جنازہ کے احکام

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
مسلمان چاہے جہاں بھی ہوں،جس قبیلے یاخاندان سے تعلق رکھنے والے ہوں ایک ملت ہونے کی وجہ سے ان کے درمیان نہایت ہی گہر اتعلق ہے ۔ اسی لئے مسلمانوں کو آپس میں محبت کرنے کاحکم دیا گیاہے ۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے حقوق ہیں جو ہرمسلما ن پرلازم ہیں۔ انہی میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ جب کوئی مسلمان فوت ہوجائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو کر اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے یہاں بخشش کی دعا ودرخواست کریں ۔جنا زے کی نماز میں شرکت میت کے لئے مغفرت کا ذریعہ ہے اور نماز جنازہ پڑھنے والے کے لئے اجرو ثواب کا باعث ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے جنازے کی نماز پڑھنے کی ترغیب دی ہے اور اس کے فضائل بھی بارہا بتائے ہیں۔جنازے کی نماز فرض کفایہ ہے یعنی اگر کچھ لوگوں نے جنازے کی نماز پڑھ لی تو فرضیت ساقط ہوجائے گی ورنہ سارے لوگ ترک فرض کے گنہ گار ہوںگے ۔
اہل قبلہ کاجنازہ پڑھنا
جو لوگ اللہ کوایک مانتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اورحضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں نیز بیت اللہ (خانۂ کعبہ ) کو اپنا قبلہ مانتے ہیں ان کی نماز جنازہ پڑھنا تمام مسلمانوں پر فرض ہے ۔یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ یہ شخص حقیقی مومن نہیں اور دل سے اللہ کوایک نہیں مانتا اس لئے کہ دلوں کے بھید کو جاننے والا اللہ ہے وہی اس کا فیصلہ کرنے والا ہے کہ کون حقیقی مومن ہے اور کس کے ایمان میں کھوٹ ہے ۔ ہمیں تو بس یہ حکم ہے کہ جو ہمارے قبلہ کو اپناقبلہ مانے اور اللہ کو ایک مانے نبی کریم ﷺ کو خاتم النبیین تسلیم کرے تو اس کاجنازہ پڑھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ’’ مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں سلام کا جواب دینا، مریض کا مزاج معلوم کرنا، جنازے کے ساتھ چلنا، دعوت قبول کرنا، اور چھینکنے والے کو جواب دینا ۔‘‘(بخاری ۔حدیث نمبر ۱۲۴۰)
جنازہ کے ساتھ چلنا اور تدفین میں شرکت
جنازہ کے ساتھ چلنا ، جنازہ کی نماز پڑھنا اورمیت کی تدفین میںشریک ہونا ان سب کا الگ الگ اجرو ثواب ہے اس لئے مسلمانوں کوزیادہ سے زیادہ اجرو ثواب جمع کرنے کے لئے جناز ہ کی نماز بھی پڑھنی چاہئے اس کی متابعت بھی کرنی چاہئے اور اس کی تدفین میں بھی شریک ہونا چاہئے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو جنازہ کی نماز پڑھے اور ساتھ نہ جائے، اس کے لئے ایک قیراط ہے اور جو ساتھ جائے اس کے لئے دو قیراط ہیں۔‘‘ کسی نے پوچھا: دو قیراط کیا ہیں؟ فرمایا: ’’چھوٹا ان میں سے احد کے برابر ہے۔(مسلم ۔ حدیث نمبر۲۱۹۲)
جنازہ کی نماز مومنین کی سفارش ہے
جنازہ کی نماز اصل میں میت کے لئے دعا ہے او رمومنین کی طرف سے اللہ کے یہاں اس کی مغفرت کی سفارش ہے اس لئے جتنے زیادہ سفارش کرنے والے ہوں گے سفارش اتنی ہی موثر ہوگی نبی کریم ؐ نے چالیس اور بعض روایات میں سوافراد کی سفارش کومیت کی مغفرت کاذریعہ بتایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی مردہ ایسا نہیں کہ اس پر ایک گروہ مسلمانوں کا نماز پڑھے جس کی گنتی سو تک پہنچتی ہو اور پھر سب اس کی شفاعت کریں (یعنی اللہ سے اس کی مغفرت کی دعا کریں) مگر ضرور ان کی شفاعت قبول ہو گی۔( مسلم ۔حدیث نمبر۲۱۹۸)
آپ ﷺ کا ایک ارشاد یہ بھی ہے ’’جس مسلمان کے جنازے میں چالیس آدمی ایسے ہوں جنہوں نے اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے حق میں ضرور ان کی شفاعت قبول کرتا ہے۔‘‘( مسلم ۔۲۱۹۹)
جنازہ کی صفیں
نماز جناز ہ کی فرضیت تو چند لوگوں کے پڑھ لینے سے بھی ساقط ہوجاتی ہے لیکن میت کے حق میں زیادہ مفید یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی نماز جنازہ پڑھیں ۔ مسلمانوں کی تین صفیں جن کے جنازے میں شریک ہوں تو ان کے لئے جنت کی راہ ہموارہوجاتی ہے اس لئے لوگ اگرکم بھی ہوں تو جنازے کی تین صفیں بنالینی چاہئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو بھی مسلمان مر جائے اور اس کے جنازے میں مسلمان نمازیوں کی تین صفیں ہوں تو اللہ اس کے لیے جنت کو واجب کر دے گا‘‘۔ راوی کہتے ہیں: نماز (جنازہ) میں جب لوگ تھوڑے ہوتے تو مالک ؓان کی تین صفیں بنا دیتے۔( ابو داؤد ۔حدیث نمبر ۳۱۶۶)
اللہ تعالیٰ طاق ہیں اور طاق عدد کو پسند کرتے ہیں اس لئے جب نماز جنازہ کی صف بندی کی جائے تو اس بات کا خیال رکھا جائے کہ صفیں طاق عدد میں ہوں جن کی اقل تعداد رسو ل اللہ ﷺ نے تین متعین کردی ہیں اگر نمازیوں کی تعدا زیادہ ہو تو پانچ ، سات ، نو، یا اس ے زیادہ صفیں بھی بنائی جاسکتی ہیں۔
جنازہ کے ساتھ پیدل چلنا چاہئے
مومن بندہ اللہ کاپیار اہوتاہے اس لئے جب اس کی موت ہوجاتی ہے تو اس کے استقبال کے لئے ملائکۂ رحمت اس کے جنازے میں شریک ہوتے ہیں اور اس کے جنازے کے ساتھ چلتے ہیں بندہ کے اعمالِ خیر جتنے زیادہ ہوتے ہیں فرشتوں کی تعداد بھی اسی کے بقدر زیادہ ہوتی ہے اس لئے فرشتوں کی حاضری کا لحاظ کرتے ہوئے جنازہ کے ساتھ چلنے والوں کو پیدل ہی چلناچاہئے یہی نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سواری پیش کی گئی اور آپﷺ جنازہ کے ساتھ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوار ہونے سے انکار کیا۔ جب جنازے سے فارغ ہو کر لوٹنے لگے تو سواری پیش کی گئی تو آپ سوار ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا: ’’جنازے کے ساتھ فرشتے پیدل چل رہے تھے تو میں نے مناسب نہ سمجھا کہ وہ پیدل چل رہے ہوں اور میں سواری پر چلوں، پھر جب وہ چلے گئے تو میں سوار ہو گیا‘‘۔( ابوداؤد۔حدیث نمبر ۳۱۷۷)
جنازہ کے ساتھ چلنے والوں میں سے اگر کچھ لوگ سواری پر ہوں تو انہیں جنازہ کے پیچھے چلناچاہئے اور پیدل چلنے والے جنازے کی چاروں طرف سے چل سکتے ہیں۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سوار جنازے کے پیچھے چلے اور پیدل چلنے والا جنازے کے پیچھے، آگے دائیں بائیں کسی بھی جانب جنازے کے قریب ہو کر چل سکتا ہے اور کچے بچوں (ایسے ببچے جو مدت حمل پوری ہونے سے پہلے پیدا ہو جائیں اور زندہ رہ کر مر جائیں۔)کی نماز جنازہ پڑھی جائے اور ان کے والدین کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کی جائے‘‘۔( ابوداؤد۔حدیث نمبر۳۱۸۰)
جنازہ دیکھ کر کھڑا ہوجانا
مومن بندہ اپنے ایمان کی وجہ سے قابل قدر اور لائق احترام ہے اس لئے اگر کسی کاجنازہ سامنے سے گزررہا ہوتو اس کے احترام میں کھڑے ہوجانا چاہئے۔ اگر موقع ہوتو جنازے کے ساتھ چلیں اور اگر بیٹھنا ہوتوجنازہ گزر جانے کے بعد ہی بیٹھناچاہئے ۔ اصل بات یہ ہے کہ جنازہ دیکھ کرآدمی کواپنی موت یاد آجاتی ہے اور موت کی یاد انسان کو اعمال خیر کی طرف متوجہ کرتی ہے اور برائیوں سے روکنے کاسبب بنتی ہے اس لئے جنازہ دیکھتے ہی کھڑے ہوجانا چاہئے اگرچہ وہ کسی غیر ایمان والے کاہی جنازہ کیوں نہ ہو۔ہمارے علاقے میں جویہ بات رائج ہے کہ کسی کافر کا جنازہ دیکھ کر لوگ فِیْ نَارِ جَہَنَّمْ پڑھتے ہیں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک جنازہ گزرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہو گئے پھر ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ تو یہودی عورت کا جنازہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’موت گھبراہٹ کی چیز ہے۔ جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ۔‘‘(صحیح مسلم ۔ حدیث نمبر۲۲۲۲)
جنازہ دیکھ کر کھڑے ہونے کے بارے میں تھوڑااختلاف ہے اور اس کی وجہ ایک حدیث ہے جسے امام مسلم وابوداؤد نے نقل کیاہے کہ نبی کریم ؐ پہلے جنازہ کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے بعد میں آپ نے کھڑا ہونا چھوڑ دیا ۔ اس لئے بعض حضرات نے کھڑا ہونے والے حکم کو منسوخ مانا ہے۔ لیکن حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ فرماتے ہیں کہ میںاس کے لئے منسوخ کالفظ استعمال کرنے کے بجائے متروک کالفظ استعمال کرتاہوں یعنی ایک طریقہ تھا اس کو چھوڑ دیا ۔ واجب پہلے بھی نہیں تھا اب بھی نہیں ہے لیکن پہلے عمل کرتے تھے اب چھوڑ دیا ۔ (افادات: از انعام الباری ،ج، ۴ ص، ۴۶۹ )
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم جنازے کو دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ یہاں تک کہ وہ تم سے آگے گزر جائے یا (زمین پر) رکھ دیا جائے‘‘۔ (ابوداؤد۔حدیث نمبر ۲۲۱۷)
جنازہ رکھنے سے پہلے بیٹھنا
جولوگ جنازہ کے ساتھ قبرستان تک جائیں ان کو چاہئے کہ جب تک جنازہ زمین پر نہیں رکھ دیا جاتا وہ خود نہ بیٹھیں ہاں اگر جنازہ زمین پررکھ دیا گیا تو اب بیٹھ جانے کی اجازت ہے۔ اصل بات اس میں یہ ہے کہ جنازہ جب کندھوں پرہے تو اسے اتارنے کے لئے زیادہ لوگوں کی مدد کی ضرورت ہوسکتی ہے تاکہ اتارتے وقت جنازہ کے نیچے گرجانے کاخطرہ نہ رہے اور جب جنازہ زمین پررکھ دیا گیا تو اب مدد کی حاجت نہیں رہی اس لئے بیٹھ جانے کی اجازت ہے یہ تفصیل اس وقت ہے جب کہ جنازہ میں شریک لوگوں کی تعداد کم ہواور اگر جنازہ میں شرکت کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے تو جولوگ جنازے کے قریب ہوں وہ نہ بیٹھیں باقی لوگوں کے لئے بیٹھنا جائز ہے۔
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ جو شخص جنازہ کے ساتھ جائے وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک کہ جنازہ نہ رکھ دیا جائے۔( بخاری ۔حدیث نمبر۱۳۱۰ )
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ اگر میت کو چارپائی سے اتارنے کی ضرورت ہوتو لوگ نہ بیٹھیں اور ضرورت نہ ہوتو بیٹھ جانے کی اجازت ہے ۔ اس میں یہود کی مخالفت ہے اس لئے کہ وہ جنازہ کو لحد میں رکھنے تک کھڑے رہنا لازم سمجھتے ہیں اور نبی کریمﷺ کوجب اس کی اطلاع ہوئی تو آپؐ نے یہود کی مخالفت میں کھڑا رہنا لازم نہیں رکھا ہاں ضرورۃً کھڑے رہنے کاحکم دیا ہے جیسا کہ ماقبل کی حدیثوں ںسے مفہوم ہوتاہے۔
منافقین کی نماز جنازہ پڑھنا
منافقین اللہ تعالیٰ کو نہایت مبغوض او رناپسندیدہ ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ا ن کاٹھکانا رکھاہے یہ لوگ اللہ کے دین کے دشمن ہیں اس لئے نبی کریم ؐ کو ان کے جنازہ کی نماز پڑھنے سے منع فرمادیاگیاتھا ۔ شروع میں آپ ؐ منافقین کی نماز جنازہ محض اس وجہ سے کہ وہ اہل قبلہ ہیں پڑھاکرتے تھے لیکن منافقوں کے سردار عبداللہ ابن ابی کا جنازہ جب آپؐ نے پڑھا اور اس کی قبر پرکھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پرمنافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے آپ ﷺ کومنع فرمادیا۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ منافقین کا سردار (عبداللہ بن ابی) مدینہ میں مر گیا، اس نے وصیت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھیں اور اس کو اپنی قمیص میں کفنائیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی، اور اسے اپنے کرتے میں کفنایا اور اس کی قبر پہ کھڑے ہوئے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: وَلَا تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مَّنْھُمْ مَاتَ اَبَداً وَّلاَ تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ (سورہ توبہ آیت ۔۸۴)’’منافقوں میں سے جو کوئی مر جائے تو اس کی نماز جنازہ آپ کبھی بھی نہ پڑھیں، اور اس کی قبر پہ مت کھڑے ہوں۔ (ابن ماجہ ۔حدیث نمبر ۱۵۲۳)
نبی کریم ؐ کی رحلت کے بعد وحی کاسلسلہ بند ہوگیااب ہم کسی کے بارے میں حتمی طورپر منافق ہونے کافیصلہ نہیں کرسکتے اس لئے تمام اہل قبلہ کی نماز جنازہ پڑھناچاہئے۔
جنازہ کی نماز پڑھنا ہر مسلمان کاحق ہے اس لئے ہمارے آس پاس میں کسی مسلمان کی موت ہوجائے تو اس کے جنازے میں شریک ہونا چاہئے اگرچہ اعمال کے اعتبار سے وہ کمزور ہو۔
اوقات مکروہہ
جس طرح طلوع آفتاب ، زوال آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت دوسری نمازیں پڑھنا مکروہ ہے اسی طرح ان تین اوقات میں نماز جنازہ پڑھنا بھی مکروہ ہے۔
حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تین ساعتیں ایسی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے سے یا اپنے مردوں کو دفنانے سے منع فرماتے تھے: جس وقت سورج نکل رہا ہو یہاں تک کہ وہ بلند ہو جائے، اور جس وقت ٹھیک دوپہر ہو رہی ہو یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، اور جس وقت سورج ڈوبنے کی طرف مائل ہو یہاں تک کہ وہ ڈوب جائے۔( سنن ترمذی۔حدیث نمبر ۱۰۳۰)
نماز جنازہ کابیان
جنازہ کی نماز فرض کفایہ ہے یعنی مسلمانوں کی ایک جماعت اگر جنازہ کی نماز پڑھ لے تو سب کے ذمہ سے فرض ساقط ہوجائے گااور اگر کسی نے بھی نہیں پڑھی تو سارے کے سارے گنہہ گار ہوں گے نماز جنازہ کے دو راکان ہیں
(۱) چار تکبیریں کہنا (۲) قیام
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے چار تکبیریں کہیں۔( ترمذی۔ حدیث نمبر۱۰۲۲)
میت کا مسلمان ہونا ، پاک صاف ہونا ،میت کاامام کے سامنے موجود ہونا یاحادثاتی موت میں میت کے بدن کااکثر یا سرکے ساتھ آدھا حصہ موجود ہونا جنازہ کے شرائط میں داخل ہیں۔
نماز جنازہ کی چار سنتیں ہیں
(۱) پہلی تکبیر کے بعد ثنا ء پڑھنا (۲) دوسری تکبیر کے بعد درود شریف پڑ ھنا (۳) تیسری تکبیر کے بعد جنازہ کی دعا پڑھنا (۴) چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دینا ۔
نماز جنازہ کا طریقہ
نماز جنازہ کا طریقہ یہ ہے کہ میت کو سامنے رکھے اور اس کے سینہ کے برابر کھڑا ہو پھر نیت کرے اور تکبیر کہتے ہوئے ہاتھوں کو اٹھائے پھر ثنا پڑھے ۔
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِ کَ وَ تَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَااِلٰہَ غَیْرُکَ
پھر دوسری تکبیر کہے اور ہاتھوں کو نہ اٹھائے اوردرود شریف پڑھے ۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبرَاھِیْم وَعَلٰی اٰل اِبْرِاھِیْمِ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَابَارَکْتَ عَلٰی اِبرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرِاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔
پھر تیسری تکبیر کہے اورجنازہ کی دعاء پڑھے اگر بالغ مر د یا عورت کا جنازہ ہے تویہ دعاء پڑھے۔
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَشَاھِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِیْرِنَا وَ کَبِیْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیّیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ۔
اگر جنازہ کسی نابالغ بچے کا ہو تو یہ دعاء پڑھے ۔
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا اَجْرًا وَّ ذُخْرًا وَاجْعَلْہُ لَنَا شَافِعًا وَّمُشَفَّعًا ۔
اور اگر جنازہ کسی نابالغ بچی کا ہو تو یہ دعاء پڑھے ۔
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًاوَّ اجْعَلْھَا لَنَا شَافِعَۃً وَّمُشَفَّعَۃً۔
پھر چوتھی تکبیر کہے اور سلام پھیر دے ۔
اجتماعی جنازہ
اگر بہت سارے جنازے ایک ساتھ جمع ہوجائیں تو امام کو اختیار ہے چاہے تو سب کی نماز جنازہ ایک ساتھ پڑھائے اور چاہے تو سب کی نماز جنازہ الگ الگ پڑھائے۔اگر جنازے کی نماز ایک ساتھ پڑھی جائے تو میت کو رکھنے کی دوصورتیں ہیں چاہیں تو ایک ہی صف میں سب کو رکھ دیں لمبائی میں رکھ دیں اور ان میں جو افضل ہو اس کے سامنے کھڑے ہوکر امام نماز پڑھائے اور چاہیں تو آگے پیچھے قبلہ رخ کرکے سب کو رکھ دیں اس میں ترتیب نماز کی صف بندی کی طرح ہوگی سب سے آگے امام کے قریب مردوں کے جنازے ہوں گے اس کے بعد لڑکوں کے اس کے بعد خنثوں کے اس کے بعد عورتوں کے اور اس کے بعد قریب البلوغ لڑکیوں کے جنازے ہوں گے (فتاویٰ عالمگیری کتاب الصلوۃ ج ۱ ص ۴۰۹)
اگر جنازے کی نماز اجتماعی پڑھی جارہی ہو اور تمام کے تمام جنازے بالغ مردوں یا عورتوں کے ہوں تو ایک ہی دعا سب کے لئے کافی ہے اس لئے کہ اللھم اغفر لحینا الخ ۔میں جمع کی ضمیر سب کو شامل ہے۔ ہاں اگر جنازہ بالغوں کے ساتھ نابالغوں کی کی بھی ہے تو اس صورت میں پہلے بالغ کی دعا پڑھی جائے گے اور اس کے بعد نابالغ کی ۔ نابالغوں میں بچے اور بچیاں دونوں اگر شامل جنازہ ہوں تو پہلے بالغ بچوں کی دعا اور اس کے بعد بالغ بچیوں کی دعا پڑھی جائے گی ۔ اس لئے کہ مذکر بہر حال مونث پر مقدم ہے۔
قولہ (صلی مرۃ واحدۃ صح) ویکتفی لھم بدعاء واحد کما بحثہ بعضھم ویؤیدہ ان الضمائر ضمائر جمع فی اللھم اغفر لحیینا…الخ بقی ما اذا کان فیھم مکلفون وصغار والظاہر انہ یاتی بدعاء الصغار بعد دعاء المکلفین کمامر۔(حاشیۃ الطحطاوی مع المراقی الفلاح کتاب الصلوۃص ۵۹۳)
غائبانہ جنازے کی نماز
غائبانہ جنازے کی نماز کامطلب یہ ہے کہ میت حاضر نہ ہو اور اس کی جنازے کی نماز پڑھی جائے ۔ اس معاملے میں امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل ؒکے یہاں جنازے کی نماز پڑھنے کی اجازت ملتی ہے اور دلیل میں میں نجاشی شاہ حبش کی جنازے کی نمازکو بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نجاشی کی غائبانہ جنازے کی نمازپڑھی تھی۔ لیکن احناف اورمالکیہ کے نزدیک جنازے کی نماز غائبانہ جائز نہیں، حنفی ومالکی مسلک کی دلیل یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت نجاشی شاہ حبشہ رضی اللہ عنہ کی جنازے کی نماز پڑھی تھی وہاں درحقیقت تمام حجابات اٹھادیئے گئے تھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے معجزہ کے طور پر نجاشی کا جنازہ کردیا گیا تھا تو ایسی صورت میں وہ غائبانہ جنازے کی نمازنہ تھی۔ یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں بے شمار واقعاتِ وفات پیش آئے بہت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت ووفات کے واقعات ہوئے مگر ثابت نہیں کہ جنازے کی نماز غائبانہ کا معمول اور عادتِ شریفہ رہی ہو خود نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا تو حضراتِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم دور دراز علاقوں میں مقیم تھے مگر ثابت نہیں کہ انھوں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی غائبانہ جنازے کی نماز پڑھی ہو، خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے عہد مبارک میں بھی غائبانہ جنازے کی نماز کا معمول کہیں منقول نہیں ملتا۔( فتاویٰ دارالعلوم )
قبر پر نماز جنازہ
اگر کہیں کسی علاقے میں یہ نوبت آجائے کہ کوئی نماز جنازہ پڑھنے والا نہ ہو یا کسی وجہ سے جنازے کی نماز پڑھنے کا موقع نہ ملے اور میت کو جنازے کی نماز پڑھے بغیر ہی دفن کر دیا گیا ہو تو میت کی نعش گلنے سے پہلے اس کی قبر پرجنازے کی نماز پڑھنا واجب ہے ۔ جسم کے گلنے کی کوئی حتمی مدت معلوم نہیں ہے بعض علاقوں میں جہاں گرمی زیادہ ہوتی ہے وہاں جلدی بدن گلنا شروع ہوجاتاہے اور جن علاقوں میں ٹھنڈی زیادہ پڑتی ہے وہاں بدن دیر سے گلنا شروع ہوتا ہے۔بعض فقہاء نے تین دن کی تحدید کی ہے لہذا معتدل موسم اور معتدل علاقوں میں تین دن کے اندر جنازے کی نماز پڑھنا واجب ہے اس کے بعدجنازے کی نماز نہیں پڑھنی چاہئے ۔
(وان دفن) واھیل علیہ التراب (بغیر صلاۃ)او بھا بلا غسل او ممن لا ولایۃ لہ (صلی علی قبرہ) استحساناً (ما لم یغلب علی الظن تفسخہ) من غیر تقدیر، ھو الاصح. وظاھرہ انہ لو شک فی تفسخہ صلی علیہ،(در مختاروحاشیہ ابن عابدین )

[…] جنازہ کے احکام جاننے کے لئے اس لنک پر جائیں […]
[…] تدفین […]