئی، لوگوں نے کہا: ”حل حل“ قصواء اَڑ گئی، قصواء اَڑ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قصواء اَڑی نہیں اور نہ ہی اس کو اَڑنے کی عادت ہے، لیکن اس کو ہاتھی کے روکنے والے نے روک دیا ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے قریش جو چیز بھی مجھ سے طلب کریں گے جس میں اللہ کے حرمات کی تعظیم ہوتی ہو تو وہ میں ان کو دوں گا“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو ڈانٹ کر اٹھایا تو وہ اٹھی اور آپ ایک طرف ہوئے یہاں تک کہ میدان حدیبیہ کے آخری سرے پر ایک جگہ جہاں تھوڑا سا پانی تھا جا اترے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بدیل بن ورقاء خزاعی آیا، پھر وہ یعنی عروہ بن مسعود ثقفی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے گفتگو کرنے لگا، گفتگو میں عروہ باربار آپ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگاتا، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے، وہ تلوار لیے ہوئے اور زرہ پہنے ہوئے تھے، انہوں نے عروہ کے ہاتھ پر تلوار کی کاٹھی ماری اور کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی سے اپنا ہاتھ دور رکھ، تو عروہ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: مغیرہ بن شعبہ ہیں، اس پر عروہ نے کہا: اے بدعہد! کیا میں نے تیری عہد شکنی کی اصلاح میں سعی نہیں کی؟ اور وہ واقعہ یوں ہے کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے زمانہ جاہلیت میں چند لوگوں کو اپنے ساتھ لیا تھا، پھر ان کو قتل کیا اور ان کے مال لوٹے۔پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر مسلمان ہو گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہا اسلام تو ہم نے اسے قبول کیا اور رہا مال تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں“ اس کے بعد مسور رضی اللہ عنہ نے آخر تک حدیث بیان کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لکھو، یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصالحت کی ہے“، پھر پورا قصہ بیان کیا۔ سہیل نے کہا: اور اس بات پر بھی کہ جو کوئی قریش میں سے آپ کے پاس آئے گا گو وہ مسلمان ہو کر آیا ہو تو آپ اسے ہماری طرف واپس کر دیں گے، پھر جب آپ صلح نامہ لکھا کر فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: ”اٹھو اور اونٹ نحر (ذبح) کرو، پھر سر منڈا ڈالو“، پھر مکہ کی کچھ عورتیں مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس ہجرت کر کے آئیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو واپس کر دینے سے منع فرمایا اور حکم دیا کہ جو مہر ان کے کافر شوہروں نے انہیں دیا تھا انہیں واپس کر دیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس آئے تو ایک شخص قریش میں سے جس کا نام ابوبصیر تھا، آپ کے پاس مسلمان ہو کر آ گیا، قریش نے اس کو واپس لانے کے لیے دو آدمی بھیجے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر کو ان کے حوالہ کر دیا، وہ ابوبصیر کو ساتھ لے کر نکلے، جب وہ ذوالحلیفہ پہنچے تو اتر کر اپنی کھجوریں کھانے لگے، ابوبصیر نے ان دونوں میں سے ایک کی تلوار دیکھ کر کہا: اللہ کی قسم! تمہاری تلوار بہت ہی عمدہ ہے، اس نے میان سے نکال کر کہا: ہاں میں اس کو آزما چکا ہوں، ابوبصیر نے کہا: مجھے دکھاؤ ذرا میں بھی تو دیکھوں، اس قریشی نے اس تلوار کو ابوبصیر کے ہاتھ میں دے دی، تو انہوں نے (اسی تلوار سے) اسے مارا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا، (یہ دیکھ کر) دوسرا ساتھی بھاگ کھڑا ہوا یہاں تک کہ وہ مدینہ واپس آ گیا اور دوڑتے ہوئے مسجد میں جا گھسا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ڈر گیا ہے“، وہ بولا: قسم اللہ کی! میرا ساتھی مارا گیا اور میں بھی مارا جاؤں گا، اتنے میں ابوبصیر آ پہنچے اور بولے: اللہ کے رسول! آپ نے اپنا عہد پورا کیا، مجھے کافروں کے حوالہ کر دیا، پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تباہی ہو اس کی ماں کے لیے، عجب لڑائی کو بھڑکانے والا ہے، اگر اس کا کوئی ساتھی ہوتا“، ابوبصیر نے جب یہ سنا تو سمجھ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر انہیں ان کے حوالہ کر دیں گے، چنانچہ وہ وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اور سمندر کے کنارے پر آ گئے اور (ابوجندل جو صلح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے لیکن آپ نے انہیں واپس کر دیا تھا) کافروں کی قید سے اپنے آپ کو چھڑا کر ابوبصیر سے آ ملے یہاں تک کہ وہاں ان کی ایک جماعت بن گئی۔
بالآخر اہل مکہ نے اپنے راستے کو محفوظ کرنے کی غر ض سے خود ہی صلح کے اس شرط کو منسوخ کردیا کہ”اہل مکہ میں سے کوئی مسلمان ہو کر مدینہ جائے گا تو اسے واپس مکہ بھیج دیا جائے گا“لہذ ا نبی کریم ﷺ نے ابو بصیر اور ان کے ساتھیوں کو مدینہ بلالیا۔ لیکن مشرکین مکہ نے اس صلح کی میعادکو پورا نہیں ہونے دیا بلکہ یک طرفہ اس صلح کو ختم کردیا۔
یہود و نصاریٰ اور کفر سے محبت رکھنے والوں سے دوستی نہ رکھو
کفار ومشرکین کی اسی بد عہدی،وعدہ خلافی،فتنہ پروری اور مفسدانہ ذہنیت کے پیش نظر مسلمانوں کو باربار یہ حکم دیا گیاہے کہ انہیں تم اپنا دوست نہ بناؤ۔ایک جگہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ اگر تمہارے بھائی بہن اور آباء واجداد بھی ایمان کے بدلے کفر سے محبت رکھتے ہوں تو انہیں دوست نہ بناؤ۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَآءَ کُمْ وَ اِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ (٢٣ ۔توبہ)
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان سے زیادہ عزیز رکھیں۔ تم میں سے جو بھی ان سے محبت رکھے گا وہ پورا گنہگار ظالم ہے۔
لَا یَتَّخِذِ المُؤمِنُونَ الکٰفِرِینَ اَولِیَآءَ مِن دُونِ المُؤمِنِینَ وَ مَن یَّفعَل ذٰلِکَ فَلَیسَ مِنَ اللّٰہِ فِی شَیءٍ اِلَّآ اَن تَتَّقُوا مِنھُم تُقٰۃً وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفسَہٗ وَ اِلَی اللّٰہِ المَصِیرُ(٢٨ ۔آل عمران)
ترجمہ: مومنوں کو چاہئے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جوایسا کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی کسی حمایت میں نہیں مگر یہ کہ ان کے شر سے کسی طرح بچاؤ مقصود ہو اور اللہ تعالیٰ خود تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹ جانا ہے۔
یہودونصاریٰ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے کہ ان سے دوستی نہ کرو یہ تمہارے حق میں کبھی بھی مخلص نہیں ہوسکتے۔نبی کریم ﷺ جب مکہ سے ہجرت فرماکر مدینہ تشریف لے گئے تو آ پ ﷺ نے یہود مدینہ کے ساتھ مل کر آپس میں یہ معاہدہ کیا کہ مدینہ پر کوئی دشمن حملہ آور ہوگا تو ہم سب مل کر اپنے شہر کا دفاع کریں گے۔ تمام یہود مدینہ نے اس معاہدہ کوقبول کیا لیکن کبھی بھی ان لوگوں نے اس معاہدہ کی پاسداری نہیں کی اور ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہے۔اسلام دشمن عناصر کو انہوں نے ہمیشہ بڑھاوادینے کی کوشش کی۔بالآخر مجبور ہوکر نبی کریم ﷺ نے انہیں مدینہ سے جلاوطن کردیا۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ یہود ونصاریٰ سے دوستی کی امید نہ رکھو،یہ تمہارے دوست ہو ہی نہیں سکتے۔
یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَ النَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآءَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَ مَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(٥١ ۔مائدہ)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں کسی سے دوستی کرے وہ بیشک انہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا۔
سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ہدایت دی ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ لَا یَاْلُوْنَکُمْ خَبَالًاوَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ وَ مَا تُخْفِیْ صُدُوْرُھُمْ اَکْبَرُ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ (١١٨ )ھٰٓاَنْتُمْ اُولَآءِ تُحِبُّوْنَھُمْ وَ لَا یُحِبُّوْنَکُمْ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِالْکِتٰبِ کُلِّہٖ وَ اِذَا لَقُوْکُمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَ اِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (١١٩ )اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْھُمْ وَ اِنْ تُصِبْکُمْ سَیِّءَۃٌ یَّفْرَحُوْا بِھَا وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْءًا اِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ (١٢٠ ۔آل عمران)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اپنا دلی دوست ایمان والوں کے سوا اور کسی کو نہ بناؤ۔ (تم تو) نہیں دیکھتے دوسرے لوگ تمہاری تباہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے، وہ تو چاہتے ہیں کہ تم دکھ میں پڑو ان کی عداوت تو خود ان کی زبان سے بھی ظاہر ہو چکی ہے اور جو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ بہت زیادہ ہے، ہم نے تمہارے لئے آیتیں بیان کر دیں۔ اگر عقلمند ہو (تو غور کرو) ہاں تم تو انہیں چاہتے ہو اور وہ تم سے محبت نہیں رکھتے، تم پوری کتاب کو مانتے ہو، (وہ نہیں مانتے)یہ تمہارے سامنے تو اپنے ایمان کا اقرار کرتے ہیں لیکن تنہائی میں مارے غصہ کے انگلیاں چباتے ہیں کہہ دو کہ اپنے غصہ ہی میں مر جاؤ، اللہ تعالیٰ دلوں کے راز کو بخوبی جانتا ہے۔ تمہیں اگر بھلائی ملے تو یہ ناخوش ہوتے ہیں ہاں! اگر برائی پہنچے تو خوش ہوتے ہیں، تم اگر صبر کرو اور پرہیزگاری کرو تو ان کا مکر تمہیں کچھ نقصان نہ دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کا احاطہ کر رکھا ہے۔
بطانہ راز دار دوست کو کہتے ہیں۔ اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت دی ہے ایمان والوں کے علاوہ کسی اور کواپنا رازدار نہ بناؤ۔ اس لئے کہ وہ ہمیشہ تمہاری برائی کے بارے میں فکرمند رہتے اور تمہیں نقصان پہنچانے کی ترکیبیں سوچتے رہتے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے راز کی باتیں تمہارے جانی دشمنوں تک پہونچادیں اور تمہیں نقصان کاسامنا کرنا پڑے اور ایسے لوگ تمہارے راز دار کیسے ہوسکتے ہیں جوتمہاری تکلیف دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور تمہیں خوش دیکھ کر رنجیدہ ہوتے ہیں۔
ان آیات کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جولوگ زمین میں فتنہ فساد پیداکرنے والے ہیں وہ کبھی بھی ایمان والوں کے ساتھ مخلص نہیں ہوسکتے۔ اس لئے کہ وہ اپنے خالق حقیقی کی نافرمانی کرنے والے ہیں اور اہل ایمان اپنے خالق حقیقی کی فرماں برداری کرنے والے اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ یہ دونوں الگ الگ گروہ ہیں جن کے راستے متضاد ہیں۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ جو اللہ کی دشمنی میں بضد ہیں ان کے ساتھ تم دوستی نہ رکھو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی اللہ کی نافرمانی والے راستے پر چل پڑو۔اس لئے کہ اسلام ایک نور ہے اور کفر ایک ظلمت ہے اور نور وظلمت کبھی ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔
عن جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً إِلَى خَثْعَمٍ فَاعْتَصَمَ نَاسٌ مِنْهُمْ بِالسُّجُودِ فَأَسْرَعَ فِيهِمُ الْقَتْلَ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ لَهُمْ بِنِصْفِ الْعَقْلِ وَقَالَ:” أَنَا بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ يُقِيمُ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُشْرِكِينَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ؟ قَالَ: لَا تَرَاءَى نَارَاهُمَا”(سنن ابو داؤد۔کتاب الجہاد،باب النہی عن القتل،من اعتصم بالسجود۔حدیث نمبر٢٦٤٥ )
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ خثعم کی جانب ایک سریہ بھیجا تو ان کے کچھ لوگوں نے سجدہ کر کے بچنا چاہا پھر بھی لوگوں نے انہیں قتل کرنے میں جلد بازی کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی تو آپ نے ان کے لیے نصف دیت کا حکم دیا اور فرمایا: ”میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے“، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دونوں کی (یعنی اسلام اور کفر کی) آگ ایک ساتھ نہیں رہ سکتی۔
جو لوگ اہل ایمان کو چھوڑ کر دوسرے لوگوں کو اپنا دوست بناتے ہیں اور ان کے طریقوں کو اختیار کرتے ہیں ان کے ساتھ رہتے ہیں ان کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتاہے۔
عن سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ أَمَّا بَعْدُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَنْ جَامَعَ المُشْرِكَ، وَسَكَنَ مَعَهُ فَإِنَّهُ مِثْلُهُ”. (سنن ابوداؤد۔ کتاب الجہاد، باب فی الاقامۃ بارض الشرک۔حدیث نمبر٢٧٨٧ )
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اما بعد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مشرک کے ساتھ میل جول رکھے اور اس کے ساتھ رہے تو وہ اسی کے مثل ہے۔
مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ رہتے رہتے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بھی انہیں کے دین کو اختیار کرلے۔
واضح رہے کہ معاشرت سے متعلق نبی کریم ﷺ کے ارشادات بے حد واضح، مشفقانہ اوررحیمانہ ہیں۔ مشرکین و کفار سے دوری بنانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ہر وقت ان کی جان کے دشمن بنے رہیں۔ بلکہ اگر وہ ہمارے آس پاس رہتے ہیں تو انسانی تقاضے سے ہم ان کے ساتھ بھی ہمدردی کا برتاؤ کریں اور اگر ضرورت پڑے تو ان کی مدد بھی کرتے رہیں اگر وہ ہمارے یہاں پہنچیں تو ان کی میزبانی بھی سنت سے ثابت ہے ان کے ساتھ مہمانوں والا برتاؤ کریں اور اگر اتفاق سے ہمارے والدین حالت کفر میں ہیں تو ان کے ساتھ بدتمیزی کے ساتھ پیش نہ آئیں بلکہ اسلامی شعار کی اگر مخالفت نہیں ہوتی ہے تو ان کی ضروریات پوری کریں اور ان کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔
نبی کریم ﷺ کی سیرت اور صحابہئ کرام کی حیات طیبات میں ایسے واقعات کثرت سے موجود ہ ہیں کہ ایمان والوں کے علاوہ دوسرے فرقہ کے لوگوں کے ساتھ بھی نبی کریم ﷺاور آپﷺ کے اصحاب نے نرمی اور حسن اخلاق کامظاہر کیا ہے۔
انسانی رشتہ سے ہر ملت اور ہر قوم ومذہب کے ماننے والے ہمارے یہاں انسانی ہمدردی لائق ہیں اور ضرورت کے وقت ہمیں ان کی مدد اور حاجت روائی کرنی چاہئے۔ سفریاحضر میں جہاں بھی دوسرے مذاہب کے ماننے و الوں سے سابقہ پڑے تو ان کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا نبی کریمؐ کی سنت اور اسلامی تعلیمات کاحصہ ہے۔