مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

گوہر شاہی اور شکیلیت کے باطل نظریات: ختم نبوت پر حملہ

گوہر شاہی
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

فتنۂ گوہر شاہی

فتنۂ گوہر شاہی برصغیر میں اُن باطل اور گمراہ تحریکوں میں سے ہے جنہوں نے روحانیت اور ولایت کے نام پر عوام کے عقائد کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس فتنہ کی بنیاد مرزا گوہر شاہی کے جھوٹے دعووں پر رکھی گئی، جن میں روحانی طاقتوں، مہدویت، رجعت اور الوہیت جیسے عقائد کی آمیزش نے اسلام کی بنیادی تعلیمات سے صریح انحراف پیدا کیا۔
سادہ لوح افراد کو کششِ کرامات، خوابوں اور فرضی روحانی تجربات کے ذریعے گمراہ کرنا اس تحریک کی نمایاں پہچان ہے۔ اگرچہ اس کے نظریات قرآن و حدیث کے صریح خلاف ہیں، لیکن جہالت، کمزور دینی شعور اور روحانی تجربات کی خواہش نے بہت سے لوگوں کو اِس فتنے کا شکار بنایا ہے ۔
کذابین کی فہرست میں جس طرح مدعیان نبوت ہیں اسی طرح مدعیان مہدی علیہ الرضوان کی بھی لمبی فہرست ہے چونکہ قیامت سے قریب امت محمدیہ کی رہنمائی کے لئے دو عظیم شخصیات کی آمد کی پیشین گوئیاں موجودہیں ان میں ایک حضرت مہدی علیہ الرضوان ہیں اور دوسرے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ان دونوں شخصیات کے نام پر بھی بہت سارے مدعیان پیداہوئے کسی نے مہدی  ہونے کادعویٰ کیا تو کسی نے عیسیٰ مسیح ہونے کا دعویٰ کیا اور اب تک جتنے دعویدار پیدا ہوئے ان سب کا کذب امت پر ظاہر ہوچکا ہے۔ماضی قریب میں ایک فتنہ گوہر شاہی پیدا ہوا یہ قادیانیت کی ہی ایک شاخ ہے آج کل برصغیر اور بطور خاص پاکستان میں پھل پھول رہا ہے اور ایک مستقل فرقہ کی صورت اختیار کرگیا ہے یہ ایک گمراہ فرقہ ہے لیکن اسلام کا لبادہ اوڑھ کر گمراہی پھیلا رہا ہے ۔ اس فرقہ کے بانی ریاض احمد گوہر شاہی ہے جس کے ماننے والے اس کے مہدی ہونے کے قائل ہیں۔

گوہر شاہی کی حقیقت

نام ریاض احمد ہے اور گوہر شاہی ان کے دادا کی طرف نسبت ہے ان کے اجداد میں پانچویں پشت میں گوہر علی شاہ گذرے ہیں جو سری نگر کے رہنے والے تھے، وہاں ان سے ایک قتل سرزد ہوا ، پکڑے جانے کے ڈر سے راولپنڈی آگئے اور نالہ لئی کے پاس رہائش پذیر رہے ، جب انگریزی پولیس کا ڈر زیادہ ہوا تو فقیری کا روپ دھار کر تحصیل گوجر خان کے ایک جنگل میں ڈیرہ لگا یا ، جہاں کافی لوگ ان کے مرید ہو گئے اور جنگل کو نذرانے میں پیش کر دیا ، یہی جنگل ڈھوک گوہر علی شاہ کے نام سے آباد ہوا اور یہیں ریاض احمد گوہر شاہی ۲۵ نومبر۱۹۴۱ءمیں پیدا ہوا۔
گاؤں میں مڈل کلاس پاس کے نے کے بعد ویلڈنگ اور اور موٹر میکنک کا کام شروع کیا لیکن اس میں کوئی فائدہ نہیں ہو ا تو اس نے سوچا کہ دادا کی طرح وہ بھی پیری مریدی شروع کرے لیکن اس میدان میں وہ بالکل تہی دست وتہی داماں تھا اس لئے کسی مرشد کی تلاش میں سالوں سرگرداں رہا بالآخر ایک گدھے نے اس کی رہنمائی کی اور اسے روحانی سفر کا راستہ بتایا ۔ریاض احمد نے اپنے سفر کی روداداپنی کتاب ’’روحانی سفر ‘‘ میں افسانوی انداز میں لکھا ہے جس سے پتہ چلتاہے کہ فقر کی تلاش میں اس نے مزاروں اور جنگلوں کی خاک چھانی لیکن اس کا گوہر مراد کہیں بھی پورا ہوتا نظر نہ آیا۔ اس سفر میں ایک چیز خاص طور سے نظر آتی ہے کہ انسانوں نے تو اسے دھتکار دیا لیکن جانوروں کی شکل میں اسے پوری رہنمائی ملتی رہی ۔ کبھی گدے کی شکل میں ، کبھی کتے کی شکل میں اور کبھی بکرے یہاں تک کے چیونٹیاں اور حشرات الارض نے بھی اس کی رہنمائی کی ہے۔’’روحانی سفر‘‘ کو ادبی لحاظ سے ایک بہترین افسانہ قرار دیا جاسکتاہے۔

گوہر شاہی کے دعوے

ریاض احمد نے مختلف قسم کے دعوے کئے اپنے مہدی ہونے کے ثبوت میں اس نے حضرت عیسیٰ ؑ سے ملاقات کی بات بھی کہی ہے ۔ اس ملاقات کی روداد اس طرح بیان کی گئی ہے:
’’(EImontl Lodge )میں حضرت سیدناگوہر شاہی سے حضرت عیسی علیہ السلام نے ظاہری ملاقات فرمائی۔ یہ ملاقات آج۲۸، جولائی ۱۹۹۷ء تک ایک راز رہی، لیکن اب جب کہ مرشد پاک نے اس راز سے پردہ اٹھانا مناسب جانا تو کرم فرماتے ہوئے کچھ تفصیلات ارشاد فرمائیں:
… آپ فرماتے ہیں۔…. نیو میکسیکو کے ہوٹل میں پہلی رات قیام کے دوران رات کے آخری پہر میں نے ایک شخص کو اپنے کمرے میں موجود پایا، ملکی روشنی تھی میں سمجھا ہمارا کوئی ساتھی ہے۔پوچھا کیوں آئے ہو ؟ جواب دیا : آپ سے ملاقات کے لئے ، میں نے لائٹ آن کی تو یہ کوئی اور چہرہ تھا (ایک خوبصورت نوجوان ) جسے دیکھ کر میرے سارے لطائف ذکر الہی سے جوش میں آگئے اور مجھے ایک انجانی سی خوشی محسوس ہوئی ، جیسی فرحت میں نے حضور پاک  ﷺ کی محفلوں میں کئی بار محسوس کی تھی۔لگتا تھا انہیں ہر زبان پر عبور حاصل ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ میں عیسی ابن مریم ہوں ابھی امریکہ میں ہی رہ رہا ہوں۔ پوچھا رہائش کہاں ہے ؟ جواب دیا کہ نہ پہلے میرا کوئی ٹھکانہ تھانہ اب کوئی ٹھکانہ ہے۔ پھر مزید جو کچھ گفتگو ہوئی وہ ہم ( گوہر شاہی) ابھی بتانا مناسب نہیں رکھتے۔ حضرت گوہر شاہی فرماتے ہیں کہ پھر کچھ دنوں کے بعد جب میں ایری زوناٹوسن میں ایک روحانی سینٹر (Tucson 3335 Est Grant Rd.A2)گیا وہاں کتابوں کے ایک اسٹال پر میزبان خاتون مس میری (Miss.Marry) کے ہاتھ میں اسی نوجوان (حضرت عیسیٰ ) کی تصویر دیکھی۔ میں پہچان گیا اور اس خاتون سے پوچھا یہ تصویر کس کی ہے کہنے گئی عیسی بن مریم کی ہے۔ پو چھا کیسے ملی تو بتایا کہ اس کی جان پہچان کے کچھ لوگ کسی مقدس روحانی مقام پر عبادت و زیارت کے لئے گئے تھے اور اس مقام کی تصاویر کھینچ کرجب پرنٹ کروائی گئیں تو کچھ تصاویر میں یہ چہرہ بھی آ گیا جب کہ وہاں نہ کسی نے دیکھا اور نہ ہی تصویر اتاری۔ وہ تصویر اس خاتون سے حاصل کر نے کے بعد چاند پر موجود ایک شبیہ سے اس تصویر کو جب ملا کر دیکھا تو ہو بہو وہی تصویر نظر آئی۔ اب یہاں لندن آکر گارڈین اخبار والوں کو اشتہار کے لئے جیب سے تصویر دی تو انہوں نے بھی اپنے کمپیوٹر کے ذریعے چاند والی تصویر سے ملا کر اس تصویر کی تصدیق کی۔ اب ان حوالوں کی روشنی میں اس راز سے پردہ اٹھانا مناسب سمجھتے ہیں کہ واقعی یہ تصویر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہی ہے۔ جو اللہ کی بڑی نشانیوں میں سے ایک  ہے۔‘‘
( اشتہار شائع کردہ سر فروش پبلشر، بحوالہ  دور جدید کا مسیلمہ کذاب گوہر شاہی تالیف مولانا سعید احمد جلال پوری۔ص۹۶۔۹۷)
گوہر شاہی کی دلی خواہش
گوہر شاہی کی دلی خواہش تو تھی کہ وہ مہدی ہونے کا دعویٰ کرے اور نجی مجلسوں میں وہ اس کا اظہار بھی کیا کرتاتھا لیکن پاکستانی قانون میں جھوٹے مہدی کے دعویداروں کے لئے سزائے موت ہے اس ڈرسے کہ کہیں میں پکڑا نہ جاؤں اعلانیہ دعویٰ نہیں کرتاتھا لیکن اس کے مریدوں نے اس کو مہدی مان لیا اور اس کا اعلان بھی کردیا ۔اس سلسلے میں خود اس کا بیان ملاحظہ کریں:
’’آپ نے فرمایا اگر کسی میں امام مہدی کی نو نشانیاں پائی جاتی ہیں اور ایک نہیں پائی جاتی تو آپ ان نو نشانیوں کو رد نہیں کر سکتے ….. اسی طرح امام مہدی اعلان کرے یا نہ کرے ، ر ہے گا توامام مہدی ، کیونکہ پاکستان کے۱۹۸۴؁ء کے قانون میں لکھا ہے کہ : جو شخص امام مہدی ہونے کا دعوی کرے اس کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے۔ اسی لئے امام مہدی مصلحتاًخاموش ہیں کہ خواہ مخواہ پابند سلاسل ہونے سے فائد ہ ؟…‘‘
(حق کی آواز ص :۳۴۔۳۳۔ تاریخ ملفوظ۱۶ تا۳۰ جون۱۹۹۹ء۔بحوالہ دور جدید کا مسیلمہ کذاب گوہر شاہی تالیف مولانا سعید احمد جلال پوری۔ص  ۸۵)
ایک اور تحریر ملاحظہ فرمائیں:
’’لوگ اگر ہمیں امام مہدی کہتے ہیں تو اصل میں جس کو جتنا فیض ملتا ہے وہ ہمیں اتنا ہی سمجھتا ہے۔ کچھ لوگ تو ہمیں اور بھی بہت کچھ کہتے ہیں۔ ہم انہیں اس لئے کچھ نہیں کہتے کہ ان کا عقید ہ جتنا ہماری طرف زیادہ ہو گا ، ان کے لئے بہتر ہے۔‘‘(سوال نامہ گوہر۱۹۹۷ء۔ ص :۸بحوالہ دور جدید کا مسیلمہ کذاب گوہر شاہی تالیف مولانا سعید احمد جلال پوری۔ص  ۸۴)
گوہر شاہی فتنہ جس نے امت میں بگاڑ پیداکررکھا ہے اور عام لوگ جنہیں دین کا صحیح علم نہیں ہوتا وہ لوگ ایسے جعلی پیروں کے چکر میں پھنس کر اپنا دین و ایمان کھوبیٹھتے ہیں علمائے کرام علمی طور پر اس کا بطلان کرتے ہیں لیکن ضلالت وگمراہی کا یہ سیلاب رکنے کا نام نہیںلے رہا ہے امت کے اندر اس قدر بگاڑ پیدا ہوچکا ہے کہ ایک مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے چار مسائل نئے پیدا ہوجاتے پھربھی دین وایمان کی حفاظت جہاں تک ہوسکے ہمیں کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
 
نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے لیکن مہدی وعیسیٰ مسیح علیھما السلام کا امت انتطار کررہی ہے اور یہ دروازہ ابھی کھلا ہوا ہے اس لئے آئے دن کوئی مہدی او رکوئی مسیح موعود ہونے کادعویٰ کر بیٹھتا ہے۔ مولانا شاہ عالم گورکھپوری  نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند نے’’ روزنامہ امت کراچی ‘‘ ۴ ؍ اپریل ۲۰۱۳ءکے حوالے لکھا ہے :
 
’’ایران کے مختلف جیلوں میں تقریباً ساڑھے تین ہزار ایسے افراد قید ہیں جنہوں نے پچھلے چھ سالوں میںمہدی ہونے کا دعویٰ کیا ۔ جیلوں سے باہر ان ساڑھے تین ہزار کذابوں کے لاکھوں حواری موجودہیں جب کہ گذشتہ تیرہ دنوںکے اندر ایرانی سیکورٹی اہل کاروں کے ہاتھوں بیس ایسے جھوٹے دعوے داروں کی گرفتاری عمل میںآئی ہے جنہوں نے ’’مہدی المنتظر‘‘‘ ہونے کا دعیٰ کیاہے۔ اخیرمیںاخبار نے اس کا بھی انکشاف کیا کہ تحقیق سے معلوم ہو اکہ یہ سب کے سب یہودی ہیں‘‘
(شکیل بن حنیف تعارف وتجزیہ  ص ۱۳)
فتنۂ شکیلیت 
 
ابھی موجودہ زمانہ میں ایک شخص شکیل بن حنیف نے مہدی ہونے کا دعویٰ کررکھا ہے اور وہ ابھی باحیات ہے ہندوستان میں اس کی خفیہ تبلیغ چل رہی ہے اور اس کو شدت پسند ہندو تحریک آر ایس ایس کی سرپرستی بھی حاصل ہے ۔ خود تو وہ چھپا ہوا رہتاہے لیکن اس کے چیلے جگہ جگہ فتنہ پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔علماء کرام پر اس کا کذب افتراء واضح ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اہل علم کے سامنے اس کی کذب بیانی زیادہ دیر نہیں ٹک سکتی اس لئے وہ اپنے مریدوں کو سختی سے منع کرتاہے کہ علماء سے بات نہ کریں ۔ علماء سے بچ کر اپنی مشن کوآگے بڑھانے میں مصروف عمل ہے۔
شکیلیت اور شکیل ابن حنیف
شکیل ابن حنیف ضلع دربھنگہ ،بہار کے ایک گاؤں رتن پورہ کا رہنے والا ہے  ۔ملازمت کی تلاش میں دہلی گیا اوروہاں پر وہ تبلیغی جماعت سے بھی وابستہ ہوا ، لیکن ذہنی بگاڑ اور عہدہ کی ہوس کی وجہ سے اس نے بعض بھولے بھالے جماعت کے ساتھیوں کو اپنا ہمنوا بنانا شروع کیا ، اس نے چند برس قبل، جب کہ وہ دہلی میں تھا، مہدی ہونے اور پھر مہدی ومسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا، اور اس طرح ایک نئی قادیانیت کی داغ بیل ڈالی، اس نے پہلے دہلی کے مختلف محلوں میں اپنی مہدویت ومسیحیت کی تبلیغ کی، لیکن ہر جگہ سے اسے کچھ دنوں کے بعد ہٹنا پڑا، پہلے محلہ نبی کریم کو اس نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، اور پھر لکشمی نگر کے دو مختلف علاقوں میں یکے بعد دیگرے رہ کر اپنے مشن کو چلاتا رہا، دہلی کے اس زمانۂ قیام میں اس نے بالخصوص ان سادہ لوح نوجوانوں کو اپنا نشانہ بنایا جو دہلی کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہاں آتے تھے، ،اس کے دعووں کی وجہ سے حالات اس کے خلاف اتنے کشیدہ ہوگئے کے اس نے دہلی سے ہٹنے کا فیصلہ کرنا پڑا، اور اس نے اپنی بود وباش مہاراشٹر کے ضلع اورنگ آباد میں اس طرح اختیار کرلی کہ ’کسی‘ نے اس کے لیے ایک پورا علاقہ خرید کر ایک نئی بستی بسادی، جس میں وہ اور اس کے ’’حواری‘‘ رہتے ہیں۔
یہ سارے فتنے جو آج پیدا ہورہے ہیں چاہے وہ قادیانیت ہو ، گوہر شاہی ہو یا شکیلیت ہو ان کے مقابلہ کے لئے ہمیں بہترین حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔الگ الگ ان لوگوں سے بحث و مباحثہ کے بجائے اپنی نوجوان نسلوں کو دینی طور پر بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ دینی مدارس میں پڑھنے والے بچے تو عقائد کی تعلیم حاصل کرلیتے ہیں لیکن مسلمانوں کی اکثریت جن کے بچے عصری تعلیم گاہوں میں جدید تعلیم حاصل کررہے ہیں ان کے دین وایمان کی فکر لازمی ہے اور ان کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانا ضروری ہے تاکہ ان کے دل ودماغ میں ایمان کے اثرات اتنے گہر ے اور مضبوط ہوجائیں کہ وہ ان فتنوں کا شکا ر نہ ہوسکیں اور وقت آنے پر وہ خود اپنے دین وایمان کے حفاظت کے لائق ہوسکیں۔اس مسئلہ کے حل کے لئے ملکی ، صوبائی ، ضلعی اور پنچایتی سطح پر علماء اور عوام کو بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index