مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

موت ایک یقینی حقیقت

جنازہ سے پہلے کے حالات وکیفیات

موت ایک یقینی حقیقت

 

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی 

موت ایک ابدی حقیقت

موت ایک ابدی حقیقت ہے جس سے کوئی مفر نہیں ۔ہر شخص جو اس دنیا میں آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن موت کے آغوش میں جانا ہے ۔دنیا کا کوئی بھی فرد چاہے وہ کسی دین کاماننے والا ہو، یا نہ ماننے والا ہو اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ اسے جو حیات ملی ہے وہ فانی ہے ابدی نہیں ۔

ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہر مومن کایہ عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی ایک حیات ہے جو ابدی ہے اس میں فنا نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیش کی زندگی ہے چاہے وہ زندگی اللہ کی عطاکردہ عظیم نعمتوں سے بھرے مقام جنت میں ہو یااللہ کے غضب کامظہر جہنم میں ہو موت اس حیات میں نہیں ہے ۔
موت کا سامنا ہر مخلوق کوکرناہے ۔ مومن بندہ کے لئے موت اللہ سے ملنے کا ایک سبب ہے یہ ایک پُل ہے جو دنیا وآخرت کے درمیان ہے ایک طرف دنیا اور دوسری طرف آخرت کی منزل ہے جہاں کی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہوگی جس کی بنیاد دنیا کے اعمال پر قائم ہوگی اگر دنیاوی زندگی میں انسان نیک عمل کرتارہا اور اللہ تعالیٰ کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچتارہا تو اس کی عاقبت خیرسے مملو ہوگی اور اگر اس دنیا میں رہ کر اللہ کی نافرمانیاں کرتارہا تو آخرت میں اسے مشکلات کا سامنا ہوگا۔

دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں ان کے ساتھ خیروشر ہمیشہ لگا رہتاہے اور انسان سے کبھی نہ کبھی غلطی ہوہی جاتی ہے ۔ بندہ ٔ مومن کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے گناہوں پر مصر نہیں ہوتا بلکہ جیسے ہی اسے تنبہ ہوتا ہے فورا ً اپنے گناہوں سے توبہ کرتاہے ۔ اگر کسی کو زندگی بھر توبہ کا موقع نہیں مل سکا اور اس کی موت کا وقت قریب آگیا تو ابھی بھی موقع ہے اسے فوراً اپنے گناہوں سے توبہ کرلینا چاہئے ۔

موت کے وقت بندہ ٔ مومن کی کیفیت امید وبیم کی ہونی چاہئے یعنی جب وہ اپنے گناہوں کی طرف دیکھے تو اس پر خوف طاری ہوجائے اور جب اپنے رب کی رحمت کی طرف نظر کرے تو اسے اپنی مغفرت کی امید قائم ہوجانی چاہئے ۔

ایک نوجوان صحابی جو موت و حیات کی کشمکش میں تھے ایسی حالت میں نبی کریم ﷺ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اورآپ نے ان سے پوچھا کہ تم کیا پارہے ہو یعنی کیسا محسوس کررہے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں خوف اور امید دونوں پارہاہوں توآپؐ نے فرمایا : لَایَجْتَمِعَانِ فِیْ قَلْبِ عَبْدٍ مِثْلَ ھٰذَاالْمَوْطِنِ اِلَّااَعْطَاہُ اللّٰہُ الَّذِیْ مَایَرْجُوْ ،وَآمَنَہٗ مِمَّا یَخَافُ

(ایسے موقع پرجس بندے کے دل میں یہ دو نوں کیفیتیں (امید وبیم) جمع ہوجاتی ہیں اللہ تعالیٰ اس کووہ چیز عطاکردیتاہے جس کی وہ امید کرتاہے اوراس چیز سے امن عطاکردیتا ہے جس سے وہ ڈرتاہے۔

( ابن ماجہ ۔ حدیث ۴۲۶۱)

جب انسان مرجاتاہے تو اس کے دینی بھائی اپنے اپنے رسم ورواج کے مطابق اسے آخری سفر کے لئے تیار کرتے ہیں اور اسے روانہ کردیتے ہیں ۔ ہر مذہب میں اس کی شکلیں الگ الگ ہیں۔ کوئی زیر زمیں دفن کرتاہے ، کوئی جلاکر راکھ ہو امیں اڑا دیتاہے یا پانی میں ڈال کربہادیتاہے ۔
اسلام ایک کامل دین ہے اس میں زندگی کے ہر موڑ پر پیش آنے والے حالات وواقعات سے متعلق ہدایات موجود ہیں ۔ جس طرح زندگی میں انسان کے لئے کچھ اصول وضوابط اور ہدایات ہیں جن کے مطابق ایک ایمان والا اپنی زندگی گذارتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کے اجرو ثواب کی امید رکھتاہے اسی طرح مرنے کے بعد زندوں پر کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں کہ مرنے والے کی تدفین کا انتظام کرکے اس کو عزت ووقار کے ساتھ دووسری دنیا کی طرف رخصت کریں ۔ جس میں میت کے غسل ،تکفین ، جنازہ،تدفین اور اس کے لئے ایصال ثواب شامل ہے ۔

محتضرکے مسائل

جس شخص پر موت کی کیفیت طاری ہوجائے یعنی اس کا آخری وقت آجائے اور اس پر موت کے آثار ظاہر ہونے لگیں،اس کو محتضر کہا جاتاہے ۔ایسے شخص کے لئے مستحب ہے کہ اس کا چہرہ قبلہ کی طرف کردیا جائے ۔ قبلہ رو کرنے کی کئی صورتیں ممکن ہیں :
(۱) محتضر کو داہنے کروٹ لٹا کر اس کا چہر ہ قبلہ رخ کردیا جائے۔ یہ طریقہ قبر میں لٹانے کے طریقہ سے قریب ہے اور محتضر اب قبر میں جانے کے قریب ہے اس لئے اس کی ہیئت وہی بنادی جائے تو زیادہ بہتر ہے ۔یہ سنت طریقہ ہے۔(ھدایہ اول باب الجنائز) اس صورت میں سر شمال کی جانب اور پیر جنوب کی جانب ہوں گے۔(فتاویٰ محمودیہ ج ۸ باب الجنائز)
(۲) اس طرح چت لٹایا جائے کہ اس کے پاؤں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں اور اس کے سر کے نیچے کوئی چیز تکیہ وغیرہ رکھ دیا جائے تاکہ اس کا چہر ہ قبلہ کی طرف ہوجائے آسمان کی جانب نہ رہے ۔ اس لئے کہ اس میں روح نکلنے میں آسانی ہوتی ہے ۔(ھدایہ)
یہ صورت صلوۃ المریض کے مشابہ ہے یعنی بیمار آدمی جب لیٹ کر نماز اداکرتاہے تو اس کی یہی صورت ہوتی ہے ۔
(۳) اس طرح چت لٹا دیا جائے کہ قبلہ اس کی داہنی طرف ہواور اس کا چہرہ قبلہ کی طرف کردیا جائے۔ ( احکام میت ص ۲۶۔ڈاکٹر عبد الحی عارفی)
پہلی صورت زیادہ بہتر ہے اس میں قبلہ کااحترام بھی ہے اور محتضر کے چہرے کے ساتھ اس کا سینہ بھی قبلہ رو ہوجاتاہے ۔
جوصورت زیادہ آسان ہو اسے اختیار کیا جائے لیکن چہرہ قبلہ کی جانب ہونا چاہئے ۔ (فتاویٰ دار العلوم پنجم۔کتاب الجنائز) اور اگر قبلہ کی طرف رخ کرنے میںزیادہ پریشانی ہو تو اسے اپنے حال پر چھوڑ دیناچاہئے۔

محتضر کے قریب خوشبو رکھنا

اگر خوشبو میسر ہو تو اس کے قریب رکھ دیا جائے۔(فتاویٰ عالمگیری ج ۱ ص ۳۹۸) یعنی اگربتی یا لوبان وغیرہ جلادیا جائے۔لیکن اس بات کاخیال کررکھنا چاہئے کہ اس کے دھویں سے محتضر کو تکلیف نہ ہو جیسے کوئی شخص سانس کا مریض ہو تو دھواں اس کے لئے تکلیف کا باعث ہے اس چیز کا ادراک اس کے قریب رہنے والے لوگوں کو بخوبی ہوسکتاہے اس لئے کہ جانکنی کے وقت انسان خود ہی تکلیف میں مبتلا ہوتاہے ا ور اس کی تکلیف میں مزید اضافہ کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں۔

محتضر کو یہ دعا پڑھنی چاہئے

نبی کریم ﷺ پر جب سکرات کی کیفیت طاری تھی توآپ ﷺ کہ زبان اقدس پر یہ کلمات جاری تھے اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی سَکَرَاتِ الْمَوْتِ اے اللہ سکرات الموت میں میری مدد فرما۔ (ترمذی حدیث نمبر ۹۷۸) اس لئے اگر محتضراپنے حواس میں ہو تو اسے یہ دعا پڑھتے رہنا چاہئے۔

کلمہ کی تلقین

محتضر کے قریب جولوگ موجود ہوں وہ اسے لاالہ اللہ کی تلقین کریں ۔ اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لَقِّنُوْا مَوْتَاکُمْ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ (مسلم حدیث ۲۱۲۳)یعنی اپنے مُردوں کو جو قریب المرگ ہیں انہیں لاالہ الااللہ کی تلقین کرو۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہاں موجود لوگ بلند آواز سے لاالہ اللہ کا ورد کریں جسے سن کر وہ بھی کلمہ پڑھ لے ۔اسے کلمہ پڑھنے کے لئے نہیں کہنا چاہئے اس لئے کہ سکرات موت میں آدمی شدیدتکلیف میں مبتلا ہوتاہے کہیں جھنجھلاہٹ میں وہ کلمہ کا انکار نہ کربیٹھے ۔

ایک بار جب مرنے والا اس کلمہ کو پڑھ لے تو بار بار تلقین کرنے کی ضرورت نہیں ۔ہاں اگر اس کے بعد وہ کوئی اور دنیاوی بات کرے تو دوبارہ تلقین کرنا چاہئے تاکہ اس کاآخری کلمہ لاالہ الا اللہ ہوجائے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مَنْ کَانَ اٰخِرُ کَلَامِہٖ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ (ابوداؤد حدیث نمبر۳۱۱۶)کہ جس کا آخری کلام لاالہ الااللہ ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ اس لئے جولوگ مرنے والے کے قریب موجود ہوں انہیں کوشش کرنی چاہئے کہ اس کی زبان سے جوآخری کلمہ نکلے وہ کلمۂ توحیدکا اقرار ہو ، ادھر ادھر کی باتیں کرنے یا میت کے پاس رونے دھونے سے پرہیز کرنا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ تکلیف یا شدت غم کی وجہ سے کوئی ایسا کلمہ اس کی زبان سے نکل جائے جو اس کی عاقبت کو خراب کردے۔

قرآن کریم کی تلاوت

جب کسی شخص پر جانکنی کی حالت طاری ہوجائے تو وہاں موجود لوگوں میں سے کسی ایک کو سورہ یٓس کی تلاوت کرنی چاہئے اس سے روح نکلنے میں آسانی ہوتی ہے۔
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے مردوں کے پاس اسے یعنی سورہ  یٰس پڑھو‘‘۔ (ابن ماجہ حدیث نمبر۱۴۴۸، ابوداؤد ۳۱۲۱،)

موت کی سختی کسی کے گناہ گار ہونے کی دلیل نہیں

موت کے وقت سختی کاپیش آنا انسان کے گنہ گار ہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ سختی ان شاء اللہ اس کے گناہوں کے مٹانے کاذریعہ بنے گی ۔ اس لئے اگر کوئی شخص بوقت نزع زیادہ تکلیف میں مبتلا ہے تو اس کی طرف سے بدگمان نہیں ہونا چاہئے ۔ نبی کری ﷺ پر جب سکرات کاعالم طاری تھا تو حضرت عائشہ ؓ اس وقت کی شدت کو بیان فرماتی ہیں:
’’میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا جب کہ جانکنی کاوقت تھا ، آپ ؐ کے پاس ایک پیالہ رکھا تھا جس میں پانی تھا، آپؐ اپناہاتھ پیالے میںڈالتے تھے اوربھیگاہو اہاتھ چہرہ پر پھیرتے تھے اور فرماتے تھے ’’ اے اللہ ! موت کی سختیوں میں میری مددفرما‘‘(ترمذی کتاب الجنائزحدیث نمبر ۶۶۶)

نبی کریم ﷺ کی بے چینی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ سخت تکلیف میں مبتلا تھے اور کائنات میںآپ سے بہتر اورا فضل کوئی نہیں آپ محبوب رب العالمین اورخلق میں سب سے بہتر ہیں اس سے پتہ چلتاہے کہ موت کے وقت شدت یانرمی سے مبغوضیت یا محبوبیت کا کوئی تعلق نہیں بلکہ اس تکلیف کے بدلے اللہ تعالیٰ مزید کچھ اور نعمتوں سے نوازنا چاہتے ہیں اوردرجات کو بلند کرنا چاہتے ہیں۔بلکہ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’ مومن کی موت اس کے پیشانی کے پسینہ کے ساتھ ہوتی ہے‘‘(ترمذی حدیث نمبر۹۶۸) پیشانی پر پسینہ آنا شدت تکلیف کی علامت ہے ۔

موت کے بعد کے حالات اور ان سے متعلق مسائل کی واقفیت کے لئے اس لنک پر جائیں ۔

One thought on “موت ایک یقینی حقیقت”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index