یکم محرم الحرام
یوم شہادت خلیفۂ دوم عمر فاروق
عمر نام ابوحفص کنیت اور فاروق لقب ہے۔والد کا نام خطاب اور والدہ کانام خنتمہ ہے۔ابوحفص اور فاروق یہ دونوں نام رسول اللہ ﷺ کے عطاکردہ ہیں ۔حضرت عمر فاروق کاسلسلۂ نسب نویں پشت میں جاکررسول اللہ ﷺ کی نسب سے مل جاتاہے ۔ آپ کاسلسلہ نسب یہ ہے:
عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزّٰی بن ریاح بن عبد اللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔
عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خصوصی دعا کے ذریعہ ایمان سے سرفراز ہوئے ۔ آپ ﷺ نے دعا کیا تھا کہ یا اللہ عمر بن خطاب یا ابوجہل بن ھشام کے ذریعہ اسلام کو تقویت پہنچا ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا حضرت عمر فاروق کے حق میں قبول فرمالیا ۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ: بِأَبِي جَهْلٍ , أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ “، قَالَ: وَكَانَ أَحَبَّهُمَا إِلَيْهِ عُمَرُ(سنن ترمذی،باب فِي مَنَاقِبِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضى الله عنه۔حدیث نمبر: ٣٦٨١ )
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ان دونوں یعنی ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے جو تجھے محبوب ہو اس کے ذریعہ اسلام کو طاقت و قوت عطا فرما“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو ان دونوں میں سے عمر اللہ کے محبوب نکلے“۔
اس دعائے مستجاب کا اثر یہ ہوا کہ کچھ دنوں کے بعدعمر بن خطاب کا دامن دولت ایمان سے بھر گیا۔تاریخ و سیرت کی کتابوں میں عمر فاروقؓ کے قبولِ اسلام میں کا واقعہ جس کو عام طور پر ارباب سیرنے لکھاہےوہ یہ ہے کہ جب عمرفاروقؓ اپنی انتہائی سختیوں کے باوجود ایک شخص کو بھی اسلام سے بددل نہ کرسکے تو آخر کار مجبور ہوکر (نعوذ باللہ) خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا اور تلوار کمر سے لگا کر سیدھے رسول اللہ کی طرف چلے راہ میں اتفاقاً نعیم بن عبداللہ مل گئے، ان کے تیور دیکھ کر پوچھا خیر تو ہے؟ بولے”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ کرنے جارہا ہوں، انھوں نے کہا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو خود تمھاری بہن اور بہنوئی اسلام لا چکے ہیں” فوراً پلٹے اور بہن کے یہاں پہنچے، وہ قرآن پڑھ رہی تھیں، ان کی آہٹ پاکر چپ ہوگئیں اور قرآن کے اجزاء چھپالئے،لیکن آواز ان کے کان میں پڑ چکی تھی، بہن سے پوچھا یہ کیسی آواز تھی؟ بولیں کچھ نہیں، انھوں نے کہا میں سن چکا ہوں کہ تم دونوں مرتد ہو گئے ہو، یہ کہہ کر بہنوئی سے دست وگریباں ہو گئے اور جب ان کی بہن بچانے کو آئیں تو ان کی بھی خبر لی، یہاں تک کہ ان کا جسم لہو لہان ہو گیا،لیکن اسلام کی محبت پر ان کا کچھ اثر نہ ہوا”بولیں عمر جو بن آئے کرلو ،لیکن اسلام اب دل سے نہیں نکل سکتا“”ان الفاظ نے عمر ؓبن خطاب کے دل پر خاص اثر کیا، بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا، ان کے جسم سے خون جاری تھا، اسے دیکھ کر اور بھی رقت ہوئی، فرمایا تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھے بھی سناؤ، فاطمہ ؓ نے قرآن کے اجزاء سامنے لاکر رکھ دیے، اٹھاکر دیکھا تو یہ سورۃ تھی: “سَبَّحَ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِo وَہُوَالْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ” زمین وآسمان میں جو کچھ ہے سب خدا کی تسبیح پڑھتے ہیں، وہ غالب اور حکمت والا ہے۔” ایک ایک لفظ پر ان کا دل مرعوب ہوتا جاتا تھا، یہاں تک کہ جب اس آیت پر پہنچے: “اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ” خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ تو بے اختیار پکاراٹھے ”اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً عبدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ” یہ وہ زمانہ تھاجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارقم ابن ارقم ؓ کے مکان پر جو کوہ صفا کے نیچے واقع تھا پناہ گزین تھے، عمر بن خطاب نے آستانہ مبارک پر پہنچ کر دستک دی، چونکہ شمشیر بکف تھے، صحابہ کو تردد ہوا، لیکن حضرت حمزہ ؓ نے کہا آنے دو، مخلصانہ آیا ہے تو بہتر ہے ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کردوں گا، عمر فاروقؓ نے اندر قدم رکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر فرمایا”کیوں عمر!کس ارادے سے آئے ہو؟“ نبوت کی پر جلال آواز نے ان کو کپکپا دیا، نہایت خضوع کے ساتھ عرض کیا ایمان لانے کے لیے !آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بے ساختہ اللہ اکبر کا نعرہ اس زور سے مارا کہ تمام پہاڑیاں گونچ اٹھیں۔
عمر فاروق ؓ کے ایمان کاواقعہ نہایت ہی دلچسپ اور معنی خیز ہے کہ اللہ تعالیٰ سعید روحوں کو ایمان کی طرف کیسے کھینچ کرلاتاہے ۔عمر فاروقؓ گھر سے رسول اللہ ﷺ کے قتل کے ارادہ سے نکلے تھے لیکن جب اپنے گھر واپس آئے تو ایمان کی دولت سے مالامال تھے ۔آپ کے ایمان لانے کے بعد ایمان والوں کو بڑی تقویت حاصل ہوئی اور جو مسلمان چھپ چھپ کی اپنی عبادات کیا کرتے تھے انہیں کھلے عام اللہ کی عبادت کرنے کا موقع ملا۔
آپ ؓ ان دس خوش نصیب مسلمانوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تبارت و تعالیٰ نے اس دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی تھی ۔رسول اللہ ﷺ کے کے سسر بھی ہیں آپؓ کی بیٹی حضرت حفصہ ؓ رسول ﷺ کی ازواج مطہرات میں شامل ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ ؓ حق کی زبان عطا فرمایا تھا اور آپ کی زبان سے ہمیشہ حق کلمہ ہی جاری ہوتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهٖ ”اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان و دل پر حق کو جاری فرما دیا ہے“(سنن ترمذی حدیث نمبر: ٣٦٨٢ )آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا : لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ۔”اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے“ اس کے علاوہ بہت سے فضائل ومناقب ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے عمر فاروقؓ کے بارے میں ارشاد فرمائے۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی وفات کے بعد ٢٣ اگست سنہ ٦٣٤ ء مطابق ٢٢ جمادی الثانی سنہ ١٣ ھ کو خلیفہ نامزد ہوئے اور نہایت عدل وانصاف کے ساتھ پوری دنیا میں اسلامی حکومت کی روشنی پہنچائی ۔ان کے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے اور اس کا رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزار اور تیس (٢٢٥١٠٣٠ ) مربع میل پر پھیل گیا۔ عمر بن خطاب ہی کے دور خلافت میں پہلی مرتبہ بیت المقدس فتح ہوا، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگین آ گیا۔ عمر بن خطاب نے جس مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل شہنشاہیت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر لیا، نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے۔
٢٧ ذی الحجہ ٢٣ ہجری کو نماز فجر کی امامت کے دوران ابو لولو فیروز نامی مجوسی نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خنجر سے زخمی کر دیا جس کے تین روز بعد یکم محرم الحرام ٢٤ ہجری کو آپؓ نے جام شہادت نوش فرمایا۔آپؓ روضہ رسولؐ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو مبارک میں مدفون ہیں۔