جود و سخا

تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

اللہ تعالیٰ نے اس دنیاکا نظام اس طرح قائم کیا ہے کہ کائنات کی ہر ایک شے کی حیثیت جداگانہ ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے مربوط ہے۔اور اس دنیا کا نظام ایک دوسرے کے تعاون سے ہی چلتاہے یہ اُس مدبر الامور کا بنایا ہوا نظام ہے،جوازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو یکساں صفات دے کر پیدانہیں کیا بلکہ ہر ایک فردکی پہچان اور اس کی شخصیت نیز اس کے عادات و اطوار میں نمایاں فرق موجود ہے اور ہر شخص اپنی صلاحیت اور قابلیت کے اعتبار سے اس دنیا میں اپنی زندگی گزار رہاہے اور اس کائنات کی چیزوں کو استعمال کرکے اپنی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں صحت و تندرستی، ما ل و دولت اور عقل فہم کا وافر مقدار عطافرمایا ہے او رکچھ لو گ ایسے بھی جو معذور ولاچار، تہی دست و تہی داماں اور عقل وشعور میں کم تر درجہ رکھتے ہیں۔

جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازاہے ان کے ذمہ کچھ فرائض عائد کئے ہیں کہ وہ اپنے آس پاس رہنے والے ضرورتمندوں کی حاجت روائی کریں اور مال و دولت جوان کو عطاکیا گیا اس میں سے ان حاجتمندوں پر بھی خرچ کریں جو خودسے اپنی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔جو لوگ لوجہ اللہ حاجت مندوں پرخرچ کرتے ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے وعدے فرمارکھے ہیں اور جب وہ اپنے رب کے پاس جائیں گے تو اپنے مال کا بہترین صلہ پائیں گے۔

اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت ہی زیادہ پسند ہے۔جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، اللہ کی رضا چاہتے ہیں، تقویٰ والی زندگی پسند کرتے ہیں۔ وہی لوگ ہیں جن کے ایمان کی شہادت اللہ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر دی ہے۔بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو انہی لوگوں کے لئے سامان ھدایت بتایا ہے جو تقویٰ والے ہیں اور اہل تقوی کی تعریف اللہ تعالیٰ نے خود ہی کردی ہے کہ جو لوگ غیب کی باتوں پر ایمان رکھتے ہیں، نمازیں قائم کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں درحقیقت وہی لوگ اہل تقویٰ ہیں:     

ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ  فِیْہ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (٢ )الَّذِیْنَ یَؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ (٣ ۔سورۃ ا لبقرہ)

ترجمہ: اس کتاب میں کوئی شک نہیں پرہیزگاروں کو راہ دکھانے والی ہے۔جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں۔

نیکی او ربِر کے بہت سے اقسا م ہیں اور ان سب پر اللہ تعالیٰ کے یہا ں اجر مرتب ہوتے ہیں۔ ان میں ایمان کو کلیدی درجہ حاصل ہے اس کے بغیر کوئی بھی نیکی قابل اعتبار نہیں۔ایمان کے بعد اللہ کی خاطر اللہ کے بندوں پرخرچ کرنا اللہ کو بہت زیادہ پسند ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓءِکَۃِ وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآءِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْاوَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ(١٧٧ ۔ البقرہ)

ترجمہ: ساری اچھائی مشرق ومغرب کی طرف منھ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتاً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالی پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کرے، جب وعدہ کرے تب اسے پورا کرے، تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔

جود وسخا ایک منافع بخش تجارت ہے

مخلوقات تمام کی تمام اللہ کی عیال ہیں اور ان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب اللہ ہی کی طرف سے ملا ہوا ہے۔ ملکیت ہر چیز پر اللہ ہی کی ہے۔ اس نے اپنی مرضی سے جس کو جتنا چاہا نواز دیا اور اس پر تصرف کا حق دے دیا۔لیکن کبھی کبھی اللہ تعالیٰ بندوں کے امتحان کی غرض سے اور یہ دیکھنے کے لئے کہ یہ بندہ کتنا شکر گزار ہے یہ حکم دیتے ہیں کہ میرے دیئے ہوئے مال میں سے میری راہ میں خرچ کرو۔یہ خرچ کرنا اصل میں ایک طرح کی تجارت ہے جو بندہ اپنے خالق سے کرتاہے۔ جس طرح دنیاوی کاروبارمیں انسان اپنا مال کسی جگہ پر لگاتاہے اور ایک متعینہ مدت کے بعد وہ مال اس کے پاس منافع کے ساتھ واپس آجاتاہے۔ بالکل اسی طرح اللہ کی متعین کردہ راہوں میں خرچ کرنا ایک منافع بخش تجارت ہے جس میں اللہ تعالیٰ اس پونجی کی پرورش کرکے ایک کثیر منافع کے ساتھ بندے کو واپس کردیں گے اور یہ واپسی اس قدر یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو قرض سے تعبیر فرمایا۔جس طرح قرض کی ادائیگی مقروض پر واجب ہوتی ہے بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ اس مال کوکئی گنا اضافہ کے ساتھ ضرور واپس کریں گے۔

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًاکَثِیْرَۃً وَ اللّٰہُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُطُ وَ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ(٢٤٥ ۔البقرہ)

ترجمہ: ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے پس اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے، اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

یہ معاملہ پوراکا پورا پیار محبت اور نوازنے کاہے۔ جس طرح والدین اپنے بچوں کو کچھ رقم دیدیتے ہیں تاکہ وہ اپنی ضروریات میں اس کو خرچ کریں۔لیکن کبھی کبھی پیار سے یہ بھی کہتے ہیں کہ بیٹا اپنے پیسوں میں سے ذرا فلاں جگہ خرچ کردو۔بعدمیں ہم آپ کو اورزیادہ دیں گے۔اگر وہ بچہ ماں باپ کے منشا کے مطابق وہ رقم خوشدلی سے خرچ کردیتاہے تو والدین اس سے بہت خوش ہوتے ہیں اور اس کی رقم اسے واپس تو کرہی دیتے ہیں مزید اس کو اور بھی کچھ دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو مال و دولت اپنے فضل سے عطافرمایا،انسان کواس میں تصرف کا حق دیا اب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کچھ اور نوازنا چاہتے ہیں توانہیں اپنی راہوں میں خرچ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ جوبندے اللہ کی مرضی کے مطابق خرچ کرتے ہیں ان کے مال کو کئی گنا اضافہ کے ساتھ اس دن واپس کریں گے جس دن وہ بندہ سب سے زیادہ ضرورت مند ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 مَثَلُ الَّذِینَ یُنفِقُونَ اَموَالَھُم فِی سَبِیلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنبَتَت سَبعَ سَنَابِلَ فِی کُلِّ سُنبُلَۃٍ مِّاءَۃُ حَبَّۃٍ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَن یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ(٢٦١ )اَلَّذِینَ یُنفِقُونَ اَموَالَھُم فِی سَبِیلِ اللّٰہِ ثُمَّ لَا یُتبِعُونَ مَآ اَنفَقُوا مَنًّا وَّ لَآ اَذًی لَّھُم اَجرُھُم عِندَ رَبِّھِم وَ لَا خَوفٌ عَلَیھِم وَ لَا ھُم یَحزَنُونَ(٢٦٢ ۔البقرہ)

ترجمہ: جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سودانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں نہ ایذا دیتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وہ اداس ہوں گے۔

قربان جائیے اس ذات پرجس کی نوازشات بندوں پربارش کی طرح برستی رہتی ہیں ایک تو اس نے دنیامیں مال و دولت عطاکرکے نوازش کی اور پھر اس میں تھوڑا ساخرچ کرنے کی توفیق دے کر آخرت میں نوازش کا ذریعہ بنادیااوراس کے بدلے میں اجر و ثواب کاعظیم ذخیرہ عطا فرماتاہے۔ ارشاد ہے:

اَلَّذِینَ یُنفِقُونَ اَموَالَھُم بِالَّیلِ وَ النَّھَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً فَلَھُم اَجرُھُم عِندَ رَبِّھِم وَ لَا خَوفٌ عَلَیھِم وَ لَا ھُم یَحزَنُونَ (٢٧٤ ۔ البقرۃ)

ترجمہ: جولوگ اپنے مالوں کو رات دن چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر ہے اور انہیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

اللہ کے بندے جو کچھ بھی اس دنیا میں خرچ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی پرورش کرکے ایسے دن کے لئے جمع کرکے رکھتے ہیں جس دن انہیں اس کی بہت زیادہ ضرورت ہوگی۔یہ دن یوم آخرت ہے جس دن کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا ہرشخص کو اپنی اپنی اپنی پڑی ہوگی۔ارشاد ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوٓا اَنفِقُوا مِمَّا رَزَقنٰٰکُم مِّن قَبلِ اَن یَّاتِیَ یَومٌ لَّا بَیعٌ فِیہِ وَ لَا خُلَّۃٌ وَّ لَا شَفَاعَۃٌ وَ الکٰفِرُونَ ھُمُ الظّٰلِمُونَ(٢٥٤ ۔ البقرہ)

ترجمہ: اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی اور شفاعت اور کافر ہی ظالم ہیں۔

آخرت میں انسانوں کے لئے دوٹھکانے ہیں ان میں سے ایک جہنم ہے اور دوسرا جنت۔ انسانوں کے اعمال ہی کے ذریعہ ان کا ٹھکانہ بھی متعین ہوگا۔ جن کے اعمال میں خیر ہوگاان کاٹھکانا جنت اور جن کے اعمال میں خیر نہیں ہوگا ان کاٹھکانا جہنم ہوگا۔دنیا میں جن لوگوں نے تقویٰ والی زندگی اختیا رکی ہوگی اللہ کی مغفرت کے وہ مستحق ہوں گے اور ان کے لئے جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے۔تقویٰ والی زندگی کی نمایا ں خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تنگی اور خوشحالی ہر حال میں اللہ کی طرف سے عطاکردہ مال میں سے اس کی راہ میں خرچ کیا جائے۔جولوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں جنت کے باغات اور اس کی نعمتیں ان کاانتظار کررہی ہیں۔

وَ سَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ (١٣٣ )الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (١٣٤ ۔ آل عمران)

ترجمہ: اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔جو لوگ آسانی میں اورسختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیکو کاروں سے محبت کرتا ہے۔

اللہ کی راہ میں خرچ کرنا دنیا و آخرت میں آسانیوں اور سہولتوں کا باعث ہے اور بخل وکنجوسی پریشانیوں اور آفات کو دعوت دینے والی چیز ہے۔

فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی (٥ )وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی (٦ )فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرٰی (٧ ) وَاَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی (٨ )وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی (٩ )فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰی (١٠ ۔ واللیل)

ترجمہ: جس نے (اللہ کے راستے میں) دیا اور اس کا خوف اختیار کیا اور اچھائیوں کی تصدیق کی تو ہم اس کے لیے آسانی کی جگہ(یعنی جنت) آسان کر دیں گے۔ لیکن جس نے بخل کیا اور بے پروائی برتی اور اچھائیوں کوجھٹلایا تو اسے ہم دشواریوں میں پھنسا دیں گے۔

قرآن کریم میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں سے متعلق جتنے تذکرے آئے ان سب کااحاطہ یہاں ممکن نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ کے ارشادات بھی اس کے متعلق کثیر تعداد میں موجود ہیں۔جو لوگ اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں وہ قابل رشک ہیں۔

عن عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ  رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:” لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ، رَجُلٍ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَرَجُلٍ آتَاهُ اللَّهُ حِكْمَةً فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا” (صحیح بخاری۔کتاب الزکوۃ، باب انفاق المال فی حقہ۔حدیث نمبر١٤٠٩ )

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حسد (رشک) کرنا صرف دو ہی آدمیوں کے ساتھ جائز ہو سکتا ہے۔ ایک تو اس شخص کے ساتھ جسے اللہ نے مال دیا اور اسے حق اور مناسب جگہوں میں خرچ کرنے کی توفیق دی۔ دوسرے اس شخص کے ساتھ جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت دی اور وہ اپنی حکمت کے مطابق حق فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔

اللہ کی راہ میں اپنی حلال کمائی میں سے خرچ کرنا اللہ کو بہت پسند ہے۔ اس مال کو اللہ تعالیٰ قبول بھی کرتے ہیں اور اس کی پرورش کرکے اس میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔یہاں تک کہ ایک کھجور کے دانہ کو بڑھاتے بڑھاتے پہاڑ کے برابر کردیتے ہیں۔

عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ  رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ وَلَا يَقْبَلُ اللَّهُ إِلَّا الطَّيِّبَ , وَإِنَّ اللَّهَ يَتَقَبَّلُهَا بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يُرَبِّيهَا لِصَاحِبِهِ كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ (صحیح بخاری۔ کتاب الزکوۃ۔ باب الصدقہ من کسب طیب۔حدیث نمبر١٤١٠ )

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ صرف حلال کمائی کے صدقہ کو قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے پھر صدقہ کرنے والے کے فائدے کے لیے اس میں زیادتی کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی اپنے جانور کے بچے کو کھلا پلا کر بڑھاتا ہے تاآنکہ اس کا صدقہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔

 حرص کے باوجود مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا

مال و دولت کے خواہش اور اس کا حرص ہر شخص کے دل میں موجو دہے کسی میں کم کسی میں زیادہ۔ جو لوگ مال کے حرص اور اس میں اضافہ کی خواہش کے باوجود اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کا خرچ کرنا اللہ کو بہت زیادہ پسند ہے۔

عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ  رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:” جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ أَجْرًا؟ قَالَ: أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ، تَخْشَى الْفَقْرَ وَتَأْمُلُ الْغِنَى، وَلَا تُمْهِلُ حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ، قُلْتَ لِفُلَانٍ كَذَا، وَلِفُلَانٍ كَذَا، وَقَدْ كَانَ لِفُلَانٍ”. (صحیح بخاری۔ کتاب الزکوۃ۔ باب ای الصدقۃ افضل۔حدیث نمبر١٤١٩ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ! کس طرح کے صدقہ میں سب سے زیادہ ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس صدقہ میں جسے تم صحت کے ساتھ بخل کے باوجود کرو۔ تمہیں ایک طرف تو فقیری کا ڈر ہو اور دوسری طرف مالدار بننے کی تمنا اور امید ہو اور (اس صدقہ خیرات میں) ڈھیل نہ ہونی چاہیے کہ جب جان حلق تک آ جائے تو اس وقت تو کہنے لگے کہ فلاں کے لیے اتنا اور فلاں کے لیے اتنا حالانکہ وہ تو اب فلاں کا ہو چکا۔

مطلب یہ ہے کہ پوری زندگی تو خزانے کی حفاظت کرتارہا اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے گریز کرتارہالیکن موت کو دیکھ کراب اپنے مال سے متعلق وصیتیں کرنے لگا کہ اتنا فلاں کے لئے اور اتنا فلاں کے لئے۔ حالانکہ جب جانکنی کی حالت ہوجائے تو اب اس کی وصیتوں کاکوئی اعتبار نہیں۔ کیونکہ اب وہ مال تو وارثین کاہونے ولا ہے اس لئے اسے تصرف کا حق نہیں رہا۔ آدمی اپنے مال میں کمی کے ڈر سے خرچ نہیں کرتاحالانکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مال میں کمی نہیں ہوتی بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوتاہے۔ بندہ جس قدر اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اس سے کئی گنازیادہ اللہ تعالیٰ اس پر خرچ کردیتے ہیں۔

 عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ انہ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَا ابْنَ آدَمَ أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ “، وَقَالَ: يَمِينُ اللَّهِ مَلْأَى، وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: مَلْآنُ سَحَّاءُ لَا يَغِيضُهَا شَيْءٌ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ. (صحیح مسلم۔ کتاب الزکوۃ۔- باب الحث علی النفقۃ وتبشیر المنفق بالخلف۔حدیث نمبر٢٣٠٨ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے  کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ” اللہ تعا لیٰ نے فرمایا ہے اے آدم کے بیٹے!تو خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا۔اور آپ نے فرمایا: ” اللہ کا دایاں ہاتھ(اچھی طرح) بھرا ہوا ہے۔…………اس کا فیض جا ری رہتا ہے دن ہو یا را ت کوئی چیز اس میں کمی نہیں کرتی۔

نبی کریم  ﷺ کی سخاوت

نبی کریم ﷺ کی سخاوت ہوااور بارش کی طرح عام تھی آ پﷺ کے پاس جب بھی کہیں سے مال آتا تواس وقت تک آپﷺ کو چین نہیں آتاتھا جب تک کہ اس کو اللہ بندوں میں تقسیم نہیں کردیا کرتے تھے۔ ایک موقع پرآپ ﷺ نے ا س ارادے کااظہار کیا کہ اگر احد پہاڑ بھی میرے لئے سونے کا بنادیا جائے تو میں تین دن سے زیادہ اس کو اپنے پاس رکھنا پسند نہیں کروں گا۔

عن ابی ذرالغفاری رضی اللہ عنہ  قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرَّةِ الْمَدِينَةِ عِشَاءً، وَنَحْنُ نَنْظُرُ إِلَى أُحُدٍ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” يَا أَبَا ذَرٍّ “، قَالَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: ” مَا أُحِبُّ أَنَّ أُحُدًا ذَاكَ عِنْدِي ذَهَبٌ أَمْسَى ثَالِثَةً، عِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ إِلَّا دِينَارًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ، إِلَّا أَنْ أَقُولَ بِهِ فِي عِبَادِ اللَّهِ هَكَذَا حَثَا بَيْنَ يَدَيْهِ، وَهَكَذَا عَنْ يَمِينِهِ، وَهَكَذَا عَنْ شِمَالِهِ “، قَالَ: ثُمَّ مَشَيْنَا، فَقَالَ: ” يَا أَبَا ذَرٍّ “، قَالَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِنَّ الْأَكْثَرِينَ هُمُ الْأَقَلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا “، مِثْلَ مَا صَنَعَ فِي الْمَرَّةِ الْأُولَى، قَالَ: ثُمَّ مَشَيْنَا، قَالَ: ” يَا أَبَا ذَرٍّ كَمَا أَنْتَ حَتَّى آتِيَكَ “، قَالَ: فَانْطَلَقَ حَتَّى تَوَارَى عَنِّي، قَالَ: سَمِعْتُ لَغَطًا وَسَمِعْتُ صَوْتًا، قَالَ: فَقُلْتُ: لَعَلَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُرِضَ لَهُ، قَالَ: فَهَمَمْتُ أَنْ أَتَّبِعَهُ، قَالَ: ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَهُ لَا تَبْرَحْ حَتَّى آتِيَكَ، قَالَ: فَانْتَظَرْتُهُ فَلَمَّا جَاءَ ذَكَرْتُ لَهُ الَّذِي سَمِعْتُ، قَالَ: فَقَالَ: ” ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَانِي، فَقَالَ: مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِكَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ “، قَالَ: قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ، قَالَ: ” وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ “.  (صحیح مسلم۔ کتاب الزکوۃ۔ باب الترغیب  فی الصدقہ حدیث نمبر٢٣٠٤ )

حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ میں دوپہر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا مدینہ کی کنکریلی زمین میں تھا اور ہم احد کو دیکھ رہے تھے، تب مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوذر! میں نے عرض کی حاضر ہوں اللہ کے رسول، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں نہیں چاہتا کہ یہ احد میرے پاس سونا ہو کر تین دن بھی اس میں سے ایک دینار میرے پاس بچے مگر وہ دینار کہ میں کسی قرض کے سبب سے اٹھا رکھوں اور اگر یہ سونا ہو جائے تو میں اللہ کے بندوں میں یوں بانٹوں اور آپ نے اپنے آگے ایک لپ بھر کر اشارہ کیا اور اسی طرح داہنے اور بائیں اشارہ کیا حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ہم چلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوذر! میں نے عرض کیا حاضر ہوں اے اللہ کے رسول، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہت مال والے ہی قیامت کے دن ثواب کم پانے والے ہیں۔ مگر جس نے خرچ کیا ادھر ادھر اور جدھر مناسب ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ایسا ہی اشارہ کیا جیسے پہلے کیا تھا پھر ہم چلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے ابوذر! تم یونہی رہنا جیسے اب ہو جب تک کہ میں نہ آؤں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے یہاں تک کہ میری نظروں سے غائب ہو گئے۔ پھر میں نے کچھ گنگناہٹ اور آواز سنی اور دل میں کہا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی دشمن ملا ہو اور میں نے ارادہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جاؤں اتنے میں یاد آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہیں رہنا جب تک میں نہ آؤں تمہارے پاس۔ غرض میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منتظر رہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو میں نے اس آواز کا جو سنی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ جبریل علیہ السلام تھے اور وہ میرے پاس آئے اور انہوں نے فرمایا:  آپؐ کی امت میں سے کسی کی موت اس حال میں ہوکہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہ کیاہوتو وہ جنت میں جائے گامیں نے کہا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو، جبریل نے کہا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری بھی کی ہو۔

صدقات و خیرات میدان حشر میں راحت کے سامان ہوں گے

قیامت کا منظر اور میدان حشر کی بے سروسامانی قرآن وحدیث میں بکثر ت بیان کی گئی ہے۔ جب ساری خلقت اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑی ہوگی اوراللہ تعالیٰ ایک ایک شخص سے مخاطب ہوں گے اور بندوں کے اعمال بالکل سامنے نظر آرہے ہوں گے اس وقت اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچالینے اور اللہ کی رضا کو حاصل کرکے اس کے ابدی نعمتوں کو حاصل کر لینے کی خواہش ہر انسان کی ہوگی۔ ایسے وقت میں اس کے صدقات و خیرات اس کے ممد ومعاون ہوں گے اوراس کے لئے جہنم سے بچاؤ کا سامان بنیں گے۔

حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ تم میں سے ہر شخص سے قیامت کے دن کلام کرے گا اور دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہو گا، وہ اپنے سامنے دیکھے گا تو آگ ہو گی، دائیں جانب دیکھے گا تو اپنے اعمال کے سوا کچھ نہ پائے گا اور بائیں دیکھے گا تو اپنے اعمال کے سوا ادھر بھی کچھ نہ دیکھے گا، لہٰذا تم میں سے جو جہنم سے بچ سکے تو اپنے بچاؤ کا سامان کرے، اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کر کے”۔

 عن عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا سَيُكَلِّمُهُ رَبُّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تُرْجُمَانٌ، فَيَنْظُرُ أَمَامَهُ، فَتَسْتَقْبِلُهُ النَّارُ، وَيَنْظُرُ عَنْ أَيْمَنَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا شَيْئًا قَدَّمَهُ، وَيَنْظُرُ عَنْ أَشْأَمَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا شَيْئًا قَدَّمَهُ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَتَّقِيَ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَلْيَفْعَلْ”. (سنن ابن ماجہ۔کتاب الزکوۃ با ب فضل الصدقہ۔حدیث نمبر١٨٤٣ )

اللہ کی راہ میں خرچ کرنامال میں اضافہ کاسبب

جن لو گوں کے پاس مال و دولت کی فراوانی نہیں پھر بھی وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔محنت مزدوری کرکے دوپیسے کماتے ہیں اور اس میں سے اللہ کے بندوں پر خرچ کرتے ہیں ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی نوازشات ہوتی ہیں اور ان کے صدقات کی قدر بڑھ جاتی ہے۔

 عن ابی مسعود رضی اللہ عنہ  قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” يَأْمُرُنَا بِالصَّدَقَةِ، فَمَا يَجِدُ أَحَدُنَا شَيْئًا يَتَصَدَّقُ بِهِ حَتَّى يَنْطَلِقَ إِلَى السُّوقِ، فَيَحْمِلَ عَلَى ظَهْرِهِ فَيَجِيءَ بِالْمُدِّ، فَيُعْطِيَهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لَأَعْرِفُ الْيَوْمَ رَجُلًا لَهُ مِائَةُ أَلْفٍ، مَا كَانَ لَهُ يَوْمَئِذٍ دِرْهَمٌ”.  (سنن نسائی۔ کتاب الزکوۃ۔باب جہد المقل۔حدیث نمبر٢٥٣٠ )

حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں صدقہ کرنے کا حکم فرماتے تھے، اور ہم میں بعض ایسے ہوتے تھے جن کے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ نہ ہوتا تھا، یہاں تک کہ وہ بازار جاتا اور اپنی پیٹھ پر بوجھ ڈھوتا اور ایک مُد لے کر آتا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیتا۔ میں آج ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جس کے پاس ایک لاکھ درہم ہے اور اس وقت اس کے پاس ایک درہم بھی نہ تھا۔

ملائکہ کی دعاء رحمت

جود وسخا اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند ہے۔اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس بندے کے لئے دعائے رحمت کرتے رہتے ہیں جن کے ہاتھ کھلے ہوئے ہوتے ہیں اور وقتافوقتا اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں۔ اس کے برخلاف جولوگ بخل و کنجوسی سے کام لیتے ہیں اور اپنے مال کو گن گن رکھتے ہیں ان کے لئے بددعاکرتے ہیں۔

عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ الْعِبَادُ فِيهِ، إِلَّا مَلَكَانِ يَنْزِلَانِ، فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا: اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، وَيَقُولُ الْآخَرُ اللَّهُمَّ: أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا ” (صحیح مسلم۔ کتاب الزکوۃ۔باب فی المنفق والممسک۔حدیث نمبر٢٣٣٦ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس وقت بندے صبح کرتے ہیں، دو فرشتے اترتے ہیں ایک تو یہ کہتا ہے کہ یا اللہ! خرچ کرنے والے کو اور دے اور دوسرا کہتا ہے کہ یا اللہ! بخیل کو تباہ کر۔

ایمان والوں کو چاہئے کہ جوکچھ بھی اللہ نے انہیں دے رکھا ہے اس میں بخیلی کوراہ نہ دیں بلکہ اللہ کے بندوں پرخرچ کرتے رہاکریں۔ تاکہ اللہ تعالیٰ مزید انہیں عطا کرتارہے اور آخرت میں بھی ان کے لئے اجرو ثواب کاذخیرہ بن سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *