امیر کی ضرورت و اطاعت
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا)النساء: ٥٩ )
اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو الله تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی الله علیہ وسلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، الله تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں الله تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔ “
اسلام ایک عالمی مذہب ہے اور اس کے احکام بھی عالمی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ماننے والے دنیا کےہر خطہ میں موجود ہیں کہیں کم اور کہیں زیادہ ۔جس طرح اسلام نے مسلمانوں کے دینی ،عائلی ، معاشی، معاشرتی،اور اخلاقی حالات کے مناسب احکام دیا ہے اسی طرح ان کی اجتماعی زندگی سے متعلق بھی نہایت واضح احکامات دیئے ہیں۔ مسلمانوں کی جماعت کوانتشار سے بچانے کےلئے یہ حکم ہے کہ کہیں بھی مسلمان موجود ہوں تو وہ اپنے میں ایک امیر ضرور منتخب کرلیں۔یہاں تک کہ آپ نے فرمایا کہ اگر کسی سفر میں صرف تین آدمی بھی ہوں تو اپنے میں سے کسی کو امیر بنالیں :
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” إِذَا خَرَجَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ”.(سنن ابي داود۔كِتَاب الْجِهَادِ۔ باب فِي الْقَوْمِ يُسَافِرُونَ يُؤَمِّرُونَ أَحَدَهُمْ:حدیث نمبر٢٦٠٨ )
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تین افراد کسی سفر میں نکلےہوں تو اپنے میں سے کسی ایک کو امیر بنا لیں“۔
اس حدیث سے پتہ چلتاہے کہ مسلمانوں کی زندگی میں امیر کی کتنی بڑی اہمیت ہے ۔ مسلمان جہاں بھی ہوں ، جوبھی کام کررہےہوں انہیں اپنے لئے ایک امیر بناکر ہی کام کرنا چاہئے ۔ اس لئے کہ امیر کی ہدایت کے ساتھ جب کام ہوگا تو وہ کام صحیح رخ پر ہوگا اور اس میں اللہ کی مدد بھی ہوگی۔مل جل کر رہنا اور جماعت کے ساتھ رہنا رسول اللہ ﷺ کی تعلیم بھی ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کی تائید بھی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي، أَوْ قَالَ: أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ، وَيَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ، وَمَنْ شَذَّ شُذَّ إِلَى النَّارِ(سنن ترمذي۔كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم۔ باب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ۔حدیث نمبر: ٢١٦٧ ) (”اللہ تعالیٰ میری امت کو یا یہ فرمایا: ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا، اللہ کا ہاتھ (اس کی مدد و نصرت) جماعت کے ساتھ ہے، جو شخص جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں گرا“۔)
اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ کسی بھی معاملے میں اپنی راہ الگ نہ بنائیں بلکہ جماعت کے ساتھ چلنے کی کوشش کریں ۔ اور امیرکی اطاعت ہر حال میں لازم سمجھیں ۔جب تک کہ امیر ی طرف سے اللہ کی نافرمانی کاحکم نہ دیا جائے ۔جائز امور میں امیرکی اطاعت ایسی ہی ہے جیسے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت عین اللہ کی اطاعت ہے ۔ذیل کی حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
عَنْ اَبِی هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمَنْ أَطَاعَ أَمِيرِي فَقَدْ أَطَاعَنِي، وَمَنْ عَصَى أَمِيرِي فَقَدْ عَصَانِي .(صحیح بخاری ۔کتاب الاحکام بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ :حدیث نمبر٧١٣٧ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔“
مسلمانوں کی جماعت کی متفقہ رائے سے جب کوئی امیر متعین ہوجائے تو اب کسی بھی شخص کو کسی بھی حال میں امیرِ کے خلاف جانے کی اجازت نہیں ہے ۔چاہے ظاہری حیثیت کے اعتبار سے وہ امیر غلام ہو یا مقطوع الاعضاء ہو ۔ہاں معصیت میں اتباع نہیں کی جائے گی ۔
عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: ” إِنَّ خَلِيلِي أَوْصَانِي أَنْ أَسْمَعَ وَأُطِيعَ، وَإِنْ كَانَ عَبْدًا مُجَدَّعَ الْأَطْرَافِ “،(صحيح مسلم۔كِتَاب الْإِمَارَةِ۔ باب وُجُوبِ طَاعَةِ الأُمَرَاءِ فِي غَيْرِ مَعْصِيَةٍ وَتَحْرِيمِهَا فِي الْمَعْصِيَةِ:حدیث نمبر٤٧٥٥ )
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میں (امیر کی بات) سنوں اور اطاعت کروں، چاہے وہ (امیر) کٹے ہوئے اعضاء والا غلام ہی کیوں نہ ہو۔
قرآن کریم میں طالوت اور جالوت کا واقعہ ہمارے لئے بہترین مثال ہے ۔سورہ بقرہ آیت نمبر247 میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے:
وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُوا أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ(سورہ بقرہ ۔ ٢٤٧ )
اور ان سے ان کے نبی نے کہا بے شک اللہ نے تمھارے لیے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔ انھوں نے کہا اس کی حکومت ہم پر کیسے ہو سکتی ہے، جبکہ ہم حکومت کے اس سے زیادہ حق دار ہیں اور اسے مال کی کوئی وسعت بھی نہیں دی گئی؟ فرمایا بے شک اللہ نے اسے تم پر چن لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ فراخی عطا فرمائی ہے اور اللہ اپنی حکومت جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ وسعت والا،سب کچھ جاننے والا ہے۔
پھر جب بنی اسرائیل نے طالوت کی قیادت میں جہاد کیا تو جالوت کے مقابلہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح عطا فرمائی۔
امیر کے انتخاب کے وقت ہی مسلمانوں کو اپنے میں سےایسے شخص کو امیر منتخب کرنا چاہئےجو ان سے دینی امور میں بھی فائق ہو اور علمی اعتبار سے بھی نیز جسمانی طاقت کے اعتبار سے مضبوط اعصاب کامالک ہو ۔اور پھر جب تک وہ خیر کاحکم دے اس کی اطاعت لازمی طور پر کرنی چاہئے ۔ لیکن اگر اس نے کسی ناجائز امر کاحکم دیا تو اس وقت اس کی اطاعت نہیں کرنی چاہئے۔ایسا ہی ایک واقعہ رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں پیش آیا جس میں امیر نے صحابہ کو آگ میں کود جانے کا حکم دیا تو انہوں نے اس کی اطاعت نہ کی اور رسول اللہ ﷺ نے ان کے اس عمل کو بہتر قرار دیا ۔
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:” بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يُطِيعُوهُ، فَغَضِبَ عَلَيْهِمْ، وَقَالَ: أَلَيْسَ قَدْ أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُطِيعُونِي، قَالُوا: بَلَى، قَالَ: قَدْ عَزَمْتُ عَلَيْكُمْ لَمَا جَمَعْتُمْ حَطَبًا وَأَوْقَدْتُمْ نَارًا ثُمَّ دَخَلْتُمْ فِيهَا، فَجَمَعُوا حَطَبًا فَأَوْقَدُوا نَارًا، فَلَمَّا هَمُّوا بِالدُّخُولِ فَقَامَ يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، قَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّمَا تَبِعْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِرَارًا مِنَ النَّارِ أَفَنَدْخُلُهَا، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ، إِذْ خَمَدَتِ النَّارُ وَسَكَنَ غَضَبُهُ، فَذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَوْ دَخَلُوهَا مَا خَرَجُوا مِنْهَا أَبَدًا، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ”.(صحيح البخاري۔كِتَاب الْأَحْكَامِ۔ بَابُ السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ لِلإِمَامِ مَا لَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً:حدیث نمبر ٧١٤٥ )
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دستہ بھیجا اور اس پر انصار کے ایک شخص کو امیر بنایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ ان کی اطاعت کریں۔ پھر امیر فوج کے لوگوں پر غصہ ہوئے اور کہا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ضرور دیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ لکڑی جمع کرو اور اس سے آگ جلاؤ اور اس میں کود پڑو۔ لوگوں نے لکڑی جمع کی اور آگ جلائی، جب کودنا چاہا تو ایک دوسرے کو لوگ دیکھنے لگے اور ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری آگ سے بچنے کے لیے کی تھی، کیا پھر ہم اس میں خود ہی داخل ہو جائیں۔ اسی دوران میں آگ ٹھنڈی ہو گئی اور امیر کا غصہ بھی جاتا رہا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ اس میں کود پڑتے تو پھر اس میں سے نہ نکل سکتے۔ اطاعت صرف اچھی باتوں میں ہے۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا واضح ارشاد ہے کہ معصیت میں کوئی اطاعت نہیں ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ”.(صحيح البخاري۔كِتَاب الْأَحْكَامِ۔. بَابُ السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ لِلإِمَامِ مَا لَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً:حدیث نمبر٧١٤٤ )
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مسلمان کے لیے امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے، ان چیزوں میں بھی جنہیں وہ پسند کرے اور ان میں بھی جنہیں وہ ناپسند کرے، جب تک اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے۔ پھر جب اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو نہ سننا باقی رہتا ہے نہ اطاعت کرنا۔“
موجودہ حالات میں جب کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں اسلامی حکومت نہیں ہے اس لئے ہمارا ملکی امیر موجود نہیں ہے ۔ لیکن جزئی طور پر ہر جگہ امیر موجود ہیں اور جائز امور میں ہمیں ان کی اطاعت و فرماں برداری کرنی چاہئے ۔گھر کے اندر ہمارا ایک امیر باپ کی شکل میں موجود ہے جس کی نافرمانی گویا اللہ کی نافرمانی ہے ۔محلہ کے اعتبار سے مسجد کا امام امیر کی شکل میں موجود ہے ۔شہر اور گاؤں کے اعتبار جامع مسجد کاامام اور قاضی ہمارا امیر ہے ۔ صوبہ بہار ، اڈیسہ ، جھارکھنڈ اورمغربی بنگال کے مسلمانوں کی خوش نصیبی ہے کہ امارت شرعیہ کا ایک منظم نظام موجود ہے جس میں امیر شریعت کے علاوہ ہر جگہ امارت شرعیہ کے نمائندے موجود ہیں جوامیر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ان کی اتباع کو لازم پکڑنے کی کوشش کرنا چاہئے اور اس نظام کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
امیر کے معاملے میں تبلیغی جماعت آج کے دور میں ایک مثالی جماعت ہے کہ ان کی کوئی بھی جماعت بغیر امیر کے نہیں نکلتی اور جماعت کے ساتھیوں کو امیر کی مکمل اطاعت کاپابند بنانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔حلقوں ، ضلعوں ، صوبوں اور ملکوں بلکہ عالمی اعتبار سے بھی امیر متعین ہیں اور یہ نظام بہتر انداز سے کام کررہا ہے۔کچھ معاملات ایسے ہیں جن میں اصلاح کی ضرورت ہے لیکن منجملہ یہ ایک کارآمد اور مفید نظام ہے جس کی تائید کی جانی چاہئے۔
پھر جب کسی جماعت کا امیر مسلمانوں کی متفقہ رائے سے منتخب ہو جائے تو مسلمانوں کو چاہیے کہ اس کی کامل اطاعت کرنی چاہیے ۔ کسی موقع پر امیر کا حکم ہمارے مزاج کے خلاف ہو پھر بھی امیر کی اطاعت لازم ہے چاہے اس میں ہمیں اپنے دل پر جبر ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یہی ہے۔
نْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَيْكَ السَّمْعَ وَالطَّاعَةَ فِي عُسْرِكَ وَيُسْرِكَ، وَمَنْشَطِكَ وَمَكْرَهِكَ، وَأَثَرَةٍ عَلی غیرہ
صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِمَارَةِ (بَابُ وُجُوبِ طَاعَةِ الْأُمَرَاءِ فِي غَيْرِ مَعْصِيَةٍ، وَتَحْرِيمِهَا فِي الْمَعْصِيَةِ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم پر (امیر کا حکم) سننا اور ماننا واجب ہے، اپنی مشکل (کی کیفیت) میں بھی اور اپنی آسانی میں بھی، اپنی خوشی میں بھی اور اپنی ناخوشی میں بھی اور اس وقت بھی جب اس پر (کسی اور کو) ترجیح دی جا رہی ہو۔
چاہے ہمیں یہ محسوس ہو کہ جان بوجھ کر ہمارے اوپر دوسروں کو ترجیح دی جارہی ہے پھر بھی اجتماعیت کو برقرار رکھنے کے لیے امیر کی اطاعت کرنی چاہیے ۔
محمد ابن قاسم، طارق ابن زیاد اور موسیٰ ابن نصیر کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ انہوں نے اپنی جان گنوادی لیکن امیر کی اطاعت سے منھ نہیں موڑا۔
Do you mind if I quote a few of your posts as long as I provide credit and sources back to your weblog? My blog is in the very same niche as yours and my users would certainly benefit from some of the information you provide here. Please let me know if this okay with you. Regards!