نیک اعمال میں سبقت

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
نیک اعمال پر کامیابی کاانحصار
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کو پید اکیا اور اس کے سامنے اچھے اور برے دونوں طرح کے اعمال واضح طور پر بیان کردیا ہے ۔نیک اعمال کے ساتھ دنیا وآخرت کی کامیابی ہے اور برے اعمال کے ساتھ ناکامی ہے۔ ایک مومن کی اصل صفت یہ ہوتی ہےکہ وہ برے اعمال سے دور بھاگتاہےاور نیک اعمال کےقریب ہونا چاہتاہے۔اس لئے کہ ہم جنس اشیاء اپنے جنس کی طرف کھنچتی ہیں اورایمان سراسرنیکی ہے اس لئے نیکی کے جتنے بھی اعمال ہیں وہ سب کےسب ایمان کی ہم جنس ہیں ۔ اس لئے اگر ایمان موجودہے تو اس کا تقاضا ہےکہ نیک عمل بھی اس کے ساتھ آئے اگر اعمال صالحہ کی طرف طبیعت مائل نہیں ہوتی اس کامطلب ہے کہ ایمان میں کچھ کمی ہے۔ایمان اور عمل صالح یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب رہنے والی چیزیں ہیں ۔ انسانی زندگی اسی وقت کامیابی سے ہم کنار ہوگی جب کہ اس کے اعمال اچھے ہوں ۔ دنیا میں کامیابی کے لئے بھی اچھے اعمال کی ضرورت ہے اور آخرت میں تو نیک اعمال کے سوا کوئی سکہ چلے گا ہی نہیں ۔ جس طرح ایک کسان کھیت میں اچھے بیج ڈالتاہے ، اس کی سینچائی کرتاہے ، اس میں پیدا ہونے والے ٰخودرو گھاس پھوس کو نکال کر باہر کرتاہے ، اپنی کھیتی کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتا ہے تو اس کی کھیتی ثمر آور ہوتی ہے اور پھر جب کھیتی پک جاتی ہے تو اسے خوشیوں سے مالا مال کر دیتی ہے ۔ بالکل اسی طرح ایک انسان جب نیک اعمال کرتا ہے اور اس میں شہرت ، ناموری اور دکھاوے کو شامل نہیں کرتا اور ان اعمال کی اچھی دیکھ بھال کرتاہے تو اس کے ثمرات اس دنیا میں بھی ظاہر ہوتے ہیں اور پھر جب وہ آخرت میں جائے گا تو اس کے اعمال کی وجہ سے آخرت کی بیش بہا نعمتیں اس کا استقبال کریں گی ۔
اس کے برخلاف ایمان کے ساتھ معصیت کبھی جمع نہیں ہوسکتی۔جب کوئی انسان برے اعمال کواپنی عادت بنا لیتا ہے اور توبہ استغفار نہیں کرتا ، نیک اعمال پر توجہ نہیں دیتا تو اس دنیا میں بھی اس کی رسوائی ہوتی ہے اور آخرت میں جانے کے بعد اس کے اعمال اس کے سامنے عذاب کی صورت میں ظاہر ہوں گے اور پھر اس کے لئے نہایت براٹھکانا ہوگا۔
برے اعمال کے ساتھ ایمان نہیں رہتا
نیک اعمال اور ایمان کاباہم گہرا تعلق ہے اس لئے جب بندہ کو نیک عمل کرتاہے تو اس کی ایمانی قوت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہیں پر اگر کوئی براعمل کرتاہے تو اس کا ایمان اس کے دل سے نکل جاتاہے پھر جب وہ توبہ کرلیتاہے تو اس کا ایمان واپس آجاتاہے ۔اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے بعض معاصی کاتذکرہ کرتے ہوئےفرمایاہےکہ کہ ایمان کی موجودگی میں یہ چیزیں نہیں پائی جاسکتیں ۔جیسے آپ ﷺ نے فرمایا :
لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ.(صحیح بخاری،صحيح البخاري ،كِتَاب الْحُدُودِ، حدیث نمبر٦٧٨٢ )
جب زنا کرنے والا زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا اور اسی طرح جب چور چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔
اس حدیث کی تفسیرایک دوسری حدیث سے ہوتی ہےجس کو امام بخاری نے ہی روایت کیا ہے:
عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” لَا يَزْنِي الْعَبْدُ حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَشْرَبُ حِينَ يَشْرَبُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَقْتُلُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ”، قَالَ عِكْرِمَةُ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: كَيْفَ يُنْزَعُ الْإِيمَانُ مِنْهُ؟ قَالَ: هَكَذَا: وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ ثُمَّ أَخْرَجَهَا، فَإِنْ تَابَ، عَادَ إِلَيْهِ هَكَذَا: وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ.(صحيح البخاري۔كتاب المحاربين۔ بَابُ إِثْمِ الزُّنَاةِ:حدیث نمبر ٦٨٠٩ )
حضرت عکرمہ نےحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بندہ جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔ بندہ جب چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا اور بندہ جب شراب پیتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا اور جب وہ قتل ناحق کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔ عکرمہ نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ ایمان اس سے کس طرح نکال لیا جاتا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ وہ اس طرح اور اس وقت آپ ان نے اپنی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر پھر الگ کر لیا پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو ایمان اس کے پاس لوٹ آتا ہے، اس طرح اور آپ نے اپنی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالا۔
اس حدیث سے صاف بات واضح ہوجاتی ہے کہ زنا کرنے والا جب زنا کرتاہے، چوری کرنے والا جب چوری کرتاہے، شراب پینےوالا جب شراب پیتاہے اورقاتل جب کسی مومن کو قتل کرتاہے تو ایمان اس کےاندر سے نکل جاتاہے۔ اس سے پتہ چلاکہ یہ برے اعمال ایمان کے مغائر ہیں یہ دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ۔ ہاں پھر جب وہ شخص حقیقی توبہ کرلیتا ہے تو ایمان پھر واپس آجاتا ہےاس لئےکہ توبہ اعمال صالحہ میں سے ہے اور ایمان کا حصہ ہے۔ایمان اور صالح اعمال ایک دوسرے کےلئےلازم ملزوم ہیں ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نےجہاں جہاں ایمان کا ذکر کیا ہے معااس کے بعد اعمال صالحہ کا بھی ذکر کیا ہے۔

اعمال صالحہ ایمان کی شاخیں ہیں
اس کو اس طرح سمجھئے کہ ایمان ایک تنا ہے اور اعمال صالحہ اس کی شاخیں اور پھول پتیاں ہیں جواس درخت کی خوبصورتی اور افادیت کےلئےضروری ہوتی ہیں۔ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کا ہونا ایسا ہی ہے جیسے کسی درخت پر پھل پھول آرہے ہیں اور جس درخت پر پھل پھول آتے ہیں اسے زندہ درخت سمجھا جاتاہےاور جس پر پھل پھول نہیں آتےاسے مردہ درخت سمجھاجاتاہے۔ ان اعمال صالحہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو پاک حیات عطا فرماتے ہیں اور اسے اجر عظیم کا پھل عطاکرتے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ۔( سورۃ النحل ۔ آیت ٩٧ )
جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقیناً ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی اور یقیناً ہم انھیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے۔
اس آیت کریمہ پر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ نیک اعمال پر اجر اسی وقت مرتب ہوتاہے جب کہ ایمان موجود ہو ۔ اس لئےمومنین کو چاہئے کہ ایمان کے ساتھ نیک اعمال بھی کرتے رہیں اوراعمال صالحہ اختیارکرتے وقت اپنے ایمان کا بھی جائزہ لیتے رہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ غفلت میں ہماری زبان سے کوئی ایسی بات ظاہر ہوجائے جس کے ہمارا یمان خارج ہوجائے اورہمیں پتہ بھی نہ چلے ۔ یاکوئی ایسا عمل کر بیٹھیں جس سے ہمارا ایمان ضائع ہوجائے اور ہم اپنے آپ کو مومن سمجھتے رہیں۔دنیا کو اللہ تعالیٰ نے ایک مزرعہ یعنی کھیتی بنایا ہےاو ر آخرت کے ثمرات اسی عارضی دنیاکے اعمال پر ظاہر ہوں گے ۔اس لئے جو لوگ اس دنیا میں نیک اعمال میں سبقت لے جاتے ہیں وہ آخرت میں بھی سبقت لےجائیں گے اور ان کے لئے بہترین ٹھکا نا ہوگا۔باری تعالیٰ جل شانہ کا ارشاد ہے:
لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌۚ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌۚ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ(سورۃ النحل ۔آیت ٣٠ )ان لوگوں کے لیے جنھوں نے بھلائی کی اس دنیا میں بڑی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو کہیں بہتر ہے اور یقیناً وہ ڈرنے والوں کا اچھا گھر ہے۔
اعمال خیر و شر لکھنے کا دستور
اللہ تعالیٰ کا عام دستور یہ ہے کہ جب بندہ کسی نیکی کا ارادہ کرتاہے تو اسے اسی وقت ایک نیکی کا ثواب اس کے اعمال نامہ میں لکھ دیتے ہیں اور اگر اس نے وہ نیک کام کرلیا تو اس ایک نیکی کاثواب دس گنا سے سات سو گنا بڑھاکر دیتے ہیں ۔لیکن اس کے برعکس اگر کوئی بندہ کسی گناہ کااراد ہ کرتاہےتو محض اس ارادہ کی وجہ سے اس کےلئےگناہ نہیں لکھاجاتاہاں جب وہ گناہ کرلیتاہے تو اس کےنامۂ اعمال میں صرف ایک گناہ لکھ لیاجاتاہے۔یہ اللہ تعالیٰ کافضل اور ا س کی نوازش ہے کہ نیک اعمال میں بے دریغ ثواب عطافرماتاہے لیکن گناہوں پر ستاری کامعاملہ فرماتاہے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ الْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ، ثُمَّ بَيَّنَ ذَلِكَ فَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا، كَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً، فَإِنْ هُوَ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ عِنْدَهُ عَشْرَ حَسَنَاتٍ إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ إِلَى أَضْعَافٍ كَثِيرَةٍ، وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا، كَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً فَإِنْ هُوَ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ سَيِّئَةً وَاحِدَةً”.(صحيح البخاري۔كِتَاب الرِّقَاقِ۔حدیث نمبر ٦٤٩١ )
اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں مقدر کر دی ہیں اور پھر انہیں صاف صاف بیان کر دیا ہے۔ پس جس نے کسی نیکی کا ارادہ کیا لیکن اس پر عمل نہ کر سکا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ایک مکمل نیکی کا بدلہ لکھا ہے اور اگر اس نے ارادہ کے بعد اس پر عمل بھی کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اپنے یہاں دس گنا سے سات سو گنا تک نیکیاں لکھی ہیں اور اس سے بڑھ کر اور جس نے کسی برائی کا ارادہ کیا اور پھر اس پر عمل نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اپنے یہاں نیکی لکھی ہے اور اگر اس نے ارادہ کے بعد اس پر عمل بھی کر لیا تو اپنے یہاں اس کے لیے ایک برائی لکھی ہے۔
اعمال خیر میں سبقت اللہ کو پسند ہے
اللہ تعالیٰ چاہتےہیں کے میرےبندے نیک اعمال میں سبقت اختیارکریں اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نےفرمایا :
فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ إِلَى اللهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (سورۃ المائدہ۔ آیت ٤٨ )
نیک اعمال میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو، اللہ ہی کی طرف تم سب کولوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمھیں بتائے گا جن باتوں میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ صحابۂ کرام نیک اعمال میں ایک دوسرے سے ہمیشہ آگے رہنے کی کوشش کر تے تھے ۔کبھی کوئی موقع نہیں چھوڑتے تھے ۔ حضرت عمر فاروقؓ کا واقعہ مشہور ہے جب وہ غزوہ ٔ تبوک کے موقع سے کافی متمول تھے ۔ انہوں نے دل میں سوچاکہ آج میں ابوبکرؓ سے آگے بڑھ جاؤں گا لیکن حضرت ابوبکر ؓ بھی پیچھے رہ جانے والوں میں سے نہیں تھے ۔پورا واقعہ ایک روایت میں اس طرح بیان کیا گیاہے :
عَن عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا أَنْ نَتَصَدَّقَ، فَوَافَقَ ذَلِكَ مَالًا عِنْدِي، فَقُلْتُ: الْيَوْمَ أَسْبِقُ أَبَا بَكْرٍ إِنْ سَبَقْتُهُ يَوْمًا فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ؟” قُلْتُ: مِثْلَهُ، قَالَ: وَأَتَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِكُلِّ مَا عِنْدَهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ؟” قَالَ: أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، قُلْتُ: لَا أُسَابِقُكَ إِلَى شَيْءٍ أَبَدًا۔(سنن ابي داود۔كِتَاب الزَّكَاةِ۔حدیث نمبر ١٦٧٨ )
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم صدقہ کریں، اتفاق سے اس وقت میرے پاس دولت تھی، میں نے کہا: اگر میں کسی دن ابوبکر رضی اللہ عنہ پر سبقت لے جا سکوں گا تو آج کا دن ہو گا، چنانچہ میں اپنا آدھا مال لے کر آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اپنے گھر والوں کے لیے تم نے کیا چھوڑا ہے؟“، میں نے کہا: اسی قدر یعنی آدھا مال، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے کر حاضر ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”اپنے گھر والوں کے لیے تم نے کیا چھوڑا ہے؟“، انہوں نے کہا میں ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں، تب میں نے کہا: میں آپ سے کبھی بھی کسی معاملے میں نہیں بڑھ سکوں گا۔
یہ جذبہ صحابۂ کرام کی زندگی میں بار بار نظر آئے گا۔کسی بھی موقع سے وہ چوکتے نہیں تھےجہاں موقع ملا نیک اعمال میں سبقت لے جانےکی کوشش کرتے تھے۔ایک موقع سے کچھ غریب مسلمان رسول اللہ ﷺ کےپاس آئے اور انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ہم اس بات سے غمگین ہیں کہ مال والوں سے ہم کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکتے اس لئےکہ جس طرح ہم نمازیں پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتے ہیں،جس طرح ہم روزے رکھتے ہیں وہ بھی رکھتے ہیں۔ لیکن وہ صدقہ خیرات کرتے ہیں، حج اورجہاد کرتے ہیں لیکن ہم نہیں کرسکتےاس لئےکہ ہمارے پاس مال نہیں ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں بتایا کہ تم ہر نماز کےبعد سبحان اللہ ، الحمد للہ اور اللہ اکبر 33،33 بار پڑھ لیاکرو تم سے آگے کوئی نہیں بڑھ سکتا۔
اعمال خیر میں سبقت کی فکر مفقود ہوگئی
اعمال خیر میں سبقت فکر قرن اول کے مسلمانوں میں عام طوپر موجود تھی ۔ لیکن جیسے جیسے زمانۂ نبوی سے بُعد ہوتاگیا یہ جذبہ بھی ماند پڑتاگیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر سے یہ جذبہ مفقود ہوگیا اب ہر شخص اپنی دنیا بنانے میں لگاہوا ہے اور چاہتاہے کہ دنیاوی معاملات میں وہ کسی سے پیچھے نہ رہے چاہے اس کادین نقصان میں کیوں نہ چلاجائے۔ حالانکہ اسے معلوم ہے کہ یہاں جوکچھ بھی وہ جمع کررہا ہے وہ سب یہیں رہ جائے گا اور ایک دن ان سب کو چھوڑ کر اسے چلے جانا ہے لیکن پھر بھی اپنی عاقبت خراب کررہا ہے۔ہمیں چاہئے کہ اپنے ذہن و دماغ پر آخرت کی فکر سوار کریں اور دنیاکو بقدر ضرورت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ورنہ دنیا تو آئے گی نہیں اورآخرت خراب ہوجائے گی ۔
اس دنیا میں شیطان انسان کابہت بڑا دشمن ہے جو برائیوں کو نہایت سجا سنوار کر انسان کے سامنے پیش کرتا ہے اور انسان کی چمک دمک دیکھ کر ان برے اعمال کاارتکاب کرتاہے تو اسے تھوڑی سی لذت بھی محسوس ہوتی ہے لیکن یہ لذت محض ایک دھوکہ ہوتاہے جیسے خارش زدہ شخص کو خارش کرنے میں تھوڑا لطف پیدا ہوتاہے لیکن وہ جیسے ہی کھجانا شروع کرتا ہے معا شدید جلن پید اہوتی ہے جو اس کوپریشان کردیتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس نیک اعمال کی لذت دائمی ہے اور اس کا لطف ابدی ہے ۔ نیک اعمال کے ذریعہ جو فرحت و انبساط کی کیفیت انسان کے اندرون میں پید اہوتی ہے وہ دنیا میں بھی فرحت بخش ہوتی ہے اور آخرت کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے ۔
تباہی کے اسباب ہمارے اعمال
یہ دنیا خیر وشر کی آماج گاہ ہے یہاں اچھے اعمال کرنےوالے لوگ بھی بستے ہیں اور برے اعمال کرنے والے لوگ بھی بستے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو انسانوں کے لئے بنایا ہے اس لئے دنیا کے گوشے گوشے میں انسانی آبادی موجود ہے ۔ ان میں بعض تو ایسے ہیں جو اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانتے ہیں اور بعض وہ ہیں جو اپنے خالق ومالک کو نہیں پہچانتے بلکہ اس کی جگہ پر کچھ ایسی چیزوں کو اپنا خالق ومالک تصور کرتے ہیں جن کا وجود خود انسانوں کا محتاج ہے۔ اس سب کے باوجود اللہ تعالیٰ اس دنیاکے نظام کو چلارہے ہیں ۔ سورج ،چاند ، ستارے سب اپنی جگہ پر اپنا کام کررہے ہیں ۔ اس لئے کہ جس طرح انسانوں کی عمریں اللہ تعالیٰ کے یہاں متعین ہیں اسی طرح اس دنیا کی بھی ایک عمر ہے جسے گذارنے کے بعد اس دنیاکو بھی موت آجائے گی اور پھر یہ سارانظام درہم برہم ہوجائے گا۔اس کے بعد ایک نیانظام جاری ہوگا جس کا پورانقشہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بنارکھا ہے۔ اور ان میں سے کچھ چیزیں اپنے انبیاء کے ذریعے انسانوں کوبتابھی دیاہے ۔اس نظام میں اپنے لئے اچھامقام حاصل کرنے کے لئے انسان اس دنیا میں رہ کر اپنے خالق سے رشتہ مضبوط کرتاہے تاکہ مرنے کے بعد جب دوبارہ اٹھایا جائے تو آرام وسکون والی زندگی میسر ہو۔
خیر وشر کے اعمال کی جزاو سزا کے لئے اللہ تعالیٰ نے الگ الگ مقام متعین فرمادیا ہے جسے ہم جنت اور جہنم کے نام سے جانتے ہیں ۔ اصل جزا یا مکمل سزا تو انہیں دونوں مقامات پر ملے گی ۔ لیکن کچھ اعمال ایسے ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ دنیامیں بھی کسی کسی کو ہلکی پھلکی سزائیں دے دیتے ہیں ، یا اس کے نیک اعمال کے انعامات کی کچھ جھلک اس دنیا میں بھی دکھادیتے ہیں ۔دنیا کی تاریخ میں ایسی مثالیں بھری پڑی ہیں۔انسان پر جوحالات آتے ہیں ، جومصیبتیں یاپریشانیاں آتی ہیں وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تنبیہ ہوتی ہے اور یہ بتلایا جاتاہے کہ تمہاری ساری تدبیروں کوکامیاب کرنا اللہ کےہاتھ میں ہےاس لئے اس کی رسی کومضبوطی سے پکڑلو ،یا کبھی کبھی آزمائش ہوتی ہےکہ ایا یہ بندہ حقیقی معنوں میں اللہ کاتابعدار ہےیا صرف اوپر اوپر سے تابعداری کاڈھونگ رچا رہاہے۔
انسانی اعمال کی وجہ سے دنیا میں طرح طرح کے فتنے پید اہوتے ہیں اور طرح طرح کی پریشانیاں ظاہر ہوتی ہیں ۔ کبھی بیماریوں اور وبا کی صورت میں ، کبھی زلزلوں اور آندھی طوفان کی صورت میں ، کبھی بارش اور سیلاب کی صورت میں اور کبھی ظالم حکمراں کے تسلط کی صورت میں ۔ یہ سب اس لئے ہوتا ہےکہ انسان اللہ کی طرف رجوع کرے اوراپنے گناہوں سے توبہ کرکے اپنے خالق ومالک کا سچاتابعدار بن جائے۔خود خالق کائنات کااعلان ہے:
’’ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْ النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ‘‘۔(الروم:۴۱)
’’خشکی اور تری میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی (اعمال) کے سبب خرابی پھیل رہی ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے بعض اعمال کا مزہ انہیں چکھادے، تاکہ وہ باز آجائیں‘‘۔
یہ جو خشکی اور تری کا فساد ہےانسانوں کے اعمال کی پوری سزا نہیں ہے یہ تو اللہ کے قدرت کی ہلکی سی نمائش ہے تاکہ انسان اپنے خالق کی طرف رجوع کرے۔جومصیبتیں اور پریشانیاں آتی ہیں وہ ان کے تمام اعمال کاوبال نہیں بلکہ چند اعمال کی تھوڑی سی سزا ہوتی ہےتاکہ وہ سنبھل جائے اور اپنی حالت سدھار لے ۔ ورنہ جتنی نافرمانیاں اور جتنی معصیتیں انسانوں سے ہوتی ہیں اگر ان سب کاحساب اللہ تعالیٰ اس دنیا میں کرنےلگیں اور ان سب کی سزائیں اسی دنیا میں دینے لگیں تو اس کائنات کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
وَ مَا اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ۔(سورہ شوریٰ۔ آیت ٣٠ )
”اور جو بھی تمھیں کوئی مصیبت پہنچی تو وہ اس کی وجہ سے ہے جو تمھارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ بہت سی چیزوں سے در گزر کر جاتا ہے۔ “ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا(سورہ فاطر۔آیت٤٥ )
اور اگر اللہ لوگوں کو اس کی وجہ سے پکڑے جو انھوں نے کمایا تو اس(زمین) کی پشت پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑے اور لیکن وہ انھیں ایک مقرر مدت تک مہلت دیتا ہے، پھر جب ان کا مقرر وقت آجائے تو بے شک اللہ اپنے بندوں کو ہمیشہ سے خوب دیکھنے والا ہے۔“
ان آیات کے تناظر میں آج ہم اپنا جائزہ لیں توہمیں پتہ چل جائے گا کہ پوری دنیا میں جوعذاب کی صورت پیدا ہوئی ہے ہر جگہ مسلمان پریشان حال ہیں ،ظالم حکمرانوں کا تسلط ہے ، کاروبارپر نت نئے حملےہورہےہیں ان سب کی وجہ ہمارے اعمال ہیں ۔ جن کی وجہ سے مصائب سے چھٹکارا نہیں ملتا۔مسجدوں کی آبادی کی فکر کرنے کے بجائے ان کی زیبائش اور نمائش پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے ۔ محلوں کی آبادی کے تناسب سے ایک فیصد نمازی بھی مسجد میں نظر نہیں آتے جس کا نتیجہ یہ ہورہاہےکہ ہماری مسجدیں منہدم کی جارہی ہیں اور ہم چیختے چلاتے رہ جاتے ہیں۔ہم نے اسلامی شعار کے بجائے مغربی تہذیب کو فوقیت دیتا شروع کردیاتو ہماری تہذیب کو دنیاکی بدترین تہذیب ثابت کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ہم نے اپنے گھروں میں پردے کو چھوڑا تو بے حیائی وبے شرمی کاطوفان کھڑا ہوگیا۔ رشوت اورکالابازاری کوہم نے جگہ دی تو دنیاکے کاروبار اور ملازمتوں سے ہمیں دور کردیا گیا۔
اللہ تعالیٰ کے نام پر وقف شدہ جائدادوں کا غلط استعمال ہونے لگا تو اب پورا کا پورا وقف بورڈ خطرے میں پڑگیا۔اس کےعلاوہ ہر میدان میں جوناکامیاں سامنے آرہی ہیں اگر غور کیاجائے تو ان سب کے وجوہات ہمیں سمجھ میں آجائیں گی۔ان تمام ناکامیوں کو کامیابی میں بدلنے کےلئے جوبھی اسباب وذرائع اختیار کیے جارہےہیں ان میں سب سے اولین درجہ اس کو حاصل ہے کہ ہم پہلے اپنا جائزہ لیں اور جہاں جہاں حقوق کی ادائیگی نہیں ہورہی ہے، حق تلفیاں ہورہی ہیں ان میں سدھار پیداکرنے کی کوشش کی جائے ۔ اللہ کی رسی کومضبوطی سے پکڑا جائے اور اسی سے مدد کی درخواست کی جائے ۔ اس لئےکہ ہمارا ایمان ہے کہ اسباب کوپیدا کرنے والی ذات بھی اللہ کی ہے اورانہیں کامیابی سے ہمکنار کرنے والی ذات بھی وہی ذات وحدہ لاشریک لہ ہے۔اتنی واضح ھدایات ہونے کے باوجود بھی مسلمان معاملات کے حل کےلئے اپنے اللہ کی طرف رجوع کرنے کے بجائے ایسی جگہوں پر اپنی طاقت صرف کررہے ہیں جہاں ان کے مرض کا کوئی علاج ہی نہیں ۔فاعتبروا یااولی الابصار

[…] اگر سوال کیے بغیر کہیں سےکوئی ہدیہ یا عطیہ آجائے تو اسے اللہ کی طرف سے عطا سمجھ کر رکھ لینا چاہئے اگر خود ضرورت ہے تو اپنی ضروریات میں استعمال کرے یا دوسرے ضروتمندوں میں تقسیم کردے ۔رسول اللہ ﷺ کے پاس جب کہیں سے مال آتا تھا تو وہ اپنے آس پاس رہنے والوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے ایسا ہی ایک واقعہ حضرت عمر فاروق ؓ کا ہے جو ذیل میں درج ہے: عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يُعْطِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْعَطَاءَ، فَيَقُولُ لَهُ عُمَرُ: أَعْطِهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ أَوْ تَصَدَّقْ بِهِ، وَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ “، قَالَ سَالِمٌ: فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا يَسْأَلُ أَحَدًا شَيْئًا وَلَا يَرُدُّ شَيْئًا أُعْطِيَهُ،(صحیح مسلم ، کتاب الزکوۃ،باب كَرَاهَةِ الْمَسْأَلَةِ لِلنَّاسِ۔حدیث نمبر٢٤٠٦ ) حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطیہ دیا کرتے تھے۔ تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عرض کیا کرتے۔اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اس کو دیجیے جو اس کا مجھ سے زیادہ محتاج ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس کو لے لو اور اپنا مال بنا لو یا اس کو صدقہ کر دو (اور اپنا اصول بنا لو) جو مال تمھیں اس طرح ملے کہ تم نے دل میں اس کی چاہت اور طمع نہیں کی اور نہ ہی اس کا سوال کیا تو اس کو لے لو اورجو مال اس طرح نہ ملے اس کا دل میں خیال نہ لاؤ سالم بیان کرتے ہیں اسی وجہ سے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی سے کچھ مانگے نہیں تھے اور جو چیز ملتی تھی اس کو رد نہیں کرتے تھے۔ مسلمانوں کےیہاں صدقہ خیرات کرنے کی ترغیب ہے اور دنیاکی… […]
[…] نیک اعمال میں سبقت […]
[…] […]
[…] نفلی عبادات کی بہ نسبت والدین کی خدمت […]
[…] نیکی میں ایک مومن دوسرے مومن کامددگار ہوتاہے […]
[…] اعمال میں نیت کی اہمیت […]
[…] اسلام میں عفت و عصمت کی حفاظت کا فریضہ […]
[…] میزان عمل […]
[…] نیکی سے خوش ہونااوربرائی سے مغمو م ہونا […]
[…] جنت و جہنم اور اس کے مکین […]
[…] […]
[…] گناہوں کے مٹنے کا ذریعہ […]