اسلام کا معاشرتی امتیاز
دنیا میں جتنی بھی مخلوقات آباد ہیں ان میں انسان کو اشرف المخلوقات بنایا گیا اور اسے کرامت کا تاج پہناکر اس زمین پرخلیفۃ اللہ کی حیثیت دی گئی۔تہذہب وتمدن انسان کی امتیازی صفت ہے ۔ جانوروں کے رہنے سہنے ،اٹھنے بیٹھنے ،کھانے پینے کے آداب متعین نہیں ہیں انہیں جس طرح کی سہولت ملتی ہے ویسی ہی زندگی گذار تے ہیں ۔کھانے پینے کے لئے جوکچھ جس حالت میں ملتا ہے وہ اسے کھاپی لیتے ہیں،لباس مکان کی پابندی سے آزاد ہیں،دوست یار ، آ ل اولاد ، خاندان کنبہ کی انہیں ضرورت نہیں ۔لیکن انسان کی پہچان اس کا تمدن اور اس کی تہذیب ہے ۔ زندگی گزارنے میں وہ مختلف اصولوں کا پابند ہے۔اسلام ایک دین فطرت ہے اس لئے اس نے انسانی فطرت کے عین مطابق زریں اصول بتایا ہے جس سے انسان اپنی انفرادی واجتماعی زندگی کو مہذبانہ انداز میں سکون کے ساتھ گذار سکے ۔کھانے پینے ،سونے اٹھنے ۔چلنے پھرنے ۔پہننے اوڑھنے ،ایک دوسرے سے ملنے جلنے اور چیزوں کے برتنے کے اصول و آداب تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے ۔
اسلامی تعلیمات کایہ امتیاز ہے کہ اس نے اپنے ماننے والوں کو صرف عبادت کرنے کا طریقہ ہی نہیں سکھایا بلکہ جوخالص انسانی ضروریات ہیں ان میں بھی رہنمائی کی ہے ۔ کھانے کے آداب میں سے یہ ہے کہ اول انسان حلال کھانا کھائے ۔کھانے سے پہلے ہاتھ دھولے، بیٹھ کر کھائے ، داہنے ہاتھ سے کھائے ، دسترخوان بچھا کر کھائے،کھانے کا محتاج بن کر کھائے ، بھوک لگے تب کھائے ، بھر پیٹ کھانا نہ کھائے،کھانے میں عیب نہ نکالے ،ٹیک لگاکر نہ کھائے، سونے چاندی کے برتن میں نہ کھائے ،کھانے میں دوسرے لوگوں کو بھی شریک کرے،کھانے کے بعد اللہ کا شکر اداکرے ۔پہننے اوڑھنے کے آداب میں یہ ہے کہ ایسا کپڑا پہنے جس سے مناسب طور پر ستر پوشی ہوسکے ،کبرونخوت والا کپڑا نہ پہنے ۔کوئی ایسا کپڑا نہ پہنے جس سے کسی اور قوم کی مشابہت ہوتی ہو،مرد ریشمی کپڑا نہ پہنے، ٹخنوں سے اوپر کپڑا پہنے ،پاک صاف کپڑا پہنے ۔گھریلو زندگی کے آداب یہ ہیں کہ گھر کے ہر فرد کو اس کا مقام دے ، بھائی بہن ماں باپ بیوی اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ مناسب برتاؤکرے ۔مجلس کے آداب میں یہ ہے کہ مجلس میں ہرشخص کو اس کی حیثیت کے مطابق مقام دیں ۔کسی کو اٹھاکر اس کی جگہ پر خود نہ بیٹھیں ،مل جل کربیٹھیں،کسی کی تحقیر نہ کریں۔اجتماعی اعتبار سے ہر مسلمان دوسرے مسلمان کواپنا بھائی سمجھے، اس کے دکھ درد میں شریک ہو، اپنی طرف سے اسے کوئی تکلیف نہ پہنچائے ۔جب جہاں جسے بھی مدد کی ضرورت ہو اس کی ضرورت اپنی بساط کے بقدر پورا کرے ۔کبھی کسی پر ظلم نہ کرے۔نہ خود ظلم کرے نہ کسی کو ظلم کرنے کا موقع دے ۔
الغرض جس طرح انسان اشرف المخلوقات ہے اسی طرح اس کامعاشرہ بھی اشرف ہونا چاہئے۔ انسان کے مقابلے میں دوسری مخلوقات میں علم ، عقل ، صلاحیت ،فہم وفراست اور ادراک و احساس کی کمی ہے اس لئے ان کے لئے آداب زندگی کی تعلیم نہیں دی گئی ہے لیکن انسان ایک مہذب مخلوق ہے اس کے پاس عقل ودانش اور علم وفضل کی صفت موجود ہے اس لئے اس کوآداب واصول کا پابند بنایا گیا۔ کسی بھی انسانی معاشرہ میں ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں ۔ان میں مرد عورت ، عالم جاہل ، نیک وبد ، چھوٹے بڑے، امیر و غریب، ضعیف وکمزور اور قوی و طاقتور ہر قسم کے افراد ہوتے ہیں اور پھر ان کی عادات واطوار بھی مختلف قسم کی ہوتی ہیں۔ اسلام نے ان میں سے ہر ہر فرد کی ذمہ داریوں کوالگ الگ بیان کیا ہے،ان میں سے ہر ایک کو اخلاقی ضوابط اوراصولوں کا پابند بنایا ہے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دی ہے جولوگ ان ضابطوں اور اصولوں کو اپنی زندگی میں نافذ کرتے ہیں وہ انسانیت کی ضرورت بن جاتے ہیں۔دنیا میں بھی عزت وشرافت کا تاج ان کے سر پر رکھا جاتاہے اور آخرت میں بھی سرخرو اور فلاح یاب ہوں گے۔
دنیا میں جتنی بھی قومیں آباد ہیں ان میں فطری طور پر بڑے اپنے چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آتے ہیں اور چھوٹے اپنے بڑوں کااحترام کرتے ہیں لیکن ان میں سے اگر کو ئی شخص اس فطرت کے خلاف عمل کرتاہے اور چھوٹوں پر شفقت کے بجائے ظلم وجبر اور بڑوں کے اکرام کے بجائے ان کی بے عزتی اور تذلیل کرتاہے تو اس سے بازپرس کرنے کا کوئی خاص ضابطہ تمام اقوام کے پاس موجود نہیں ہے ۔ لیکن اسلام نے اس معاملے میں پکے اور بین اصول بیان کئے ہیں۔جن پر عمل کرکے انسان اپنی زندگی کے لمحات کوخوشگوار بناسکتاہے۔
اسلام کی معاشرتی تعلیمات میں سے ایک اہم تعلیم یہ ہے چھوٹے اپنے بڑوں کی عزت و توقیر کریں اور بڑے اپنے چھوٹوں کے ساتھ شفقت اور مہربانی سے پیش آئیں ۔ تاکہ دونوں طبقات کے درمیان الفت و محبت کی فضا استوار ہوسکے۔
چھوٹے بچے جن کے پاس تجربات کی کمی اور علم کا فقدان ہوتا ہے وہ ہر میدان میں اپنے بڑوں کی رہنمائی کے محتاج ہوتے ہیں ۔ کبھی کبھی ان سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں۔ایسے مواقع سے بزرگوں کو چاہئے کہ ان بچوں کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آئیں ۔ مار پیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ان کی غلطیوں کو درگذر کرکے اپنے تجربے کی روشنی میں ان کے بہتر مستقبل کے لئے فکرمند ہونا چاہئے۔ اسی طرح چھوٹوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے بڑوں کے ساتھ ادب و احترام کے ساتھ پیش آئیں ۔ ان کے سامنے کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے ان کو تکلیف پہنچے۔ عمر کے ساتھ ساتھ انسان اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے دوسروں کا محتاج ہونے لگتا ہے ۔ہر وقت اسے کسی کی مدد اور دستگیری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے مواقع پر چھوٹوں کو چاہئے کہ اپنے بڑوں کے کام میں ہاتھ بٹائیں اور ان کی فرماں برداری میں کوئی کوتاہی نہ ہونے دیں۔کبھی کسی موقع سے اگر بڑے کچھ سخت بات بول دیں تو اس کو اپنے دل پر نہ لیں بلکہ ان کے ساتھ وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرکے ان کی دلجوئی کو اپناشعار بنائیں۔
اسی طرح آپس میں بات چیت کرتے ہوئے اس بات کاخیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ ہماری بات سے کسی کی دلی تکلیف نہ ہو ۔ بلکہ قرآن کی ہدایت ہے کہ لوگوں کے ساتھ ہمیشہ اچھی بات کریں ۔یہ ایک ایسا نظام ہے جس کی مثال دنیاکے کسی بھی تہذیب میں نہیں ہے ۔اسلام کے ماننے والوں نے اپنی تہذیب کو چھوڑ کر غیروں کی تہذیب اپنالیا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں بھی وہ ذیل ہورہے ہیں اور آخرت میں بھی رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ ہمیں عزت وتوقیر دیا ہے اگر ہم نے اسلام کو چھوڑ کر کہیں اور عزت تلاش کرنا شروع کیا تو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو خلیفۂ دوم ہیں جنہوں نے اسلامی فتوحات کے ذریعہ اسلام کی روشنی پورے عالم میں پھیلا یا، جن کے رعب سے دشمن تھر تھر کانپتے تھے ۔ جب انہوں نے بیت المقدس کاسفر کیا تو ان کے کچھ ساتھیوں نے درخواست کی کہ اہل کتاب سے مذاکرہ کے وقت لباس بدل لیں تو آپ ؓ نے نہایت تاریخی جملہ ارشاد فرمایا :كنا أذل أمة فأعزنا الله بالإسلام، ومهما ابتغينا العزة في غيره أذلنا الله.کہ ہم ایک حقیر قوم تھے اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ ہمیں عزت دیا ، ہم جب بھی اس کے علاوہ کہیں عزت تلاش کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں ذلیل کردیں گے ۔ امیرالمومنین عمر فاروق ؓ کے اس جملہ پر غورکریں اور اپنے حالات کاجائزہ تو پتہ چل جائے گا کہ آج مجموعی طور پر ہم جو ذلت وخواری کی زندگی گذاررہے ہیں ا س کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہم نے اسلامی تہذیب کو چھوڑ کر مغربی طرز معاشرت کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھا ۔اپنے رہن سہن کوچھوڑ کر ایسی قوموں کے رہن سہن کو اپنے گھروں میں داخل کردیا جن کو اللہ تعالیٰ نے مغضوب اور ضالین کاخطاب دیا ہے ۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم بھی قعر مذلت میں گرتے چلے گئے۔
آج ضرورت ہے کہ ہم اپنی ذات کااور اپنے گردو پیش کابغورجائزہ لیں اور اسلامی تہذیب تمدن کوفروغ دینے کی کوشش کریں ۔ اس لئے کہ یہی وہ شاہ کلید ہے جو ہماری عزت و توقیر کو واپس دلا سکتی ہے۔

2 thoughts on “اسلام کا معاشرتی امتیاز”
  1. me encantei com este site. Para saber mais detalhes acesse o site e descubra mais. Todas as informações contidas são informações relevantes e exclusivos. Tudo que você precisa saber está ta lá.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *