مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

قیامت سے پہلے ظاہرہونے والی چند بڑی نشانیاں

قیامت کی نشانیاں

 

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

قیامت کی بڑی نشانی :رسول اللہ ﷺ کی وفات

جب سے بنی آدم اس زمین پر آباد ہوئے اور انبیائے کرام کا سلسلہ شروع ہوا ہر نبی نے اپنی امت کوقیامت کے وقوع کی خبر دی ہے ۔ اس کی نشانیاں اور علامتیں بتائیں ہیں۔پچھلے انبیاء کی تعلیمات میں یہ بات موجود تھی کہ ایک نبی کانام محمدﷺ ہے ان کی بعثت ختم نبوت کا اعلان ہوگی اس سے پہلے قیامت نہیں آسکتی ۔ ہاں ان کی وفات کے بعد قیامت کسی بھی وقت آسکتی ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کی سب سے بڑی علامت رسول اللہ ﷺ کی بعثت اور آپ ﷺ کی وفات ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

’’حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ اس وقت چمڑے کے ایک خیمے میں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ:

قیامت کی چھ نشانیاں شمار کر لو، میری موت، پھر بیت المقدس کی فتح، پھر ایک وبا جو تم میں شدت سے پھیلے گی جیسے بکریوں میں طاعون پھیل جاتا ہے۔ پھر مال کی کثرت اس درجہ میں ہو گی کہ ایک شخص سو دینار بھی اگر کسی کو دے گا تو اس پر بھی وہ ناراض ہو گا۔ پھر فتنہ اتنا تباہ کن عام ہو گا کہ عرب کا کوئی گھر باقی نہ رہے گا جو اس کی لپیٹ میں نہ آ گیا ہو گا۔ پھر صلح جو تمہارے اور بنی الاصفر (نصارائے روم) کے درمیان ہو گی، لیکن وہ دغا کریں گے اور ایک عظیم لشکر کے ساتھ تم پر چڑھائی کریں گے۔ اس میں اسّی جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈے کے ماتحت بارہ ہزار فوج ہو گی۔

(صحیح بخاری ۔ کتاب الجزیہ والموادعہ ،باب مایحذر من الغدر۔ حدیث نمبر3176)
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے قیامت کی سب سے پہلی علامت اپنی وفات کو بتایا ہے۔آپ ﷺ کی وفات صحابۂ کرام کے لئے ان کی زندگی کی سب سے بڑی آزمائش تھی۔یہ ایک ایسا سانحہ تھا کہ بعض صحابۂ کرام نے تو اپنے ہوش وحواس کھودئیے۔ یہاں تک کہ حضرت عمر فاروق ؓ جیسا جری شخص بھی یہ اعلان کربیٹھا کہ جوشخص یہ کہے گا کہ حضور پاک ﷺ وفات پاگئے میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ادھر شر پسندوں کو ایک موقع ملا اور انہوں نے الگ الگ اپنی حکومت کا اعلان کردیا ، نبوت کے جھوٹے دعویدار پیدا ہونے لگے۔ زکوٰۃ دینے سے بہت سارے قبیلوں نے انکار کردیا ۔عرب میں ارتداد کی ایسی لہر اٹھی کہ ہر شخص حواس باختہ ہوگیا ۔ایسا محسوس ہوتاتھا کہ یہ دین اب آگے نہیں چل سکے گا اور قیامت بہت جلد قائم ہوجائے گی ۔لیکن حضرت ابوبکر صدیق کی دور اندیشی اور مجاہدانہ کردار کی وجہ سے ان تمام فتنوں پر بہت جلد قابو پالیا گیا اور یہ دین آج تک زندہ ہے۔
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے دوسری علامت فتح بیت المقدس کی بتائی ہے کہ جب تک بیت المقدس فتح نہ ہوجائے قیامت قائم نہیں ہوسکتی ۔

فتح بیت المقدس

بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اس لئے ہر مسلمان کا اس کے ساتھ قلبی لگاؤ ہے ۔اور جس طرح حرمین شریفین کا مقام ہمارے دلوں میں ہے اسی طرح بیت المقدس کے ساتھ بھی ہماری عقیدت ومحبت وابستہ ہے ۔ معراج کے سفر میں رسول اللہ ﷺ نے یہاں انبیاء کرام کی امامت فرمائی۔

تین ایسی مسجدیں ہیں جہاں مسلمان عقیدت ومحبت اور عبادت وزیارت کی نیت سفر کرسکتے ہیں۔ وہ بیت اللہ ، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ ہیں ۔

رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں بیت المقدس عیسائیوں کے زیر تسلط تھا جب شام کے علاقے فتح ہوئے تو بیت المقدس بھی فتح ہوا ۔ یہ دور خلافت فاروقی کا تھا ۔حضرت عمر و بن عاصؓ نے بیت المقدس کا محاصرہ کیا اور بعد میں حضرت عبیدہ بن جراح ؓ بھی ان سے آکر مل گئے ۔عیسائیوں نے کچھ دنوں تک مقابلہ کیا لیکن بعد میں صلح پر آمادہ ہوگئے اور انہوں نے یہ شرط رکھی کے حضرت عمر فاروق ؓ خود آکر صلح کے شرائط طے کریں۔

چنانچہ حضرت عمروبن عاصؓ نے خط لکھا اور حضرت عمر فاروق ؓ نے شام کا سفر کیا اور بیت المقدس جاکر صلح کے شرائط طے کئے اور عیسائیوں نے شہر کی کنجیاں حضرت عمرفاروقؓ کے حوالے کردیا۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ کی یہ پیشین گوئی دور فاروقی میں پوری ہوئی۔

سن ۱۷؁ھ مطابق ۶۳۹؁ ء  دور فاروقی میں بیت المقدس بذریعہ صلح فتح ہوا۔

پہلی صلیبی جنگ۱۰۹۹؁ءمیں بیت المقدس پر یوروپی عیسائیوں کا قبضہ ہوا

اور پھر ۱۱۸۷؁ءمیں سلطان صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں سے طویل جنگیں لڑکر بیت المقدس کو پھر سے فتح کیا ۔

۱۹۱۷؁ ءمیں جب پہلی جنگ عظیم ہوئی تو انگریزوں نے فلسطین پر قبضہ کرلیا اور وہاں یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔

۱۹۴۷؁ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کردیا۔ یوروپ سے کثیر تعداد میں یہودی فلسطین منتقل ہوئے اور ۱۴؍ مئی ۱۹۴۸؁ءکو ناجائز ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا گیا اس دن سے آج تک عرب مسلمانوں اور اسرائیل کے درمیان عظیم جنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ابھی معلوم نہیں کتنے زیرو زبر ہونے والے ہیں۔لیکن رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق آخری بار حضرت مہدی علیہ الرضوان کی قیادت میں بیت المقدس فتح ہوگا اور یہ فتح قیامت کی بڑی علامات میں سے ایک ہے ۔ 

طاعون عمواس

طاعون ایک سنگین بیماری ہے جسے Yersinia pestis کہتے ہیں۔ ہیضہ کے جراثیم اکثر چھوٹے چوہوں اور پسوؤں میں رہتے ہیں یہ دونوں چونکہ انسانوں کے قریب رہتے ہیں اس لئے یہ مرض ان کے ذریعہ انسانوں تک منتقل ہوجاتاہے ۔عام طور سے پسوؤں کے کاٹنے سے طاعون کے جراثیم انسانی بدن میں سرایت کرجاتے ہیں اور پھر ایک انسان سے دوسرے انسان میں پھیلتے پھیلتے وبا کی صورت اختیار کرجاتاہے۔یہ وبا پہلے بہت زیادہ ہوتی تھی علاقے کے علاقے اس سے ویران ہوجاتے تھے ۔ ایسے ہی ایک طاعون کی پیشین گوئی رسول اللہ ﷺ نے کی کہ یہ وبا پھیلنا علامات قیامت میں سے ہے ۔ اس سے پہلے عوف بن مالک کی روایت میں رسول اللہ ﷺ نے جن چھ علامات قیامت کو بیان کیا ہے اس میں طاعون عمواس کا ذکر ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں یہ وبا عمواس کے علاقے میں پھیلی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پورے علاقے کو اپنی چپیٹ میں لے لیا ۔ہزاروں صحابۂ کرام اس طاعون میں وفات پاگئے یہ دور فاروقی کاایک ہم واقعہ ہے ۔ ابو عبیدہ بن جراح، معاذ بن جبل، یزید بن ابی سفیان، حرث بن ہشام اور سہیل بن ہشام جیسے حضرات اسی وبا کے شکار ہوئے۔

اس سال قحط بھی عام تھا اور یہ وبا بھی شدت کے ساتھ پھیلی ہوئی تھی حضرت فاروق اعظم نے ان مشکل حالات میں اپنی ذمہ داری پوری تندہی سے نباہی اور اپنی صحت کا خیال چھوڑ کر عوام کی صحت کاخیال رکھا ۔ ابن خلدون نے اس قحط اور وبا کو تفصیل سے بیان کیاہے :
’’۱۸؁ھ میں سرزمین عرب میں بہت بڑا قحط پڑا، پرندے تک بھوک سے پریشان ہو کر آدمیوں کے پاس بے دھڑک چلے آتے تھے۔ غلہ کی گرانی سے عام پریشانی پھیل گئی ساتھ ہی اس کے عمواس میں طاعون شروع ہو گیا۔ زمانہ قحط میں فاروق اعظم نے عجیب وغریب سرگرمی ظاہر کی۔ تا زمانہ قبل دودھ بھی نہ کھانے کی قسم کھالی۔ تمام ممالک اسلامیہ کے صوبہ جات کے افسروں کو لکھ بھیجا کہ ہر جگہ سے اہل مدینہ کے لئے غلہ روانہ کریں۔ چنانچہ ابوعبیدہ نے چار ہزار اونٹ غلے کے بھیجے۔عمرو بن العاص نے براہ دریائے قلزم مصر سے بہت ساغلہ روانہ کیا۔ خود فاروق اعظم اہل مدینہ کو لے کر نماز استسقاء پڑھنے گئے نماز کے بعد ایک نہایت پر اثر خطبہ پڑھا۔ عباس بن عبد المطلب کا ہاتھ پکڑ کر ان کے وسیلے سے گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر دعا مانگی دعاختم نہ ہوئی تھی کہ اللہ جل شانہ نے پانی برسایا جس سے قحط کی شکایت جاتی رہی۔
…اسی زمانہ میں جب کہ عرب میں قحط پڑا ہوا تھا عمواس میں طاعون پھوٹ نکلا۔ بڑے بڑے صحابی جلیل القدر عالی مرتبہ انتقال کر گئے۔ ابوعبیدہ، معاذ بن جبل، یزید بن ابی سفیان ،حرث بن ہشام، سہیل بن عمر، عقبہ بن سہیل اور عامر بن غیلان رضی اللہ عنہم اس مرض میں مبتلا ہو کر راہی عالم آخرت ہوئے۔ فاروق اعظم کو اس کی اطلاع ہوئی۔آپ نے ابوعبیدہ کولکھ بھیجا’’ عسا کر اسلامی کو طاعونی مقام سے نکال کر کسی دوسرے مقام پر قیام کریں‘‘۔

ابوموسی کویہ حکم دیا کہ کوئی مقام جس کی آب و ہوا عمدہ ہو تلاش کرو اور خود بقصد شام روانہ ہوئے۔ مقام سرخ میں پہنچے افسران فوج نے آ کر ملاقات کی اور شدت وبا کی اطلاع دی۔ اکثر لوگوں نے فاروق اعظم کو عمواس میں جانے سے روکا۔ ان میں حضرت عبدالرحمن بن عوف بھی تھے انہوں نے عرض کیا کہ’’ وبا کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے کہ جہاں پر وباء ہو وہاں نہ جاؤ اور اگر اس مقام پر وباء پھیل جائے تو جہاں پر تم ہو تو وہاں سے نہ بھاگو۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ یہ سن کر واپس ہوئے۔ بجائے یزید بن ابی سفیان کے دمشق میں ان کے بھائی معاویہ بن ابی سفیان اور اردن پر شرحبیل بن حسنہ کومامور کیا‘‘

(تاریخ ابن خلدون ۔ جلد ۲ ص ۲۸۸۔نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی)
یہ پیشین گوئی بھی خلافت فاروقی میں پوری ہوگئی ۔

قیامت سے پہلے پیش آنے والے اہم جنگوں کا بیان

قیامت تک پیش آنے والے اہم جنگوں سے متعلق رسول اللہ ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی ان میں سے کچھ پیش آچکی ہے اور کچھ کا انتظار ہے رسول اللہ ﷺ نے ایک حدیث میں چار اہم جنگوں کا ذکر فرمایا ہے جن میں سے تین جنگیں ہوچکی ہیں :
’’حضرت نافع بن عتبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ:

ہم ایک جہاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ لوگ مغرب کی طرف سے آئے جو اون کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ٹیلے کے پاس آ کر ملے۔ وہ لوگ کھڑے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے دل نے کہا کہ تو چل اور ان لوگوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان میں جا کر کھڑا ہو، ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ فریب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مار ڈالیں۔ پھر میرے دل نے کہا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپکے سے کچھ باتیں ان سے کرتے ہوں ۔ پھر میں گیا اور ان لوگوں کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان میں کھڑا ہو گیا۔ پس میں نے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چار باتیں یاد کیں، جن کو میں اپنے ہاتھ پر گنتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

تم پہلے تو عرب کے جزیرہ میں جہاد کرو گے، اللہ تعالیٰ اس کو فتح کر دے گا۔ پھر فارس سے جہاد کرو گے، اللہ تعالیٰ اس کو بھی فتح کر دے گا پھر نصاریٰ سے لڑو گے روم والوں سے، اللہ تعالیٰ روم کو بھی فتح کر دے گا۔ پھر دجال سے لڑو گے اور اللہ تعالیٰ اس پر بھی فتح دے گا۔

نافع نے کہا کہ اے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ! ہم سمجھتے ہیں کہ دجال روم فتح ہونے کے بعد ہی نکلے گا۔

(صحیح مسلم ۔کتاب الفتن واشراط الساعۃ ، باب مایکون من فتوحات المسلمین قبل الدجال۔ حدیث نمبر7284)

اس حدیث میں اول جن تین جنگوں کا ذکر ہے وہ تینوں جنگیں صحابۂ کرام نے لڑی ہیں اور فتح حاصل کی ہے ۔ عرب کا تقریبا پورا جزیرہ جس میں مکہ، مدینہ ، جدہ، طائف ، حنین ، رابغ ، ینبوع ، خیبر ، مدائن ، تبوک ، دومتہ الجندل ، ایلہ ، یمامہ ، بحرین، الحساء، عمان ، حضر موت ، صنعا ، حمیر اور نجران کے علاقے شامل ہیں رسول اللہ کی حیات مبارکہ میں ہی فتح ہوچکے تھے۔ روم و فارس کے علاقے دور صدیقی میں فتح ہوئے اور کچھ دور فاروقی میں فتح ہوئے ۔اس طرح رسول اللہ ﷺ کی یہ پیشین گوئی پوری ہوچکی ہے۔دجال سے جنگ کے متعلق پیشین گوئی ابھی پوری نہیں ہوئی ہے۔ 

 

فتح روم وفارس

روم و فارس کی جنگوں سے متعلق رسول اللہ ﷺ نے کی پیشین گوئی موجودہے کہ دونوں سلطنتیں مسلمانوں کے ہاتھوں تباہ ہوںگی اور دور صحابہ میں ہی یہ سلطنتیں اسلامی ریاست میں ضم ہوگئیں ۔

غزوہ خندق کے موقع سے خندق کھودتے ہوئے ایک چٹان ایسی حائل ہوئی کہ تمام صحابہ اپنی پوری طاقت لگانے کے باوجود بھی اس چٹان کو نہیں توڑ سکے بالآخر رسو ل اللہ ﷺ نے اسے اپنے ہاتھوں سے توڑا ۔ آپ ﷺ نے اس چٹان پرتین ضربیں لگائیں اور ہر ضرب کے ساتھ آپ ﷺ کو ایک فتح کی خوشخبری دی گئی ذیل کی حدیث میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے

’’ایک صحابی رسول رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خندق کھودنے کا حکم دیا تو ایک چٹان نمودار ہوئی جو ان کی کھدائی میں رکاوٹ بن گئی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، کدال پکڑی اپنی چادر خندق کے ایک کنارے رکھی، اور آیت تمت کلمۃ ربک صدقا وعدلا لا مبدل لکلماتہ وہو السمیع العلیم پڑھ کر کدال چلائی تو ایک تہائی پتھر ٹوٹ کر گر گیا، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کھڑے دیکھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدال چلائی، ایک چمک پیدا ہوئی پھر آپ نے آیت:تمت کلمۃ ربک صدقا وعدلا لا مبدل لکلماتہ وہو السمیع العلیم پڑھ کر دوبارہ کدال چلائی تو دوسرا تہائی حصہ ٹوٹ کر الگ ہو گیا پھر دوبارہ چمک پیدا ہوئی، سلمانؓ نے پھر اسے دیکھا۔ پھر آپ ﷺ نے آیت:تمت کلمۃ ربک صدقا وعدلا لا مبدل لکلماتہ وہو السمیع العلیم پڑھ کر تیسری ضرب لگائی تو باقی تیسرا تہائی حصہ بھی الگ ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق سے نکل آئے، اپنی چادر لی اور تشریف فرما ہوئے، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:

اللہ کے رسول! جب آپ نے ضرب لگائی تو میں نے آپ کو دیکھا، جب بھی آپ نے ضرب لگائی آپ کی ضرب کے ساتھ ایک چمک پیدا ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: سلمان! تم نے یہ دیکھا؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول جی ہاں! قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا (میں نے ایسا ہی دیکھا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جب میں نے پہلی ضرب لگائی تو مجھے (پردے اٹھا کر) فارس کے شہر اور اس کے اطراف کے دیہات اور دوسرے بہت سے شہر دکھائے گئے میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے خود دیکھا‘‘، اس وقت آپ کے جو صحابہ وہاں موجود تھے انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ اللہ سے دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر ہمیں فتح نصیب فرمائے اور ان کا ملک ہمیں بطور غنیمت عطا کرے، اور ان کے شہر ہمارے ہاتھوں ویران و برباد کرے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دعا فرما دی، پھر جب میں نے دوسری ضرب لگائی تو پردے اٹھا کر مجھے قیصر کے شہر اور اس کے اطراف (کے قصبات و دیہات) دکھائے گئے (کہ یہ سب تمہیں ملنے والے ہیں) میں نے اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھا ہے، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرما دیں کہ ان ممالک کو فتح کرنے میں وہ ہماری مدد فرمائے اور وہ علاقے ہمیں غنیمت میں ملیں اور ان کے شہر ہمارے ہاتھوں تباہ و برباد ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی دعا فرمائی، پھر جب میں نے تیسری ضرب لگائی، تو مجھے ملک حبشہ کے شہر اور گاؤں دکھائے گئے، میں نے فی الحقیقت انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس موقع پر آپ نے یوں فرمایا: ’’حبشہ کو چھوڑ دو جب تک وہ تمہیں چھوڑے رکھیں اور ترک کو چھوڑ دو جب تک کہ وہ تمہیں چھوڑے رہیں‘‘ ۔
اس بشارت کے مطابق روم فارس کے محلات پر اسلامی علم نصب ہو ااور ان کے خزانے مال غنیمت کی صورت میں صحابہ ٔ کرام کو ملے۔

(سنن نسائی ۔ کتاب الجہاد ۔ باب غزوۃ الترک والحبشۃ۔حدیث نمبر3178)

فتح قبرص وقسطنطنیہ

قبرص رومی سلطنت کا حصہ تھا بعد میں روم سے الگ ہوکر ایک الگ ریاست کا قیام ہوا جسے بازنطین حکومت کے نام سے جانتے ہیں۔قبرص پر حملہ کرنے اور اس سے جنگ اور فتح سے متعلق رسول اللہ ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی اور ساتھ ہی یہ بشارت بھی سنائی تھی کہ اس جنگ میں شریک مجاہدین جنتی ہوں گے چنانچہ بہت سے صحابۂ کرام اس جنگ کا انتظار کررہے تھے۔ چنانچہ خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حضرت معاویہ بن ابو سفیان ؓ نے بحری بیڑے کے ساتھ قبرص پر حملہ کیا اور اس کو فتح کیا اس جنگ میں حضرت ام حرام بنت ملحانؓ سے متعلق رسول اللہ ﷺ کی خصوصی بشارت موجود ہے :

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام بنت ملحانؓ کے یہاں تشریف لے گئے اور ان کے یہاں تکیہ لگا کر سو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اٹھے تو) مسکرا رہے تھے۔ ام حرام نے پوچھا یا رسول اللہ! آپ کیوں ہنس رہے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستے میں (جہاد کے لیے) سبز سمندر پر سوار ہو رہے ہیں ان کی مثال تخت پر بیٹھے ہوئے بادشاہوں کی سی ہے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے دعا فرما دیجئیے کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اے اللہ! انہیں بھی ان لوگوں میں سے کر دے پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹے اور (اٹھے) تو مسکرا رہے تھے۔ انہوں نے اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پہلی ہی وجہ بتائی۔ انہوں نے پھر عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کر دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں سے کر دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سب سے پہلے لشکر میں شریک ہو گی اور یہ کہ بعد والوں میں تمہاری شرکت نہیں ہے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر آپ نے (ام حرام نے) عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکاح کر لیا اور بنت قرظ معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیوی کے ساتھ انہوں نے دریا کا سفر کیا۔ پھر جب واپس ہوئیں اور اپنی سواری پر چڑھیں تو اس نے ان کی گردن توڑ ڈالی۔ وہ اس سواری سے گر گئیں اور (اسی میں) ان کی وفات ہوئی۔‘‘

(صحیح بخاری ۔کتاب الجہاد والسیر، باب غزوۃ المرأۃ فی البحر۔ حدیث نمبر 2877)

ایک دوسری روایت خود ام حرامؓ سے اس طرح مروی ہے:
حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میری امت کا سب سے پہلا لشکر جو دریائی سفر کر کے جہاد کے لیے جائے گا، اس نے (اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت) واجب کر لی۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے کہا تھا یا رسول اللہ! کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، تم بھی ان کے ساتھ ہو گی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلا لشکر میری امت کا جو قیصر کے شہر پر چڑھائی کرے گا ان کی مغفرت ہو گی۔ میں نے کہا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔‘‘

(صحیح بخاری ۔ کتاب الجہاد والسیر،باب ماقیل فی قتال الروم ۔حدیث نمبر ۔2924)

اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے دو جنگوں کی پیشین گوئی فرمائی ہے ان میں سے ایک جنگ کا تذکرہ اوپر ہوگیا یعنی قبرص کی جنگ جس میں ام حرام ؓ بھی شریک تھیں یہ پیشین گوئی سید عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں پوری ہوئی ۔

دوسری جنگ جس میں شریک ہونے کی ام حرام ؓ نے رسول اللہ سے دعا کی درخواست کی وہ قسطنطنیہ کی جنگ ہے جس کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا : ’’سب سے پہلا لشکر میری امت کا جو قیصر کے شہر پر چڑھائی کرے گا ان کی مغفرت ہو گی۔ ‘‘ اس سے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ام حرام ؓ تم اس جنگ میں شریک نہیں ہوگی ۔یہ جنگ حضرت امیر معاویہ ؓ کے دور خلافت میں ہوئی اگر چہ اس وقت قسطنطنیہ فتح نہیں ہوا لیکن پہلے لشکر کی جو فضیلت آپﷺ نے بیان فرمائی وہ ان لوگوں کے حصہ میں آئی جو اس جنگ میں شریک ہوئے۔اس کے متعلق حافظ ابن حجرعسقلانی فتح الباری میں میں لکھتے ہیں:
’’اس حدیث میں حضرت معاویہ ؓ کی فضیلت ہے کیونکہ سب سے پہلے انھوں نے ہی بحری غزوہ کیا اور ان کے بیٹے یزید کی فضیلت ہے کیونکہ سب سے پہلے وہی مدینہ قیصر(قسطنطنیہ) پر حملہ آور ہوا۔‘‘

(فتح الباری:جلد ۶ ص ۱۲۱مکتبۃ الملک الفہد سنۃ ۱۴۲۱)

قسطنطنیہ جسے آج ہم استنبول کے نام سے جانتے ہیں ترکی کی راجدھانی ہے۔قدیم تاریخی رومی شہر ہے جسے فتح کرنے کی خوشخبری رسول اللہ ﷺ نے دی تھی اس لئے جتنے بھی اسلامی حکمراں ہوئے سب نے اسے نشانے پر رکھا اور بالآخر سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں ۲۹؍ مئی ۱۴۵۳؁ءکو فتح ہو ا۔قسطنطنیہ کی فتح محض ایک شہر پر ایک بادشاہ کے اقتدار کا خاتمہ اور دوسرے کے اقتدار کا آغاز نہیں تھا۔ بلکہ اس واقعے کے ساتھ ہی دنیا کی تاریخ کا ایک باب ختم ہوا اور دوسرے کی ابتدا ہوئی تھی۔اس تاریخی فتح کو یوروپ آج تک بھلا نہیں پایا ۔

 

حجاز سے آگ کا نکلنا

رسول اللہ ﷺ کی پیشین گویوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک آگ حجاز کے علاقے سے نکلے گی جو تمام علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور اس کی روشنی بصریٰ تک پہنچ جائے گی ۔ یہ پیشین گوئی ۶۵۴؁ ھ میں پوری ہوئی ۔یہ آگ مدینہ طیبہ سے نمودار ہوئی اور راستے میں پڑنے والے پہاڑو ں کو بھی راکھ کا ڈھیر بنادیا ۔ احادیث میں اس کاتذکرہ اس طرح آیا ہے :
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ سرزمین حجاز سے ایک آگ نکلے گی اور بصریٰ میں اونٹوں کی گردنوں کو روشن کر دے گی۔‘‘

(صحیح بخاری ۔کتاب الفتن ، باب خروج النار۔حدیث نمبر7118)
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے صاحب بدایہ والنہایہ نے لکھاہے :

وقد ذکر أہل التاریخ وغیرہم من الناس، وتواتر وقوع ہذا فی سنۃ أربع وخمسین وستمائۃ، قال الشیخ الامام الحافظ شیخ الحدیث وإمام المؤرخین فی زمانہ، شہاب الدین عبد الرحمن بن إسماعیل الملقب بأبی شامۃ فی تاریخہ: إنہا ظہرت یوم الجمعۃ فی خامس جمادی الآخرۃ سنۃ أربع وخمسین وستمائۃ، وأنہا استمرت شہرا(البدایہ والنہایہ ج ۶ ص۲۸۴)
’’مؤرخین اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں نے کہا ہے اور اس کا وقوع سن چھ سو چون میں تواتر کی حد تک بیان کیا گیا ہے،اپنے زمانے کے امام المؤرخین ،شیخ الحدیث، حافظ ، امام ،شیخ شہاب الدین عبدالرحمن بن اسماعیل جن کا لقب ان کی تاریخ میں ابو شامہ ہے نے کہا ہے کہ یہ(آگ) جمادی الآخر کی پانچ تاریخ سن چھ سو چون کو ظاہر ہوئی ایک ماہ تک مسلسل جاری رہی ۔‘‘
اس سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی یہ پیشین گوئی بھی ہو بہو پوری ہوچکی ہے ۔

4 thoughts on “قیامت سے پہلے ظاہرہونے والی چند بڑی نشانیاں”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index