غیرت وحمیت

تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

غیرت کے معنی حمیت، لحاظ اورشرم وحیاکے ہیں۔انسان کی وہ خاصیت جو اپنی بے عزتی کو برداشت نہ کرسکے اسے غیرت سے تعبیرکرتے ہیں۔ ہرانسان کے اندرفطری طور پر غیرت کاجذبہ پایا جاتاہے۔زمانہ جاہلیت میں غیرت کے غلط رجحانات پائے جاتے تھے جن میں سے ایک یہ بھی تھاکہ لوگ کسی کواپنا داماد بنانا پسند نہیں کرتے تھے اور اسی غیرت کے جذبہ کی وجہ سے اپنی بچیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے۔اپنے خاندانی عزت وناموس کی حفاظت کے لئے خون کی ندیاں بہادینے کو تیار رہتے تھے۔اسلام نے اس طرح کے رجحانات کو ختم کرکے غیر ت کوایک صحیح راہ دی اور یہ بتایا کہ غیرت یہ ہے کہ انسان شرم وحیا کی پاسداری کرے اور اپنی عزت وناموس کو بے شرمی کے حوالے نہ کرے۔اپنے اہل وعیال اور بیویو ں کو شرم وحیا کے زیور سے آراستہ کرکے ان کی عزت وعصمت کی حفاظت کاسامان پیدا کرے۔غیرت مند بندہ اللہ کو بہت زیادہ پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ خود غیر ت مند ہیں اور غیرت مندی کو پسند کرتے ہیں۔اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بے حیائی کے کاموں اور فواحش کو حرام فرمایا ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

 عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ اللَّهَ يَغَارُ وَإِنَّ الْمُؤْمِنَ يَغَارُ وَغَيْرَةُ اللَّهِ أَنْ يَأْتِيَ الْمُؤْمِنُ مَا حَرَّمَ عَلَيْهِ “.(صحیح مسلم۔کتاب التوبہ،باب غیرۃ اللہ تعالیٰ وتحریم الفواحش۔حدیث نمبر۔٦٩٩٥ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ غیرت کرتا ہے اور مومن بھی غیرت کرتا ہے اور اللہ کو اس میں غیرت آتی ہے کہ مومن وہ کام کرے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس پر حرام کیا۔

عن اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا  أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ” لَيْسَ شَيْءٌ أَغْيَرَ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ “،(صحیح مسلم۔کتاب التوبہ،باب غیرۃ اللہ تعالیٰ وتحریم الفواحش۔حدیث نمبر٦٩٩٦ )

حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت مند کوئی نہیں۔“

تمام مخلوقات اللہ تبارک وتعالیٰ کی عیال ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا، ان کی ضرورتوں کی تمام چیزیں مہیا فرمائیں اور چیزوں کو برتنے اور استعمال کرنے کا طریقہ بھی بتادیا۔ جو چیزیں بے حیائی کے قبیل سے تھیں ان سے بچنے کا حکم دیا اور شرم وحیا کو اختیار کرنے کی تلقین فرمائی۔اللہ تعالیٰ کی غیر ت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اس کا کوئی بندہ یا بندی محرمات کے قریب جائے اور شرم وحیا کو نیلام کرے۔

عن عائشۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، مَا أَحَدٌ أَغْيَرَ مِنَ اللَّهِ أَنْ يَرَى عَبْدَهُ أَوْ أَمَتَهُ تَزْنِي، يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا” (صحیح بخاری کتاب النکاح، باب الغیرۃ۔حدیث نمبر٥٢٢١ )

حضرت عائشہ ؓنے بیان کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے امت محمد! اللہ سے بڑھ کر غیرت مند اور کوئی نہیں کہ وہ اپنے بندے یا بندی کو زنا کرتے ہوئے دیکھے۔ اے امت محمدؐ! اگر تمہیں وہ معلوم ہوتا جو مجھے معلوم ہے تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔

اپنے اہل وعیال کی عزت و ناموس کی حفاظت

انسان کو جتنا اپنی عزت کا پاس ولحاظ رہتا ہے اتناہی اپنے اہل وعیال کی عزت کا بھی خیال رہتاہے۔یہ انسانی فطرت ہے کہ اگر کو ئی شخص اس کی عزت کوپامال کرنے کی کوشش کرتاہے تو آدمی اپنی جان پر کھیل جاتاہے لیکن اپنے ناموس کی حفاظت کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتاہے۔ اسی طرح اگر اپنے اہل وعیال میں سے کوئی اگر خود ہی اپنی عزت و ناموس کو اپنے ہاتھوں ہی برباد کر نے پر تل جائے تو اگر وہ بیوی ہے تو خاوند کو اور اگر بیٹا بیٹی ہے تو والدین کو غیرت آنالازمی ہے اور ایک شریف آدمی اس کو اپنی ہتک عزت سمجھتا ہے۔ اس کے لئے وہ کسی بھی حد سے گزر سکتاہے۔ایک عورت کے لئے یہ غیرت کا مقام ہے کہ اس کا شوہر کسی فحش کام میں مبتلا ہو اسی طرح ایک مرد کی غیرت بھی اس وقت جاگ جاتی ہے جب وہ کسی غیر مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھ لے اور اس غیرت کی وجہ سے ممکن ہے کہ وہ جذبات سے مغلوب ہوکر اپنی بیوی کو یا اس مرد کو یا دونوں کو قتل کر بیٹھے۔لیکن اصولی بات یہ ہے کہ ایسے مواقع پر اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہئے اور اسلام نے اس کے لئے قانونی چارہ جوئی کے جو طریقے بیان کئے،ان کا استعمال کرکے اسے سزادلوانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ایسے مواقع پر غیرت کاجاگ جانا ایک فطری چیز ہے اور جس کی غیرت اس موقع پر بھی نہ جاگے وہ دیوث ہے۔ذیل کی حدیث میں نبی کریم ﷺ نے اس غیرت کو سراہا ہے۔

قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ:” لَوْ رَأَيْتُ رَجُلًا مَعَ امْرَأَتِي لَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ غَيْرَ مُصْفَحٍ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَيْرَةِ سَعْدٍ؟ وَاللَّهِ لَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ، وَاللَّهُ أَغْيَرُ مِنِّي، وَمِنْ أَجْلِ غَيْرَةِ اللَّهِ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَلَا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْعُذْرُ مِنَ اللَّهِ وَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ بَعَثَ الْمُبَشِّرِينَ وَالْمُنْذِرِينَ، وَلَا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْمِدْحَةُ مِنَ اللَّهِ وَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ وَعَدَ اللَّهُ الْجَنَّةَ”،  (صحیح بخاری۔ کتاب التوحید،باب قول النبی ﷺ  لاشخص اغیر من اللہ۔حدیث نمبر٧٤١٦ ) 

حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھوں تو سیدھی تلوار سے اس کی گردن مار دوں پھر یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہیں سعد کی غیرت پر حیرت ہے؟ بلاشبہ میں ان سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہیں اور اللہ نے غیرت ہی کی وجہ سے فواحش کو حرام کیا ہے۔ چاہے وہ ظاہر میں ہوں یا چھپ کر اور معذرت اللہ سے زیادہ کسی کو پسند نہیں، اسی لیے اس نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے بھیجے اور تعریف اللہ سے زیادہ کسی کو پسند نہیں، اسی وجہ سے اس نے جنت کا وعدہ کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ غیور ہیں اور غیرت کو پسند کرتے ہیں لیکن ہر غیرت محبوب ہو ایسا کوئی ضروری نہیں ہے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ آدمی بلا وجہ غیرت میں آجاتاہے اور کوئی غلط فیصلہ کر بیٹھتاہے۔جیسے کسی نے کسی کی بیوی کے متعلق کوئی فحش بات کا اظہار کیا یا اس کے ناجائز تعلقات کا تذکرہ کیا تو اب عقلمند آدمی کا کام یہ ہے کہ پہلے اس معاملے کی تحقیق کرے اور یہ جاننے کی کوشش کرے کہ واقعی جو الزام یا تہمت میری بیوی سے متعلق لگائی جارہی ہے وہ سچ ہے یا کسی سازش کا نتیجہ۔ اگر تحقیق سے یہ بات سچ ثابت ہوجاتی ہے تو اس مقام پر غیرت کاآنا پسندیدہ ہے اور اگر غلط ثابت ہوجائے جو خواہ مخواہ غیرت میں مبتلا ہونا اللہ کو ناپسند ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بعض غیرت اللہ کو پسند ہے اور بعض ناپسند، جو غیرت اللہ کو پسند ہے وہ یہ ہے کہ شک و تہمت کے مقام میں غیرت کرے اور جو غیرت ناپسند ہے وہ غیر تہمت و شک کے مقام میں غیرت کرنا ہے۔”

عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مِنَ الْغَيْرَةِ مَا يُحِبُّ اللَّهُ، وَمِنْهَا مَا يَكْرَهُ اللَّهُ، فَأَمَّا مَا يُحِبُّ، فَالْغَيْرَةُ فِي الرِّيبَةِ، وَأَمَّا مَا يَكْرَهُ، فَالْغَيْرَةُ فِي غَيْرِ رِيبَةٍ”.سنن ابن ماجہ۔کتاب النکاح، باب الغیرۃ۔حدیث نمبر۔١٩٩٦ )

عورتوں پر تہمت لگانے والوں کو تنبیہ

انسان اپنی عزت کوبچانے کے لئے طرح طرح کے جتن کرتاہے۔مدتوں کی محنت اور کاوش کے نتیجے میں ایک انسان کو معاشرے میں عزت کا مقام نصیب ہوتاہے اور جب اس پر کسی طرح کی تہمت لگادی جائے تو برسوں کی محنت پر منٹوں میں پانی پھرجاتاہے۔ اسی لئے عورتوں پر الزام اور تہمت لگانے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جب تک مکمل گواہی ان کے پاس موجود نہ ہو، کسی بھی عورت پرتہمت نہ لگائیں ورنہ اگر ان کایہ الزام ثابت نہ ہو ا تو الٹا وہ خود ہی سزا کے مستحق ہوں گے۔قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:

وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَاءَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَۃً وَّلاَ تَقْبَلُوْا لَھُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا وَّاُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ (٤ )اِِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا فَاِِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ (٥ )وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُمْ شُہَدَاءُ اِِلَّا اَنفُسُہُمْ فَشَہَادَۃُ اَحَدِھِمْ اَرْبَعُ شَہَادَاتٍ بِاللّٰہِ اِِنَّہٗ لَمِنْ الصَّادِقِیْنَ (٦ )وَالْخَامِسَۃُ اَنَّ لَعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَیْہِ اِِنْ کَانَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ (٧ )وَیَدْرَاُ عَنْہَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْہَدَ اَرْبَعَ شَہَادَاتٍ بِاللّٰہِ اِِنَّہٗ لَمِنَ الْکَاذِبِیْنَ (٨ )وَالْخَامِسَۃَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰہِ عَلَیْہَا اِِنْ کَانَ مِنْ الصَّادِقِیْنَ (٩ ) وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ وَاَنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ حَکِیْمٌ (١٠ ۔سورہ نور)

ترجمہ:        جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کرسکیں تو انہیں اسّی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں۔ ہاں جو لوگ اس کے بعد توبہ اور اصلاح کرلیں تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے۔جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لائیں اور ان کا کوئی گواہ بجز خود ان کی ذات کے نہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ و ہ سچوں میں سے ہیں اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو اور اس عورت سے سزا اس طرح دور ہوسکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یقیناً اس کا مرد جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے۔ اور پانچویں دفعہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہو اگر اس کا خاوند سچوں میں سے ہو۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تم پر نہ ہوتا (تو تم پر مشقت اترتی) اور اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا باحکمت ہے۔

عام حالات میں کسی بھی مقدمہ کہ لئے محض دوگواہوں کاہوناضروری ہے لیکن عزت و ناموس کی اہمیت اس قدر ہے کہ اگر کسی کے عزت و ناموس کو متہم کیا جائے تو اس کے لئے چار گواہوں کاہونا ضروری ہے اور اگر چار گواہی نہیں پیش کی جاسکتی اور لعان کے ذریعہ بھی تہمت ثابت نہ ہوسکی تو تہمت لگانے والے کودوہری سزا کا مستحق گردانا گیا ہے ایک تو جسمانی سزاہے کہ اسے اسّی کوڑے لگائے جائیں اور دوسری اخلاقی سزاکہ اس کو ہمیشہ کے لئے صفت عدل سے خارج کردیا جائے گااور آئندہ کسی بھی معاملہ میں اس کی گواہی معتبر نہیں مانی جائے گی۔ تاکہ آئندہ کسی اور شخص کی عزت وناموس کووہ اپنا نشانہ نہ بناسکے۔جولوگ اس طرح کاکام کرتے ہیں اور پاکدامن عورتوں پر بے جا الزامات عائد کرتے ہیں وہ دنیا وآخرت میں لعنت کے مستحق ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلاَتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (٢٣ )یَوْمَ تَشْہَدُ عَلَیْہِمْ اَلْسِنَتُہُمْ وَاَیْدِیْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (٢٤ )یَوْمَءِذٍ یُّوَفِّیھِمْ اللّٰہُ دِیْنَھُمُ الْحَقَّ وَیَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْحَقُّ الْمُبِیْنُ (٢٥ ۔نور)

ترجمہ:        بے شک وہ لوگ جو پاک دامن، بے خبر مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں لعنت کیے گئے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے خلاف اس کی شہادت دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔ اس دن اللہ انھیں ان کا صحیح بدلہ پورا پورا دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ہی حق ہے، جو ظاہر کرنے والا ہے۔

جومقامات شک و شبہ کے ہیں وہاں پر غیرت جائز ہے اور جہاں شک کا اثبات نہیں ہوسکا تو وہاں غیرت کرنا اللہ کو ناپسند ہے۔

عن جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ  أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ:” مِنَ الْغَيْرَةِ مَا يُحِبُّ اللَّهُ وَمِنْهَا مَا يُبْغِضُ اللَّهُ، فَأَمَّا الَّتِي يُحِبُّهَا اللَّهُ فَالْغَيْرَةُ فِي الرِّيبَةِ وَأَمَّا الْغَيْرَةُ الَّتِي يُبْغِضُهَا اللَّهُ فَالْغَيْرَةُ فِي غَيْرِ رِيبَةٍ وَإِنَّ مِنَ الْخُيَلَاءِ مَا يُبْغِضُ اللَّهُ وَمِنْهَا مَا يُحِبُّ اللَّهُ، فَأَمَّا الْخُيَلَاءُ الَّتِي يُحِبُّ اللَّهُ فَاخْتِيَالُ الرَّجُلِ نَفْسَهُ عِنْدَ الْقِتَالِ وَاخْتِيَالُهُ عِنْدَ الصَّدَقَةِ وَأَمَّا الَّتِي يُبْغِضُ اللَّهُ فَاخْتِيَالُهُ فِي الْبَغْيِ” (سنن ابوداؤد۔کتاب الجہاد، باب الخُیلاء فی الحرب۔حدیث نمبر٢٦٥٩ )

حضرت جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”ایک غیرت وہ ہے جسے اللہ پسند کرتا ہے، اور دوسری غیرت وہ ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے، رہی وہ غیرت جسے اللہ پسند کرتا ہے تو وہ شک کے مقامات میں غیرت کرنا ہے، رہی وہ غیرت جسے اللہ ناپسند کرتا ہے وہ شک کے علاوہ میں غیرت کرنا ہے، اور تکبر میں سے ایک وہ ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے اور دوسرا وہ ہے جسے اللہ پسند کرتا ہے، پس وہ تکبر جسے اللہ پسند کرتا ہے وہ لڑائی کے دوران آدمی کا کافروں سے جہاد کرتے وقت تکبر کرنا اور اِترانا ہے، اور صدقہ دیتے وقت اس کا خوشی سے اِترانا ہے، اور وہ تکبر جسے اللہ ناپسند کرتا ہے وہ ظلم میں تکبر کرنا ہے۔“

لڑائی کے درمیان جب کے دشمن کا آمنا سامنا ہو اس وقت اپنی غیرت کا اظہار کرنا اور اپنی بہادری پر متکبرانہ چال چلنا ایک طرح سے دشمن کے حوصلے کو پست کرنے کے مترادف ہے اس لئے ایسے مواقع پر غیرت اختیار کرنااور متکبرانہ چال چلنا اللہ کو پسند ہے۔

شر م و حیا انسان کازیور ہے اور بے شرمی مومنانہ صفات کی مخالف ہے۔حضرت اسماء بنت ابی بکر جو حضرت ام المؤمنین حضرت عائشہ کی بہن تھیں۔نبی کریم ﷺ نے ایک بار انہیں اپنی سواری پر بیٹھنے کی پیشکش کی تو وہ محض اس وجہ سے اس سواری پر نہ بیٹھیں کہ دوسرے مرد بھی وہاں موجود تھے۔ حالانکہ اگر آپ ؓ حضور ﷺ کی سواری پر بیٹھ جاتیں تو یہ کوئی غیرت کی بات نہیں تھی۔ لیکن آپؓ کی غیرت نے اس بات کو گوارا نہ کیا دوسرے لوگوں کی موجودگی میں وہ آپ ﷺ کے ساتھ سواری پربیٹھیں۔ نبی کریم ﷺ نے آپ ؓ کے اس جذبے کو سراہا اور تعریف فرمائی۔یہ حدیث اس سے پہلے گزر چکی ہے۔

نبی کریم  ﷺ  اپنے اصحاب کی غیرت کا خیال رکھاکرتے تھے اور کوئی ایسا کام نہیں کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کی غیرت کو ٹھیس پہنچے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت عمر فاروقؓ کے بارے میں احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔

عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما  رَضِيَ اللَّهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” دَخَلْتُ الْجَنَّةَ أَوْ أَتَيْتُ الْجَنَّةَ، فَأَبْصَرْتُ قَصْرًا، فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا؟ قَالُوا: لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَهُ، فَلَمْ يَمْنَعْنِي إِلَّا عِلْمِي بِغَيْرَتِكَ، قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَوَعَلَيْكَ أَغَارُ”.  (صحیح بخاری کتاب النکاح، باب الغیرۃ۔حدیث نمبر٥٢٢٦ )

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جنت میں داخل ہوا یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ) میں جنت میں گیا، وہاں میں نے ایک محل دیکھا میں نے پوچھا یہ محل کس کا ہے؟ فرشتوں نے بتایا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا میں نے چاہا کہ اس کے اندر جاؤں لیکن رک گیا کیونکہ تمہاری غیرت مجھے معلوم تھی۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، اے اللہ کے نبی! کیا میں آپ پر غیرت کروں گا۔

جنت میں نبی کریم ﷺ کا حضرت عمر فاروقؓ کے گھر میں جانا کوئی ایسی بات نہ تھی جس پر انہیں غیرت آتی۔بلکہ حضرت عمر فاروقؓ  یقینا اس کو اپنے لئے باعث برکت سمجھتے کہ نبی کریم ﷺ ان کے گھر میں گھوم کرآئے ہیں لیکن آپﷺ نے ان کی کا اتنا لحاظ رکھا کہ بغیراجازت ان کی غیر موجودگی میں گھر کے اندر جانا گوارہ نہ فرمایا۔ 

ایمان والوں کو چاہئے کہ جس طرح اپنی غیرت کاخیال رکھتے ہیں اسی طرح دوسرے مومن بھائی بہنوں کی عزت نفس اور ان کی غیر ت کا خیال رکھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *