مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

تجہیز کے مراحل :تکفین کا مسنون طریقہ

غسل میت کے احکام ومسائل کے لئے اس لنک پر جائیں

 

کفن

تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

 

کفن شعر

کفن کے کپڑے

اسلام ایک مکمل اور جامع دین ہے جو زندگی کے ہر مرحلے کے ساتھ ساتھ موت کے بعد کے امور کے بارے میں بھی واضح اور حکمت بھری ہدایات دیتا ہے۔
جس طرح انسانی جان کی حرمت کا خیال رکھنا ضروری ہے اس طرح انسان کے انتقال کے فوراً بعد اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا، اس کی حرمت کا خیال رکھنا اور شریعت کے مطابق تجہیز و تکفین کرنا اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے۔
شریعت میں میت کا احترام ویسے ہی ضروری ہے جیسے اس کی زندگی میں تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ كَكَسْرِهِ حَيًّا” (سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1616)
میت کی ہڈی توڑنا ایسا ہی ہے جیسے زندہ کی ہڈی توڑنا
— اس سے معلوم ہوا کہ میت کے بدن کا ادب، نرمی اور پردہ داری ہر حال میں لازم ہے۔
مردوں کو تین کپڑوں اور عورتوں کو پانچ کپڑوں میں کفن دینا مسنون ہے مرد کے تین کپڑے یہ ہیں ۔
(۱) ازار سرسے پاؤں تک۔
(۲) کرتا (قمیص،کفنی)گردن سے پاؤں تک
(۳) لفاف(چادر) ازار سے تھوڑا بڑا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سفید یمنی کپڑوں میں کفنایا گیا۔ (ترمذی ۹۹۶)
سفید رنگ کے کپڑے میں تکفین  مسنون ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ :تم سفید کپڑے پہنو، کیونکہ یہ تمہارے بہترین کپڑوں میں سے ہیں اور اسی میں اپنے مُردوں کو بھی کفناؤ‘‘(ترمذی۔حدیث نمبر ۹۹۴)
مرد کو تین اور عورت کو پانچ کپڑوں میں تکفین  مسنون ہے اور اگر میسر نہ ہوتومردکو دوکپڑوں (ازار اور لفافہ) اور عورت کو تین کپڑوں (ازار، لفافہ اور سربند) میں کفن دینا بھی کافی ہے۔ اگر کپڑے میسر نہ ہوں تودو کپڑوں میں اور بوقت مجبوری ایک کپڑے میں بھی دیا جاسکتاہے۔( فتاویٰ عالمگیری ج۱ ص ۴۰۳ )
نوٹ: عرف میں لفافہ کو بڑی چادر ازار کو چھوٹی چادر اورقمیص کو الفی کہا جاتاہے۔

کفن کی پیمائش

میت کے سر سے پاؤں تک کسی دھاگے یا لکڑی سے ناپ لیں اس میں چھ سات گرہ بڑھالیں ۔پھر میت کے سینہ کے نیچے سے دھاگہ لگاکر ناپ لیں اور اس میں بھی چھ سات گرہ بڑھالیں ۔ اس کو ازار کہتے ہیں ۔ازار سے چار پانچ گرہ لمبا ایک اور کپڑا لیں اس کو لفاف کہتے ہیں۔گردن سے پاؤں تک ایک کپڑا دوہرا کرکے کاٹ لیں اس کو قمیص یا کفنی کہتے ہیں۔قمیص کو دوہرا کرکے بیچ سے عرض میں شگاف کردیں تاکہ میت کاسر اس میں سے نکل جائے اس کا آدھا حصہ جسم کے نیچے یعنی پشت کی جانب ہوگا اور آدھا حصہ جسم کے اوپر یعنی سینہ کی جانب ہوگا۔

تکفین کاطریقہ

مرد کو کفنانے کا طریقہ یہ ہے کہ چارپائی پر پہلے لفافہ بچھادیا جائے پھر اس پر ازار بچھا دیں، پھر کرتہ کا نچلا نصف حصہ بچھائیں اور اوپرکے باقی حصہ میں اتنا کپڑا کاٹ دیں جس میں آسانی سے سر نکل جائے اور چہرہ کھل جائے پھر باقی حصہ سمیٹ کر سرہانے کی طرف رکھ دیں، پھر میّت کو ستر کا خیال رکھتے ہوئے غسل کے تختے سے آہستہ سے اٹھا کر اس بچھے ہوئے کفن پر لٹا دیں اور قمیص کا جو نصف حصہ سرہانے کی طرف رکھا تھا، اْس کو سر کی طرف الٹ دیں کہ قمیص کا سوراخ گلے میں آ جائے چہرہ نظر آنے لگے اور اسے پیروں کی طرف بڑھا دیں۔ کرتا پہنانے کے بعد غسل کے بعد جو تہ بند میّت کے بدن پر ڈالا گیا تھا وہ نکال دیں، اور میت کے سَر اور داڑھی پر عطر وغیرہ کوئی خوشبو لگا دیں۔ پھراعضاء سجدہ یعنی پیشانی، ناک، دونوں ہتھیلیوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں پرکافور مل دیں۔پھر بائیں طرف سے ازار میت کے اوپر لپیٹ دیں اور اس کے اوپردائیں طرف کاازار لپیٹ دیں اسی طرح لفافہ کولپیٹ دیں خیال رہے کہ بایاں پلہ نیچے اور دایا پلہ اوپر رہے۔اس کے بعد کپڑے کاکترن لے کر سراور پاؤں کی طرف کفن کوباندھ دیں اسی طرح کمرپر بھی ایک کپڑا باندھ دیا جائے تاکہ ہواوغیرہ کی وجہ سے کفن کھل نہ جائے۔

مستعمل کپڑوں کا کفن

مردوں کے لئے زندگی میں جن کپڑوں کا پہننا جائز ہے ان کپڑوں میں کفن دینا بھی جائز ہے اور جن کپڑوں کو پہننا ناجائز ہے ان میں کفن دینا بھی ناجائز ہے۔ ( فتاویٰ عا لمگیری ج ۱ ص۴۰۴)

بچوں کا کفن

جو بچے قریب البلوغ ہوں ان میں لڑکوں کومردوں والا کفن دیا جائے اور لڑکیوں کو عورتوں والا کفن دیا جائے اور اگر لڑکوں کودوکپڑوں میں اور لڑکیوں کو تین کپڑوں میں کفن دیا جائے تو بھی کافی ہے لیکن پہلی صورت بہتر ہے ۔نابالغ بچوں کو بھی اگر بالغ مردوں اورعورتوں کی طرح کفن دے دیا جائے تو بہتر ہے ورنہ دو یا ایک کپڑے میں بھی کفن دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جو بچے زندہ پیدا ہوں اور اس کے بعد فورا انتقال کرجائیں تو انہیں غسل بھی دیا جائے اور ان کے جنازہ کی نماز بھی پڑھی جائے نیز ان کا کچھ نام بھی رکھ دیا جائے ۔ جو بچے ساقط ہوجائیں انہیں پورا کفن نہیں دیا جائے بلکہ انہیں ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیا جائے۔ان کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے۔(فتاویٰ عالمگیری ج ا ص ۳۹۹۔۴۰۱)

خوشبو کی دھونی

میت کے پاس خوشبو کی دھونی دینا ایک پسندیدہ عمل ہے، جس کا مقصد وہاں موجود لوگوں کے لیے پاکیزہ فضا پیدا کرنا اور میت کے احترام کو بڑھانا ہے۔ فقہی کتابوں میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ میت کے پاس اگر کوئی خوشبو یا بخور جلایا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ مستحسن ہے۔ تاہم اس کا مقصد صرف خوشبو کا پھیلانا ہونا چاہئے، نہ کہ کوئی بدعت یا غیر ثابت رسم قائم کرنا۔ بہتر یہ ہے کہ دھونی ہلکی ہو، دھواں زیادہ نہ ہو اور میت کے کپڑوں یا کفن کو نقصان نہ پہنچائے۔ بعض فقہا نے لکھا ہے کہ غسلِ میت یا کفن کے قریب خوشبو رکھنا تعظیم کے خلاف نہیں، اس لیے کہ نبی کریم ﷺ نے بھی خوشبو کو پسند فرمایا ہے اور اس سے پاکیزگی کا ماحول بنتا ہے۔ البتہ یہ عمل اعتدال کے ساتھ ہو اور ایسا طریقہ نہ اختیار کیا جائے جس سے تکلیف یا بے ادبی کا پہلو نکلتا ہو۔

میت کو تین بار خوشبو کی دھونی دینی چاہئے روح نکلتے وقت ،غسل کے وقت اورکفن پہناتے وقت ۔ اس کاطریقہ یہ ہے کہ لوبان جلاکر میت کی چارپائی یا تختہ کے چاروں طرف کم از کم تین بار گھمادیا جائے۔کفن کو بھی تھوڑا دھواں دکھا دیا جائے تاکہ اس میں خوشبو رچ بس جائے۔ اس کے بعد خوشبو دینے کی حاجت نہیں۔ ہاںغسل کے بعد میت کی داڑھی اور پیشانی پرخوشبو مل دینی چاہئے اسی طرح کفن میں بھی خوشبو بسالیا جائے تو بہتر ہے۔

One thought on “تجہیز کے مراحل :کفن کا مسنون طریقہ”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index