کائنات کی محبوب ترین ہستی

حضرت محمد ﷺ

 

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی 
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں مختلف قسم کی چیزیں اور مخلوقات کو پید اکیا ہے۔ ان میں سے بعض اپنی جسامت کے اعتبار سے اولیت کا مقام رکھتےہیں، بعض اپنی رفتار سے پہچانے جاتےہیں ، بعض کی پہچان نور اور روشنی ہے، کسی کی لطافت اس کی شان امتیازی کو بتاتی ہےتو کسی کی صلابت سختی اس کاطرۂ امتیاز ہے ۔ ان سب میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو تمام مخلوقات میں افضلیت کا مقام عطاکیاہے۔ اس لئے کہ اس میں دنیا تمام مخلوقات کی صفات کسی نہ کسی حد تک پائی جاتی ہیں ۔ یہاں تک کہ خاص نورانی مخلوق ملائکہ جن کی صفت یہ ہے کہ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَا اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ( ص۔ ٦ ) ”جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔“انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے وہ مقام عطا نہیں کیا جو حضرت انسان کی قسمت میں آیا ہے۔
انسانوں کی پوری کی پوری جماعت میں افضلیت کامقام انہیں حاصل ہے جو اللہ کو ایک مانتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔ پھر ان عبادت گذاروں اور موحدین میں ان برگزیدہ ہستیوں کواعلیٰ و ارفع مقام حاصل ہے جو اللہ کے خاص بندے اور رسول ہوتے ہیں ۔ یعنی جو ہدایت کا سرچشمہ بن کر اس دنیامیں تشریف لائے یعنی انبیاء ورسل سلام اللہ علیھم اجمعین ، پھر ان قدسی صفات انبیاء ورسل میں سب سے اعلیٰ و ارفع مقام محبوب کائنات ، رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو حاصل ہے ۔
آپ ﷺ کی ذات اقدس ساری کائنات میں سب سے زیادہ برگزیدہ، اعلیٰ اور ارفع ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بعد پھر آپ ﷺ کا ہی مرتبہ ہے اس میں کسی اختلاف کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔آپ ﷺ کی عظمت شان کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جابجا بیان فرمایا ہے ۔ کہیں آپ ﷺ کوخاتم النبین، کہیں رحمۃ للعالمین ، کہیں ھدیٰ اور کہیں سراج منیر کے خطاب سے نوازا ہے ۔ چند آیا ت کا ترجمہ ذیل میں درج کرتاہوں ۔
وَ مَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ (انبیاء۔۱۰۷)اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖن وَ كَانَ اللہ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠ (الاحزاب:٤٠ ) 
محمد(ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں۔
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ  رَحِیْمٌ بے شک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لائے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے،وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (سبا۔٢٨ )ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبریاں سنانے واﻻ اور ڈرانے واﻻ بنا کر بھیجا ہے ہاں مگر (یہ صحیح ہے) کہ لوگوں کی اکثریت بےعلم ہے۔
یٰاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا(45)وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(احزاب۔46) اے نبی! یقیناً ہم نے ہی آپ کو (رسول بنا کر) گواہیاں دینے واﻻ، خوشخبریاں سنانے واﻻ، آگاه کرنے واﻻ بھیجا ہے۔اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے واﻻ اور روشن چراغ۔
ان آیا ت سے پتہ چلتاہےکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو پوری کائنات میں سب سے اونچا اور بلند مقام عطا فرمایا ہے اور آ پ ﷺ کو سب سے زیادہ مکرم، معظم اور محبوب بنایا ہے ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ محبت پوری کائنات کے دل میں بٹھادیاہے ۔آپ ﷺ کی محبت سے وہی دل خالی جو دنیا وآخرت میں خائب و خاسر ہے ۔ جوبھلائی سے کوسوں دور ہے ۔
آپ ﷺ کی ذات گرامی وہ شخصیت ہے جس کے آنے سے پہلے بھی دنیا آپﷺ کے نام سے واقف تھی اور اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی دنیا آپﷺ کا نام لے رہی ہے اورآپﷺ کے کارناموں کو دنیا کے گوشے گوشے میں سراہا اور پھیلا یا جا رہا ہے ۔آپﷺ کا ذکر تمام انبیاء کرام کی تعلیمات میں موجود ہے اور آج دنیا کے گوشے گوشے میں آپ ﷺ نام لیوا موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ اس دنیامیں آپ ﷺ ہی کانام لیا جاتاہے یہ محض عقیدت نہیں بلکہ حقیقت ہے ۔
ابتدا سے لے کر آج تک آپ ﷺ کی کرامت ، فضیلت ، اخلاقی برتری اور آپ ﷺ کی قائدانہ صلاحیتوں اپنے تو اپنے غیروں نے بھی برملا اظہار کیا ہے اور آپ ﷺ کی عظمت کو سلام دیا ہے ۔رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں بھی آپﷺ کے کٹر دشمنوں نے جنہوں نے آپ ﷺکی دعوت کو قبول نہیں کیا ، آپ ﷺ کی تعلیمات پر عمل نہیں کیا لیکن آپ ﷺ کی امانت ودیانت اور صداقت و حقانیت کے ہمیشہ معترف رہے ۔
یہ بات کون نہیں جانتا کہ قریش اور اہل مکہ کی مخالفتوں اور ان کی ایذارسانیوں سے تنگ آکر مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم ہو ااو راس نامناسب صورت حال میں مسلمانوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کیا کہ ان کے ساتھ سامان سفر لے جانے کی بھی اجازت نہیں تھی ۔خود رسول اللہ ﷺ کے بیت اقدس کا مکہ والوں نے گھیراؤ کررکھا تھا کہ جیسےہی حضرت محمد ﷺ باہر نکلیں گے انہیں (معاذ اللہ ) یکبارگی حملہ کرکے قتل کردیا جائے گا۔لیکن اللہ کی قدرت کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی رات سفر کیا اور کافروں کو اس کی ہوا بھی نہیں لگی۔
اس سفر میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بستر پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو سلایااور اہل مکہ کی امانتیں ان کے سپر د کرکے فرمایا کہ ان تمام امانتوں کو ان کے اصل مالکان کے حوالے کرکے تم بھی مدینہ آجانا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب اہل مکہ آپ ﷺ کی مخالفت پر کمربستہ تھے بلکہ آپ کے قتل کے درپے تھے۔پھر بھی انہوں نے اپنی امانتیں رسول اللہ ﷺ کے پاس کیوں جمع رکھی تھیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پورے مکہ میں امانت و دیانت میں رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کوئی بھی نہیں تھا اور نہ ہی کسی کو مکہ میں کسی شخص پر اتنا بھروسہ تھا کہ وہ اپنی امانتیں اس کے پاس جمع کرسکیں۔ ہزار مخالفتوں کے باوجود پورے مکہ میں ایک رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس ہی ایسی تھی جس پر اہل مکہ کو پورا بھروسہ تھا کہ یہاں ان کی امانتیں محفوظ رہیں گی ۔ اس لئے انہوں نے اپنی قیمتی امانتیں آپ ﷺ کے پاس جمع کر رکھی تھی۔رسول اللہ ﷺ نے اس امانت کا خیال ان کے توقعات سے زیادہ رکھا جب کہ پورا مکہ آپ کی جان کا دشمن بناہوا تھا پھر بھی آپ ﷺ نے اہل مکہ کی امانتیں مضبوط ہاتھوں میں دے کر مدینہ کی طرف ہجرت فرمایا۔فداہ ابی وامی ۔
اسلام قبول کرنے سے پہلے حضرت ابوسفیانؓ کتنے مخالف تھے کوئی ایسا طریقہ انہوں نے نہیں چھوڑا جو ان کے بس میں تھا جس کے ذریعہ وہ اسلام اور مسلمانوں کو کمزور کر سکیں لیکن رسول اللہ ﷺ کے جو خصوصی امتیازات تھے وہ حالت کفر میں بھی چھپا نہ سکے اور اس کا برملا اظہار کیا ۔ جب رسول اللہ ﷺ نے تمام بادشاہوں اور سلاطین کو خطوط لکھا تو شاہ روم ہرقل کو بھی ایک خط لکھا ۔ شاہ روم نے رسول اللہ ﷺ کے حالات جاننے کے لئے منادی کرادی کہ جوقافلہ عرب سے یہاں آیا ہوا سے حاضر کیا جائے ۔ اتفاق کے حضرت ابو سفیانؓ اس قافلہ میں شریک تھے لیکن ابھی تک ایمان سے مشرف نہ ہوسکے تھے ۔پورے قافلے کو دربار میں حاضری کا حکم ہوا اور ہر قل نے کہا کہ جو شخص محمد ﷺ کے زیادہ قریب ہو اسے سامنے کیا جائے چنانچہ ابوسفیانؓ کو آگے کیا گیا۔ اور سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو ا۔سب سے پہلے ہرقل نے آپ ﷺ کے نسب کے بارے میں سوال کیا ۔ ابوسفیانؓ نے جواب دیا کہ آپﷺ عالی نسل ہیں۔پھر اس نے سوال کیا کہ کیا انہوں نے دعوائے نبوت سے پہلے کبھی جھوٹ بولا ہے ۔ ابوسفیان ؓ نے کہا کہ نہیں انہوں نے بھی جھوٹ نہیں بولا۔پھر اس نے سوال کیا کہ وہ کس چیز کا حکم دیتے ہیں ۔ ابوسفیان ؓ نے جواب دیا کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کرنے ، شرک سے کنارہ کش ہوجانے ، نماز پڑھنے ، سچ بولنے اور صلہ رحمی اختیار کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ان تمام سوالات وجواب کے بعد ہرقل نے کہا ” اگر یہ باتیں جو تم کہہ رہے ہو سچ ہیں تو عنقریب وہ اس جگہ کا مالک ہو جائے گا کہ جہاں میرے یہ دونوں پاؤں ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ (پیغمبر) آنے والا ہے۔ مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ تمہارے اندر ہو گا۔ اگر میں جانتا کہ اس تک پہنچ سکوں گا تو اس سے ملنے کے لیے ہر تکلیف گوارا کرتا۔ اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا۔ “ یہ تفصیلی مکالمہ بخاری شریف میں موجود ہے ملاحظ فرمائیں ۔(صحيح البخاري ۔کِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ ۔حدیث نمبر ٧ )
اس تمام واقعے میں جب کہ ابوسفیانؓ کو موقع تھا کہ کذب بیانی کر کے اس وقت کی ایک بڑی طاقت کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرسکتے تھے جو ان کی خواہش کے عین مطابق بھی تھا لیکن محض اس وجہ سے انہوں نے غلط بیانی سے کام نہیں لیا کہ انہیں خوف تھاکہ ان کے ساتھی ان کی باتوں کو جھوٹا ثابت کردیں گے اور ان کی کذب بیانی کو ظاہر کردیں گے جو رسوائی کا سبب ہو گا ۔ اس سے معلوم ہو ا کہ رسول اللہ ﷺ کے قدسی صفات کا علم ہر شخص کو تھا اور ہر شخص اس کا اعتراف ہی نہیں بلکہ ان کا برملا اظہار بھی کیا کرتاتھا ۔
گذشتہ صدی میں ایک امریکی یہودی مصنف مائیکل ایچ ہارٹ نے پوری دنیا کے متاثر کن شخصیات پر مشتمل ایک کتاب لکھی جس میں سو ایسے افراد کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے اپنے دور میں نہایت حیران کن کام کیئے ہیں ۔
یہ کتاب پہلی بار 1978 میں ہارٹ پبلشنگ کمپنی نیویارک سے شائع ہوئی۔اس کا اردو ترجمہ عاصم بٹ نے کیا ہے جس کی اشاعت 2009 میں لاہور سے ہوئی ہے اس کتاب میں ایچ ہارٹ نے سب سے پہلا نام حضرت محمد ﷺ کاپیش کیا ہے ۔ اور اس کی وجہ اس نے یہ بتائی ہے کہ:

My choice of Muammad to lead the list of the world’s most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others, but he was the only man anhistory who was supremely successful on both the religious and secular leve3ls.
Of humble orgins Mohammad founded and promulgated one of the world’s great religions, and became an immensely effective political leader. Tody, thirteen centuries after his death, his influence is still powerful and pervasive.(The 100 Ranking of Most influential People in History . Michael Hart. page 3)

’ممکن ہے کہ انتہائی موثر کن شخصیات کی فہرست میں محمد(ﷺ)کا شمار سب سے پہلے کرنے پر چند احباب کو حیرت ہواور کچھ معترض بھی ہوں ،لیکن یہ واحد تاریخی ہستی ہے جو مذہبی اور دنیاوی دونوں محاذوں پر برابر طور پر کامیاب رہی ۔محمد(ﷺ)نے عاجزانہ طور پراپنی مساعی کا آغاز کیا اور دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک مذہب کی بنیاد رکھی اور اسے پھیلایا۔وہ ایک انتہائی موثر سیاسی رہنما بھی ثابت ہوئے ۔آج تیرہ سو برس گزرنے کے باوجود ان کے اثرات انسانوں پر ہنوز مسلم اور گہرے ہیں ‘‘۔(سوعظیم آدمی:مائیکل ہارٹ۔مترجم محمد عاصم بٹ ۔ص٢٥ )
نپولین بوناپارٹ جسے فاتح یورپ کہا جاتاہے ایک فرانسیسی فوجی جنرل ، فرانس کا پہلا شہنشاہ اور دنیا کے سب سے بڑا فوجی رہنما تھا۔ اس نے رسول اللہ ﷺ کی عظمت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے:
’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم امن اور سلامتی کے ایک عظیم شہزادہ تھے ۔ آپ نے اپنی عظیم شخصیت سے اپنے فدائیوں کو اپنے گرد جمع کیا۔ صرف چند سالوں میں مسلمانوں نے آدھی دنیا فتح کرلی۔ جھوٹے خداؤں کے پجاریوں کو مسلمانوں نے اسلام کا حلقہ بگوش بنا لیا۔ بت پرستی کا خاتمہ کردیا۔ کفار اور مشرکین کے بت کدوں کو پندرہ سال کے عرصے میں ختم کر کے رکھ دیا۔ موسی علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام کے پیروؤں کو بھی اتنی سعادت حاصل نہ ہو سکی۔ یہ حقیقت ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بہت بڑے اور عظیم انسان تھے ۔ اس قدر عظیم انقلاب کے بعد اگر کوئی دوسرا ہوتا تو خدائی کا دعویٰ کر دیتا‘‘۔
(بوناپارٹ اور اسلام ۔ بحوالہ: ماہنامہ دارالعلوم، شمارہ : 2-3، جلد:104، جمادی الاول 1441ھ مطابق فروری-مارچ 2020ء)
جہاں سیرت رسول پر مسلمانوں نے بے شمار کتابیں دنیا کی ہرزبان میں لکھی ہیں اور اپنے عشق رسول اور جذبۂ حب نبی کا اظہار کیا ہے وہیں غیر مسلموں نے بھی سیرت رسول پر کتابیں لکھ کر اپنی حقیقت شناسی کو  ظاہر کیا ہے ۔ ایک ہندو ادیب سوامی لکشمن پر شاد نے سیرت رسول پر مبنی ایک کتاب ”عرب کا چاند ” لکھا ہے جس میں قومی تعصب سے اوپر اٹھ کر حقیقت شناسی کے جذبہ سے سرشار ہوکر رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ کو ادبی انداز میں نہایت تفصیل کے ساتھ چارسو سے اوپر صفحات میں پیش کیا ہے ۔اس میں انہوں نے عرب کے دور جاہلیت اور اس وقت دنیا کی حالت کو بیان کرنے کے بعد لکھاہے :
”اسی جہالت اور ضلالت کے مرکز اعظم جزیرہ نمائے عرب کے کوہ فاران کی چوٹیوں سے ایک نور چمکا۔ جس نے دنیا کی حالت کو یکسر بدل دیا۔ گوشہ گوشہ کو نور ہدایت سے جگمگا دیا اور ذرہ ذرہ کو فروغ تابش حسن سے غیرت خور شید بنا دیا۔آج سے تیرہ صدیاں پیشتر اسی گمراہ ملک کے (جو عرب کے نام سے مشہور ہے اور جسے شام سے وہ سلسلہ کوہ جدا کہتا ہے جو اس کے شمال میں چلا گیا ہے۔ مصر سے آبنائے سویز اور ہندوستان سے خلیج فارس) شہر مکہ مکرمہ کی گلیوں سے ایک انقلاب آفریں صدا اٹھی جس نے ظلم وستم کی فضاؤں میں تہلکہ عظیم مچادیا۔ یہیں سے ہدایت کا وہ چشمہ پھوٹا جس نے اقلیم قلوب کی مرجھائی ہوئی کھیتیاں سرسبز و شاداب کر دیں۔ اسی ریگستانی چمنستان میں روحانیت کا وہ پھول کھلا جس کی روح پرور مہک نے دہریت کی دماغ سوز بو سے گھرے ہوئے انسانوں کے مشام جان کو معطر و معنبر کر دیا۔اسی بے برگ و گیاہ صحرا کے تیرہ وتا رافق سے ضلالت و جہالت کی شب دیجور میں صداقت و حقانیت کا وہ ماہتاب درخشاں طلوع ہوا جس نے جہالت و باطل کی تاریکیوں کو دور کر کے ذرہ ذرہ کو اپنی ایمان پاش روشنی سے جگمگا کر رشک تجلی زار صد طور بنا دیا گو یا اک دفعہ پھر خزاں کی جگہ سعادت کی بہار آ گئی۔اک بار پھرا ہر من کی فرماں روائی کی جگہ دنیا پر یزدان کی حکومت ہو گئی حق نے غلبہ پایا اور باطل مغلوب ہوا۔“(عرب کا چاند ۔ص۴۱)
ہندوستان میں گاندھی جی کی قائدانہ صلاحیتوں سے کون ناواقف ہے ۔ہندوستانی قوم انہیں اپنا پیشوا تسلیم کرتی ہے ۔ انہوں نے بھی اپنی زبان سے اس حق کا اظہار کیا ہے جسے دنیا کے تمام حقیقت پسند افراد نے تسلیم کیاہے اور برجستہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کی خوبی اور اسلام کی حقانیت کا اعلان کیا ہے اور ہندؤں کو اس کے مطالعہ کی دعوت بھی دی ہے :
”اسلام پنے انتہائی عروج کے زمانہ میں تعصب اور ہٹ دھرمی سے پاک تھا۔اسلام نے تمام دنیاسے خراج تحسین وصول کیا۔ جب مغرب پر تاریکی اور جہالت کی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں۔ اس وقت مشرق سے ایک ستارہ نمودار ہوا۔ ایک روشن ستارہ جس کی روشنی سے ظلمت کدے منور ہوگئے اسلام دین باطل نہیں ہے۔ ہندوؤں کو اس کا مطالعہ کرنا چاہئے تا کہ وہ بھی میری طرح اس کی تعظیم کرنا سیکھ جائیں میں یقین سے کہتا ہوں کہ اسلام بزور شمشیر نہیں پھیلا۔ بلکہ اس کی اشاعت کے ذمہ دار رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایمان،ایقان، ایثار اور اوصاف حمیدہ تھے کہ ان صفات نے لوگوں کے دلوں کو مسخر کر لیا تھا۔ یورپی اقوام جنوبی افریقہ میں اسلام کو سرعت کے ساتھ پھیلتا دیکھ کو خوفزدہ ہیں۔ اسلام جس نے اندلس کو مہذب بنایا۔ اسلام جو مشعل ھدایت کو مراکو تک لے گیا۔ اسلام میں نے اخوت کادرس دیا۔ جنوبی افریقہ میں یور پی اقوام محض اس لیے ہراساں ہیں کہ وہ جانتی ہیں کہ اگر اصلی باشندوں نے اسلام قبول کر لیا تب وہ ہمسرا نہ حقوق کا مطالبہ کریں گے اور لڑا کریں گے۔اگر اخوت گناہ ہے۔ تب ان کا خوف راست پر مبنی ہے میں نے خود دیکھا ہے۔ زولو عیسائیت قبول کرنے پر بھی عیسائی حقوق حاصل نہیں کر سکا۔ لیکن جونہی وہ حلقہ بگو ش اسلام ہوا مسلمانوں کے ساتھ اس کارابطہ اتحاد پیدا ہوگیا۔ یورپ اس اتحا د اسلام سے خائف ہے۔“
(محمد رسول اللہ غیر مسلموں کی نظر میں:گاندھی جی کا ہدیۂ عقیدت ۔ص ۴۲۔۴۳)
یہ چند شواہد ہیں جو میں نے پیش کیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جس صادق و امین رسول کی تعریف عرش و فرش پر کی گئی ۔ صحابۂ کرام نے جس کی شان میں قصیدے پڑھے ۔ ایمان کے متوالوں نے جس کے عشق کے نمونے دنیا کے لئے چھوڑے ایسا نہیں ہے کہ ان میں صرف ان کے ماننے والے ہی شامل ہیں ۔ ایسے لوگ جنہوں نے آپ کی تعلیمات کو قبول نہیں کیا ، ایمان سے سرشار نہیں ہوئے ان کی حقیقت شناش زبان نے آپ ﷺ کی قیادت اور آپ کے اخلاق حسنہ کا اعتراف کیا ہے اور اس کا برملا اظہا ربھی کیا ہے ۔ایسے افراد تو ہر دور میں موجود رہے ہیں جنہوں نے چراغ کے سامنے کھڑے ہوکر اس کی روشنی کا انکار کیا ہے ایسے لوگ یا تو بالجبر روشنی کے سامنے اپنی آنکھیں موند لینے والے ہیں یا ان کی آنکھیں دیکھنے کے قابل نہیں ہیں۔یہی اندھے بہرے لوگ ہیں جووقتاً فوقتاً رسول اللہ ﷺ کی شان اقدس میں گستاخیوں کے مرتکب ہوتےہیں ۔ یہ لوگ حقیقت بیں نگاہ سے محروم ہیں چند روزہ زندگی میں ہوسکتا ہے کہ ان کے کچھ ہم نوا مل جائیں لیکن باری تعالیٰ کے دربار میں ذلت و رسوائی ان کی قسمت ہے ۔حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی ذات سے واقف نہیں ہیں وہ بالکل واقف ہیں لیکن اپنی کوڑھ مغزی کی وجہ سے وہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے :
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنْهُمْ لَیَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(بقرہ۔١٤٦ ) وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب عطا فرمائی ہے وہ اس نبی کو ایسا پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور بیشک ان میں ایک گروہ جان بوجھ کر حق چھپاتے ہیں ۔مسلمانوں کو چاہئے کہ ایسے افراد کے سامنے سیرت رسول کے گوشوں کو پیش کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں تاکہ وہ بھی رحمۃ للعلمین کے دامن شفقت میں پناہ پاسکیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *