آصف قاسمی

اللہ کا خوف

 

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی 

 اللہ سے محبت رکھنا اہل ایمان کاخاصہ ہے جن کے دلوں میں ایمان موجود ہے وہ یقینًا اللہ تعالیٰ کو اپنا محبوب جانتے اور مانتے ہیں۔ یہی محبت انہیں اللہ تعالیٰ کاقرب اور اس کی رحمتوں کی مستحق بناتی ہے۔ اگریہ محبت چھن جائے اور محبوب ناراض ہوجائے تو ظاہر ہے اب نہ تو وہ قرب کی لذت میسر ہوگی اور نہ ہی نوازشات وعنایات کی بارشیں بلکہ عتاب لازم ہوگا۔ اس لئے ایک مومن کے دل میں اللہ کاخوف ہروقت موجود رہنا چاہئے اور کوئی ایساعمل نہیں کرنا چاہئے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کاسبب بن جائے۔ انسان چاہے کتناہی بلندی پرچلا جائے، آسمانوں میں کمندیں ڈال دے، سیاروں اورستاروں کو اپنی سیر گاہ بنالے اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت سے باہر نہیں جاسکتا۔اس لئے ہر عمل سے پہلے اس کے انجام کے بارے میں سوچنا اور اللہ کی ناراضی والے اسباب سے بچنا انسان کے لئے نہایت ضروری ہے۔

اللہ سے ڈرنے والوں کا ٹھکانہ جنت ہے

اللہ تبارک وتعالیٰ ہی ہمارا مالک حقیقی ہے اوراسی نے ساری کائنات کوابتداء ً پیدا فرمایا۔ اس کائنات میں رنگینیاں اورزیب وزینت کے ساز وسامان پیدافرمائے۔ایک مومن کایہ ایمان ہوتا ہے کہ اس کائنات کی ایک ایک حرکت کے پیچھے حضرت حق جل مجدہ کی دست قدرت کارفرما ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کونیست سے ہست کیااورپھر ایک وقت ایسابھی آئے گا جب اس ہست کونیست سے بدل دے گا اورپھر نیست کوہست سے بدل کر سب کو اپنے سامنے حاضر کرے گا۔اس وقت کائنات کاذرہ ذرہ دست قدرت کے رحم وکرم کا محتاج ہوگا اورہرشخص کو اس عظیم ذات کے سامنے کھڑا ہوکر جوابدہ ہوناپڑے گااور پھر ہر شخص کواس کے آخری انجام تک پہنچادیا جائے گا۔ اس قادرمطلق کے سامنے کھڑا ہونے کاخوف ہرمومن پر طاری رہتاہے اور رہناچاہئے اور ایسے لوگوں کے لئے جواللہ سے ڈرتے ہیں ان کے لئے اللہ تعالی کے یہاں اچھے انجام کاوعدہ ہے  وَامَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ  وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَأْوٰی(والنازعات) اورجوشخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا ہوگا اور نفس کوخواہشات سے روکا ہوگاتواس کاٹھکاناجنت ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ کاخوف ہی انسان کوبرائیوں سے روکتاہے اور نیکیوں پر آمادہ کرتا ہے اسی لئے اللہ تعالی نے بار بار اپنے خوف کی ترغیب دی ہے اور جولوگ اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے لئے اپنی رحمتوں کے وعدے فرمائے ہیں۔کہیں اس طرح ارشاد ہوتاہے:اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیْطَانُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَاءَہٗ فَلَا تََخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِیْ اِنْ کُنْتُمْ مُّوْمِنِیْنَ (آل عمران ١٧٥  )  بے شک وہ شیطان ہے جوکہ اپنے دوستوں سے ڈراتاہے،تم ان سے نہ ڈرو اور صرف مجھ ہی سے ڈرو اگرتم مومن ہو۔ کہیں ارشاد باری ہے:فَلَا تَخْشَوُا ا لنَّاسَ وَاخْشَوْنِ (مائدہ۴۴) لوگوں سے مت ڈرو بلکہ صرف صرف مجھ سے ڈرو۔ ایک جگہ یوں ارشاد ہے:وَاِیَّایَ فَارْھَبُوْنَ (بقرہ٤٠  ) اور خالص مجھ ہی سے ڈرو نیز فرشتوں کے ڈرنے کی حالت کوتعریفی انداز میں یوں فرمایا:  وَھُمْ مِنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ (انبیا ٢٨  ) وہ اس کے خوف سے ترساں رہتے ہیں۔انبیائے کرام اوراولیاء کی خشیت کی تعریف اس انداز سے فرمائی: اِنَّھُمْ کَانُوْا یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرَاتِ وَیَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَھَبًا وَّکَانُوْا لَنَاخَاشِعِیْنَ (انبیا ٩٠  ) بے شک  وہ (انبیاء علیہم السلام) بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور رخوف ورغبت کے ساتھ ہمیں پکارتے ہیں اوروہ ہم ہی سے ڈرنے والے ہیں۔جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے خصوصی جنت بنارکھی ہے جس میں طرح طرح کی نعمتیں ان کاانتظار کررہی ہیں۔جس کا پورا نقشہ سورۂ رحمن میں کھینچ دیا گیا ہے۔

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ (٤٦ )فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِِ (٤٧ ) ذَوَاتَا اَفْنَانٍ (٤٨ )  فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ (٤٩ )فِیْہِمَا عَیْنَانِ تَجْرِیَانِ (٥٠ )فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ (٥١ )فِیْہِمَا مِنْ کُلِّ فَاکِہَۃٍ زَوْجَانِ (٥٢ )فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ (٥٣ ) مُتَّکِئِینَ عَلٰی فُرُشٍ بَطَائِنُہَا مِنْ اِِسْتَبْرَقٍ وَّجَنَا الْجَنَّتَیْنِ دَانٍ (٥٤ )فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ (٥٥ ) فِیْہِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ یَطْمِثْہُنَّ اِِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلاَ جَانٌّ (٥٦ )فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ  (٥٧ )کَاَنَّہُنَّ الْیَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ (58)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ (٥٩ ) ھَلْ جَزَآءُ الْاِِحْسَانِ اِِلَّا الْاِِحْسَانُ (٦٠ )فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ (٦١ )وَمِنْ دُوْنِہِمَا جَنَّتَانِ (٦٢ )فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ (٦٣ )مُدْہَامَّتَانِ (٦٤ )فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ (٦٥ )فِیْہِمَا عَیْنَانِ نَضَّاخَتَانِ(٦٦ ) فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ (٦٧ ) فِیْہِمَا فَاکِہَۃٌ وَّنَخْلٌ وَرُمَّانٌ (٦٨ )فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ(٦٩ ) فِیْہِنَّ خَیْرَاتٌ حِسَانٌ (٧٠ )فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ (٧١ )حُورٌ مَّقْصُورَاتٌ فِی الْخِیَامِ (٧٢ )فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ  (٧٣ )لَمْ یَطْمِثْہُنَّ اِِنسٌ قَبْلَہُمْ وَلاَ جَانٌّ (٧٤ ) فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ (٧٥ )مُتَّکِئِینَ عَلٰی رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّعَبْقَرِیٍّ حِسَانٍ (٧٦ )فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ (٧٧ )تَبَارَکَ اسْمُ رَبِّکَ ذِیْ الْجَلاَلِ وَالْاِِکْرَامِ (٧٨  رحمٰن)

ترجمہ:    اور اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، دو باغ ہیں۔ تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے؟ دونوں بہت شاخوں والے ہیں۔ تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے؟ ان دونوں میں دو چشمے ہیں، جو بہہ رہے ہیں۔ تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے؟ ان دونوں میں ہر پھل کی دو قسمیں ہیں۔ تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے؟ ایسے بستروں پر تکیہ لگائے ہوئے، جن کے استر موٹے ریشم کے ہیں اور دونوں باغوں کا پھل قریب ہے۔ تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے؟ان میں نیچی نگاہ والی عورتیں ہیں، جنھیں ان سے پہلے نہ کسی انسان نے ہاتھ لگایا ہے اور نہ کسی جنّ نے۔ تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے؟ گویا وہ(عورتیں) یاقوت اور مرجان ہیں۔ تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے؟ نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کیا ہے۔ تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے؟ اور ان دو (باغوں) کے علاوہ اور دوباغ ہیں۔ تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے؟ دونوں سیاہی مائل گہرے سبز ہیں۔ تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے؟ ان دونوں میں جوش مارتے ہوئے دو چشمے ہیں۔ تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے؟ان دونوں میں پھل اور کھجوروں کے درخت اور انار ہیں۔ تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے؟ ان میں کئی خوب سیرت، خوبصورت عورتیں ہیں۔ تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے؟ سفید جسم، سیاہ آنکھوں والی حوریں، جو خیموں میں روکی ہوئی ہیں۔ تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے؟ ان سے پہلے نہ کسی انسان نے انھیں ہاتھ لگایا ہے اور نہ کسی جن نے۔ تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے؟ وہ ایسے قالینوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہیں جو سبز ہیں اور نادر، نفیس ہیں۔ تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے؟ بہت برکت والا ہے تیرے رب کا نام جو بڑی شان اور عزت والا ہے۔

 نبی کریم ﷺ کے ارشادات بھی کثیرتعداد میں ہیں جن سے اللہ کا خوف اس کی خشیت اور اس پرمرتب ہونے والے نتائج کاذکر ملتاہے۔ آپﷺ نے  ارشادفرمایا:

قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَا يَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَكَى مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ حَتَّى يَعُودَ اللَّبَنُ فِي الضَّرْعِ، وَلَا يَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَدُخَانُ جَهَنَّمَ (ترمذی ابواب الزہد باب ماجاء فی فضل البکاء من خشیۃ اللہ۔حدیث نمبر٢٣١١ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے خوف اور ڈر سے رونے والا شخص جہنم میں نہیں جا سکتا جب تک کہ دودھ تھن میں واپس نہ پہنچ جائے اور اللہ کی راہ کا گرد و غبار اور جہنم کا دھواں دونوں اکٹھا نہیں ہو سکتے۔

 اللہ تبارک وتعالی کو خوف وخشیت کے آنسو اتنے پسندہیں کہ ایسے شخص پرجہنم اوراس کی آگ کوحرام کردیا جواللہ کے خوف سے روتارہتاہے اورنبی کریمﷺنے فرمایاکہ جس طرح دودھ کاتھنوں میں واپس ہوجانا محال ہے اسی طرح ایسے شخص کاجہنم میں جانا محال ہے نیز اللہ کی راہ میں چلنے والوں کو جوگرد غبار کا سامنا کرنا پڑتاہے یہ بھی اللہ کوبہت پسند ہے اسی لئے نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جہنم کی آگ تو دور کی بات ہے اس کادھواں بھی اس شخص کو نہیں چھوسکتا جو اللہ کی راہ میں نکل کر مجاہدہ کرتاہے اوراس کے لئے اپنے خون پسینے کی قربانی پیش کرتاہے۔ نبی کریم ﷺ کی تعلیم اور آپ کے عمل سے یہی مقصد ظاہرہوتاہے انسان پر ہر وقت اللہ کاخوف طاری رہے یہ اللہ کو بہت زیادہ محبوب  ہے۔ نیز جہاں کہیں اللہ کے عذاب کامشاہدہ ہو توخوف وخشیت کے ساتھ وہاں سے گذرناچاہئے نبی کریمؐ کی تعلیم یہی ہے۔

عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِ الْحِجْرِ: ” لَا تَدْخُلُوا عَلَى هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ الْمُعَذَّبِينَ إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ، فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا بَاكِينَ، فَلَا تَدْخُلُوا عَلَيْهِمْ أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَهُمْ  (مسلم کتاب الزھد والرقائق۔باب النہی عن الدخول علی اھل الحجر الا من یدخل باکیا۔حدیث نمبر٧٤٦٤  )

حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اصحاب حجر کے بارے میں ارشادفرمایاکہ ان عذاب والے لوگوں پرسے روتے ہوئے گزرو اوراگر رونانہ آئے تو پھر وہاں سے نہ گزرو کہیں ایسانہ ہوکہ تم پر بھی وہ عذاب مسلط ہوجا ئے جوان پرمسلط ہواتھا۔

خوف وخشیت بقدر معرفت

جومقربین بارگاہ الہی ہیں ان پر خوف و خشیت کااثر زیادہ ہوتاہے اور وہ اللہ کی پکڑ سے ہر وقت ڈرتے رہتے ہیں۔نبی کریم  ﷺ کی حالت یہ تھی کہ جب تیز آندھی آتی تومسجد کی طرف دوڑتے تھے اور آپ کے چہرے کارنگ اڑ جاتا تھا۔اس لئے کہ آپؐ کو معلوم تھا کہ اسی آندھی سے اللہ تعالی نے ایک قوم کوتباہ وبرباد کردیاتھا کہیں ایسانہ ہوکہ یہ آندھی عذاب کی شکل میں آرہی ہو۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ کاخوف اسی کو ہوتاہے جواللہ کوپہچانتاہے اس کی طاقت وقدرت اورعظمت وکبریائی کاعلم رکھتاہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاءُ(اللہ کے بندوں میں سے علماء ہی ڈرنے والے ہوتے ہیں) اس لئے کہ علماء کواللہ تعالی کی عظمت وکبریائی کابھرپور علم بھی ہوتاہے اور اس کے عذاب وعتاب کے نظائر بھی سامنے ہوتے ہیں اس لئے ان میں ڈر زیادہ ہوتاہے وہ کوئی بھی کام ایسانہیں کرتے جواللہ کی ناراضی اور اس کے غضب کاسبب بن جائے۔ جیسے ایک ڈاکٹر کومرغّن غذاؤں کے بارے میں علم ہوتاہے کہ یہ معدہ کوخراب کرنے والی ہے اس لئے اگراس کے سامنے مرغّن غذائیں رکھ دی جائیں تووہ کھانے سے انکار کردیتا ہے حالانکہ ابھی تک اس کامعدہ خراب نہیں ہواہے لیکن اپنے علم کے ذریعہ وہ جانتاہے کہ یہ چیز میری صحت کوبگاڑ نے والی ہے اس لئے اس سے پرہیز کرتاہے۔ بالکل اسی طرح علماء کو یہ علم ہوتاہے کہ یہ فعل اللہ کی ناراضی کاسبب اوراس کے عذاب کودعوت دینے والا ہے اس لئے وہ کوئی ایسا عمل نہیں کرتے جس سے ان کارب ناراض ہوجائے حالانکہ ابھی تک ان کو عذاب یااللہ کی ناراضی کا سامنا نہیں ہو ا۔ نبی کریم ﷺ کاارشاد گرامی ہے:

عن ابی ذر رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنِّي أَرَى مَا لَا تَرَوْنَ، وَأَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُونَ، أَطَتِ السَّمَاءُ وَحُقَّ لَهَا أَنْ تَئِطَّ مَا فِيهَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ إِلَّا وَمَلَكٌ وَاضِعٌ جَبْهَتَهُ سَاجِدًا لِلَّهِ، وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا، وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا، وَمَا تَلَذَّذْتُمْ بِالنِّسَاءِ عَلَى الْفُرُشِ، وَلَخَرَجْتُمْ إِلَى الصُّعُدَاتِ تَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ شَجَرَةً تُعْضَدُ “، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَنَسٍ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَيُرْوَى مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ، قَالَ: لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ شَجَرَةً تُعْضَدُ۔ (سنن ترمذی۔کتاب الزہد والرقائق۔  باب ماجاء فی قول النبی ﷺ  ”لوتعلمون ما اعلم لضحکتم قلیلا ۔حدیث نمبر  ٢٣١٢ )

حضرت ابو ذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں وہ کچھ دیکھتاہوں جوتم نہیں دیکھتے اورمیں وہ باتیں سنتاہوں جوتم نہیں سنتے۔آسمان چرچراتاہے اور اس کاحق ہے کہ وہ چرچرائے اس میں چارانگلی کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں ہے کہ وہاں کوئی فرشتہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں پیشانی رکھ کرسجدہ ریز نہ ہو۔اللہ کی قسم اگر تم لوگ وہ کچھ جاننے لگو جو میں جانتاہوں توکم ہنستے اورزیادہ روتے اور بستروں پرعورتوں سے لذت نہ حاصل کرتے جنگلوں کی طرف نکل جاتے اوراللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے(حضرت ابوذرؓکہتے کہ)میری تمنا ہے کہ کاش میں ایک درخت ہوتاجوکاٹ دیاجاتا۔

اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی ہیبت کوبیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ کے خوف سے آسمان چرچراتاہے اورفرشتے جابجا آسمان میں سجدہ ریز ہو کر اللہ کی عظمت وکبریائی کااظہا رکررہے ہیں اوراللہ تعالیٰ کے جلال کے جومظاہر میں دیکھتا اور سنتاہوں اگر تم پر بھی وہ حالات منکشف ہوجائیں توتم برداشت نہیں کرپاؤگے اور اپنے گریبانوں کونوچتے ہوئے جنگلوں میں نکل جاؤگے۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عالم غیب کی چیزیں انسانوں سے چھپا کر رکھی ہیں ورنہ اگر یہ پتہ چل جائے کہ قبر میں کیاہورہاہے اورجہنم کے مناظر انسانوں پرمنکشف ہوجائیں توایسی ہیبت طاری ہو کہ انسان سارے کام چھوڑ دے اورجنگلوں میں روتا ہوا نکل جائے لیکن اللہ تعالیٰ کویہ نظامِ عالم علیٰ حالہٖ چلانا ہے اس لئے ان حالات پر،پردہ ڈال دیاہے۔ رسول اللہ ﷺ کا چونکہ حق جل مجدہ کے ساتھ ایک خاص تعلق تھا اورآپ کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قوتِ برداشت عطافرمائی تھی اس لئے ان حالات کودیکھنے اورسننے کے باوجود بھی آپ اپنے حواس پرقابو رکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ نیز امت کی تعلیم کے لئے ضروری تھا کہ آپ پرعالم غیب کی ضروری باتیں منکشف کردی جائیں تاکہ آپ کوعین الیقین اورحق الیقین حاصل ہوجائے اورپورے یقین واعتماد کے ساتھ آپ امت کو اللہ کی عظمت وبڑائی کی طرف دعوت دیتے رہیں۔ اس لئے آپ ؐ پر عالم غیب کی بہت سی باتیں منکشف کردی گئیں۔ایک مومن کویہ ایمان رکھنا چاہئے کہ آپؐ نے جوکچھ بھی غیب سے متعلق خبر دی ہیں وہ بالکل برحق اورسچائی پرمبنی ہیں ان میں ذرا بھی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے اور اس کے اثرات کو قبول کرے۔جیسا کہ حضرت ابوذرؓ پر اس حدیث کایہ اثر ہو اکہ آپؓ جب بھی یہ حدیث بیان فرماتے تو کہتے کہ کاش میں کوئی درخت ہوتا جوکاٹ دیاجاتا۔

انسانی زندگی کوسنوارنے اور اس کوفلاح کامیابی کے منزل تک پہنچانے میں اللہ کی تعالیٰ کے خوف وخشیت اورآخرت کی فکر کو بہت بڑا دخل ہے اس لئے آپ  ﷺ  نے برابر اپنی امت کو آخرت کے مناظر جیسے قبر کاحساب و کتاب، حشر کے میدان کی سختی، جہنم کے دلدوز مناظر اور دیگر امور کوبتاکر امت کے اند راللہ کا خوف اور خشیت پیداکرنے کی کوشش فرمائی۔جس کی ایک مثال حضرت حنظلہ ؓ کی نَافَقَ حَنْظَلَہْ والی حدیث ہے جس سے یہ پتہ چلتاہے کہ آپﷺ کی مجلسوں میں صحابہ کرام کی یہ حالت ہوتی تھی کہ جنت اورجہنم ان کوسامنے نظر آتے تھے جس کی وجہ سے ان کے قلوب نرم رہتے لیکن آپ کی مجلس کے باہرآنے کے بعد وہ کیفیت باقی نہ رہتی تھی جس کی وجہ سے حضرت حنظلہؓ کو اپنی منافقت کا خوف ہو ا کہ کہیں ایساتونہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں مومن رہتاہوں اور اوربعد میں میرایمان سلب ہوجاتاہے۔لیکن حضور اکرمﷺ نے آپؓ کوتسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اے حنظلہؓ یہ کیفیت توکبھی کبھی پیداہوتی ہے اگر تمہاری حالت ہمیشہ ایسی رہنے لگے تو فرشتے تمہارے بستروں پر مصافحہ کرنے کے لئے پہنچ جائیں۔اس سے معلوم ہوا کہ خوف وخشیت والی کیفیت محبوب ہے اور حضور ﷺ کی مجالس میں سب کی یہی حالت ہواکرتی تھی۔

ایک مومن کو ہروقت اللہ تعالیٰ کاخوف سامنے رکھناچاہئے اوریہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہماری ہرچیز کی نگرانی کررہے ہیں ہم کبھی بھی اس کی نگرانی سے باہرنہیں جاسکتے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *