مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

امام مہدی کون ہیں؟احادیث کی روشنی میں مکمل تعارف

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

امام مہدی

لفظ مہدی کی تحقیق

لغوی معنی: عربی زبان میں”مَہدِی“ کا بنیادی مادہ ہد ي ہے۔اس مادے کے معنی ہیں:رہنمائی کرناراستہ دکھاناسیدھے راستے کی طرف راہنمائی پانااسی سے لفظ “ھُدیٰ” (ہدایت) اور “اِھْدِنَا” (ہدایت دے) ہے۔چنانچہ لغت کی رو سے:المَہْدِیُّ وہ شخص ہے جسے اللہ نے حق اور صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی عطا فرمائی ہو۔
اصطلاحی معنی: اسلامی اصطلاح میں ”مہدی“ ایک عظیم شخصیت کا نام ہے ۔ اصل نام تو ان کا محمد ہوگا لیکن مہدی لقب سے وہ مشہور ہیں۔جو آخری زمانے میں ظاہر ہوں گے،اہلِ بیت میں سے ہوں گے، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، امت کو ظلم و فتن سے نجات دیں گے ۔یہ تمام اوصاف احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہیں۔
مھدی اور مہدی میں فرق
” مہدی “کا معنی ہدایت یافتہ کے ہیں اور”مہدی“ کے معنی ہدایت کاآلہ کے ہیں ۔ لیکن اس لفظ کا استعمال عربی زبان میں نہیں ہے ۔ اخیرزمانے میں جس عظیم شخصیت کے ظہور کی بات احادیث میں آئی ہے ان کو ”مَہدی“ میم کے زبر کےساتھ کہاگیاہے ۔ میم کے زیر کے ساتھ” مہدی“ کہنا ایک لسانی غلطی ہے۔

حضرت مہدی کاظہور

قیامت کے قریبی علامات میں سے ایک بڑی علامت حضرت مہدی علیہ الرضوان کا امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کی رہنمائی کے لئے آنا ہے ۔حضرت مہدی کی آمد کا تذکرہ احادیث میں کثر ت سے آیا ہے اسی لئے بہت سارے لوگوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔حضرت مہدی کی شخصیت ، ان کی پہچان سب کچھ احادیث میں مذکور ہے یہ وہ پیشین گوئی ہے جس کے پورا ہونے کا امت انتظار کر رہی ہے۔

یہ بات مسلّم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد نبوت و رسالت کا دروازہ بالکل بند ہوگیا ہے اب نبوت اپنی تمام ترقسموں کے ساتھ بند ہوچکی ہے اور کوئی نبی نہیں آنے والا اور اگرکوئی نبوت کا دعویٰ کرتاہے تو وہ کذاب ہوگا۔لیکن آپ ﷺ کے ذریعہ لائی گئی شریعت قیامت تک باقی رہے گی اور اس کے ماننے والے بھی باقی رہیں گے ۔ظاہر ہے جوحالات رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں تھے وہ آج نہیں ہے ۔ اسباب و ذرائع اور آلات واوزار جو آج موجود ہیں وہ پہلے کے زمانے میں نہیں تھے۔انسانی زندگی متنوع ہے اور ابتدائے آفرینش سے اس میں روز بروز تبدیلیاں ہوتی آئی ہیں۔ یہ بات بھی معلوم ہے کہ قرآن وحدیث میں جو تعلیمات ہیں وہ رہتی دنیا تک کی رہنمائی کرنے والے ہیں اس لئے ان آیات واحادیث کی روشنی میں نت نئے مسائل کے حل کے لئے اللہ کی طرف سے ایک سلسلہ جاری ہے کہ ہر صدی میں اللہ تعالیٰ ایک ایسے شخص کو پید اکرتے ہیں جو بدلے ہوئے حالات میں نئے مسائل کا کھوج قرآن و حدیث اور سیر ت وسنت میں تلاش کر امت کے لئے عمل کو آسان بناتاہے ۔ ایسے شخص کواصطلاح میں مجدد کہا جاتاہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

’’اللہ اس امت کے لیے ہر صدی کی ابتداء میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا‘‘۔
(سنن ابو داود۔کتاب الملاحم۔باب مایذکر فی قرن المائۃ۔ حدیث نمبر4291)

حضرت مہدی کا ظہور بحیثیت مجدد

حضرت مہدی علیہ الرضوان اس امت کے لئے ایک مجدد کی حیثیت سے پیدا ہوںگے جو نئے حالات میں امت محمدیہ کی رہنمائی فرمائیں گے۔چونکہ آپ آخری مجدد ہوں گے اس کے علاوہ آپ کے دور میں کچھ ایسے واقعات پیش آئیں گے جو اس دنیا میں پہلی اور آخری بار پیش آئیں گے اس لئے آپ کا تذکرہ خصوصی طور پر علامات قیامت کے ضمن میں کیا گیا ہے۔

جمہور امت کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت مہدی آئیں گے اور امت کی رہنمائی فرمائیں گے ۔اور امت کا کوئی طبقہ چاہے وہ گمراہ ہی کیوں نہ ہوہر ایک کے یہاں مہدی کا تصور موجود ہے ۔ اس کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اسلام کے نام پر جتنے بھی فرقے پیدا ہوئے ان تمام میں ایسے افراد گذرے ہیں جنہوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اگر ان کے یہاں مہدی کاتصور نہ ہو تا تو یہ دعویٰ ہر گز نہ کرتے۔

واضح رہے کہ روافض کے یہاں جو مہدی کا تصور ہے وہ جمہور اہل سنت کے عقیدہ کے خلاف ایک گھڑی ہوئی بات ہے ان کے مطابق مہدی سامرا کے غاروں میں چھپے ہوئے ہیں اور قرب قیامت ظاہر ہوں گے ۔ علامہ ابن کثیر نے اس کے بارے میں لکھاہے:
’’یہ مہدی خلفائے راشد ین اور ائمہ مہدیین میں سے ہیں۔ یہ وہ منتظر مہدی نہیں ہے جو روافض نے گھڑ رکھا ہے جو ان کے خیال میں سامرا کے ایک غار سے برآمد ہوگا۔ اس عقیدے کی کوئی حقیقت اور کوئی نقلی آثارموجود نہیں۔ البتہ جسے ہم بیان کررہے ہیں اس کا ذکر بے شمار احادیث میں موجود ہے کہ وہ آخری زمانے میں ہوگا اور غالب یہ ہے کہ اس کا ظہور حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کے نزول سے پہلے ہوگا۔ ‘‘(البدایہ والنہایہ اردو۔جلد۱۵،ص،۳۲نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی )

حضرت مہدی کی علامت

حضرت مہدی علیہ الرضوان کی کچھ علامات احادیث نبوی میں موجود ہیں جن کی روشنی میں امت ان کو پہچان لے گی اور پھر ان کے ہاتھ پر بیعت کر کے فتنوں کا مقابلہ کرے گی ۔ ان میں سے ایک علامت یہ ہے کہ حضرت مہدی خاندان نبوت میں سے ہوں گے اور ان کا نام بھی ہمارے نبی کے نام پر محمد یا احمد ہوگا ۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

’’دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک کہ میرے گھرانے کا ایک آدمی جو میرا ہم نام ہو گا عرب کا بادشاہ نہ بن جائے گا‘‘۔
(سنن الترمذی ۔کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء فی المہدی ۔ حدیث نمبر2230)

’’ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’مہدی میری نسل سے فاطمہ کی اولاد میں سے ہوں گے‘‘۔
(سنن ابو داؤد۔کتاب المہدی باب۔حدیث نمبر4284)
خاندان نبوت سے ہونے کا مطلب ہی ہے کہ وہ حضرت فاطمہ کی اولاد میں ہوں گے اس لئے کہ آپ ﷺ کی اولاد نرینہ یا دیگر بنات سے نسل آگے نہیں بڑھی ۔ایک روایت سے یہ تفصیل بھی ملتی ہے کہ آپ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد میں ہوں گے ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حسن رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا، اور کہا:

’’یہ میرا بیٹا سردار ہو گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام رکھا ہے، اور عنقریب اس کی نسل سے ایک ایسا شخص پیدا ہو گا جس کا نام تمہارے نبی کے نام جیسا ہو گا، اور سیرت میں ان کے مشابہ ہو گا البتہ صورت میں مشابہ نہ ہو گا‘‘ پھر انہوں نے ’’سیملأ الأرض عدلاً‘‘ کا واقعہ ذکر کیا۔‘‘
(سنن ابو داؤد۔کتاب المہدی باب۔حدیث نمبر4290)

حضرت مہدی کی ولادت اور حکومت

حضرت مہدی کی ولادت اس وقت ہوگی جب کہ یہ دنیا ظلم وجور سے بھری ہوئی ہوگی اور وہ تشریف لاکر عدل و انصاف کی حکومت قائم کریں گے اور سات سال تک اس دنیا میں ان کی حکومت قائم رہے گی۔ان کی پہچان یہ ہے کہ ان کی پیشانی کشادہ اور ناک اونچی ہوگی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
’’مہدی میری اولاد میں سے کشادہ پیشانی، اونچی ناک والے ہوں گے، وہ روئے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، جیسے کہ وہ ظلم و جور سے بھر دی گئی ہے، ان کی حکومت سات سال تک رہے گی‘‘۔
(سنن ابوداؤد ۔کتاب المہدی ،باب ۔ حدیث نمبر4285)
رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق صحابۂ کرام کو حضرت مہدی کی آمد کااس قدر یقین تھا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ اگر دنیا کی عمر ایک دن بھی باقی رہے گی تو بھی اللہ تعالیٰ اس دن کو اس قدر لمبا کردیں گے کہ حضرت مہدی آکر اپنی حکومت کی مدت پوری کرلیںگے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میرے گھرانے کا ایک آدمی جو میرا ہم نام ہو گا حکومت کرے گا‘‘۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

اگر دنیا کا صرف ایک دن بھی باقی رہے تو اللہ تعالیٰ اس دن کو لمبا کر دے گا یہاں تک کہ وہ آدمی حکومت کر لے۔‘‘
(سنن الترمذی ۔کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء فی المہدی ۔ حدیث نمبر2231)
حضرت مہدی علیہ الرضوان اس روئے زمین پر عدل وانصاف کاایسا ماحول قائم کریں گے کہ ہر شخص خوشحال اور فارغ البال ہوجائے گااور مال غنیمت نیز صدقات و خیرا ت کی کثرت کی وجہ سے مال بہت زیادہ جمع ہوگا یہاں تک کہ کوئی سائل اگر سوال کرے گا تو اسے اتنا مل جائے گا کہ وہ ا س بوجھ کو اٹھا نہیں سکے گا۔
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم اس بات سے ڈرے کہ ہمارے نبی کے بعد کچھ حادثات پیش آئیں، لہٰذا ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا:

’’میری امت میں مہدی ہیں جو نکلیں گے اور پانچ، سات یا نو تک زندہ رہیں گے، (اس گنتی میں زیدالعمی کی طرف سے شک ہوا ہے‘‘، )راوی کہتے ہیں:

ہم نے عرض کیا: ان گنتیوں سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: سال۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر ان کے پاس ایک آدمی آئے گا اور کہے گا: مہدی! مجھے دیجئے، مجھے دیجئے، آپ نے فرمایا: ’’وہ اس آدمی کے کپڑے میں اتنا رکھ دیں گے کہ وہ اٹھا نہ سکے گا‘‘۔
(سنن الترمذی ۔کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء فی المہدی ۔ حدیث نمبر2232)
حضرت مہدی کی علامات میں سے ایک بڑی علامت یہ بھی ہوگی کہ ان کے ساتھ غیب سے ایک منادی ہوگا جو یہ اعلان کرتاہوگاکہ یہ اللہ کے خلیفہ مہدی ہیں تم ان کی اتباع کرو۔
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مہدی تشریف لائیں گے اور ان کے سر پر عمامہ ہوگا۔ پس ایک منادی یہ آواز بلند کرتے ہوئے آئے گا کہ یہ مہدی ہیں جو اللہ کے خلیفہ ہیں۔ سو تم ان کی اتباع و پیروی کرو۔‘‘
(الحاوی للفتاوی ۔تالیف جلال الدین سیوطی ۔ جلد ۲ ص۵۸دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۲۱ھ)
حضرت مہدی کی پیدائش کے بعد لوگ ان کو مہدی کی حیثیت سے نہیں پہچانیں گے بلکہ وہ ایک عام آدمی کی طرح زندگی گذاریں گے لیکن جب ان کی عمر چالیس سال کی ہوجائے گی تو اللہ تعالیٰ ان کے اندر ایسے قائدانہ اوصاف پیدا کردیں گے کہ لوگ ان کو پہچان لیں گے اور ان کے جھنڈے تلے عرب و عجم سب جمع ہوجائیں گے اور اس وقت کفر وشرک کی ظلمت کو مٹانے کے لئے ان کا ساتھ دیں گے ۔ اس لئے یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتاہے کہ جب حضرت مہدی اتنی بڑی شخصیت ہیں تو ان کے کمال تو بچپن سے ہی ظاہر ہوجانے چاہئیں اس لئے کہ دنیا میں جتنی بھی قیادتیں پیدا ہوئی ہیں ان کی نمایاں صفات بچپن سے ہی ظاہر ہونے لگتی ہیں۔یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک پردۂ خفا ہوگا اور جب اللہ کی مرضی ہوگی تو ان کی حیثیت عرفی کماحقہ ٗظاہر ہوجائے گی ۔

ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے :

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’مہدی ہم اہل بیت میں سے ہوں گے، اور اللہ تعالیٰ ایک ہی رات میں ان کو صالح بنا دے گا‘‘۔
(سنن ابن ماجہ ۔کتاب الفتن ، باب خروج المہدی ۔ حدیث نمبر4085)
مسلمانوں میں جس طرح آج قیادت کا فقدان ہے اور اگر کوئی قیادت ابھرتی بھی ہے تو لوگ متفقہ طور پر اس کو قائد ماننے کو تیار نہیں ہوتے نتیجہ یہ ہے کہ تمام ترجماعتیں اور افراد اصلاح کی تمام ترکوششیں کرنے کے بعد بھی کامیاب نہیں ہورہی ہیں۔اس لئے کہ اگرچہ سب کے سب محنت کررہے ہیں مال واسباب بھی خرچ کررہے ہیں اور بہت حد تک اخلاص بھی موجود ہے لیکن پوری امت کی کوششیں کسی ایک سمت میں نہیں ہوکر مختلف سمتوں میں ہورہی ہے اور ایک دوسرے کو باہمی تعاون حاصل نہیں ہے اس لئے ان کی جدوجہد بے جان اور کمزور ثابت ہورہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ حضرت مہدی کے اندر وہ تمام صلاحتیں ایک ہی دن میں پیدا کردیں گے جن کی وجہ سے وہ تمام جماعتوں کو متحد کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور جب اتحاد قائم ہوجائے گاتو مضبوطی بھی آجائے اور سمت بھی متعین ہوجائے گی اس لئے ان کی کوششوں میں جان اور طاقت پیدا ہوجائے گی اور پھرکامیابی حاصل ہوگی اور امن و امان کے ساتھ انصاف و عدل کی عالمی خلافت بھی قائم ہوگی ۔

حضرت مہدی کے ظہور کے وقت مسلمانوں کے حالات

حضرت مہدی کے ظہور کے وقت حالات نہایت خراب ہوں گے مسلمانوں کی چاروں طرف سے ناکہ بندی کردی جائے گی اور ایک طرح سے ان کاسوشل بائیکاٹ کردیا جائے ۔ ان کو کوئی غلہ نہیں دے گا اور نہ ہی ان کے پاس مال و دولت ہوگی یعنی نہایت کس مپرسی کی حالت ہوگی ۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : “

وہ وقت قریب ہے کہ عراق والوں کے پاس روپے اور غلہ آنے پر پابندی لگا دی جائے گی . ان سے پوچھا گیا کہ یہ پابندی کس کی جانب سے ہوگی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ عجمیوں کی جانب سے. پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا کہ وہ وقت قریب ہے کہ جب اھل شام پر بھی یہ پابندی لگادی جائے گی پوچھا گیا یہ رکاوٹ کس کی جانب سے ہوگی ؟ فرمایا اھل روم کی جانب سے پھر فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ میری امت میں ایک خلیفہ ہوگا جو لوگوں کو مال لپ بھر بھر کے دے گا اور شمار نہیں کرے گا. نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

کہ جس کے قبضے میں میری جان ہے یقینا” اسلام اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹے گا جس طرح کے ابتداء مدینہ سے ہوئی تھی حتی کہ ایمان صرف مدینہ میں رہ جائے گا پھر آپ نے فرمایا کہ مدینہ سے جب بھی کوئی بے رغبتی کی بناء پرنکل جائے گا تو اللہ اس سے بہترکو وہاں آباد کردے گا. کچھ لوگ سنیں گے کہ فلاں جگہ پر ارزانی اور باغ و زراعت کی فراوانی ہے تو مدینہ چھوڑ کروہاں چلے جائیں گے حالانکہ ان کے واسطے مدینہ ہی بہتر تھا کہ وہ اس بات کو جانتے نہیں ۔‘‘
(المستدرک للحاکم کتاب الفتن والملاحم۔مترجم اردو جلد ۶ ص ۵۶۹۔۵۷۰۔حدیث نمبر 8400)شبیر برادرز اردو بازار لاہور۲۰۱۳ء)
قیامت کے قریب امت میں انتشار اور اختلاف کی کثرت ہوجائے گی لوگ ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے کوئی کسی کی بات ماننے کو تیار نہیں ہوگااور مسلمانوں کا کوئی متفقہ امام نہیں ہوگا ایسے وقت میں حضرت مہدی مدینہ سے مکہ کا رخ کریں گے اور لوگ راستے میں ہی انہیں پہچان لیں گے اور ان سے بیعت کرنا چاہیں گے لیکن اول اول آپ انکار فرمائیں گے لیکن جب اصرار بڑھے گا تو حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان بیٹھ کر آپ بیعت کریں گے۔اس بیعت کی خبر دنیا میں تیزی سے پھیل جائے گی جس کی وجہ سے کفار ومشرکین کی ریشہ دوانیاں مزید تیز ہوجائیں گی اور اس بیعت کی وجہ سے مسلمانوں میں جو اجتماعیت کی راہ کھلے گی اس کو توڑنے اور ختم کرنے کے لئے مختلف علاقوں سے فوجیں نکل پڑیں گی ان میں سے ایک فوج شام کی طرف سے آئے گی جسے مکہ اور مدینہ کے درمیان بیداء کے مقام میں دھنسادیا جائے گا یہ اللہ کی طرف سے مومنین مسلمین کی مدد اورصریح نصرت ہوگی جس کی شہرت کی وجہ سے لوگ جوق در جوق حضرت مہدی علیہ الرضوان سے بیعت کرنے کے لئے چل پڑیں گے ۔ اسی درمیان بنی کلب کی طرف سے ایک لشکر آئے گا جس کا براہ راست حضرت مہدی کی فوج سے مقابلہ ہوگا اور اللہ کی مدد سے فتح حاصل ہوگی اورمال غنیمت رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔

اس سلسلہ میں ایک روایت ابوداؤ میں موجود ہے :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک خلیفہ کی موت کے وقت اختلاف ہو گا تو اہل مدینہ میں سے ایک شخص مکہ کی طرف بھاگتے ہوئے نکلے گا، اہل مکہ میں سے کچھ لوگ اس کے پاس آئیں گے اور اس کو امامت کے لیے پیش کریں گے، اسے یہ پسند نہ ہو گا، پھر حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان لوگ اس سے بیعت کریں گے، اور شام کی جانب سے ایک لشکر اس کی طرف بھیجا جائے گا تو مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام بیداء میں وہ سب کے سب دھنسا دئیے جائیں گے، جب لوگ اس صورت حال کو دیکھیں گے تو شام کے ابدال اور اہل عراق کی جماعتیں اس کے پاس آئیں گی، حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان اس سے بیعت کریں گی، اس کے بعد ایک شخص قریش میں سے اٹھے گا جس کا نانیہال بنی کلب میں ہو گا جو ایک لشکر ان کی طرف بھیجے گا، وہ اس پر غالب آئیں گے، یہی کلب کا لشکر ہو گا، اور نامراد رہے گا وہ شخص جو کلب کے مال غنیمت میں حاضر نہ رہے، وہ مال غنیمت تقسیم کرے گا اور لوگوں میں ان کے نبی کی سنت کو جاری کرے گا، اور اسلام اپنی گردن زمین میں ڈال دے گا، وہ سات سال تک حکمرانی کرے گا، پھر وفات پا جائے گا، اور مسلمان اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے‘‘۔
(سنن ابو داؤد۔کتاب المہدی باب۔حدیث نمبر4286)
’’محمد بن الحنفیہ روایت کرتے ہیں کہ :

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک شخص نے ان سے مہدی کے بارے میں پوچھا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ دور ہو، پھر ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مہدی کا ظہور آخر زمانہ میں ہوگا (اور بے دینی کا اس قدر غلبہ ہوگا کہ) اللہ کے نام لینے والے کو قتل کر دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ایک جماعت کو ان کے پاس اکٹھا کر دے گا، جس طرح بادل کے متفرق ٹکڑوں کو مجتمع کر دیتا ہے اور اْن میں یگانگت و اْلفت پیدا کر دے گا۔ یہ نہ تو کسی سے خوفزدہ ہوں گے اور نہ کسی کے انعام کو دیکھ کر خوش ہوں گے۔ مہدی کے پاس اکٹھا ہونے والوں کی تعداد اصحابِ بدر کی تعداد کے مطابق ہوگی۔ اس جماعت کو ایک ایسی فضیلت حاصل ہوگی جو ان سے پہلے والوں کو حاصل ہوئی ہے نہ بعد والوں کو حاصل ہوگی۔ نیز اس جماعت کی تعداد اصحابِ طالوت کی تعداد کے برابر ہوگی۔ جنہوں نے طالوت کے ہمراہ نہر کو عبور کیا تھا۔ حضرت ابوالطفیل کہتے ہیں کہ محمد بن الحنفیہ نے مجمع سے پوچھا کیا تم اس جماعت میں شریک ہونے کا ارادہ اور خواہش رکھتے ہو، میں نے کہا ہاں توانہوں نے دو ستونوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ خلیفہ مہدی کا ظہور انہی کے درمیان ہوگا۔ اس پر حضرت ابوالطفیل نے فرمایا بخدا میں ان سے تاحیات جدا نہ ہوں گا۔ چنانچہ حضرت ابوالطفیل کی وفات مکہ معظمہ ہی میں ہوئی۔‘‘
(المستدرک للحاکم کتاب الفتن والملاحم۔مترجم اردو جلد ۶ ص ۷۴۱۔حدیث نمبر 8659)شبیر برادرز اردو بازار لاہور۲۰۱۳ء)

حضرت مہدی کی فتوحات

حضرت مہدی کی قیادت میں مسلمانوں کو کئی فتوحات نصیب ہوں گی ان میں ایک بیت المقدس کی فتح ہے جس کے بارے میں رسول اللہ کی پیشین گوئی موجود ہے:

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خراسان سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے انہیں کوئی چیز لوٹا نہ سکے گی یہاں تک کہ وہ بیت المقدس پر جا کر نصب ہوجائیں گے۔
(مسند احمد ۔مسند ابی ھریریرہ حدیث نمبر8775)
اس روایت سے ایک تو یہ معلوم ہوتاہے کہ بیت المقدس کی فتح مسلمانوں کو نصیب ہوگی اور دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس فوج کا جھنڈا کالے رنگ کا ہوگا۔
بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ خروج دجال سے پہلے ایک عظیم جنگ ہوگی اور قسطنطنیہ کی فتح بھی ہوگی ۔یہ واقعات صرف سات مہینوں میں پورے ہوجائیں گے ۔ چونکہ یہ جنگ خروج دجال سے پہلے ہوگی بلکہ اسی جنگ کے درمیان خروج دجال کی جھوٹی افواہ بھی پھیلی گی ۔اور یہ بات معلوم ہے کہ دجال کے خروج سے پہلے حضرت مہدی اس دنیا میں موجو د ہوں گے اس کامطلب ہے کہ یہ جنگ عظیم بھی حضرت مہدی کی قیادت میں ہی لڑی جائے گی ۔ بعض روایات سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے ۔
’’معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ملحمہ عظمی ، فتح قسطنطنیہ اور خروج دجال سات مہینے کے اندر ہوں گے‘‘۔
(سنن الترمذی کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء فی علامات خروج الدجال۔حدیث نمبر2238)
قسطنطنیہ موجودہ ترکی کا صدر مقام ہے جسے استنبول کے نام سے جاناجاتاہے اور سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں فتح ہو ا تو آج تک مسلمانوں کے ہی قبضے میں ہے آب آئندہ صورت حال کیا ہوگی کیا قسطنطنیہ پر دوبارہ غیر مسلموں کا قبضہ ہوجائے گا یا کوئی اور صورت پید اہو گی ۔یہ تو حقیقت ہے کہ ترکی پر جس طرح پورے مغربی ممالک کی نظر ہے اور موجودہ اسرائیل نے جو اپنا مجوزہ نقشہ عظیم اسرائیل کا بنایا ہے اس میں ترکی بھی شامل ہے اس لئے ممکن ہے کہ حالات مخالف ہوں اور ترکی ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے اور پھر اس کو دوبارہ حضرت مہدی کے ہاتھوں فتح نصیب ہو ۔ کیا صورتحال ہوگی اللہ بہتر جانتاہے ۔ مسلم شریف کی ایک لمبی روایت ہے جس میں رومی عیسائیوں سے جنگ کی تفصیل اور قسطنطنیہ کے فتح کے ساتھ ساتھ خروج دجال اور نزول عیسی مسیح علیہ السلام کا ذکربھی آیا ہے ذیل میں وہ حدیث نقل کی جارہی ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

”قیامت قائم نہیں ہو گی، یہاں تک کہ رومی اعماق یا دابق میں اتریں گے۔ان کے ساتھ مقابلے کے لیے شہر سے اس وقت روئے زمین کے بہترین لوگوں کا ایک لشکر روانہ ہو گا جب وہ صف آرا ء ہوں گے تو رومی کہیں گے تم ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان سے ہٹ جاؤ جنھوں نے ہمارے لوگوں کو قیدی بنایا ہوا ہے ہم ان سے لڑیں گے تو مسلمان کہیں گے۔اللہ کی قسم!نہیں ہم تمھارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان سے نہیں ہٹیں گے۔ چنانچہ وہ ان سے جنگ کریں گے۔ان میں سے ایک تہائی شکست تسلیم کر لیں گے اللہ ان کی توبہ کبھی قبول نہیں فرمائے گا اور ایک تہائی قتل کر دیے جائیں گے۔وہ اللہ کے نزدیک افضل ترین شہداء ہوں گے اور ایک تہائی فتح حاصل کریں گے۔وہ کبھی فتنے میں مبتلا نہیں ہوں گے۔ اور قسطنطنیہ کو فتح کریں گے۔ جب وہ غنیمتیں تقسیم کر رہے ہوں گے اور اپنے ہتھیار انھوں نے زیتون کے درختوں سے لٹکائے ہوئے ہوں گے تو شیطان ان کے درمیان چیخ کر اعلان کرے گا۔ مسیح (دجال)تمھارپیچھے تمھارے گھر والوں تک پہنچ چکا ہے وہ نکل پڑیں گے مگر یہ جھوٹ ہو گا۔جب وہ شام پہنچیں گے۔تووہ نمودار ہو جا ئے گا۔اس دوران میں جب وہ جنگ کے لیے تیاری کررہے ہوں گے۔صفیں سیدھی کر رہے ہوں گے تو نماز کے لیے اقامت کہی جائے گی اس وقت حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اتریں گے تو ان کا رخ کریں گے پھر جب اللہ کا دشمن ان کو دیکھے گاتو اس طرح پگھلے گا جس طرح نمک پانی میں پگھلتا ہے اگر وہ اسے چھوڑ بھی دیں تو وہ پگھل کر ہلاک ہوجائے گا لیکن اللہ تعالیٰ اسے ان کے ہاتھ سے قتل کرائے گااور لوگوں کو ان کے ہتھیارپر اس کا خون دکھائے گا۔ ‘‘
(صحیح مسلم ۔کتاب الفتن واشراط الساعۃ۔ باب فی فتح قسطنطنیہ الخ…حدیث نمبر7278)
اعماق شام میں حلب اور انطاکیہ کے درمیان ایک پر فضا علاقہ ہے جو دابق شہر سے متصل واقع ہے ۔ ابھی تو یہ علاقے مسلمانوں کے تسلط میں ہیں لیکن حدیث کے مفہوم سے یہ مشار ہوتاہے کہ کسی وقت مسلمان ان علاقوں کو کھودیں گے اور وہ علاقے غیر مسلموں کے زیر تسلط چلے جائیں گے۔اب یہ لوگ عیسائی ہوں گے یا یہودی یہ متعین نہیں ہے ۔ بہر حال ان سے مقابلہ کے لئے مسلمان نکلیں گے اور ظاہر ہے کہ اس وقت حضرت مہدی روئے زمین پر موجود ہوں گے اس لئے قیادت بھی انہیں کی ہوگی ۔ مسلمانوں کا لشکر تین حصوں میں تقسیم ہوگا جن میں سے ایک حصہ تو اپنی شکست تسلیم کرکے میدان چھوڑ دے گااور دوسرا حصہ اللہ کی راہ میں شہادت کا مقام پائے گا اور تیسرے حصہ کو اللہ تعالیٰ فتح نصیب فرمائیں گے۔

One thought on “امام مہدی کون ہیں؟”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index