Mufti Md Asif Equbal QuasmiImam o Kateeb Masjd e Zakaria

بہار اسمبلی انتخابات 2025

 

تحریر : مفتی محمدآصف اقبال قاسمی

بہار اسمبلی انتخابات 2025
بہار اسمبلی انتخابات کا اعلان دو مرحلوں میں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

بہار اسمبلی انتخابات دو مرحلوں میں 

 

بہار اسمبلی انتخابات کااعلان ہوچکا ہے اور الیکشن کمیشن نے پورے صوبہ بہار میں دو مرحلوں  میں انتخاب کرانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ پہلا مرحلہ ٦ نومبر ٢٠٢٥ کو ہوگا جس میں  ١٢١ اسمبلی حلقوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ جبکہ دوسرے مرحلے میں ١٢٢ اسمبلی حلقوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ پہلے مرحلے کی ووٹنگ کی تیاریاں نہایت ہی زور شور پر ہے این ۔ ڈی ۔اے اتحادی پارٹیا ں اور انڈیا اتحادی پارٹیاں اپنے پورے لاولشکر کے ساتھ میدان میں ہیں اور ووٹروں کو اپنی طرف مائل کرنے کی ان تھک کوششیں کررہی ہیں۔

بہار میں رائے دہندگان کو مائل کرنے کی کوششیں  

بہار میں جیسے جیسے انتخابات قریب آتے جارہے ہیں سیاسی گلیاروں میں ہلچل تیز ہوتی جارہی ہے اور سیاسی پارٹیاں ووٹروں کولبھانے میں ہر ہتھکنڈہ استعمال کررہی ہیں ایک طرف زیر اقتدار این ڈی اے سرکار نے   بہت پہلے ہی سے قومی خزانے کا منھ بہار کے عوام کے لئے کھول دیا ہے۔طرح طرح کی اسکیمیں اور یوجنائیں روز بروز سامنے آرہی ہیں جس میں لوگوں کو اور خاص طور سے عورتوں کوکاروبارکےنام پر امدادی رقم دی جارہی ہے۔بوڑھے لوگوں کے پینشن میں خاصا اضافہ کیا گیاہے ، اس کےعلاوہ ترقیاتی کاموں کا اعلان اور ساتھ ہی بہت سی چیزوں کا افتتاح بھی کیا جارہا ہے، پانچ سو روپیہ تک کی فری بجلی  بھی ایک انتخابی لائحہ عمل ہے ۔ نتیش کمار بہار کےعوام کو یہ باور کرانے میں لگےہیں کہ ہماری سرکار میں بہار ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور اس ترقی کو مزید تیز کرنے کے لئے ہماری سرکار کو آئندہ بھی برقرار رکھنے کی ضرورت ہے ۔

دوسری طرف انڈیا اتحاد موجود ہ این ڈی اے سرکار کی خامیاں لوگوں کےسامنے لارہاہے اور ووٹ چوری کا ایسا نعرہ دیا ہے کہ گلی گلی میں”ووٹ چور گدی چھوڑ“ کا نعرہ گونج رہا ہے ۔راجد کے کے سربراہ نیتا تیجسوی یادو راہل گاندھی کے ساتھ مل کر مختلف یاترائیں اور سبھائیں کرکے عوامی بیداری کی کوشش کررہے ہیں۔

 

بہار کے دو سیاسی پارٹیوں میں کشمکش

گذشتہ کئی سالوں سے راجد اور جدیومیں کھینچا تانی جاری ہے جس کی وجہ سے ہمیشہ نتیش کمار اور لالو یادو کا خاندان سرخیوں میں رہتاہے۔ بہار میں ان ہی دو پارٹیوں کو بڑی پارٹی شمار کیا جاتاہے اور دوسری چھوٹی بڑی پارٹیاں ان ہی دونوں پارٹیوں کوسامنے رکھ کر الیکشن لڑتی ہیں اور سیاست کرتی ہیں۔٢٠ سال پہلے کا دور لالو یادو اور ان کی پارٹی کادور تھاجس میں پہلے لالویادو اور اس کے بعد ان کی اہلیہ رابڑی دیوی یکے بعد دیگرے بہار کی کرسی پر بطور وزیر اعلیٰ براجمان رہے ۔ اس کے بعد لالویادو کو چارہ گھوٹالہ کے کیس نے ایسا اپنے لپیٹے میں لیا کہ ان کی سیاسی زندگی نہایت کمزور ہوکر رہ گئی ۔بعد میں کانگریس کے ساتھ مل کر انہوں نے مرکزی سرکار میں حصہ لیا اور ریلو ے کے وزیر کے طور پر نہایت اچھا کام کیا جس کو پوری دنیامیں سراہا گیا ۔ لیکن اس سے بھی ان کی سیاسی تصویر زیادہ صاف نہیں ہوئی ۔

اب جب کہ انہوں نے اپنے بیٹے تیجسوی یادو کو پارٹی کاکمان دیا ہے اور انڈیا اتحاد کا حصہ بنے ہیں تو راجد کی تصویر تھوڑی صاف ہوئی ہے اور عوام کے درمیان تیجسوی یادو ایک اہم سیاسی لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں اور جہاں جہاں گئے ان کااستقبال کیا گیا ہے ۔

دوسرا دور نتیش کمار کا دور ہے جو ٢٠ سال سے بہار کی کرسی پر براجمان ہیں ۔ کبھی این ۔ ڈی ۔ اے کی حمایت سے اور کبھی راجد کی حمایت سے ۔ لیکن گذشتہ چند سالوں میں نتیش کماری کی سیاسی زندگی میں جو اتھل پتھل ہوا اور انہوں نے کبھی راجد کاہاتھ تھاما اور کبھی این ۔ ڈی ۔ اے کا ہاتھ تھامااس کی وجہ سے ان کا سیاسی گراف نہایت نیچے گرگیا ہے ۔ اس کا صاف نتیجہ سامنے نظر آرہاہے کہ پہلے بی جے پی نتیش کمار کوبڑا بھائی  مان کر بہار کا الیکشن لڑتی تھی لیکن اب کی بار جڑواں بھائی کی حیثیت سے الیکشن لڑرہی ہے ۔ اور نتیش کمار کو بطور وزیر اعلیٰ بہار  ماننے کو تیار نہیں ۔ یہ ان کی پارٹی جدیو کے لئے اچھا شگون نہیں ہے ۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ آئندہ چند سالوں میں جدیوں کے تمام ووٹرس بی جے پی کے جھولی میں چلے جائیں گے ۔ ایسی صورت حال میں نتیش کمار کا مستقبل نہایت تاریک نظر آرہا ہے ۔

 

بہارکی دو بڑے اتحادیوں  کے سامنے بڑا چیلنج 

اس وقت  بہار میں دونوں اتحاد این ۔ ڈی ۔ اے  اور انڈیا  کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنچ پرشانت کشور کی صورت میں آکھڑا ہوا ہےجس نے دنوں پارٹیوں کی چولیں ہلادی ہیں۔پرشانت کشور نہایت منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں اور انہوں نے اب تک مختلف پارٹیوں کو الیکشن جیتنے میں اور سرکار بنانے میں نہایت کامیاب کردار ادا کیا ہے اس لئے وہ ہر پارٹی کی دکھتی رگ سے واقف ہیں۔ پرشانت کشو ر کی زندگی کو دیکھیں تو انہوں نے کئی سالوں تک اقوام متحدہ کے امداد سے چلنے والے صحت عامہ کے پروگراموں میں حصہ لیا ہے اور وہاں ان کے عوا م سے رابطے ہوئےہیں جس میں انہیں بہت سے تجربات کے ساتھ ساتھ عوامی رجحانات کا علم بھی ہواہے۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے الیکشن کے دور ان مختلف پارٹیوں کی سیاسی حکمت عملی تیار کرنے میں نمایا ں کردار ادا کیا ہے۔پرشانت کشور نے بی جے پی، جے ڈی یو، آئی این سی، اے اے پی، وائی ایس آر سی پی، ڈی ایم کے اور ٹی ایم سی سمیت کئی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک کامیاب سیاسی حکمت عملی کے طور پر کام کیا ہے۔2011 میں انہوں نے نریندر مودی کی سیاسی مہم میں کامیاب حصہ داری اداکی اور پھر 2014 میں بی جے پی کی نمایاں جیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔2015 میں نتیش کمار کی قیادت میں مہاگٹھ بندھن کو جیت دلانے میں بھی پرشانت کشور آگے آگے رہے ہیں ۔ان کی اس کامیابی کودیکھ کر ہی 2016 میں انڈین نیشنل کانگریس نے پرشانت کشور کو 2017 کے اتر پردیش قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے لیے ملازمت دی لیکن یہ انتخابات کانگریس اورپرشانت کشور کے لیے ناکام رہے کیونکہ بی جے پی نے 300 سے زیادہ سیٹیں جیتیں اور کانگریس صرف 7 سیٹیں ہی سنبھال سکی۔ یہ پہلا اور واحد موقع تھا جب کشور کسی پارٹی کو انتخابات جیتنے میں مدد کرنے میں ناکام رہے۔

 

بہار میں جن سوراج کی عوامی مقبولیت

 

اب جب کہ 2025 میں بہار کا الیکشن سامنے ہے پرشانت کشور کسی پارٹی کی مدد کے بجائے اور کسی اور کو وزیر اعلیٰ بنانے کے بجائے خود انہوں نے اپنی پارٹی جن سوراج کے نام سے کھڑی کردی ہے اور نتیش کمار ، تیجسوی یادو کے بعدبہار کے وزیر اعلیٰ کے طور پر تیسرا بڑا نام پرشانت کشور کا ہی لیا جارہا ہے ۔ایسے میں جب کہ یہ گمان ہوررہا تھا کہ بی جے پی نتیش کمار سے الگ ہوکر الیکشن لڑنے کی کوشش کرے گی پرشانت کشور کے سیاسی میدان میں کودنے کی وجہ سے بی جے پی بھی نتیش کمار کاساتھ چھوڑنا نہیں چاہتی ۔دوسری طرف کانگریس کے ساتھ انڈیااتحاد میں شامل دوسری چھوٹی بڑی پارٹیاں تیجسوی یادو کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے میں ہی اپنی بھلائی تصور کرتی ہیں۔

 

بہار میں تیسرا سیاسی اتحاد

 

اس بیچ بہار کی سیاست میں ایک بھونچال اس وقت پید اہوا جب کہ اسد الدین اویسی کی پارٹی ایم ائی ایم نے بھی بہار میں اپنا انتخابی بگل بجادیا مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد ان کے ساتھ ہےاور نوجوانوں کے دل میں تو اویسی راج کرتے ہیں ۔ خاص کر متھلانچل اور سیمانچل کاعلاقہ ان کا دلدادہ بناہو اہے۔اب تک مسلمانوں کی اکثریت لالو یادو اور راجد کی دیوانی تھی لیکن جب سے مسلمانوں کی مستقل نمائندگی والی سیاسی پارٹی کی آواز اٹھنے لگی ہےنوجوان نسل اسد الدین اویسی کے قریب ہونے لگی ہے۔

 اویسی صاحب نے راجد کی نمائندگی میں الیکشن لڑنے والے عظیم اتحاد میں شمولیت کے اپنی دلی خواہش کا اظہار کیاتھا جس کو قبول نہیں کیا گیا جس کی وجہ مسلمانوں میں ایک طرح کا انتشار پید اہوگیا ۔ کچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ جب عظیم اتحاد مسلمانوں کی نمائندہ پارٹی کو اپنے ساتھ شامل نہیں کرنا چاہتی تو ہمارا ووٹ بھی ان کے ساتھ نہیں ہے۔ اور کچھ لوگ اس یقین دہانی میں لگے ہوئے ہیں کہ چاہے جو کچھ بھی ہوجائے ہم راجد کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے ۔ اسی میں کچھ لوگوں کا رجحان یہ بھی ہے کہ جہاں جہاں ایم آئی ایم کے جیتنے کے امکانات ہیں وہاں انہیں ووٹ دیا جائے اورجہاں عظیم اتحاد کے جیتنے کے امکانات ہے وہاں ان کو ووٹ دیا جائے ۔

عظیم اتحاد میں شمولیت سے مایوس ہونے کے بعد ایم آئی ایم نے ایک تیسرا مورچہ کھول دیا جس میں ایم آئی ایم کے ساتھ چندر شیکھر آزاد کی  آزاد سماج پارٹی (کانشی رام) اور اپنی جنتا پارٹی (سوامی پرساد موریہ) شامل ہیں  ۔ اگر چہ یہ تیسرا مورچہ پورے بہار میں الیکشن نہیں لڑ رہا ہے لیکن تمام بڑی پارٹیوں کی مشکلات میں اضافہ کاسبب ہے ۔ اس لئے کہ اس اتحاد کے پاس دلت اور مسلم ووٹرس  کی اچھی خاصی تعداد ہے  جس کو نظر انداز  نہیں کیا جاسکتا ۔

بہار میں مسلم اور دلت ووٹ کا بکھراؤ

ایسی صورت حال میں مسلمانوں کا ووٹ یکسر بکھرتاہوانظر آرہا ہے ۔ کیوں کہ نتیش کمار کی قیادت والی پارٹی جدیو اگر چہ بی جے پی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑ رہی ہے پھر بھی مسلمانو ں کا ایک طبقہ ان کی پارٹی کے ساتھ کھڑا ہے ۔ دوسری طرف پرشانت کشور کے اس اعلان کے باوجود بھی کہ الیکشن جیتنے کے لئے مسلمانوں کی ضرورت نہیں ہے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد جن سوراج کا جھنڈا اٹھائے گھوم رہی ہے۔ بعض مسلمان تو خاندانی کانگریسی ہیں چاہے کانگریس کا امیدوار جیتے یاہارے ان کاووٹ کانگریس کو ہی جائے گا۔راجد کا چھاپ تو مسلمانوں کے دلوں پر ویسے ہی بیٹھاہوا ہے۔ کل ملاکر بہار کے اس الیکشن میں بھی مسلمانوں کی کو ئی خاص اہمیت نظر نہیں آرہی ہے۔اب دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور بہار کی سیاست میں کیا تبدیلی آتی ہے۔
دلت ووٹ کی صورت میں ایک بہت بڑ اووٹ کا ذخیرہ ہمارے بہار میں موجود ہے لیکن ان کا ووٹ بھی منظم نہیں ہے ۔رام ولاس پاسوان کی پارٹی لوک جن شکتی پارٹی کی طرف دلت ووٹ کا خاصا میلان ہے جو سیدھا این ڈی اے کو جاتاہے۔اس کے علاوہ جیتن رام مانجھی اور نتیش کمار بھی دلت ووٹ کی کشش کاباعث ہیں۔ بہار میں چندرشیکھر آزاد کی آزاد سماج پارٹی بھی کافی متحرک نظر آرہی ہے اور امیدہے کہ وہ دلت ووٹ کے ساتھ مسلم ووٹ بھی سمیٹیں گے ۔بی جے پی کے جھولے میں ایسے ایسے ہتھیار ہیں کہ وہ ایک لمحے میں دلت ووٹ کو اپنی طرف کھینچ لینے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔اس طرح بہار کایہ الیکشن جس طرح سیاسی پارٹیوں کے لیے بہت بڑا چیلنج ثابت ہورہا ہے وہیں مسلمانوں کے اندر انتشار اور افتراق کی کیفیت پید اکررہا ہے ایسے میں مسلم رہنما بھی دانتوں تلے انگلی دبائے انتظار کررہے ہیں کہ دیکھیں نتیجہ کیا ہوتاہے۔

بہار میں مسلم قیادت کو توجہ دینے کی ضرورت

ایسی حالت میں مسلم قیادت کو اس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ جس سے مسلم ووٹ کی اہمیت واضح ہواور ان کا وقار اور وزن بحال ہو۔مسلمانوں کے پاس ایک واضح منشور ہے جس میں وقت کے ساتھ پیداہونے والے ہر طرح کی کیفیت سے نمٹنے کی راہ دکھائی گئی ہے ۔ مومن کی نظر نوری نظر ہوتی اور وہ ایمانی نور سے دیکھتاہے اس لئے اس کے دھوکہ کھانے کےامکانات کم ہوتے ہیں۔اب یہاں پر مومنانہ فراست کو بروئے کار لاتے ہوئے مسلم قیادت کوبہتر رہنمائی فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قوم جذبات میں بہہ کر کوئی ایسا فیصلہ نہ کرلے جس سے بعد میں پچھتاوا کاسامنا کرنا پڑے ۔

مسلم  قیادت کو محض یہ کہہ کر نکل جانا کہ موجودہ سیاست سے ہمارا کو ئی واسطہ نہیں ہے فرض کی ادائیگی کے لئے کافی نہیں ہے ۔ اس لئے کہ  تحریکیں اسی وقت کامیاب ہوتی ہیں جب کہ سیاسی میدان میں بھی ان کا کچھ وزن ہوتا ہے ۔ آخر مسلمان  جب اپنی تحریکوں کااعلان کرتے ہیں  تو سیاسی رہنماؤں کاسہارا ضرور  لیتے ہیں بلکہ مسلمانوں کا خالص مذہبی اسٹیج بھی سیاسی لوگوں سے خالی نہیں ہوتا پھر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس طرح اپنا دامن جھاڑ لینے سے کام نہیں چلے گا بلکہ جس طرح دیگر مذاہب کے خالص مذہبی رہنما بھی اپنی برادری کے لئے ایک لائحہ عمل تیار کرتے ہیں اور اس کا اعلان بھی کرتے ہیں ۔اسی طرح مسلم قیادت کو بھی میدان عمل میں آنا ہوگا۔ محض منبر و محراب سے یا اسٹیج سے خالی خولی تقریریں کردینے سے حکام کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی ۔ بلکہ بات انہیں کی سنی جاتی ہے جو ایوان میں کھڑےہوکر اپنی بات کرتے ہیں چاہے وہ آواز ایک ہو ، اکیلی ہو لیکن چرچا اور بحث اسی بات پر ہوتی ہے  جو پارلیامینٹ میں کھڑے ہوکر کی جاتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *