مہمان کااکرام کرنا
تحریر:مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
دنیاکی تمام قوموں میں مہمان نوازی کاشعار رہا ہے اور مہمانوں کو خوش آمدید کہنا، ان کااستقبال کرناہر قوم وملت کاشیوہ ہے۔دنیا کے ہر علاقے میں لوگ اپنے یہاں آنے والے مہمانوں کا اعزاز واکرام اور ان کا پرتپاک استقبال کرتے ہیں اور اپنی حیثیت سے بڑھ چڑھ کر ان کی خدمت سر انجام دیتے ہیں۔دنیا کی تمام مہذب قومیں مہمان کی خدمت کو اپنے لئے باعث توقیر اور ان کی ذلت اپنے لئے باعث توہین سمجھتی ہیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ وعلیٰ نبینا الصلوۃ والسلام کی ضیافت کا بیان فرمایا ہے۔
ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِِبْرٰہِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ (٢٤ )اِِذْ دَخَلُوْا عَلَیْہِ فَقَالُوْا سَلاَمًا قَالَ سَلاَمٌ قَوْمٌ مُّنکَرُوْنَ (٢٥ ) فَرَاغَ اِِلٰی اَہْلِہٖ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍ (٢٦ )فَقَرَّبَہٗٓ اِِلَیْہِمْ قَالَ اَلاَ تَاْکُلُوْنَ (٢٧ ) فَاَوْجَسَ مِنْہُمْ خِیْفَۃً قَالُوْا لاَ تَخَفْ وَبَشَّرُوْہُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ (٢٨ ۔ذاریات)
ترجمہ: کیا آپ کے پاس ابراہیمؑ کے معزز مہمانوں کی بات آئی ہے؟ جب وہ اس پر داخل ہوئے تو انھوں نے سلام کہا۔ اس نے کہا سلام ہو، کچھ اجنبی لوگ ہیں۔ پس چپکے سے اپنے گھر والوں کی طرف گئے، پس (بھناہوا) موٹا تازہ بچھڑا لے آئے۔ پھر اسے ان کے قریب کیا کہا کیاتم نہیں کھاتے؟ تو اس نے ان سے دل میں خوف محسوس کیا، انھوں نے کہا مت ڈر! اور انھوں نے اسے ایک بہت علم والے لڑکے کی خوش خبری دی۔
میزبانی کے آداب
ابراہیم علیہ السلام کے اس واقعہ سے میزبانی کے آداب پرروشنی پڑتی ہے۔اول یہ کہ مہمانوں نے جب انہیں سلام کیا تو آپؑ نے بھی ان کے سلام کاجواب دیا۔دوسرے یہ کہ یہ مہمان اجنبی تھے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان سے زیادہ سوال وجواب نہیں کیا کہ آپ کون لوگ ہیں کہاں سے آئے ہیں۔ اس لئے کہ کبھی کبھی مہمان کو کثرت سوال سے تکلیف ہوتی ہے نیز اس میں ایک طرح سے غیریت کا شائبہ بھی پایاجاتاہے۔تیسرے یہ کہ مہمانوں کو بٹھاتے ہی آپؑ چپکے سے گھر میں جاکر ان کی ضیافت کے انتظا م میں لگ گئے اور جلد ی جلدی جواچھا انتظام ہوسکا اس کو لے کر فوراً حاضر ہوئے۔چوتھے یہ کہ کھانا سیدھا ان کے سامنے ہی لاکر رکھا تاکہ انہیں کہیں آنے جانے کی تکلیف نہ ہو بلکہ جہاں بیٹھے ہیں وہیں کھانا تناول کرلیں۔پانچویں یہ کہ انہیں یہ نہیں کہا کہ کھائیے بلکہ نہایت ادب سے گویا ہوئے کہ آپ حضرات کھاتے کیوں نہیں۔یہ سب مہمان نوازی کے اعلیٰ صفات ہیں جو ہر میزبان کو اختیار کرنا چاہئے اور مہمان کے آرام وراحت کاخیال رکھنا چاہئے اور جو کچھ میسر ہو اسے فوراحاضر کرنا چاہئے۔
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی مہمان نوازی کے آداب سکھائے ہیں اور ایمان والوں کو مہمان نوازی کے آداب وضوابط کاپابند بنایا ہے اور مہمان کی عزت و توقیر کو ایمان کالازمہ قرار دیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس پر لازم ہے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے، جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس پر لازم ہے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس پر لازم ہے کہ بھلی بات کہے ورنہ چپ رہے۔“
عن حضرت ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ”. (صحیح بخاری۔کتاب الادب، باب اکرام الضیف وخدمتہ ایاہ بنفسہ حدیث نمبر٦١٣٦ )
انصار مدینہ کی ضیافت مثالی
ضیافت کے اسی جذبہ کے تحت انصار مدینہ نے مہاجرین صحابہ کرام کے ساتھ میزبانی کے وہ حیرت انگیز نمونے چھوڑے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔انہوں نے مہاجرین کواپنے مکانوں میں ٹھیرایا اپنی زمینوں میں سے انہیں حصہ دیا یہاں تک کہ بعض حضرات نے یہ بھی پیش کش کردی کہ ہماری بیویوں میں سے جوتمہیں پسند ہوں انہیں ہم طلاق دیدیتے ہیں تم ان سے نکاح کرلو۔ بخاری شریف میں حضرت سعد ابن ربیع ؓاور حضرت عبد الرحمن ابن عوفؓ کاواقعہ درج ہے:
لَمَّا قَدِمُوا الْمَدِينَةَ آخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَسَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ، قَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ: إِنِّي أَكْثَرُ الْأَنْصَارِ مَالًا فَأَقْسِمُ مَالِي نِصْفَيْنِ وَلِي امْرَأَتَانِ فَانْظُرْ أَعْجَبَهُمَا إِلَيْكَ فَسَمِّهَا لِي أُطَلِّقْهَا فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا فَتَزَوَّجْهَا، قَالَ: بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ , أَيْنَ سُوقُكُمْ؟ فَدَلُّوهُ عَلَى سُوقِ بَنِي قَيْنُقَاعَ فَمَا انْقَلَبَ إِلَّا وَمَعَهُ فَضْلٌ مِنْ أَقِطٍ وَسَمْنٍ ثُمَّ تَابَعَ الْغُدُوَّ , ثُمَّ جَاءَ يَوْمًا وَبِهِ أَثَرُ صُفْرَةٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَهْيَمْ”، قَالَ: تَزَوَّجْتُ، قَالَ: كَمْ سُقْتَ إِلَيْهَا، قَالَ: نَوَاةً مِنْ ذَهَبٍ أَوْ وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ. شَكَّ إِبْرَاهِيمُ”.(صحیح بخاری۔ کتاب مناقب الانصار،باب اخاء النبی ﷺ بین المہاجرین والانصار حدیث نمبر٣٧٨٠ )
جب مہاجرین مدینہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور سعد بن ربیعؓ کے درمیان بھائی چارہ کرا دیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں انصار میں سب سے زیادہ دولت مند ہوں اس لیے آپ میرا آدھا مال لے لیں اور میری دو بیویاں ہیں آپ انہیں دیکھ لیں جو آپ کو پسند ہو اس کے متعلق مجھے بتائیں میں اسے طلاق دے دوں گا۔ عدت گزرنے کے بعد آپ اس سے نکاح کر لیں۔ اس پر عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تمہارے اہل اور مال میں برکت عطا فرمائے تمہارا بازار کدھر ہے؟ چنانچہ میں نے بنی قینقاع کا بازار انہیں بتا دیا، جب وہاں سے کچھ تجارت کر کے لوٹے تو ان کے ساتھ کچھ پنیر اور گھی تھا پھر وہ اسی طرح روزانہ صبح سویرے بازار میں چلے جاتے اور تجارت کرتے آخر ایک دن خدمت نبوی میں آئے تو ان کے جسم پر (خوشبو کی) زردی کا نشان تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کیا ہے انہوں نے بتایا کہ میں نے شادی کر لی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مہر کتنا ادا کیا ہے؟ عرض کیا کہ سونے کی ایک گٹھلی یا (یہ کہا کہ) ایک گٹھلی کے وزن برابر سونا ادا کیا ہے۔
انصار مدینہ عام طور سے کاشتکار تھے اور کھجوروں کی کھیتی کیاکرتے تھے۔یہی ان کاذریعہئ معاش تھا۔ جب مہاجرین مدینہ آئے تو بالکل خالی ہاتھ تھے انہوں نے اپناسارا اثاثہ مکہ میں چھوڑ دیا تھااس لئے وہ فی الحال تہی دست تھے۔ انصار نے اپنے طور پرنبی کریم ؐ سے درخواست کی ہمارے کھجوروں کے باغات مہاجرین میں تقسیم کردئے جائیں تاکہ ان کے گزر بسر کا بھی انتظام ہوجائے لیکن نبی کریم ؐ نے اس کو قبول نہیں فرمایا تو انصار نے دوسری پیشکش کی کہ ہمارے باغات میں آپ لوگ کام کیاکریں اورمنافع میں ہمارے شریک ہوجائیں۔اس بات پرمہاجرین راضی ہوگئے اور ان کے شریکِ کار ہوکر بھائیوں کی طرح رہنے لگے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انصار نے کہا: یا رسول اللہ! کھجور کے باغات ہمارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم فرما دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایسا نہیں کروں گا اس پر انصار نے (مہاجرین سے) کہا پھر آپ ایسا کر لیں کہ کام ہماری طرف سے آپ انجام دیا کریں اور کھجوروں میں آپ ہمارے ساتھی ہو جائیں۔ مہاجرین نے کہا ہم نے آپ لوگوں کی یہ بات سنی اور ہم ایسا ہی کریں گے۔
عن ابی ھریرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَتْ الْأَنْصَارُ: اقْسِمْ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ النَّخْلَ، قَالَ:” لَا”، قَالَ:” يَكْفُونَا الْمَئُونَةَ وَتشْرِكُونَا فِي التَّمْرِ”، قَالُوا: سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا”. (صحیح بخاری۔ کتاب مناقب الانصار،باب اخاء النبی ﷺ بین المہاجرین والانصار حدیث نمبر٣٧٨٢ )
مذکورہ بالا دونوں حدیثوں میں ہمارے لئے تعلیم ہے کہ ایک طرف میزبان کو چاہئے کہ اپنے مہمان کے سامنے اپناسب کچھ لاکر حاضر کردے اوراپنی ملکیت کی ہرچیز میں مہمان کو تصرف کاحق دیدے اوردوسری طرف مہمان کے لئے یہ تعلیم ہے کہ میزبان کے سامانوں میں بقدر ضرورت ہی تصرف کرے، یہ نہیں کہ موقع مل گیاتو میزبان کے مال سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔
مہمان کی ضیافت کرو مومن ہو یا غیر مومن
مہمان کی ضیافت ایمانی صفات میں سے ہے۔مہمان کی ضیافت برکت ورحمت کاسبب ہے۔ اہل ایمان کو مہمانوں کی ضیافت کا حکم دیا گیا ہے اور نبی کریم ﷺ کی عادت شریفہ مہمانوں کی ضیافت کرنے کی تھی۔آپﷺ کے دروازے پر جوبھی مہمان آتا آپ ﷺ اس کی ضیافت کیاکرتے تھے۔ چاہے وہ مہمان ایمان والا ہوتایا غیرمومن۔
عن ابی ھریرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” ضَافَهُ ضَيْفٌ كَافِرٌ فَأَمَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَاةٍ فَحُلِبَتْ فَشَرِبَ، ثُمَّ أُخْرَى فَشَرِبَهُ، ثُمَّ أُخْرَى فَشَرِبَهُ حَتَّى شَرِبَ حِلَابَ سَبْعِ شِيَاهٍ، ثُمَّ أَصْبَحَ مِنَ الْغَدِ فَأَسْلَمَ، فَأَمَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَاةٍ فَحُلِبَتْ فَشَرِبَ حِلَابَهَا، ثُمَّ أَمَرَ لَهُ بِأُخْرَى فَلَمْ يَسْتَتِمَّهَا “، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” الْمُؤْمِنُ يَشْرَبُ فِي مَعْيٍ وَاحِدٍ، وَالْكَافِرُ يَشْرَبُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ “(سنن ترمذی۔ کتاب الاطعمۃ عن رسول اللہ ﷺ۔ باب مَا جَاءَ أَنَّ الْمُؤْمِنَ يَأْكُلُ فِي مِعًى وَاحِدٍ وَالْكَافِرَ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ۔حدیث نمبر ١٨١٩ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک کافر مہمان آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا، بکری دو ہی گئی، وہ دودھ پی گیا، پھر دوسری دو ہی گئی، اس کو بھی پی گیا، اس طرح وہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا، پھر کل صبح ہو کر وہ اسلام لے آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے ایک بکری (دوہنے کا) حکم دیا، وہ دو ہی گئی، وہ اس کا دودھ پی گیا، پھر آپ نے دوسری کا حکم دیا تو وہ اس کا پورا دودھ نہ پی سکا، (اس پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مومن ایک آنت میں پیتا ہے اور کافر سات آنتوں میں پیتا ہے”۔
نبی کریم ﷺ کااخلاق ملاحظہ کیجئے کہ ایک مہمان کے لئے جو آپ کے دین میں داخل نہیں تھا اس کی ضیافت کس قدر خوشدلی سے فرمائی جس سے متاثر ہوکر وہ اگلے دن اسلام لے آیا۔
مہمان اللہ کی رحمت کی صورت میں آتاہے۔ اس لئے میزبان کو اس کی خاطر داری میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھنی چاہئے اپنی وسعت کے بقدر اس کی ضیافت کرنے سے گریز نہیں کرنی چاہئے۔ ایک طرف میزبان کویہ حکم ہے کہ وہ مہمان کی خاطرداری میں کمی نہ کرے اور دوسری طرف مہمان کویہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ میزبان کے یہاں اتنے دنوں تک قیام نہ کرے کہ وہ تنگ آجائے۔اسی طرح میزبان کے یہاں طرح طرح کی فرمائشیں بھی مہمان کو نہیں کرنی چاہے بلکہ میزبان اپنی خوشدلی سے جوکچھ لا حاضر کرے اس کوقبول کرلینا چاہئے۔
مہمانی صرف تین دن
عن ابی شریح کعبی رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ جَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ وَالضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، فَمَا بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ، وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَثْوِيَ عِنْدَهُ حَتَّى يُحْرِجَهُ”. (صحیح بخاری۔ کتاب الادب۔ باب اکرام الضیف وخدمتہ ایاہ بنفسہ۔ حدیث نمبر٦١٣٥ )
حضرت ابوشریح کعبی رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنا چاہئے۔ اس کی خاطر داری بس ایک دن اور رات کی ہے مہمانی تین دن اور راتوں کی، اس کے بعد جو ہو وہ صدقہ ہے اور مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے پاس اتنے دن ٹھہر جائے کہ اسے تنگ کر ڈالے۔”
اگر میزبان کی خواہش ہوکہ آپ زیادہ دنوں تک مہمان رہیں اور وہ اس پرضد کرے تومہمان کو ٹھہرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اصل مقصود یہ ہے کہ میزبان کی طرف سے مہمان کے لئے دل تنگی بھی نہیں ہونی چاہئے اورمہمان کی طرف سے بھی کوئی ایسا اقدام نہیں ہونا چاہئے کہ میزبان کسی پریشانی میں مبتلا ہوجائے۔مہمان کی خاطرداری اور اس کی ضیافت کرنا، اس کے کھانے پینے کااور آرام کاخیال رکھنا اللہ تعالیٰ کو بیحد پسند ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو مومنوں کے ممتاز صفات میں شمار کیاہے۔
صحابہ کرام کی مثالی ضیافت
صحابۂ کرام مہمان نوازی میں ایک خاص امتیازرکھتے تھے ویسے تو عربوں کی میزبانی زمانۂ جاہلیت میں بھی کافی مشہور تھی۔ ان کے یہاں اگردشمن بھی مہمان بن کرآجاتاتو اس کی خاطر مدارات میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کرتے تھے۔ لیکن اسلام لانے کے بعد اس جذبہ میں اور زیادہ اخلاص پیدا ہوگیا۔صحابۂ کرام کے ابتدائی حالات کچھ ایسے تھے کہ ظاہری اسباب ان کے پاس بالکل نہیں تھے۔ فاقے پر فاقہ ہواکرتاتھاخود نبی کریمؐ کے گھر کی حالت یہ تھی کہ مہینوں گھر میں چولھا نہیں جلتاتھا بس کھجور اور پانی پر گذارا ہواکرتاتھا اورکبھی وہ بھی میسر نہیں ہوتاتھا لیکن ایسے حالات میں بھی دروازے پرکوئی مہمان آجاتا توکسی نہ کسی طرح اس کے کھانے پینے کاانتظام کیاجاتاتھا۔
عن ابی ھریرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَعَثَ إِلَى نِسَائِهِ، فَقُلْنَ: مَا مَعَنَا إِلَّا الْمَاءُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَنْ يَضُمُّ أَوْ يُضِيفُ هَذَا”، فَقَالَ: رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ أَنَا فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى امْرَأَتِهِ، فَقَالَ: أَكْرِمِي ضَيْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: مَا عِنْدَنَا إِلَّا قُوتُ صِبْيَانِي، فَقَالَ: هَيِّئِي طَعَامَكِ وَأَصْبِحِي سِرَاجَكِ وَنَوِّمِي صِبْيَانَكِ إِذَا أَرَادُوا عَشَاءً , فَهَيَّأَتْ طَعَامَهَا وَأَصْبَحَتْ سِرَاجَهَا وَنَوَّمَتْ صِبْيَانَهَا، ثُمَّ قَامَتْ كَأَنَّهَا تُصْلِحُ سِرَاجَهَا فَأَطْفَأَتْهُ , فَجَعَلَا يُرِيَانِهِ أَنَّهُمَا يَأْكُلَانِ فَبَاتَا طَاوِيَيْنِ , فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:” ضَحِكَ اللَّهُ اللَّيْلَةَ أَوْ عَجِبَ مِنْ فَعَالِكُمَا” , فَأَنْزَلَ اللَّهُ: وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ سورة الحشر آية ٩ .(صحیح بخاری۔ کتاب مناقب الانصار۔باب وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ۔ حدیث نمبر٣٧٩٨ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھوکے حاضر ہوئے، آپ نے انہیں ازواج مطہرات کے یہاں بھیجا۔ (تاکہ ان کو کھانا کھلا دیں) ازواج مطہرات نے کہلا بھیجا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی کون مہمانی کرے گا؟ ایک انصاری صحابی بولے میں کروں گا۔ چنانچہ وہ ان کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر تواضع کر، بیوی نے کہا کہ گھر میں بچوں کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز بھی نہیں ہے، انہوں نے کہا جو کچھ بھی ہے اسے نکال دو اور چراغ جلا لو اور بچے اگر کھانا مانگتے ہیں تو انہیں سلا دو۔ بیوی نے کھانا نکال دیا اور چراغ جلا دیا اور اپنے بچوں کو (بھوکا) سلا دیا، پھر وہ دکھا تو یہ رہی تھیں جیسے چراغ درست کر رہی ہوں لیکن انہوں نے اسے بجھا دیا، اس کے بعد دونوں میاں بیوی مہمان پر ظاہر کرنے لگے کہ گویا وہ بھی ان کے ساتھ کھا رہے ہیں، لیکن ان دونوں نے (اپنے بچوں سمیت رات) فاقہ سے گزار دی، صبح کے وقت جب وہ صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں میاں بیوی کے نیک عمل پر رات کو اللہ تعالیٰ ہنس پڑا یا (یہ فرمایا کہ اسے) پسند کیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَّمَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْن”اور وہ (انصار) ترجیح دیتے ہیں اپنے نفسوں کے اوپر(دوسروں کو) اگرچہ وہ خود بھی فاقہ ہی میں ہوں اور جو اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا گیا سو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔”
ابتدائے اسلام میں یہ حکم تھاکہ جب کوئی کسی کے یہاں مہمان بن کر جائے اور وہ مہمانی نہ کرے تو مہمان کو یہ حق تھاکہ کھانے پینے کی حدتک اپنا حق زبردستی وصول کرلے۔ لیکن اب یہ حکم نہیں رہا بلکہ میزبان کے ذمہ اخلاقی فرض ہے کہ وہ مہمان کی میزبانی اپنی وسعت کے بقدر کرے اور نبی کریم ﷺ کی سنت ہے کہ مہمان نوازی سے منھ نہ موڑے۔
عن عقبۃ بن عامر رضی اللہ عنہ أَنَّهُ قَالَ: قُلْنَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكَ تَبْعَثُنَا فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ , فَلَا يَقْرُونَا فَمَا تَرَى فِي ذَلِكَ , قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ , فَأَمَرُوا لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِي لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوا , وَإِنْ لَمْ يَفْعَلُوا , فَخُذُوا مِنْهُمْ حَقَّ الضَّيْفِ الَّذِي يَنْبَغِي لَهُمْ”. (سنن ابن ماجہ۔کتاب الادب۔باب حق الضیف۔ حدیث نمبر٣٦٧٦ )
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: آپ ہم کو لوگوں کے پاس بھیجتے ہیں اور ہم ان کے پاس اترتے ہیں تو وہ ہماری مہمان نوازی نہیں کرتے، ایسی صورت میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ”جب تم کسی قوم کے پاس اترو اور وہ تمہارے لیے ان چیزوں کے لینے کا حکم دیں جو مہمان کو درکار ہوتی ہیں، تو انہیں لے لو اور اگر نہ دیں تو اپنی مہمان نوازی کا حق جو ان کے لیے مناسب ہو ان سے وصول کر لو”
مہمان نواز ی کواخلاق حسنہ میں بہت اونچا مقام حاصل ہے، مہمان کی آمد اللہ کی رحمت کے نزول کاسبب ہے۔ برکت کاذریعہ ہے اس لئے مسلمانوں کومہمان کی خاطرداری میں پس وپیش نہیں کرنی چاہئے بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق مہمان کی عزت افزائی اور اس کے ساتھ بہتر سلوک کرناچاہئے۔