پڑوسی کااکرام کرنا
تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
انسانی زندگی اشتراک کی محتاج ہے۔ تمدن اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ سب سے الگ ہٹ کر یا سب سے کٹ کر اپنی زندگی گزارے۔ بلکہ ہرانسان ایک دوسرے کا محتاج ہے۔ سب کی ضرورتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ خونی اور نسبی رشتہ داریاں ہیں، دوستانہ مراسم ہیں۔ انسان کے ساتھ جتنی رشتہ داریاں جڑی ہوئی ہیں ان میں ہر ایک کی اپنی الگ متقاضیات اور الگ ضروریات ہیں انسان ان تمام حقو ق کواداکرکے خود بھی پرسکون زندگی گذار سکتاہے اور اپنے معاشرے کو بھی ایک پرسکون ماحول فراہم کرسکتاہے۔ انسانی زندگی میں جتنے تعلقات سے سابقہ پڑتاہے ان میں پڑوسی کاتعلق بہت اہم ہے وہ ہر وقت ہمارے قریب رہنے والا ہے اس لئے پڑوسیوں کی ایک دوسرے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لئے ان کے حقوق بھی بہت زیادہ ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے پڑوسیوں کے حقوق نہایت اہمیت، تاکید اور تفصیل سے بیان فرمایاہے اور ان حقوق کواداکرنے کی بارہا تاکید فرمائی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بھی جابجا پڑوسیوں کے حقوق کی پاسداری کا حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْءًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ وَ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَ (نساء۔(٣٦ )
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک واحسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے تم مالک ہو، یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسند نہیں کرتا۔
اسلام ایک ایسا مذہب ہے جوپوری انسانیت کے لئے ہدایت کاسرچشمہ او ررہنمائی کاذریعہ ہے۔ اسلام میں صرف اللہ تعالیٰ کے حقوق ہی نہیں بتائے گئے بلکہ بندوں کے حقوق بھی بالتفصیل بیان کئے گئے ہیں۔ اسی طرح اسلام دیگرمذاہب کی طرح رہبانیت کی تعلیم نہیں دیتابلکہ انسانی معاشرہ میں رہ کر اللہ کی عبادت کرنے کی تعلیم دیتاہے اور انسانوں کے ساتھ رہ کر ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی ہر ایک پرلازم کرتاہے۔ ماں باپ کے حقوق اولاد پر بھائی بہنوں کے حقوق ایک دوسرے پر اسی طرح رشتہ داروں کے حقوق یہاں تک کہ جانوروں کے حقوق بھی بیان کئے گئے ہیں حقوق العباد کی فہرست میں پڑوسیوں کے حقوق کی کافی اہمیت ہے اس لئے اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے حکم سے ساتھ ساتھ والدین، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، پڑوسیو ں، مسافروں او ر غلاموں کے حقوق اداکرنے کا حکم دیا ہے۔ ان میں ہر ایک حق ایک مستقل موضوع ہے اور تفصیل کے ساتھ ان کے حقوق نبی کریم ﷺ نے بیان فرمائے ہیں۔ یہاں پڑوسیوں کے حقوق سے متعلق تفصیلات بیان کی جائیں گی۔
ہمسائیگی کاحق اداکرنا ایمان کا حصہ
پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک ایمان کاجز ہے جوشخص ہمسائیگی کے حقوق جتنے بہتر طریقے سے ا دا کرے گااس کے ایمان میں اتناہی کمال پید اہوگا۔ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنا جس طرح ایک مومن کے لئے نہایت ضروری ہے اسی طرح پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔
عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ”.(صحیح بخاری۔ کتاب الادب۔ب بَابُ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلاَ يُؤْذِ جَارَهُ ۔حدیث نمبر٦٠١٨ )
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔“
جس طرح انسان کے بدن سے کپڑے لگے ہوتے ہیں اور ان کپڑوں کی وجہ سے انسان کابدن سرد وگرم ہواؤں سے محفوظ رہتاہے۔اس کے ذریعہ انسان اپنی پردہ پوشی کرتاہے اور انہیں کپڑوں سے انسان زیب و زینت اختیار کرتاہے۔ اسی طرح پڑوسی ہمیشہ ساتھ رہنے والاہے اس کے ساتھ ہمارا معاملہ درست رہا تو ہمارے دکھ درد میں کام آنے والاہے اور اگرمعاملات درست نہیں رہے تو صرف ایک پڑوسی کی وجہ سے انسان کی زندگی اجیرن بن جائے گی۔ اسی لئے حضرت جبریل ؑ بار بار نبی کریم ﷺ کوپڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کیاکرتے تھے اور اتنی کثرت سے کرتے تھے کہ آپؐکویہ گمان ہونے لگا کہ شاید آگے چل کر پڑوسی کو میراث میں حصہ دے دیا جائے۔
عن عائشۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ، حَتَّى قُلْتُ لَيُوَرِّثَنَّهُ”“۔(سنن ابوداؤد۔ کتاب الادب۔باب فِي حَقِّ الْجِوَار۔۔ ِحدیث نمبر ٥١٥١ )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبریلؑ مجھے برابر پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین اور وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں گمان کرنے لگا کہ وہ ضرور اسے وارث بنا دیں گے۔
انسان کواپنے آس پاس رہنے والے جن لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اگر ان سے تعلقات بہتر ہوں توزندگی بڑی خوشگوار ہوجاتی ہے۔ انسانی آبادی میں آدمی کو گھریلو زندگی کے باہر سب سے زیادہ پڑوسی سے سابقہ پڑتاہے اس لئے اس کے ساتھ حسن سلوک اور بہتر تعلقات سکون و راحت کا سبب ہے۔ اس لئے راحت و سکون کی تلاش میں دربدر بھٹکنے کے بجائے اپنے پڑوسیوں سے بہتر تعلقات رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
عن عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” خَيْرُ الْأَصْحَابِ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرُهُمْ لِصَاحِبِهِ، وَخَيْرُ الْجِيرَانِ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرُهُمْ لِجَارِهِ ۔( ۔(سنن ترمذی۔کتاب البر والصلۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء فی حق الجوار) حدیث نمبر١٩٤٤ )
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہماکہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ کے نزدیک سب سے بہتر دوست وہ ہے جو لوگوں میں اپنے دوست کے لیے بہتر ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے بہتر پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہتر ہے”۔
پڑوسیوں کے ساتھ احسان کرنا اور ان کو ہدایا بھیجنا
جو پڑوسی زیادہ قریب ہو اس کا حق اتناہی زیادہ ہے۔احسان اور ہدایابھیجنے میں قریب والے پڑوسی کو ترجیح دینی چاہئے۔
عن عائشۃ رضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قُلْتُ:” يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي جَارَيْنِ بِأَيِّهِمَا أَبْدَأُ؟ قَالَ: بِأَدْنَاهُمَا بَابًا” (سنن ابوداؤد۔ کتاب الادب۔باب فی حق الجوارحدیث نمبر٥١٥٥ )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے دو پڑوسی ہیں، میں ان دونوں میں سے پہلے کس کے ساتھ احسان کروں؟ آپ نے فرمایا:”ان دونوں میں سے جس کا دروازہ قریب ہو اس کے ساتھ”۔
پڑوسیوں کے یہاں وقتا فوقتاہدایا اور تحائف بھیجتے رہنا چاہئے۔نیز خاص خاص مواقع پر انہیں نہیں بھولنا چاہئے۔کھانے پینے کی کوئی اچھی چیز بنائیں تو اس میں پڑوسیوں کا حصہ بھی لگانا چاہئے۔
عن عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما أَنَّهُ ذَبَحَ شَاةً، فَقَالَ: أَهْدَيْتُمْ لِجَارِي الْيَهُودِيِّ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ، حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ”.(سنن ابوداؤد۔ کتاب الادب۔باب فی حق الجوار۔حدیث نمبر٥١٥٢ )
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے ایک بکری ذبح کی تو (گھر والوں) سے کہا: کیا تم لوگوں نے میرے یہودی پڑوسی کو ہدیہ بھیجا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے: جبرائیل مجھے برابر پڑوسی، کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرماتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان گزرا کہ وہ اسے وارث بنا دیں گے”۔
ہر انسان کو اپنے پڑوسی کی مدد کی برابر ضرورت پڑتی ہے۔ اس لئے کسی پڑوسی کوکوئی ضرورت پیش آجائے تو اس کی مدد سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے اور نہ ہی اس کے کسی کام میں رخنہ اندازی پیداکرنے کی کوشش کرنی چاہئے اسی طرح اس بات کا خیال بھی رہناچاہئے کہ ہمارے کسی عمل سے پڑوسی کوکوئی تکلیف نہ پہنچے۔ اس لئے کہ پڑوسیوں کو خوش رکھنا کمال ایمان کی علامت ہے اور پڑوسیوں کوتکلیف دینا نقص ایمان کی علامت ہے۔
أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ” قِيلَ: وَمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:” الَّذِي لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَايِقَهُ” (صحیح بخاری۔کتاب الادب،باب اثم من لایامن جارہ بوایقہ۔حدیث نمبر٦٠١٦ )
حضرت ابوشریح رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔ واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔ واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔ عرض کیا گیا کون: یا رسول اللہ؟ فرمایا وہ جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔”
پڑوسی اگر کسی وقت آپ کی زمین کااستعمال کررہاہے جیسے وقتی طور پرکوئی سامان رکھنے کی ضرورت پیش آجائے یا آپ کی دیوار میں کھونٹی وغیرہ ٹھونکنے کی نوبت آجائے۔جس سے آپ کوکوئی نقصان بھی نہیں ہے تو خوشدلی سے اس کی اجازت دینی چاہئے۔
عن ابی ھریرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” لَا يَمْنَعْ جَارٌ جَارَهُ أَنْ يَغْرِزَ خَشَبَهُ فِي جِدَارِهِ”، ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: مَا لِي أَرَاكُمْ عَنْهَا مُعْرِضِينَ، وَاللَّهِ لَأَرْمِيَنَّ بِهَا بَيْنَ أَكْتَافِكُمْ. (صحیح بخاری۔کتاب المظالم والغصب،باب لایمنع جار جارہ ان یغرز خشبہ فی جدارہ۔حدیث نمبر٢٤٦٣ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے نہ روکے۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے، یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں اس سے منہ پھیرنے والا پاتا ہوں۔ اللہ کی قسم! اس کھونٹی کو تمہارے کندھوں کے درمیان گاڑ دوں گا۔
پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کرنا چاہئے اور لوگوں کے لعن طعن سے بچنے کی کوشش کرنا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم پڑوسی کے حق کو ضائع کر کے دوسرے لوگوں کی لعنت کے مستحق بن جائیں۔اور اگر کوئی پڑوسی واقعی پریشان کرتا ہے تو صبر سے کام لینا چاہئے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اپنے پڑوسی کی شکایت کر رہا تھا، آپ نے فرمایا: ”جاؤ صبر کرو“ پھر وہ آپ کے پاس دوسری یا تیسری دفعہ آیا، تو آپ نے فرمایا: ”جاؤ اپنا سامان نکال کر راستے میں ڈھیر کر دو“ تو اس نے اپنا سامان نکال کر راستہ میں ڈال دیا، لوگ اس سے وجہ پوچھنے لگے اور وہ پڑوسی کے متعلق لوگوں کو بتانے لگا، لوگ (سن کر) اس پر لعنت کرنے اور اسے بد دعا دینے لگے کہ اللہ اس کے ساتھ ایسا کرے، ایسا کرے، اس پر اس کا پڑوسی آیا اور کہنے لگا: اب آپ (گھر میں) واپس آ جائیے آئندہ مجھ سے کوئی ایسی بات نہ دیکھیں گے جو آپ کو ناپسند ہو۔
عن ابی ھریرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:” جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْكُو جَارَهُ، فَقَالَ: اذْهَبْ فَاصْبِرْ , فَأَتَاهُ مَرَّتَيْنِ، أَوْ ثَلَاثًا، فَقَالَ: اذْهَبْ فَاطْرَحْ مَتَاعَكَ فِي الطَّرِيقِ , فَطَرَحَ مَتَاعَهُ فِي الطَّرِيقِ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَسْأَلُونَهُ فَيُخْبِرُهُمْ خَبَرَهُ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَلْعَنُونَهُ فَعَلَ اللَّهُ بِهِ وَفَعَلَ وَفَعَلَ فَجَاءَ إِلَيْهِ جَارُهُ، فَقَالَ لَهُ: ارْجِعْ لَا تَرَى مِنِّي شَيْئًا تَكْرَهُهُ”. (سنن ابوداؤد۔ کتاب الادب۔باب فی حق الجوار۔حدیث نمبر ٥١٥٣ )
پڑوسیوں کے حقوق اسلام میں بہت تاکید کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔ اہل ایمان کو چاہئے کہ اپنے پڑوس کاخیال رکھیں، اگر پڑوسی بیمار پڑجائے تو اس کی عیادت کرنی چاہئے۔ اگر وہ ضرورتمند ہوتو اس کی ضرورت پوری کرنی چاہئے۔ اگر وہ بھوکا ہو تو اس کے کھانے پینے کاانتظام کرنا چاہئے۔ اگر وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہا ہے تو اس کی حفاظت کاانتظام کرنا چاہئے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر وہ گمراہی کی طرف جارہاہو تو اس کی ھدایت کی فکر کرنی چاہئے۔
ایمان کا تقاضا ہے کہ اپنے پڑوسیوں کو خوش رکھیں یہ کمال ایمان کی علامت ہے اور جولوگ پڑوسیوں کو تکلیف پہونچاتے ہیں ان کاایمان کامل نہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کا پڑوسی جنت میں جانے سے رکاوٹ بن جائے۔
عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ، مَنْ لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ ” (صحیح مسلم ۔کتاب الایمان،باب بیان تحریم ایذاء الجار۔حدیث نمبر١٧٢ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کا ہمسایہ اس کے فساد سے محفوظ نہیں۔”
اہل ایمان کوچاہئے کہ جوچیز اپنے لئے پسند کرتے ہیں وہی اپنے پڑوسی کے لئے بھی پسند کریں اور جو چیزاپنے لئے ناپسند کرتے ہیں وہ اپنے پڑوسی کے لئے بھی ناپسند کریں۔