انکار حدیث کیا ہے ؟منکرین حدیث کا فتنہ اور اس کاجائزہ

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
حدیث اور قرآن میں فرق
رسول اللہ ﷺ پر وحی کی صورت میں جواحکام آتے تھے وہ دو قسم کے ہیں ایک وحی متلو اور دوسری وحی غیر متلو ۔ وحی متلو قرآن کریم کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے اور وحی غیر متلو رسول اللہ ﷺ کی احادیث کی صورت میں ہے۔ یہ دونوں اللہ کی طرف سے ہیں ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی (۳)اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی (۴۔نجم) ’’ وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے بلکہ یہ جوکچھ بھی ہے وہ وحی ہے۔“

رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ بھی کہا یا کیا وہ سب کا سب وحی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قرآن کو کلام اللہ ہونے کا شرف حاصل ہے اور احادیث کو کلام رسول ہونے کا شرف حاصل ہے۔یہ دونوں نص ہیں اور ہمارے لئے ہدایت کا سامان ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ احادیث رسول قرآن کی تفسیر ہیں اگر ہم احادیث کو چھوڑ دیں تو قرآن کو سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا۔اس کی مثال رمضان میں سحری سے متعلق آیت ہے جس کے سمجھنے میں ایک صحابی رسول سے غلطی ہوگئی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو آیت کا صحیح مفہو م بتایا۔قرآن کریم کی آیت ہے :
وَ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْر(البقرۃ ۱۸۷) ’’اور کھائو اور پیو، یہاں تک کہ تمھارے لیے سیاہ دھاگے سے سفید دھاگا فجر کا خوب ظاہر ہو جائے۔ ‘‘
ایک صحابی رسول نے اس آیت کے ظاہری معنی کے اعتبار سے عمل کیا جو اللہ تعالیٰ کے منشا کے خلاف تھااور آیت کی اصل مراد تک وہ نہیں پہنچ سکے۔
عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ:” لَمَّا نَزَلَتْ: حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الأَسْوَدِ سورۃ البقرۃ آیۃ ۱۸۷، عَمَدْتُ إِلَی عِقَالٍ أَسْوَدَ وَإِلَی عِقَالٍ أَبْیَضَ، فَجَعَلْتُہُمَا تَحْتَ وِسَادَتِی، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ فِی اللَّیْلِ فَلَا یَسْتَبِینُ لِی، فَغَدَوْتُ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَذَکَرْتُ لَہُ ذَلِکَ، فَقَالَ: إِنَّمَا ذَلِکَ سَوَادُ اللَّیْلِ وَبَیَاضُ النَّہَارِ”.(صحیح بخاری ۔کتاب الصوم ۔ باب قول اللہ تعالیٰوَ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا الخ۔ حدیث نمبر1916)
’’حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْر ’’تاآنکہ کھل جائے تمہارے لیے سفید دھاری سیاہ دھاری سے۔‘‘ تو میں نے ایک سیاہ دھاگہ لیا اور ایک سفید اور دنوں کو تکیہ کے نیچے رکھ لیا اور رات میں دیکھتا رہا مجھ پر ان کے رنگ نہ کھلے، جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے تو رات کی تاریکی (صبح کاذب) اور دن کی سفیدی (صبح صادق) مراد ہے۔‘‘
اس واقعہ کو دیکھئےاور غور کیجئے اگر احادیث کو چھوڑ دیا جائے تو قرآن کریم کی آیات کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا کیونکر ممکن ہوگا۔ لیکن ایک جماعت ایسی بھی موجود ہے جنہیں ہم اہل قرآن کے نام سے جانتے ہیں ان کا کہناہے کہ ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے اس کے علاوہ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ پہلے ہی بتادیا ہے کہ وہ قرآنی آیات کی من گھڑت تاویلیں کریں گے اور ضلالت و گمراہی پھیلائیں گے ۔ایک حدیث میں ارشاد ہے :
عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی کَرِبَ، عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَنَّہُ قَالَ:” أَلَا إِنِّی أُوتِیتُ الْکِتَابَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ، أَلَا یُوشِکُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَی أَرِیکَتِہِ، یَقُولُ: عَلَیْکُمْ بِہَذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِیہِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوہُ وَمَا وَجَدْتُمْ فِیہِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوہُ، أَلَا لَا یَحِلُّ لَکُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الْأَہْلِیِّ وَلَا کُلُّ ذِی نَابٍ مِنَ السَّبُعِ وَلَا لُقَطَۃُ مُعَاہِدٍ، إِلَّا أَنْ یَسْتَغْنِیَ عَنْہَا صَاحِبُہَا، وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَیْہِمْ أَنْ یَقْرُوہُ فَإِنْ لَمْ یَقْرُوہُ فَلَہُ أَنْ یُعْقِبَہُمْ بِمِثْلِ قِرَاہُ”.(سنن ابی داؤد۔ کتاب السنۃ ،باب لزوم السنۃ۔ حدیث نمبر 4604)
’’حضرت مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سنو، مجھے کتاب (قرآن) دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور چیز بھی (یعنی سنت)، قریب ہے کہ ایک آسودہ آدمی اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہوئے کہے آؤ: اس قرآن کو لازم پکڑو، جو کچھ تم اس میں حلال پاؤ اسی کو حلال سمجھو، اور جو اس میں حرام پاؤ، اسی کو حرام سمجھو، سنو! تمہارے لیے پالتو گدھے کا گوشت حلال نہیں، اور نہ کسی نوکیلے دانت والے درندے کا، اور نہ تمہارے لیے کسی ذمی کی پڑی ہوئی چیز حلال ہے سوائے اس کے کہ اس کا مالک اس سے دستبردار ہو جائے، اور اگر کوئی کسی قوم میں قیام کرے تو ان پر اس کی ضیافت لازم ہے، اور اگر وہ اس کی ضیافت نہ کریں تو اسے حق ہے کہ وہ ان سے مہمانی کے بقدر لے لے ۔‘‘
انکار حدیث کرنے والا گروہ
معتزلہ جس کا بانی واصل بن عطا ء ہے اور خوارج جس کا بانی ذوالخویصرہ ہے ان دونوں فرقوں نے احادیث کی حجیت کا انکار کیا۔ معتزلہ ایک عقلیت پسند فرقہ تھا جو فلسفہ کے ذریعہ کائنات کی ہر چیز کو سمجھنا اور سمجھانا چاہتاتھا ان کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ حدیث و سنت تھی اس لئے انہوں نے حدیث کی حجیت کا انکار کیا ۔
خوارج کے جد امجد ذوالخویصرہ جس نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی تھی اور آپ ﷺ نے فرمایا تھاکہ ’’اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔‘‘
جنگ صفین میں یہ لوگ کھل کر سامنے آئے جب حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہؓ میں صلح ہو ئی تو یہ لوگ یہ کہتے ہوئے باہر نکل گئے ’’اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ‘‘حضرت علی ؓ نے انہیں جنگ نہروان میں شکست دی لیکن ان کی شورس ختم نہیں ہوئی اور بالآخر انہیں میں ایک شخص ابن ملجم نے آپ ؓ پر قاتلانہ حملہ کیا جس کی وجہ سے آپ ؓشہید ہوگئے۔
منکرین حدیث کا یہ گروہ بر صغیر ہندو پاک میں اہل قرآن کے نام سے معروف ہے ۔ حالانکہ احادیث رسول کا منکر کبھی اہل قرآن ہوہی نہیں سکتا۔ اس فرقہ کے بانی محب الحق عظیم آبادی اور عبد اللہ چکرالوی ہیں ۔آج بھی یہ فرقہ موجود ہے لیکن علماء کرام کی جدو جہد اور ان کے دلائل کے سامنے دبا ہو اہے ۔پھر بھی ان کی ریشہ دوانیوں سے بھولے بھالے مسلمان او رخاص طورسے متجددین کی جماعت ان کا شکار ہوتی رہتی ہے ۔شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی ادام اللہ ظلہ اس بارے میں تحریر فرماتے ہیں:
’’امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کا اس پر اجماع ہے کہ حدیث، قرآن کریم کے بعد دین کا دوسرا اہم مآخذ ہے ، لیکن بیسویں صدی کے آغاز میں جب مسلمانوں پرمغربی اقوام کا سیاسی نظریاتی تسلط بڑھا تو کم علم مسلمانوں کا ایسا طبقہ وجود میں آیا جو مغربی افکار سے بے حد مرعوب تھا، وہ سمجھتا تھاکہ دنیا میں ترقی بغیر تقلید مغرب کے حاصل نہیں ہو سکتی لیکن اسلام کے بہت سے احکام اس کے راستہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے ، اس لئے اس نے اسلام تحریف کا سلسلہ شروع کیا، تاکہ اسے مغربی افکار کے مطابق بنایا جاسکے، اس طبقہ کو اہل تجدد کہا جاتا ہے ، ہندوستان میں سرسیداحمدخان مصر میں ملا حسین ، ترکی میں ضیاء گوک الپ اس طبقہ کے رہنما ہیں ، اس طبقہ کے مقاصد اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتے تھے جب تک حدیث کو راستہ سے نہ ہٹایاجائے، کیونکہ احادیث میں زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق ایسی مفصل ہدایات موجود ہیں جو مغربی افکار سے صراحۃً متصادم ہیں، چنانچہ اس طبقہ کے بعض افراد نے حدیث کو حجت ماننے سے انکار کردیا۔یہ آواز ہندوستان میں سب سے پہلے سرسیداحمدخان اور ان کے رفیق مولوی چراغ علی نے بلند کی، لیکن انہوں نے انکارِ حدیث کے نظریہ کو علیٰ الاعلان اور بوضاحت پیش کرنے کی بجائے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جہاں کوئی حدیث اپنے مدعا کے خلاف نظر آئی، اس کی صحت سے انکار کردیا خواہ اس کی سند کتنی ہی قوی کیوں نہ ہو۔ اور ساتھ ہی کہیں کہیں اس بات کا بھی اظہار کیا جاتا رہا کہ یہ احادیث موجودہ دور میں حجت نہیں ہونی چاہئیں اور اس کے ساتھ بعض مقامات پر مفید ِمطلب احادیث سے استدلال بھی کیا جاتا رہا۔ اسی ذریعہ سے تجارتی سود کو حلال کیا گیا، معجزات کا انکار کیا گیا، پردہ کا انکار کیا گیا اور بہت سے مغربی نظریات کو سند ِجواز دی گئی۔ ان کے بعد نظریۂ انکارِ حدیث میں اور ترقی ہوئی اور یہ نظریہ کسی قدر منظم طور پر عبداللہ چکڑالوی کی قیادت میں آگے بڑھا اور یہ ایک فرقہ کا بانی تھا، جو اپنے آپ کو’’اہل قرآن‘‘ کہتا تھا۔ اس کا مقصد حدیث سے کلیتاً انکار کرنا تھا، اس کے بعد جیراج پوری نے اہل قرآن سے ہٹ کر اس نظریہ کو اور آگے بڑھایا، یہاں تک کہ پرویز غلام احمد نے اس فتنہ کی باگ دوڑ سنبھالی اور اسے منظم نظریہ اور مکتب ِفکر کی شکل دے دی۔ نوجوانوں کے لئے اس کی تحریر میں بڑی کشش تھی، اس لئے اس کے زمانہ میں یہ فتنہ سب سے زیادہ پھیلا۔‘‘ (درس ترمذی ، حصہ اول ص ۲۵۔۲۶)
منکرین حدیث سے متعلق رسول اللہ ﷺ کی یہ پیشین گوئی بھی پوری ہوچکی ہے۔
