راستے سے تکلیف دہ چیزوں کاہٹا دینا

تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

اسلامی اخلاق وآداب اور معاشرتی تعلیمات پوری دنیا کے لئے رہنما اصول کادرجہ رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی رہنمائی زندگی کے ہر موڑ پر فرمائی ہے اوروہ تمام ترتعلیمات انہیں عطا فرمائی ہیں جن سے ایک انسان کو مزین ہونا چاہئے جن سے انسانیت کی فلاح وبہبود ہوسکے۔چاہے وہ انسان کی انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی،گھر کے اندر والی زندگی ہو یا بازار اور سڑکوں والی زندگی ہر موقع سے ایسے ایسے اصول سکھلائے ہیں کہ دنیا کی دوسری اقوام میں ان کی جھلک بھی نظر نہیں آتی۔ انہی میں سے ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ راہ چلتے ہوئے اگر کوئی ایسی چیز راستے میں نظر آجائے جو لوگوں کے لئے تکلیف کاباعث بن سکتی ہواس کو راستے سے ہٹا دینا اور آنے جانے والوں کے لئے سہولت فراہم کردینا ایمان کاحصہ ہے او راس عمل کے ذریعہ ایمان میں کمال پیدا ہوتاہے۔ایک انسان کے لئے اس سے بہتر کیا ہوسکتاہے کہ دنیا کی زندگی گزارنے کے بعد جب وہ خالق حقیقی کے دربار میں پہونچے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کاپروانہ لکھ دیں اور اسے جنت میں داخلہ کی اجازت مل جائے۔اسی جنت کو حاصل کرنے کے لئے انسان خیر کے مختلف راہوں پر چلتا ہے کہ پتہ نہیں اللہ جل مجدہ کو کون سا عمل پسند آجائے اوروہ اس کی نجات کا ذریعہ بن جائے۔راستے سے تکلیف دہ چیز کوہٹاکر اور راہگیروں کو نقصان سے بچاکر ان کے لئے آرام وراحت کا سامان پیدا کرنا بھی ایسے اعمال خیر میں شامل ہے جن کے ذریعہ ابدی راحتوں والے مکان جنت میں داخلہ آسان ہوجاتاہے۔ 

عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ  عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّهُ قَالَ:” نَزَعَ رَجُلٌ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ غُصْنَ شَوْكٍ عَنِ الطَّرِيقِ , إِمَّا كَانَ فِي شَجَرَةٍ فَقَطَعَهُ وَأَلْقَاهُ , وَإِمَّا كَانَ مَوْضُوعًا فَأَمَاطَهُ , فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ بِهَا , فَأَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ”. (سنن ابوداؤد۔ ابواب السلام،باب فی اماطۃ الاذی عن الطریق۔حدیث نمبر٥٢٤٥ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص جس نے کبھی کوئی بھلا کام نہیں کیا تھا کانٹے کی ایک ڈالی راستے پر سے ہٹا دی، یا تو وہ ڈالی درخت پر تھی اس نے اسے کاٹ کر الگ ڈال دیا، یا اسے کسی نے راستے پر ڈال دیا تھا اور اس نے اسے ہٹا دیا تو اللہ اس کے اس کام سے خوش ہوا اور اسے جنت میں داخل کر دیا۔

پیڑ پودے انسان کو راحت پہنچاتے ہیں ان کے پھلوں،پھولوں،پتوں اور لکڑیوں سے انسان اپنی مختلف ضروریات پوری کرتاہے۔لیکن کبھی کبھی اگر ان کی مناسب دیکھ بھال نہ ہو تو وہ انسان کے لئے اذیت کاسامان بھی بن جاتے ہیں۔ جیسے کوئی ڈال سڑک پر اس طرح لٹک جائے کہ آنے جانے والوں کے لئے رکاوٹ بن جائے۔یا کوئی ڈال ٹوٹ کر سڑک پر گر جائے اور لوگوں کے لئے باعث تکلیف بن جائے توایسی چیزوں کو راستے سے ہٹادینا واقعی ایک خیر کاکام ہے۔ اسی کے متعلق نبی کریم ﷺ نے مندرجہ بالا حدیث میں اشارہ فرمایا او ریہ بتایا ہے کہ یہ اتنا اونچا عمل ہے کہ محض اسی عمل کے ذریعہ انسان کی نجات ہوسکتی ہے۔

صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آخرت کے متعلق بہت زیادہ فکر مند رہا کرتے تھے۔ فرائص و واجبات میں کوتاہی کے بارے میں توسوچاہی نہیں جاسکتا نفل عبادات بھی وہ حضرات بکثرت کیا کرتے تھے۔اس کے علاوہ وہ ہمیشہ خیر کے کاموں کی تلاش میں رہاکرتے تھے کہ کوئی ایسی راہ مل جائے جوہماری نجات کا ذریعہ بن جائے۔اس کے لئے وہ برابر نبی کریم ﷺ سے سوال کیا کرتے تھے کہ یارسول اللہ ہمیں کوئی ایسا عمل بتادیجئے جس پرہم برابر عمل کرتے رہیں او ر دنیا و آخرت میں وہ ہماری بھلائی کاسبب بن جائے۔ نبی کریم ﷺ  مختلف صحابۂ کرام کو ان کے حالات کے موافق اعمال کی تعلیم دیاکرتے تھے۔ انہیں میں سے ایک حدیث ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔  

عن ابی برزۃ اسلمی رضی اللہ عنہ  قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ أَنْتَفِعُ بِهِ , قَالَ:” اعْزِلِ الْأَذَى عَنْ طَرِيقِ الْمُسْلِمِينَ”. (سنن ابن ماجہ۔کتاب الادب،باب اماطۃ الاذی عن الطریق ۔حدیث  نمبر٣٦٨١ )

حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جس سے میں فائدہ اٹھاؤں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں کے راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دیا کرو۔

 سب سے بہتر عمل راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹادینا

نبی کریم ﷺ پر امت کے حالات پیش کئے جاتے تھے اور ان نیک و بد اعمال دکھائے جاتے تھے جن کے بارے میں آپ ؐ نے مختلف مواقع پر مختلف قسم کے اعمال کے بارے میں ترغیب یا ترہیب سنائی ہے اور امت کوان اعمال کی طرف توجہ دلائی ہے جن کی اللہ تعالیٰ کے یہاں قدر کی جاتی ہے اور ان اعمال سے دور رہنے کی تلقین فرمائی ہے جواللہ کو ناپسند ہیں۔ انہی میں سے ایک عمل یہ بھی ہے کہ راستے سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹا د یا جائے۔ 

عن ابی ذر رضی اللہ عنہ  عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:” عُرِضَتْ عَلَيَّ أُمَّتِي بِأَعْمَالِهَا حَسَنِهَا وَسَيِّئِهَا , فَرَأَيْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا الْأَذَى يُنَحَّى عَنِ الطَّرِيقِ , وَرَأَيْتُ فِي سَيِّئِ أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ فِي الْمَسْجِدِ لَا تُدْفَنُ” (سنن ابن ماجہ۔کتاب الادب،باب اماطۃ الاذی عن الطریق۔حدیث نمبر٣٦٨٣ )

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میری امت کے اچھے اور برے اعمال میرے سامنے پیش کیے گئے، تو میں نے ان میں سب سے بہتر عمل راستے سے تکلیف دہ چیز کے ہٹانے اور سب سے برا عمل مسجد میں تھوکنے، اور اس پر مٹی نہ ڈالنے کو پایا۔

اللہ تعالیٰ کی نوازشیں جو ہر انسان پر بے پایا ں بر س رہی ہیں جن کاشما ر بھی انسان نہیں کرسکتا چہ جائیکہ ان کا شکر اداکرسکے۔خود انسان کے بدن میں جتنے اعضاء ہیں ان میں سے اگر کوئی بھی عضو ذرا سابگڑ جائے،کہیں چوٹ لگ جائے، کوئی زخم یاپھوڑا پھنسی نکل آئے تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتاہے۔ان تمام اعضاء کی سلامتی کی گارنٹی انسان کے پاس نہیں ہے۔ راہ چلتے ہوئے کوئی پھسل کر گرجائے اور ہاتھ پاؤں ٹوٹ جائے یہ کبھی بھی کسی کے ساتھ ہوسکتا ہے۔آدمی رات کو سوتاہے اوردنیا ومافیھا سے بالکل بے خبر ہوجاتاہے بلکہ ایک طرح سے اس پر موت کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے لیکن صبح اللہ تعالیٰ اس کوبالکل صحیح سالم اٹھاتے ہیں اور اس کے اعضاء میں کوئی کمی نہیں ہوتی بلکہ سوکر اٹھنے کے بعد انسان اپنے اندر فرحت وانبساط کی کیفیت محسوس کرتاہے اور پھر آئندہ محنت ومشقت کے لئے تازہ دم ہوجاتاہے یہ اللہ تعالیٰ کا اتنا بڑ ا احسان ہے کہ انسان پوری زندگی بھی عمل کرے تو اس کا شکریہ ادا نہیں کرسکتا۔لیکن نبی کریم ﷺ نے ایسے اعمال اپنی امت کو تعلیم فرمائے ہیں کہ وہ اعمال دیکھنے میں تو چھوٹے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کو اتنے پسند ہیں کہ ان اعمال کواعضاء انسانی کی صحت وسلامتی کاشکرانہ سمجھ کر قبول فرمالیتے ہیں۔

عن ابی ذر رضی اللہ عنہ  عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” يُصْبِحُ عَلَى كُلِّ سُلَامَى مِنَ ابْنِ آدَمَ صَدَقَةٌ تَسْلِيمُهُ عَلَى مَنْ لَقِيَ صَدَقَةٌ , وَأَمْرُهُ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ , وَنَهْيُهُ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ , وَإِمَاطَتُهُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ , وَبُضْعَتُهُ أَهْلَهُ صَدَقَةٌ , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , يَأْتِي شَهْوَةً وَتَكُونُ لَهُ صَدَقَةٌ , قَالَ: أَرَأَيْتَ لَوْ وَضَعَهَا فِي غَيْرِ حَقِّهَا أَكَانَ يَأْثَمُ؟ , قَالَ: وَيُجْزِئُ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ رَكْعَتَانِ مِنَ الضُّحَى” , قَالَ أَبُو دَاوُدَ: لَمْ يَذْكُرْ حَمَّادٌ الْأَمْرَ وَالنَّهْيَ. (سنن ابوداؤد۔ ابواب السلام۔باب فی اماطۃ الاذی عن الطریق۔حدیث نمبر٥٢٤٣ )

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ابن آدم کے ہر جوڑ پر صبح ہوتے ہی صدقہ عائد ہو جاتا ہے، تو اس کا اپنے ملاقاتی سے سلام کر لینا بھی صدقہ ہے، اس کا معروف (اچھی بات) کا حکم کرنا بھی صدقہ ہے اور منکر (بری بات) سے روکنا بھی صدقہ ہے، اس کا راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا بھی صدقہ ہے، اور اس کا اپنی بیوی سے ہمبستری بھی صدقہ ہے لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ تو اس سے اپنی شہوت پوری کرتا ہے، پھر بھی صدقہ ہو گا؟ تو آپ نے فرمایا:کیا خیال ہے تمہارا اگر وہ اپنی خواہش (بیوی کے بجائے) کسی اور کے ساتھ پوری کرتا تو گنہگار ہوتا یا نہیں؟ اس کے بعد آپ نے فرمایا: چاشت کی دو رکعتیں ان تمام کی طرف سے کافی ہو جائیں گی۔

مسلمانوں کو چاہئے کہ چلتے پھرتے راستے میں کسی ایسی چیز پر نظر پڑ جائے جس سے کسی کونقصان پہنچ سکتاہو،جیسے کیل کانٹی، کیلے کا چھلکا،کوئی پتھر یا اینٹ یا اس کے علاوہ دیگر کو ئی بھی شئے جس سے آنے جانے والوں کو تکلیف پہنچ جانے کا اندیشہ ہو تو اس کو راستے سے ہٹا دیں۔ان شاء اللہ یہ عمل ان کی نجات کاذریعہ بنے گا۔

لوگوں کی راہ میں رکاوٹ پیداکرنا

لوگوں کی راہ میں رکاوٹیں پیداکرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ مکان بناتے وقت اس بات کاخیال رکھیں کہ راستوں پر کوئی چیز نہ بنائیں۔ جیسے آج کل خاص طور سے شہروں میں یہ چیز دیکھنے کو ملتی ہے کہ اپنی زمین میں تو مکان بنالیا اور راستے پر سیڑھی بنادی جاتی ہے جس کی وجہ سے محلہ کے لوگ پریشان ہوتے ہیں۔ بازاروں او رمحلوں میں لوگ اپنی گاڑیاں جہاں چاہتے ہیں وہیں کھڑی کر دیتے ہیں جو راہگیر وں کی پریشانی کاسبب بنتی ہیں۔ اسی طرح مکانوں کے پرنالے راستوں پر گرادیاجاتاہے جن سے پانی گرتاہے تو آنے جانے والوں کے کپڑے خراب ہوتے ہیں اس کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزیں ہوسکتی ہیں جن کی وجہ سے راستوں میں رکاوٹ پید ا ہوتی ہے ان تمام چیزوں سے اجتناب برتنا چاہئے۔جس طرح راستے سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹادینا ایمان کے کمال کی علامت ہے اسی طرح راہ چلنے والوں کو تکلیف پہونچانا کمال ایمان کے منافی ہے۔ 

 اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو خیر اور بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا حکم دیا ہے اور برائی اور شر کے کاموں سے مکمل اجتناب کا حکم دیاہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّکُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(٧٧ ۔حج)

ترجمہ:    اے ایمان والو! رکوع سجدہ کرتے رہو اور اپنے پروردگار کی عبادت میں لگے رہو اور نیک کام کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔

راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹادینا خیر کاکام ہے اور اس کے برخلاف راستوں میں تکلیف دینے والی چیزوں کو پیدا کرنا شر کاکام ہے اس سے مکمل اجتناب برتنا ہی ایمان کامل کی علامت ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ”  (سنن ترمذی۔کتاب الایمان عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء  المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ۔حدیث نمبر٢٦٢٧ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مسلمان  وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، اور مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو محفوظ سمجھیں۔

 اللہ تعالیٰ تمام مومنین ومومنات کو خیر کے امور کو اختیار کرنے کی توفیق عطافرمائے اورامور سے شر سے بچنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمِیْنْ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ بِجَاہِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَعَلٰی آلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *