دنیا کاامن و امان اسلام کےسایہ میں ہے
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
آج کے اس ترقی یافتہ دو رمیں جب کہ انسان چاند پرکمندیں ڈا ل رہا ہے ۔ دنیا مٹھی میں آگئی ہے ، مال ودولت کی ریل پیل ہے۔ وسائل کی قلت نہیں۔ لاسلکی کا زمانہ ہے ۔ کمپیوٹر جیسی حیرتناک ایجاد نے انسان کے لئے اتنی آسانیاں پید اکردی ہیں کہ مہینوں کاکام لوگ منٹوں میں کررہےہیں ۔ یہ سارے کے سارے مادی وسائل اور مال وزر کی فراوانی نے انسان کو دولت کی چمک تودکھایا ۔ اسے خوشنماکمروں کے اندر پھولوں کاسیج تو عطا کیا لیکن سکون اور راحت انسانی زندگی سے ناپید ہوگئی ہے ۔ ہرانسان اپنے آس پاس قسم قسم کے وسائل رکھنے کے باوجود پریشان حال ہے ۔ رات کونیند نہیں آتی ۔ دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنے کےلئے اس کےپاس وقت نہیں ہے ۔ جرم کی دنیا میں نت نئے اضافے ہورہے ہیں۔ دنیا مختلف قسم کے اختلافات کی شکار ہے ۔ ملکی ، تہذیبی ، سیاسی ، قومی ، ملی ، خاندانی ، قبائلی اور مذہبی اور نہ جانے کتنے قسم کی حد بندیا ں ہیں جن سے انسان کودوچار ہونا پڑتاہے۔
اس تیز رفتار زمانےمیں انسان کو سکون کیسے ملے ۔ راحت والی زندگی کیسے حاصل ہو۔ ہرانسان کے لئے یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ دنیا میں لاکھوں کی تعداد میں کمیٹیاں ، تنظیمیں اور انجمنیں کام کررہی ہیں جن سے انسانیت کی فلاح وبہبود کی کوششیں ہورہی ہیں لیکن سب بےکار ۔اب غور طلب امر یہ ہے کہ آخر انسان کرے تو کیا کرے اور اس اسے ابدی سکون کیسے نصیب ہو ۔اس سوال کاجواب انسان کی اپنی تاریخ میں جھانکنے سے مل سکتاہے۔
انسانی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جس طرح کسی بھی مشینری کوصحیح ڈھنگ سے چلانے کے لئے اس کے موجد کی ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ اس لئے کہ وہی اس مشین کی اصل قوت اور صلاحیت کو جانتاہے نیز اس کی ضروریات سے بھی وہ واقف ہے اس لئے اس مشین کو چلانے کا صحیح طریقہ بھی وہی جانتاہے ۔ بالکل اسی طرح انسانوں کااصل خالق جس نےاسے وجو د بخشا ہے وہ جانتاہے کہ انسان کی قابلیت اور اس کی صلاحیت کیا ہے ۔ نیز اس کی ضروریات سے بھی وہ بخوبی واقف ہے ۔ اس لئے انسانیت کی پوری تاریخ ہمیں بتاتی ہے جب جب انسانوں نے اپنے خالق کے بتائے ہوئے اصولوں کو اپنا یا ان کی زندگی پرامن ہوگئی ۔انہیں سکون وراحت والی زندگی نصیب ہوئی اور جب جب انہوں نے خالق کائنات کے بتائے ہوئے اصولوں کے خلاف زندگی گزارنے کی کوشش کی اس کی زندگی کا امن وسکون غائب ہوگیا۔
خالق کائنات نےاپنے اصولوں کو بتانے کےلئے اپنے مخصوص بندوں کو اس دنیامیں بھیجا جنہیں ہم انبیاء ورسل کے نام سے جانتے ہیں۔اللہ کے ان برگزیدہ بندوں نے اپنے زمانے کے انسانوں کو زندگی گزارنے کے فطری اصول بتائے ۔ مخلوق کارشتہ خالق سےجوڑا تو پوری انسانیت امن و سکون کی زندگی پاگئی۔ آپس میں اتحاد و اتفاق بھی پید اہوا ، الفت ومحبت کےجذبات بھی بیدار ہوئے اورایک دوسرے کے لئے ایثار و قربانی کاجذبہ پروان چڑھا۔
جس طرح دنیا آج عالم گیر وسائل کے باوجود مختلف ٹکڑیوں میں بنٹی ہوئی ہے اسی طرح آ ج سے ساڑھے چودہ سوسال پہلے دنیاکاحال تھا۔ اس زمانے میں کوئی ایسی حکومت نہیں تھی جس کے سایےتلے عوام اپنے آپ کو محفوظ تصورکرتی ہو۔امیروں اور جاگیرداروں کارویہ غریبوں کاخون چوسنا اور اپنے عیش کے باغ کو نشاط بخشنا تھا۔ حاکموں کا رویہ اپنی رعایا کے مال وجائداد ضبط کرکے عالیشان محلات تعمیر کرنا تھا ۔ عرب کاحال یہ تھا کہ ہر شخص ایک دوسرے کےخون کاپیاسا تھا ۔جھوٹ ، غیبت ، چوری ، ڈکیٹی ، لوٹ مار اور جنگ وجدال ان کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔
ایسی حالت میں رب کائنات نے انسانیت پر رحم کھایااور اپنے محبوب کو رحمۃ للعلمین بناکر اس دنیا میں مبعوث فرمایا۔آپ ﷺ نے دنیاکو توحید کی دعوت دیا اور مخلوق کا رشتہ خالق سے استوار کرنے کی کوشش کی ۔ جتنی برائیاں اس وقت موجود تھی ان کے لئے الگ الگ تحریکیں نہیں چلائی بلکہ انسانیت کے مرض کاجو اصل علاج تھا کہ اس کائنات کا جو موجد و خالق ہے اس کے اصولوں کو اپناکر دنیا ایک اللہ کے سامنے سر بسجود ہوجائے تو یہ پوری کائنات امن وامان کاگہوارہ بن جائے گی ۔
اس راہ میں انہیں طرح طرح کی تکلیفیں بھی برداشت کرنی پڑی ۔ اپنوں اور بے گانوں کے طعن وتشنیع کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن انسانیت کے اس حکیم نے مریض کی ہیجانی کیفیت پر توجہ نہ دی بلکہ اس کے مکمل علاج کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ محض تیئس سال کے عرصہ میں وہ انقلاب نمودار ہوا جوپوری انسانی تاریخ نے آج تک نہیں دیکھا تھا۔ کل تک جو ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے ہوئے تھے وہ انسانیت کے محافظ بن گئے۔ وہ قوم جس پر کوئی حکمراں حکومت کرنےکو تیار نہیں تھادنیاکی حکمراں بن گئی۔اونٹوں اور بکریوں کے چرواہے اخلاقی درس دینے لگے ۔یہ سب اس لئے ہوا کہ انسان نے اپنے اصل خالق کوپہچان لیا تھااور زندگی گزارجے کے اصل اصول سے واقف ہوگیا تھا ۔
اوس اور خزرج انصار مدینہ کے دو قبیلے تھے اسلام سے پہلے ان دونوں قبیلوں کی آپس میں کبھی بنتی نہ تھی ہمیشہ آپس میں جنگ و جدال رہتا تھا۔لیکن جب رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات ان تک پہنچی اور انہوں دین اسلام کو اختیار کیا تو ان کی دوستی ایک مثالی دوستی بن گئی ۔آپ ﷺ نے مدینہ میں مواخاۃ کا سلسلہ جاری فرمایا تو لوگوں نے اہل مکہ کو اپنا بھائی بنا لیا اور حقیقی بھائیوں سے زیادہ ان کا خیال رکھنےلگے۔
یہ سب اس لئے ہوا کہ انہوں نے دین فطرت کو اختیار کرلیا تھا اور خالق حقیقی کی رہنمائی میں زندگی گزار نا شروع کردیا تھا ۔ آج بھی دنیا کو انہیں اصولوں کواپنا نے کی ضرورت ہے جن سے رسول عربی ﷺ نے دنیا میں امن وامان قائم کیا ۔
آج کے دور میں انسانی آبادی نے مادی ترقی ضروری کی ہے لیکن انسانوں کے مسائل آج بھی وہی ہے جو صدیوں پہلے سے چلے آرہے ہیں۔ یعنی بھوک اور بد امنی۔
بھوک ایسی چیز ہے جس کو مٹانے کے لئے انسان توکیادنیا کی ہر ذی روح اخلاقی حدود کا پاس و لحاظ رکھے بغیر اپنے بھوک کو مٹانے کی کوشش کرتی ہے ۔ اس کے لئے جائز ناجائز اور اچھے برے سے کوئی مطلب نہیں ہوتاہے ۔ اور ان ہی جائز وناجائز اسباب کو اختیار کرکے اپنا پیٹ پانے سے بدامنی کا وجود ہوتاہے۔ لیکن اس کا پورا مداوا اور حل دین فطرت یعنی اسلام کے اندر موجود ہےجس سے لوگوں کا پیٹ بھی بھرتا ہے اور بدامنی کا خاتمہ بھی ہوتاہے۔
اسلامی نظام میں ہر طرح کے لوگوں کے حالات کے مطابق احکامات موجود ہیں ۔ معاشی مسائل کے حل کے لئے اسلام میں تجارت کو فروغ دینے کی ترغیب دی گئی ہے یہاں تک کہ ایک سچے اور امانت دار تاجر کو اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اس کا حشر انبیاء وصدیقین کے ساتھ ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ، وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ “ (ترمذی ١٢٠٩ )”سچا اور امانت دار تاجر انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا“اور پھر اس تجارت کے نتیجے میں جومال و دولت حاصل ہوتی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان لوگوں کاحق رکھ دیاگیاہے جو کسی بھی وجہ سے کمزور ہیں ان کی پاس مال ودولت یااپنا پیٹ بھرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ یعنی زکوۃ کا نظام ۔
زکوۃ وصدقات کا نظام اسلام کی انفرادیت ہے دنیا کے کسی بھی مذہب میں ایسا منظم نظام نہیں ہے جس سے غربا ء ومساکین کی پرورش کی جائے ۔یہ الگ بات ہے کہ صاحب ثروت اپنی زکوۃ کو ایمانداری سے نہیں نکالتے ورنہ اسلام کا نظام زکوۃ دنیاسے غربت کے خاتمہ کے لئے بہت بڑا ممد ومعاون ہے ۔
دوسری طرف قیام عدل اور انصاف کے فروغ کے لئے اسلام میں جوتعزیرات ہیں ان کے مکمل نفاذ کے بعد کوئی بھی شخص جرم کرنے سے پہلے سوبار سوچنے پر مجبور ہوگا کہ اگر میں پکڑا گیاتو میرا انجام نہایت ہی عبرتنا ک ہوگا۔
ان تمام چیزوں پر نگرانی کے لئے دین اسلام نے صرف پولیس اور حکومتی اداروں پر ہی بھروسہ نہیں کیا بلکہ سیدھے دلوں کو مخاطب کیا ہے اور ایک ایسی تعلیم پیش کیا ہے جس میں فرد اور سماج کو یہ یقین دلایا ہے کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے جس میں ہر شخص اپنے خالق ومالک کےسامنے حاضر ہوگا اور اپنے اعمال کے لئے جوابدہ ہوگا ۔ جس کوہم قیام قیامت کے تصور سے جانتے ہیں اور آخرت کی زندگی میں جنت وجہنم کے وجود کومانتےہیں ۔ اسلامی تعلیمات کایہ امتیاز ہے کہ وہ انسان کی انفرادی زندگی پر بھی پہرہ بٹھاتاہے جس میں ظاہر ی طورپر اگر چہ کوئی دیکھنے والا نہیں لیکن ایک مومن ہونے کی حیثیت سے یہ ایمان رکھنا ضروری ہے کہ ہمارے ہر خیر وشر کے عمل کو اللہ تعالیٰ کی ذات دیکھ رہی ہے اور ہمیں اس کے سامنے حاضر ہو کر جواب دینا پڑے گا ۔ آخرت کی زندگی کایقین انسان کو بد اعمالیوں اور جرائم سے روکتاہے اور نیکیا ں کرنے پر آمادہ کرتاہے۔
ان تعلیمات کااثر دنیا نے دیکھاہے اور قیامت تک دیکھتی رہے گی ۔ کہ جب آخرت کایقین پختہ تھا ، اللہ تعالیٰ کے احکام کی مکمل پیروی ہوتی تھی ۔دنیا میں امن وامان قائم تھا اسلامی نظام عدل کی وجہ سے تاریخ نے یہ بھی دیکھا ہے کہ خلیفۂ وقت بھی قاضی کی عدالت میں ایک ملزم کی حیثیت سے حاضر ہوا ہے ۔اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ(۳) الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ (۴) تو ان پر لازم ہے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں۔ وہ جس نے انھیں بھوک سے ( بچا کر) کھانا دیا اور خوف سے (بچا کر) امن دیا۔
آج بھی دنیا میں اگر امن قائم کرنا ہے تو اس دین فطرت کے آغوش میں ہی ملے گا اس کےلئے ہمیں تگ ودو کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کواپناکر دنیا امن کاگہوارہ بن سکے ۔

2 thoughts on “دنیا کاامن و امان اسلام کےسایہ میں ہے”
  1. amei este site. Pra saber mais detalhes acesse o site e descubra mais. Todas as informações contidas são conteúdos relevantes e exclusivos. Tudo que você precisa saber está ta lá.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *