تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

اکرام مسلم

چھوٹو ں پرشفقت اور بڑوں کااکرام کرنا

اسلام ایک ایسا مذہب جو انسانوں کی رہنمائی کے لئے اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔وہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس کی تعلیمات وہدایات ایک صالح معاشرہ کے تشکیل کی دعوت دینے والی ہیں۔چاہے انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، گھریلو زندگی ہو یا بیرونی کوئی بھی گوشہ یاکوئی بھی لمحہ ایسا نہیں جسے اسلام نے تشنہ چھوڑدیا ہو، وہ زندگی کے ہر شعبے کے لئے رہنما اصول پیش کرتاہے تاکہ انسانوں کاایک مہذب اور شائستہ معاشرہ وجود میں آئے اور ہر انسان کو تحفظ اور امن کااحساس نصیب ہو۔

جس طرح انسان اشرف المخلوقات ہے اسی طرح اس کامعاشرہ بھی اشرف ہونا چاہئے۔ انسان کے مقابلے میں دوسری مخلوقات میں علم، عقل، صلاحیت،فہم وفراست اور ادراک و احساس کی کمی ہے اس لئے ان کے لئے اخلاقیات کی تعلیم نہیں دی گئی ہے لیکن انسان ایک مہذب مخلوق ہے اس کے پاس عقل ودانش اور علم وفضل کی صفت موجود ہے اس لئے اس کو اخلاقیات کا پابند بنایا گیا۔ کسی بھی انسانی معاشرہ میں ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ان میں مرد عورت، عالم جاہل، نیک وبد، چھوٹے بڑے، امیر و غریب، ضعیف وکمزور اور قوی و طاقتور ہر قسم کے افراد ہوتے ہیں اور پھر ان کی عادات واطوار بھی مختلف قسم کی ہوتی ہیں۔ اسلام نے ان میں سے ہر ہر فرد کی ذمہ داریوں کوالگ الگ بیان کیا ہے،ا ن میں سے ہر ایک کو اخلاقی ضوابط اوراصولوں کا پابند بنایا ہے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دی ہے جولوگ ان ضابطوں اور اصولوں کو اپنی زندگی میں نافذ کرتے ہیں وہ انسانیت کی ضرورت بن جاتے ہیں۔دنیا میں بھی عزت وشرافت کا تاج ان کے سر پر رکھا جاتاہے اور آخرت میں بھی سرخرو اور فلاح یاب ہوں گے۔

دنیا میں جتنی بھی قومیں آباد ہیں ان میں فطری طور پر بڑے اپنے چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آتے ہیں اور چھوٹے اپنے بڑوں کااحترام کرتے ہیں لیکن ان میں سے اگر کو ئی شخص اس فطرت کے خلاف عمل کرتاہے اور چھوٹوں پر شفقت کے بجائے ظلم وجبر اور بڑوں کے اکرام کے بجائے ان کی بے عزتی اور تذلیل کرتاہے تو اس سے بازپرس کرنے کا کوئی خاص ضابطہ تمام اقوام کے پاس موجود نہیں ہے۔ لیکن اسلام نے اس معاملے میں پکے اور بین اصول بیان کئے ہیں۔جن پر عمل کرکے انسان اپنی زندگی کے لمحات کوخوشگوار بناسکتاہے۔ 

 اسلام کی معاشرتی تعلیمات میں سے ایک اہم تعلیم یہ ہے چھوٹے اپنے بڑوں کی عزت و توقیر کریں اور بڑے اپنے چھوٹوں کے ساتھ شفقت اور مہربانی سے پیش آئیں۔ تاکہ دونوں طبقات کے درمیان الفت و محبت کی فضا استوار ہوسکے۔

چھوٹے بچے جن کے پاس تجربات کی کمی اور علم کا فقدان ہوتا ہے وہ ہر میدان میں اپنے بڑوں کی رہنمائی کے محتاج ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی ان سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں۔ایسے مواقع سے بزرگوں کو چاہئے کہ ان بچوں کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آئیں۔ مار پیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ سے پرہیز کرنا چاہئے۔ان کی غلطیوں کو درگذر کرکے اپنے تجربے کی روشنی میں ان کے بہتر مستقبل کے لئے فکرمند ہونا چاہئے۔ اسی طرح چھوٹوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے بڑوں کے ساتھ ادب و احترام کے ساتھ پیش آئیں۔ ان کے سامنے کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے ان کو تکلیف پہنچے۔ عمر کے ساتھ ساتھ انسان اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے دوسروں کا محتاج ہونے لگتا ہے۔ہر وقت اسے کسی کی مدد اور دستگیری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے مواقع پر چھوٹوں کو چاہئے کہ اپنے بڑوں کے کام میں ہاتھ بٹائیں اور ان کی فرماں برداری میں کوئی کوتاہی نہ ہونے دیں۔کبھی کسی موقع سے اگر بڑے کچھ سخت بات بول دیں تو اس کو اپنے دل پر نہ لیں بلکہ ان کے ساتھ وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرکے ان کی دلجوئی کو اپناشعار بنائیں۔

کسی بھی معاشرے کے افراد جب اپنے حق کو پہچان لیں گے اور ایک دوسرے کے حقوق کی حفاظت کا احساس دل میں پید اہوجائے گاتو وہ معاشرہ یقینا ایک پُر امن اور پُر سکون معاشرہ ہوگا اور داخلی طور پر وہ ایک مضبوط ومستحکم معاشرہ تشکیل پائے گا۔معاشرتی تلخیا ں ختم ہوکر باہمی رواداری او ر خوشگواری کی فضا قائم ہوگی۔نبی کریم ﷺ کی سیرت کے مطالعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ ﷺ نے ہمیشہ بچوں کے ساتھ شفقت کا معاملہ فرمایا اور بزرگوں کے ساتھ ادب و احترام سے خود بھی پیش آتے رہے اور اپنے اصحاب کو بھی اس کی تلقین فرماتے رہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے، معروف کا حکم نہ دے اور منکر سے منع نہ کرے۔

عن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا، وَيَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ، وَيَنْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ ” (سنن ترمذی۔ کتاب البر والصلۃ، باب ماجاء فی رحمۃ الصبیان۔حدیث نمبر١٩٢١ )

”وہ شخص ہم میں سے نہیں“کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص ہمارے طور طریقہ پر عمل کرنے والا نہیں۔ایک مومن کے لئے نبی کریم ﷺ کی سنت سے بڑھ کو کوئی چیز نہیں ہے اور آپ ﷺ کی سنت یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ آپؐ نہایت شفقت سے پیش آتے تھے اور بڑوں کو ان کامقام دیا کرتے تھے۔

(عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ )یعنی عن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيَعْرِفْ شَرَفَ كَبِيرِنَا ” (سنن ترمذی۔ کتاب البر والصلۃ، باب ماجاء فی رحمۃ الصبیان۔حدیث نمبر١٩٢٠ )

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا مقام نہ پہچانے۔

کسی بھی مجلس میں کوئی بوڑھا آدمی موجود ہو تو اس کا ادب واحترام چھوٹوں پر لازم ہے اور اگر اس کو کوئی ضرورت ہوتوپوراکرنا، اس کے لئے راستہ فراہم کرنا اور اس کے لئے آسانیاں پید اکرنا اسلام کی اخلاقی تعلیم ہے۔ ریلوے اسٹیشنوں پر ٹکٹ لینے کے وقت،یا بنکوں کے لائن میں ضعیف العمر لوگوں کاخیال رکھنا چاہئے۔نبی کریم ﷺ کی سنت اور صحابہئ کرام کے طریقے سے ہمیں یہی تعلیم ملتی ہے۔

عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ  يَقُولُ: جَاءَ شَيْخٌ يُرِيدُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَبْطَأَ الْقَوْمُ عَنْهُ أَنْ يُوَسِّعُوا لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا ” (سنن ترمذی۔ کتاب البر والصلۃ، باب ماجاء فی رحمۃ الصبیان۔حدیث نمبر١٩١٩ )

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک بوڑھا آدمی آیا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنا چاہتا تھا، لوگوں نے اسے راستہ دینے میں دیر کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے، جو ہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔     

راستے میں چلتے پھرتے یا کسی مقام پر کسی مجلس میں بوڑھے آدمی کا لحاظ رکھنا اور اس کے ساتھ ادب واحترام سے پیش آنا مومنانہ صفات میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ اُس کو اِس عمل کا نعم البدل عطا فرماتے ہیں۔ 

عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَا أَكْرَمَ شَابٌّ شَيْخًا لِسِنِّهِ إِلَّا قَيَّضَ اللَّهُ لَهُ مَنْ يُكْرِمُهُ عِنْدَ سِنِّهِ ” (سنن ترمذی۔ کتاب البر والصلۃ، باب ماجاء فی اجلال الکبیر۔حدیث نمبر۔٢٠٢٢ )

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو جوان کسی بوڑھے کا اس کے بڑھاپے کی وجہ سے احترام کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایسے لوگوں کو مقرر فرما دے گا جو اس عمر میں اس کا احترام کریں۔

چھوٹے بچے جن کوکسی بھی چیز کا شعور نہیں ہوتا، اکثر وبیشتر گود میں پیشاب کردیتے ہیں۔ اگر چہ یہ ایک ناپاکی ہے جس کی وجہ سے کپڑے ناپاک ہوجاتے ہیں لیکن نبی کریم ﷺ نے ایسے مواقع پر اُن بچوں کو جھڑکنے کو پسند نہیں فرمایا بلکہ ان کے ساتھ نرمی برتنے کی تلقین فرمائی ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بچوں کو لایا جاتا تو آپ ان کے لیے دعا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک بچہ لایا گیا اور اس نے آپؐ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگایا اور پیشاب کی جگہ پر اسے ڈالا کپڑے کو دھویا نہیں۔

 عن عائشۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:” كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُؤْتَى بِالصِّبْيَانِ فَيَدْعُو لَهُمْ، فَأُتِيَ بِصَبِيٍّ، فَبَالَ عَلَى ثَوْبِهِ، فَدَعَا بِمَاءٍ فَأَتْبَعَهُ إِيَّاهُ، وَلَمْ يَغْسِلْهُ”  (صحیح بخاری۔ کتاب الدعوات۔ باب الدعاء للصبیان بالبرکۃ ومسح رؤوسھم۔حدیث نمبر٦٣٥٥ )

بڑے لوگوں کے سامنے خاموش رہنا

کسی مجلس میں اگر چھوٹے بڑے ہر طرح کے لو گ موجود ہوں تو چھوٹوں کو چاہئے کہ بڑے لوگوں کی باتیں خاموشی سے سنیں اور انہیں بولنے کا موقع دیں ان کی بات پر بڑھ چڑھ کر اپنی بات نہ رکھیں۔صحابہئ کرام میں یہ بات خصوصیت سے موجود تھی کہ وہ اپنے بڑوں کااحترام جی جان سے کیا کرتے تھے اور چھوٹوں کے ساتھ رحم وکرم سے پیش آیا کرتے تھے۔کسی مجلس میں اگر بڑے لوگ موجود ہیں تو چھوٹے ان کی باتوں پر اپنی بات نہیں رکھتے تھے بلکہ بڑو ں کو بولنے کا موقع دیا کرتے تھے۔

عن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا، وَهِيَ مَثَلُ الْمُؤْمِنِ، حَدِّثُونِي مَا هِيَ؟ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَوَادِي، وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هِيَ النَّخْلَةُ، فَاسْتَحْيَيْتُ أَنْ أَقُولَ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَحَدَّثْتُ عُمَرَ بِالَّذِي وَقَعَ فِي نَفْسِي، فَقَالَ: لَأَنْ تَكُونَ قُلْتَهَا أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي كَذَا وَكَذَا ” (سنن ترمذی۔ کتاب الامثال عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء فی مثل المومن القاری للقرآن  وغیر القاری۔حدیث نمبر٢٨٦٨ )

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کا پتہ نہیں جھڑتا، یہ مومن کی مثال ہے تو مجھے بتاؤ یہ کون سا درخت ہے؟ عبداللہ کہتے ہیں: لوگ اسے جنگلوں کے درختوں میں ڈھونڈنے لگے اور میرے دل میں آیا کہ یہ کھجور کا درخت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کھجور ہے“، مجھے شرم آ گئی کہ میں بولوں۔ پھر میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو وہ بات بتائی جو میرے دل میں آئی تھی، تو انہوں نے کہا اگر تم نے یہ بات بتا دی ہوتی تو یہ چیز مجھے اس سے زیادہ عزیز و محبوب ہوتی کہ میرے پاس اِس اِس طرح کا مال اور یہ یہ چیزیں ہوتیں“۔

اگر کسی معاملے کو لے کر کچھ لوگ حاکم یا قاضی کے پاس جائیں تو مناسب یہ ہے کہ ان میں جو سب سے بڑا ہو وہ سب کی طرف سے معاملے کو حاکم کے سامنے پیش کرے۔کم عمر لوگوں کو اپنے بڑوں کے سامنے بولنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ ہاں اگر حاکم براہ راست ان سے سوال کرتاہے تو نہایت ادب سے اس کی باتوں کا جواب دینا چاہئے۔

عن سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ  قَالَ: وُجِدَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ قَتِيلًا، فَجَاءَ أَخُوهُ وَعَمَّاهُ حُوَيِّصَةُ , وَمُحَيِّصَةُ وَهُمَا عَمَّا عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” الْكُبْرَ الْكُبْرَ”، قَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا وَجَدْنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَتِيلًا فِي قَلِيبٍ مِنْ بَعْضِ قُلُبِ خَيْبَرَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَنْ تَتَّهِمُونَ؟”، قَالُوا: نَتَّهِمُ الْيَهُودَ، قَالَ:” أَفَتُقْسِمُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا أَنَّ الْيَهُودَ قَتَلَتْهُ؟”، قَالُوا: وَكَيْفَ نُقْسِمُ عَلَى مَا لَمْ نَرَ؟ قَالَ:” فَتُبَرِّئُكُمْ الْيَهُودُ بِخَمْسِينَ أَنَّهُمْ لَمْ يَقْتُلُوهُ” , قَالُوا: وَكَيْفَ نَرْضَى بِأَيْمَانِهِمْ وَهُمْ مُشْرِكُونَ؟ فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ. (سنن نسائی۔کتاب القسامۃ والقود والدیات، باب ذکر اختلاف الفاظ الناقلین لخبر سہل فیہ۔حدیث نمبر٤٧٢١ )

حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ مقتول پائے گئے، تو ان کے بھائی اور ان کے چچا حویصہ اور محیصہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بات کرنے لگے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو“، ان دونوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے خیبر کے ایک کنویں میں عبداللہ بن سہل کو مقتول پایا ہے، آپ نے فرمایا: ”تمہارا شک کس پر ہے؟“ انہوں نے کہا: ہمارا شک یہودیوں پر ہے، آپ نے فرمایا: ”کیا تم پچاس قسمیں کھاؤ گے کہ یہودیوں نے ہی انہیں قتل کیا ہے؟“، انہوں نے کہا: جسے ہم نے دیکھا نہیں، اس پر قسم کیسے کھائیں؟ آپ نے فرمایا: ”تو پھر یہودیوں کی پچاس قسمیں کہ انہوں نے عبداللہ بن سہل کو قتل نہیں کیا ہے، تمہارے شک کو دور کریں گی؟“ وہ بولے: ہم ان کی قسموں پر کیسے رضامند ہوں جبکہ وہ مشرک ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔

بڑوں کی خدمت

کھانے کی پینے کی مجالس میں چھوٹے بچوں کو چاہئے کہ جب بڑے لوگ کھانا کھارہے ہوں تو ان کھلائیں پلائیں اور جس چیز کی ضرورت ہو وہ لاکر حاضر کریں۔

عن انس رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:” كُنْتُ قَائِمًا عَلَى الْحَيِّ أَسْقِيهِمْ عُمُومَتِي وَأَنَا أَصْغَرُهُمُ الْفَضِيخَ، فَقِيلَ: حُرِّمَتِ الْخَمْرُ، فَقَالَ: اكْفِئْهَا، فَكَفَأْنَا، قُلْتُ لِأَنَسٍ: مَا شَرَابُهُمْ؟، قَالَ: رُطَبٌ وَبُسْرٌ  (صحیح بخاری۔ کتاب الاشربۃ۔باب خدمت الصغار الکبار۔حدیث نمبر٥٦٢٢ )

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں کھڑا ہوا اپنے قبیلہ میں اپنے چچاؤں کو کھجور کی شراب پلا رہا تھا۔ میں ان میں سے سب سے چھوٹا تھا، اتنے میں کسی نے کہا کہ شراب حرام کر دی گئی۔ کہا کہ شراب پھینک دو۔ چنانچہ ہم نے پھینک دی۔ سلیمان نے کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا اس وقت لوگ کس چیز کی شراب پیتے تھے کہا کہ پکی اور کچی کھجور کی۔

اسلامی تعلیمات کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ انسان کوکبھی بھی یکا وتنہا نہیں چھوڑتا بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر اس کی رہنمائی کرتاہے اور جب کسی معاشرے میں اسلامی تعلیمات پر عمل ہوتا رہتاہے تو وہ معاشرہ ایک صالح معاشرہ بن کر دوسروں کے لئے نمونۂ عمل بن جاتاہے۔لیکن اس کے برعکس جب کوئی معاشرہ اسلامی تعلیمات کو چھوڑ کر بے راہ روی کی صورت اختیار کرلیتاہے تو اس معاشرے کا امن و سکون غارت ہوجاتاہے اور انسان جانوروں جیسی زندگی گذارنے لگتا ہے۔ اس لئے ایمان والوں کو چاہئے کہ وہ کسی بھی صورت میں اسلامی تعلیمات سے منہ نہ موڑیں بلکہ اس کی تعلیمات کو اپنا شیوہ اوران پرعمل کو آخرت کا سرمایہ تصور کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *