مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

فتنے گمراہی اور بگاڑ: دورِ حاضر میں پوری ہوتی نبوی پیشین گوئیاں

 

 

فتنے گمراہی اور بگاڑ

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

فتنوں کا دور اور امت کا بگاڑ

امت کے مجموعی اعمال سے متعلق رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئیوں سے پتہ چلتا ہے کہ امت میں طرح طرح کے فتنے رونما ہوں گے جن میں امت کے حالات میں تبدیلی ، اعمال سے دوری ، اجتماعیت کا شیرازہ بکھر جانا اور کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود ذلت و خواری کی زندگی گزارنا یہ سب ایسی پیشین گوئیاں ہیںجن سے امت آج جوجھ رہی ہے ۔

فتنے، گمراہی اور بگاڑ کا یہ دور وہی زمانہ ہے جس کی تفصیلات رسولِ اکرم ﷺ نے صدیوں پہلے امت کو بتا دی تھیں۔ آپ ﷺ نے خبردار فرمایا تھا کہ ایک ایسا وقت آئے گا جب ظاہری خوشحالی کے باوجود دل و دماغ دینی بصیرت سے خالی ہو جائیں گے، گمراہی کے دروازے ہر طرف کھل جائیں گے، اور اخلاقی و روحانی زوال امت کو گھیر لے گا۔ آج ہم انہی پیشین گوئیوں کا عملی مشاہدہ کر رہے ہیں بے حیائی، قتل و غارت، امانت میں خیانت، علم کا اٹھ جانا، جاہل قیادت کا غالب آ جانا، دنیا کی محبت اور دین سے دوری—یہ سب وہ نشانیاں ہیں جن کا ذکر احادیث میں بڑی وضاحت سے کیا گیا تھا۔ یہ صورتحال اس حقیقت کو آشکار کرتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خبر دی ہوئی علامات نہ صرف پوری ہو رہی ہیں بلکہ امت کے اجتماعی رویوں میں واضح طور پر نظر بھی آ رہی ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے مختلف مواقع سے جن فتنوں کا ذکر کیا ہے کہ وہ پیش آنے والے ہیں ان میں سے بیشتر آج کے دور میں کھلی آنکھوں نظر آرہے ہیں اورآئے دن ان کا مشاہد ہ ہورہاہے جیسے:
خوشحالی اور عیش پرستی کا عام ہو جانا
قتل و خونریزی کی کثرت
امانت کا دلوں سے اٹھ جانا
گزشتہ اقوام کی اندھی تقلید
بے حیائی اور عریانیت کا عام ہونا
کم حیثیت اور چرواہوں دیہاتیوں کا اونچی اونچی عمارتیں بنوانا
خاص اور بڑے لوگوں کی بندگی
تجارت خوب زیادہ عام ہو جانا
شوہر کی تجارت میں بیوی کا شریک ہونا
بعض تاجروں کا پوری منڈی پر قابض ہونا
جھوٹی گواہی
حق کی گواہی کا چھپانا
جہالت کا عام ہونا
بخل کا عام ہونا
قطع رحمی
پڑوسیوں کے ساتھ بدسلوکی
فحش عام ہونا
امانت دار کا خیانت کرنا اور خائن کا امانت داری کرنا
حلال و حرام مال کی تمیز کا ختم ہو جانا
امانت کے مال کو غنیمت کا مال سمجھنا
زکوۃ کو خراج اور ٹیکس کی طرح بوجھ سمجھنا
دنیوی مفادات کے لیے علم حاصل کرنا
بیوی کی فرماں برداری اور ماں کی نافرمانی
دوستوں سے قربت اور والدین سے دوری
مسجدوں میں شور و غل
قبیلوں پر فاسقوں کی سرداری قائم ہو جانا
سب سے گھٹیا اور ذلیل شخص کا قوم کا لیڈر اور رہنما بننا
لوگوں کے ڈر کی وجہ سے ان کی عزت کرنا
مردوں کے لیے ریشم حلال سمجھا جانے لگنا
گانے بجانے کے آلات کا جائز سمجھا جانے لگنا
لوگوں کا موت کی تمنا کرنے لگنا
ایسا زمانہ آنا جس میں آدمی کا صبح مومن رہے اور شام تک کافر ہو جائے
مساجد کی حد سے زیادہ ظاہری زیبائش و آرائش کا ہونا
گھروں کو خوب شاندار بنوانا
قیامت کے قریب بہت زیادہ بجلی گرنا
محض چرب زبانی اور فخریہ کلام سے مال کمانا
قرآن کے سوا دیگر کتابوں کا خوب عام ہو جانا
قاریوں کی کثرت اور علما و فقہا کی قلت
کم علم والوں کے پاس علم حاصل کرنا
اچانک موت کا خوب ہونا
بیوقوف لوگوں کا حاکم بن جانا
زمانہ کا قریب ہو جانا (دن و سال تیزی سے گزرتا محسوس ہونا)
نسلی کمینے شخص کا دنیا کا سب سے نیک بخت انسان بن جانا
مساجد کو راستہ اور گزرگاہ بنا لینا
مہر کا بہت زیادہ پھر بہت کم ہو جانا
قریب قریب بازار بن جانا
دیگر اقوام کا مسلم قوم پر غالب آ جانا
نماز کی امامت کے لیے لوگوں کا آپس میں جھگڑنا
جھوٹ کا عام ہونا
لوگوں میں دھوکا دہی اور چالاکی کا عام ہونا
زلزلہ کی کثرت
عورتوں کی کثرت
مردوں کی قلت
عورتوں کے ساتھ کھلم کھلا فحش و بدکاری
قرآن پر اجرت کا لیا جانا
لوگوں میں موٹاپا زیادہ ہونا
ایسے لوگوں کا ہونا جو خود گواہی دیں گے لیکن دوسروں کی گواہی قبول نہیں کریں گے
ایسے لوگوں کا ہونا جو دوسروں کو کسی کام سے روکیں گے اور خود وہی کام کریں گے
طاقتور کا کمزور پر ظلم کرنا
اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کا نہ ہونا
نئی نئی سواریوں کا آنا
زمین سے طرح طرح کے خزانے اور معدنیات کا نکلنا
زمین کا دھنسنا
لوگوں میں مال کی بہتات ہونا
تہمت و بہتان کو جائز سمجھا جانے لگنا
ایسا زمانہ آ جانا جس میں فسق و فجور یا عاجز رہنے میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا پڑے۔
یہ تمام فتنے آج رونماہورہے ہیں ان سب کی تشریحات اگر یہاں کی جائے تو ایک ضخیم کتاب ہوجائے گی اس لئے چیدہ چیدہ اہم مضامین کی مختصر تشریح کی جاتی ہے۔

یہود ونصاریٰ کی اتباع : گمراہی کاسیلاب

قیامت کی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین کو چھوڑ کر اہل کتاب کے پیچھے چل پڑیں گے ۔اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی ہے ۔ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم اپنے سے پہلی امتوں کی ایک ایک بالشت اور ایک ایک گز میں اتباع کرو گے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم اس میں بھی ان کی اتباع کرو گے۔‘‘ ہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا یہود و نصاریٰ مراد ہیں؟ فرمایا پھر اور کون؟‘‘
(صحیح بخاری ۔کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب قول النبی ﷺ لتتبعن سنن من کان قبلکم۔حدیث نمبر7320)
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے امت کو جس فتنہ میں مبتلا ہو نے کی پیشین گوئی فرمائی ہے وہ آج ہوبہو پوری ہوتی نظر آرہی ہے ۔ یہود ونصاریٰ کی اتباع میں یہ امت اتنی اندھی ہوگئی ہے کہ سر عام سنت رسول ﷺ کے مقابلہ میں یہودو نصاریٰ کے طور طریق اختیار کرتی جارہی ہے اور یہ سمجھ کر کررہی کہ ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہیں ۔ حالانکہ یہ ترقی نہیں بلکہ تنزلی ہے ،ذلت ورسوائی ہے۔آج پور ی قوم مغربی تہذیب کی دلدادہ نظر آرہی ہے ۔وضع قطع ، رہن سہن ، شادی بیاہ ،کھانا پینا یہاں تک کہ بول وبراز کے طریقے تک مغربی انداز کا اختیار کرنا اپنے لئے باعث فخر سمجھ رہی ہے ۔ عورتیں نقاب پوشی کے بجائے بے حجابی اختیار کرتی جارہی ہیں۔سنت کے مطابق ہاتھ سے کھانا کھانے کے بجائے چمچوں اور کانٹوں کے ذریعہ کھانے کو ترقی سمجھا جارہا ہے۔ولیمہ اورعقیقہ کاکھانا جو مستقل اسلامی اصطلاحات ہیں اور سنت ہیں ان میں سنت کے مطابق کھانا کھانے کے بجائے مغربی طرز بوفے سسٹم سے کھانا بالکل عام ہوتا جارہا ہے۔ان حالات کو دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آج کے دور کا آنکھوں دیکھا حال چودہ صدیاں پہلے بتادیا تھا ۔
یہ امت عملی اور اعتقادی دونوں اعتبار سے یہود ونصاریٰ کے نقش قدم پر چل پڑی ہے۔یہود و نصاریٰ نے جس طرح اپنے دین پر دنیا کو ترجیح دیاعام لوگو ںکے بجائے دین محض راہبوں اور پادریوں تک محدود سمجھا ، خانگی اور انفرادی معاملات کو دین سے الگ کرکے محض کلیسا میں محدود کردیا آج مسلمانوں کی حالت بھی بالکل ویسی ہی ہوگئی ہے ۔ گھریلو زندگی میں دین نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی اسلامی تہذیب و ثقافت کو چھوڑ کر مغربی تہذیب و تمدن کے ساتھ گھروں کو آراستہ پیراستہ کیا جارہا ہے۔صرف مسجدوں اور مدرسوں میں ہی دین کو لازمی سمجھا جاتاہے باہر نکلنے کے بعد کسی کو دین کی پرواہ نہیں ہوتی ۔ایک ایک قدم یہود ونصاریٰ کے نقش قدم کے مطابق اٹھ رہا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
’’میری امت کے ساتھ ہو بہو وہی صورت حال پیش آئے گی جو بنی اسرائیل کے ساتھ پیش آ چکی ہے، یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اگر اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیا ہو گا تو میری امت میں بھی ایسا شخص ہو گا جو اس فعل شنیع کا مرتکب ہو گا، بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ایک فرقہ کو چھوڑ کر باقی سبھی جہنم میں جائیں گے، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کون سی جماعت ہو گی؟ آپ نے فرمایا: ’’یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے‘‘۔
(سنن الترمذی ۔کتاب الایمان عن رسول اللہ ﷺ ، باب ماجاء فی افتراق ھذہ الامۃ۔ حدیث نمبر2641)
ایک روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا :

’’مجھے مسجدوں کے بلند کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے‘‘۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: تم مسجدیں اسی طرح سجاؤ گے جس طرح یہود و نصاریٰ سجاتے تھے۔
(سنن ابی داؤد ۔ کتاب الصلوۃ ، باب فی بناء المساجد۔حدیث نمبر448)

مسجدوں کی زیبائش

مسجدوں کی تعمیراور ان کی آرائش وزیبائش پر تو مسلمان بہت خرچ کرتے ہیں لیکن انہیں آباد کرنے کی فکر کسی کو نہیں ہوتی چنانچہ آج مسجدیں طرح طرح سے آراستہ ہیں لیکن ان میں نمازی نظر نہیں آتے ۔حالت بالکل ویسی ہی ہے جیسے رسول اللہ ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک کہ لوگ مسجدوں پر فخر و مباہات نہ کرنے لگیں‘‘
(سنن ابی داؤد ۔ کتاب الصلوۃ ، باب فی بناء المساجد۔حدیث نمبر449)
مسجدوں کی زینت اس کی آبادی ہے ،نماز اور ذکرو اذکار سے مسجدیں مزین ہوتی ہیں ۔لیکن آج کل مسجدوں میں قمقمے اور جھاڑ فانوس لگاکر لوگ ایک دوسرے سے فخرو مباہا ت کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے تقابل کرتے ہیں۔یہ چیز یہود ونصاری ٰ کی طرف سے آئی ہے ان لوگوں نے اپنی کلیساؤں اور چرچوں کو مختلف قسم کی زیبائش وآرائش دی اور ظاہری زیب وزینت کو ہی سب کچھ سمجھا تو ہم نے بھی وہی کام کیا آج مسجدیں دنیاوی ساز وسامان سے آراستہ تو ہیں لیکن نمازیوںسے بالکل خالی ہیں۔حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
’’جس شخص نے اذان سنی لیکن مسجد میں نہیں آیا تو اس کی نماز نہیں ہو گی، الا یہ کہ کوئی عذر ہو‘‘۔
(سنن ابن ماجہ ۔ کتاب المساجد والجماعت،باب التغلیظ فی التخلف عن الجماعۃ۔حدیث نمبر793)
ان احادیث میں جن چیزوں کی پیش گوئی فرمائی گئی ہے وہ آج کل بالکل بعینہٖ پوری ہوتی نظر آرہی ہے ۔

فتنے کادور

 

مسلسل فتنوں کا ظہور

آج کل آئے دن ایسے ایسے فتنے نمودار ہورہے کہ دین وایمان پر قائم رہنا انگاروں پر چلنے کے مترادف ہوگیاایک فتنہ ابھی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا سر پر کھڑا ہوجاتاہے یہ دور رسول اللہ کی اس پیشین گوئی کے مطابق چل رہا ہے جس میں آپ ﷺ نے فتنوں کو اندھیری رات کی طرح تہ در تہ بتایا ہے۔’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قیامت سے پہلے سخت تاریک رات کی طرح فتنے (ظاہر) ہوں گے، جن میں آدمی صبح کو مومن ہو گا اور شام میں کافر ہو جائے گا، شام میں مومن ہو گا اور صبح کو کافر ہو جائے گا، دنیاوی ساز و سامان کے بدلے کچھ لوگ اپنا دین بیچ دیں گے‘‘۔
(سنن ترمذی۔کتاب الفتن ۔باب ماجاء ستکون کقطع اللیل المظلم۔حدیث نمبر ۔2197)
جس طرح اندھیری رات میں ظلمت ہر قدم پربڑھتی ہی جاتی جیسے جیسے رات بڑھتی ہے ظلمت بھی گہری ہوتی جاتی ہے اسی طرح آج کے دور میں فتنے پید اہورہے ہیں جیسے جیسے دن گذرتے جارہے ہیں فتنے نت نئے انداز میں پیدا ہوتے جارہے ہیں۔ یا جیسے آپ ﷺ نے فتنوں کو بارش کے قطروں سے مشابہت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
”کیا تم دیکھتے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں؟میں تمہارے گھروں میں فتنوں کے واقع ہونے کے مقامات بارش ٹپکنے کے نشانات کی طرح دیکھ رہا ہوں۔”
(صحیح مسلم۔کتاب الفتن واشراط الساعۃ۔باب نزول الفتن کمواقع القطر ۔حدیث نمبر 7245)
موجودہ دور ان دونوں احادیث کی تعبیر ہے ۔فتنے اس تسلسل سے پیدا ہورہے ہیں کہ ابھی ایک فتنہ سے امت جوجھ رہی ہوتی ہے کہ دوسرا فتنہ پیدا ہوجاتاہے اور ہماری حالت ایسی ہوجاتی ہے کہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ایسے وقت میں اپنے دین وایمان کی حفاظت واقعی انگاروں پر چلنے کی طرح ہے ۔ جس کو رسول اللہ ﷺ نے پہلے ہی بتادیا ہے :

’’لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ان میں اپنے دین پر صبر کرنے والا آدمی ایسا ہو گا جیسے ہاتھ میں چنگاری پکڑنے والا۔‘‘
(سنن الترمذی ۔کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ ۔ باب منہ حدیث نمبر 2260)
اب تو حالت کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ زندہ شخص اپنے آپ کو مردوں سے بدتر سمجھنے لگا ہے اور سب سے زیادہ محفوظ جگہ اپنے لئے قبر کو ہی تصور کرتاہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے :
”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!دنیا اس وقت تک رخصت نہیں ہوگی، یہاں تک کہ ایک شخص (کسی کی) قبر کے پاس سے گزرے تواس پر لوٹ پوٹ ہوگا اور کہے گا: کاش!اس قبر و الے کی جگہ میں ہوتا اور اس کے پاس دین نہیں ہوگا، بس آزمائش ہوگی۔”
(صحیح مسلم۔کتاب الفتن واشراط الساعۃ۔باب لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ فَیَتَمَنَّی أَنْ یَکُونَ مَکَانَ الْمَیِّتِ مِنَ الْبَلاَئِ ۔حدیث نمبر 7302)
ایسی حالت میں اس سوا کو ئی چارہ نہیں ہے کہ سنت کو اپنے دانتوں سے پکڑلیا جائے تاکہ وہ چھوٹنے نہ پائے۔امیر کی اطاعت لازمی طور پر کی جائے اور اللہ سے مدد کی امید لگاکر رکھاجائے۔ اس لئے کہ یہ فتنے جس طرح سے اللہ کی طرف سے ہمارے لئے آزمائش ہیں اسی طرح ان فتنوں سے بچنے کی راہ دکھانے والا اور ان سے ہماری حفاظت کرنے والا بھی وہی ہے اس لئے اس کا دین مضبوطی سے تھام لیا جائے تو یقینا کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی جائے گا۔رسول اللہ ﷺ نے اس کا حل یہی بتایا ہے ارشاد ہے:
’’میں تمہیں اللہ سے ڈرنے، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘
(سنن ابو داؤد ۔ کتاب السنۃ باب فی لزوم السنۃ۔حدیث نمبر4607)
فتنوں کے دور میں اپنے دین وایمان کی حفاظت کے لئے گوشہ نشیں ہوجانا اور اپنے رب کا حق اداکرنااور اس فتنہ کے رفع کرنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہنا اور اگر ضرورت پڑے تو جنگ وجدال سے بھی دریغ نہ کرنا نبی کریم ﷺ کی تعلیم ہے ۔اس لئے کہ کسی فتنے کو پنپنے کے لئے چھوڑ دینا پوری انسانی آبادی کے لئے خطرناک ہے اس لئے اس کے سد باب کے لئے ہرطرح کا حربہ استعمال کرنا چاہئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’وہ بہت جلد ظاہر ہو گا‘‘، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! اس وقت سب سے بہتر کون شخص ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ایک وہ آدمی جو اپنے جانوروں کے درمیان ہو اور ان کا حق ادا کرنے کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتا ہو، اور دوسرا وہ آدمی جو اپنے گھوڑے کا سر پکڑے ہو، وہ دشمن کو ڈراتا ہو اور دشمن اسے ڈراتے ہوں۔‘‘
(سنن الترمذی ۔کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء کیف یکون الرجل فی الفتنۃ۔ حدیث نمبر۔2177)
فتنوں کا یہ دور اشارہ کررہا ہے کہ قیامت قریب ہی ہے اور وہ علامات جو بالکل قیامت کے قریب ظاہر ہونے والی ہیں ان کے ظہو ر کا سلسلہ بس شروع ہی ہونے والا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index