مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

نزول عیسی علیہ السلام : حق اور باطل کا آخری معرکہ

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

 

 

نزول عیسی

حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک برگزیدہ نبی ورسول

حضر ت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی اور رسول ہیں جنہیں بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا۔ ان کی ولادت ایک عظیم معجزہ تھی اور ان کی نبوت بھی غیر معمولی نشانیوں کے ساتھ ظاہر ہوئی۔ قرآنِ کریم انہیں روحُ اللہ اور کلمۃ اللہ کے اعزاز سے نوازا ہے، یعنی وہ اللہ کے خصوصی امر سے پیدا ہوئے اور اس کی طرف سے ایک بلند مرتبہ رسول بن کر آئے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے لوگوں کو توحید، عبادتِ الٰہی اور اخلاقِ صالحہ کی طرف بلایا، اور شریعتِ موسوی کی تکمیل اور تجدید کا فریضہ انجام دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اپنی مقدس کتاب انجیل نازل کیا۔اللہ نے ان کے ہاتھوں بیماروں کو شفا دینا، مردوں کو زندہ کرنا، مٹی کے پرندے کو حقیقی پرندہ بنا دینا، اور مادرزاد نابینا کو بینائی عطا کرنا جیسے معجزات ظاہر فرمائے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ وہ اللہ کے بندے، نبی اور رسُول ہیں، نہ کہ خدا یا خدا کے بیٹے۔
ان کی والدہ مریم علیہا السلام دنیا کی برگزیدہ، پاکیزہ اور معزز ترین خواتین میں سے ہیں۔ قرآنِ کریم نے انہیں اصطفاء اور تزکیہ کی خوشخبری دی اور تمام جہانوں کی عورتوں پر فضیلت عطا کی۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی پاکیزگی، عبادت، تقویٰ اور اللہ کے ذکر میں گزاری۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بغیر کسی باپ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جنم دینے کا شرف عطا کیا، جو اللہ کے حکم سے ہوا اور ایک عظیم نشانی قرار پایا۔
حضرت مریم علیہا السلام کی سچی بندگی، صبر، حیا اور توکل آج بھی ایمان والوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ قرآن میں ان کی داستانِ ولادتِ عیسیٰ، ان کی طہارت، اللہ پر یقین اور قوم کی طرف سے آزمائشوں میں ثابت قدمی کو نہایت احترام سے بیان کیا گیا ہے، جو ان کے مقام و مرتبہ کا واضح ثبوت ہے۔
جب بنی اسرائیل نے ان کے خلاف سازش کی اور انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے انہیں محفوظ رکھا اور انہیں زندہ آسمانوں کی جانب اٹھا لیا۔ قرآن کہتا ہے: “بل رَفَعَهُ اللّٰهُ إِلَيْهِ” یعنی بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا۔ اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام قتل یا مصلوب نہیں ہوئے بلکہ اللہ کی حفاظت میں آسمانی دنیا میں منتقل کر دیے گئے، جہاں وہ قیامت کے قریب دوبارہ نزول تک موجود رہیں گے۔ یہ واقعہ اللہ کے نبی کی عزت، اس کی قدرت اور بنی اسرائیل کی مکاری پر اللہ کی حجت کا روشن مظہر ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء کا واقعہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک قطعی اور مسلم حقیقت ہے۔

نزول عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی بڑی علامت

عیسیٰ علیہ السلام کا نزول مسلمانوں کے نزدیک قیامت کی بڑی اور قطعی علامتوں میں سے ہے۔ احادیثِ نبویہ کے مطابق قربِ قیامت میں اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان سے زمین پر دوبارہ اتارے گا۔ آپ کا نزول دمشق کے مشرقی سفید مینار پر ہوگا، اس وقت دنیا میں فتنۂ دجال اپنے عروج پر ہوگا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُتر کر دجال کا تعاقب کریں گے اور اسے مقامِ لدّ میں قتل کریں گے، یوں باطل کا فتنہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گا۔ اس کے بعد آپ شریعتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کے مطابق حکومت قائم کریں گے، صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ موقوف کریں گے اور عدل و امن سے بھری ایک پرامن زندگی کا دور شروع ہوگا۔ آپ کے عہد میں مال کی کثرت ہوگی، نفرتیں مٹ جائیں گی اور لوگ اسلام کے زیرِ سایہ سکون و ہدایت پائیں گے۔ مسلمانوں کا یہ عقیدہ کتاب وسنت کے واضح دلائل پر قائم ہے اور امت کے اجماعی عقائد میں شمار ہوتا ہے۔

عیسائیوں کا عقیدہ

عیسی علیہ السلام کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ انہوں نے سولی پر چڑھ کر اپنی امت کو اللہ سے معاف کرالیااب وہ کوئی بھی گناہ کرلیں تو ان کے لئے عیسی ؑ کا سولی پر چڑھ جانا ہی کافی ہے ان سے باز پرس نہ ہوگی ۔ اسی لیے وہ صلیب کی پوجا کرتے ہیں اور ہمیشہ اسے اپنے گلے میں لٹکاکر رکھتے ہیں۔ اور جب کبھی کوئی غلطی ہوجاتی ہے تو صلیب کے سامنے کھڑے ہوکر معافی مانگتے ہیں اور یہ گمان رکھتے ہیں کہ عیسیٰ ؑ نے ان کے گناہ اپنے سر لے لیا ہے ۔
حضرت عیسیٰ ؑ نے جب دعوت وتبلیغ کا کام شروع کیا تو یہود نے ان کی مخالفت کی اور ان کی تکذیب واہانت میں کوئی کسر نہیں چھوڑا لیکن حضرت عیسیٰ ؑ کے پایۂ ثبات میں کوئی لغزش نہیں ہوئی اور برابر دعوت وتبلیغ کا کام کرتے رہے بالآخر یہودیوں نے ان کو سولی دینے کا فیصلہ کرلیا لیکن اللہ تعالیٰ کی تدبیر سب پر بھاری ہوئی انہوں نے جب سولی پر چڑھانے کے ارادے سے ان کے گھر پر حملہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں آسمان پر اٹھالیا اور جو شخص سب سے پہلے گھر میں گھسا تھا اس کی صورت حضرت عیسیٰ کی بنادی چنانچہ ان لوگوں نے اسی کو عیسیٰؑ سمجھ کر سولی پر چڑھا دیا اور آج تک اہل کتاب کی دونوں قومیں یہود ونصاریٰ یہی سمجھ رہی ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ مصلوب کردیئے گئے ۔یہود تو ان کی سولی پر خوشیاں مناتے ہیں لیکن نصاریٰ نے اپنی عقیدت اس میں شامل کرکے یہ بات بنادی کہ عیسیٰ ؑ نے سولی پر چڑھ کر ہمارے گناہوں کا کفارہ اداکردیا۔ لیکن قرآن کہتاہے:
وَّقَوْلِھِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَ لٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْافِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَالَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا ( ۱۵۷) بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًاحَکِیْمًا (۱۵۸)وَ اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا (۵۹ ) سورہ نساء
’’ اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو جو خدا کے پیغمبر تھے قتل کردیا ہے اور انہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا اور نہ انہیں سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو ان کی سی صورت معلوم ہوئی اور جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ ان کے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں اور پیروئیِ ظن کے سوا ان کو اس کا مطلق علم نہیں۔ اور انہوں نے عیسیٰ کو یقیناً قتل نہیں کیا ۔بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز پر غالب، کمال حکمت والاہے۔ اور اہل کتاب میں کوئی نہیں مگر اس کی موت سے پہلے اس پر ضرور ایمان لائے گا اور وہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوگا۔‘‘
رفع الی السماء کے بعد حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر موجود ہیں اور معراج کے سفر میں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات بھی ہوئی ۔ پھر وہ اپنی فطری عمر پوری کرنے اور امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی رہنمائی کے لئے قیامت کے قریب نزول فرمائیں گے اس کا ذکر احادیث میں تواتر کے ساتھ آیا ہے اس لئے نزول عیسیٰ ؑ پر ایمان لاناہمارے بنیادی عقائد میں سے ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:” لَیْسَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ نَبِیٌّ یَعْنِی عِیسَی، وَإِنَّہُ نَازِلٌ فَإِذَا رَأَیْتُمُوہُ فَاعْرِفُوہُ رَجُلٌ مَرْبُوعٌ إِلَی الْحُمْرَۃِ وَالْبَیَاضِ بَیْنَ مُمَصَّرَتَیْنِ کَأَنَّ رَأْسَہُ یَقْطُرُ، وَإِنْ لَمْ یُصِبْہُ بَلَلٌ، فَیُقَاتِلُ النَّاسَ عَلَی الْإِسْلَامِ فَیَدُ قُّ الصَّلِیبَ وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیرَ وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ وَیُہْلِکُ اللَّہُ فِی زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلَّہَا إِلَّا الْإِسْلَامَ وَیُہْلِکُ الْمَسِیحَ الدَّجَّالَ، فَیَمْکُثُ فِی الْأَرْضِ أَرْبَعِینَ سَنَۃً ثُمَّ یُتَوَفَّی فَیُصَلِّی عَلَیْہِ الْمُسْلِمُونَ”.(سننن ابوداؤد ۔ کتاب الملاحم، باب خروج الدجال ۔ حدیث نمبر4324)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے اور ان یعنی عیسیٰ کے درمیان کوئی نبی نہیں، یقیناً وہ اتریں گے، جب تم انہیں دیکھنا تو پہچان لینا، وہ ایک درمیانی قد و قامت کے شخص ہوں گے، ان کا رنگ سرخ و سفید ہو گا، ہلکے زرد رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوں گے، ایسا لگے گا کہ ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہے گو وہ تر نہ ہوں گے، تو وہ لوگوں سے اسلام کے لیے جہاد کریں گے، صلیب توڑیں گے، سور کو قتل کریں گے اور جزیہ معاف کر دیں گے، اللہ تعالیٰ ان کے زمانہ میں سوائے اسلام کے سارے مذاہب کو ختم کر دے گا، وہ مسیح دجال کو ہلاک کریں گے، پھر اس کے بعد دنیا میں چالیس سال تک زندہ رہیں گے، پھر ان کی وفات ہو گی تو مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے‘‘۔
اس حدیث میں بالکل واضح طور پر آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے ظاہری وجود کے ساتھ اس زمین پر نازل ہوںگے یعنی یہ نزول روحانی نہیں بلکہ جسمانی ہوگا یہاں تک کہ آپ ﷺ نے ان کا قدوقامت ، چہرہ بشرہ اور پہنے ہوئے کپڑوں کے بارے میں بھی بتادیا ہے ۔اس لئے اس میں کوئی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ آئیں گے یا نہیں۔
کتب حدیث سے چند مزید احادیث ذیل میں نقل کی جاتی ہیں جن میں حضرت عیسٰی ؑ کا تذکرہ موجود ہے:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَؓ, عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ, قَالَ:” لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ, حَتَّی یَنْزِلَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا مُقْسِطًا, وَإِمَامًا عَدْلًا, فَیَکْسِرُ الصَّلِیبَ, وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیرَ, وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ, وَیَفِیضُ الْمَالُ حَتَّی لَا یَقْبَلَہُ أَحَدٌ”.(سنن ابن ماجہ ۔ کتاب الفتن ۔ باب فتنۃ الدجال وخروج عیسی بن مریم ……حدیث نمبر4078)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک عیسیٰ بن مریم عادل حاکم اور منصف امام بن کر نازل نہ ہوں، وہ آ کر صلیب کو توڑیں گے، سور کو قتل کریں گے، اور جزیہ کو معاف کر دیں گے، اور مال اس قدر زیادہ ہو گا کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہ ہو گا‘‘۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:” وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَیُوشِکَنَّ أَنْ یَنْزِلَ فِیکُمْ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا فَیَکْسِرَ الصَّلِیبَ وَیَقْتُلَ الْخِنْزِیرَ وَیَضَعَ الْجِزْیَۃَ وَیَفِیضَ الْمَالُ حَتَّی لَا یَقْبَلَہُ أَحَدٌ حَتَّی تَکُونَ السَّجْدَۃُ الْوَاحِدَۃُ خَیْرًا مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا ثُمَّ، یَقُولُ أَبُو ہُرَیْرَۃَ وَاقْرَئُوا إِنْ شِئْتُمْ وَإِنْ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلا لَیُؤْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہِ وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکُونُ عَلَیْہِمْ شَہِیدًا سورۃ النساء آیۃ 159”.(صحیح بخاری ۔کتاب احادیث الانبیاء ۔باب نزول عیسیٰ ابن مریم علیھماالسلام۔حدیث نمبر3448)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا۔ اس وقت کا ایک سجدہ دنیا وما فیہا سے بڑھ کر ہو گا۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو وإن من أہل الکتاب إلا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیامۃ یکون علیہم شہیدا ’’اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہو گا جو عیسیٰؑ کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے۔‘‘
ظہور مہدی علیہ الرضوان ، خروج دجال ، نزول عیسٰی علیہ السلام اور یاجوج ماجو کا خروج یہ سب واقعات یکے بعد دیگرے پیش آئیں گے اس لئے بیشتر حدیثوں میں جہاں حضرت مہدی کا تذکرہ ہے وہاں خروج دجال اور نزول عیسٰی ؑ اور خروج یاجوج ماجوج کا بھی ذکر آیا ہے ۔یا جہاںدجال کا ذکر آیا ہے وہیں ان دوسرے واقعات کا بھی ذکر آیا ہے ۔ ماسبق میں جو حدیثیں حضرت مہدی اور دجال کے سلسلے میں نقل کی گئی ہیںان میں حضرت عیسٰیؑ کا تذکرہ بھی آگیا ہے اس لئے ان روایات کو دوبارہ نقل کرنا محض طوالت میں اضافہ کا سبب ہے اس لئے اتنی حدیثو ں کے نقل پر اکتفا کیا جاتاہے۔
مندرجہ بالا حدیثوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام ایک منصف اور عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے آپ کو ئی الگ شریعت لے کر نہیں آئیں گے بلکہ امت محمدیہ علیٰ صاحبھا الصلوۃ والسلام کی رہنمائی اور قتل دجال آپ کا مقصد نزول ہوگا ۔نیز یہود کے اس دعویٰ کے خلاف حجت بھی ہوگا جس میں وہ کہتے ہیںکہ ہم نے عیسٰی ؑ کو مصلوب کردیا اور نصاریٰ کے عقیدہ کا بطلان بھی ہوگا جس میں وہ حضرت عیسیٰ ؑکو اللہ کی الوہیت میں شریک قرار دیتے ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کی مسجد میں عین فجر کے وقت نازل ہوں گے جب کہ نماز کے لئے تکبیر کہی جاچکی ہوگی اور حضرت مہدی آگے بڑھنے ہی والے ہوں گے ۔اس وقت لوگ حضرت عیسٰی ؑ سے امامت کی درخواست کریں گے لیکن آپ علیہ السلام فرمائیں گے کہ نہیں امامت تمہارے امام کو ہی کرنی چاہئے ۔ مسند احمد کی ایک طویل حدیث ہے جس میں نزول عیسیٰ ؑ کا پس منظر وپیش منظر سب بیان کردیا گیا ہے ذیل میں وہ حدیث دیکھیں:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ، أَنَّہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:” یَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِی خَفْقَۃٍ مِنَ الدِّینِ، وَإِدْبَارٍ مِنَ الْعِلْمِ، فَلَہُ أَرْبَعُونَ لَیْلَۃً یَسِیحُہَا فِی الْأَرْضِ، الْیَوْمُ مِنْہَا کَالسَّنَۃِ، وَالْیَوْمُ مِنْہَا کَالشَّہْرِ، وَالْیَوْمُ مِنْہَا کَالْجُمُعَۃِ، ثُمَّ سَائِرُ أَیَّامِہِ کَأَیَّامِکُمْ ہَذِہِ، وَلَہُ حِمَارٌ یَرْکَبُہُ، عَرْضُ مَا بَیْنَ أُذُنَیْہِ أَرْبَعُونَ ذِرَاعًا. فَیَقُولُ لِلنَّاسِ: أَنَا رَبُّکُمْ. وَہُوَ أَعْوَرُ، وَإِنَّ رَبَّکُمْ لَیْسَ بِأَعْوَرَ، مَکْتُوبٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ کَافِرٌ ک ف ر مُہَجَّاۃٌ یَقْرَؤُہُ کُلُّ مُؤْمِنٍ، کَاتِبٌ وَغَیْرُ کَاتِبٍ، یَرِدُ کُلَّ مَائٍ وَمَنْہَلٍ، إِلَّا الْمَدِینَۃَ وَمَکَّۃَ حَرَّمَہُمَا اللَّہُ عَلَیْہِ، وَقَامَتْ الْمَلَائِکَۃُ بِأَبْوَابِہَا، وَمَعَہُ جِبَالٌ مِنْ خُبْزٍ، وَالنَّاسُ فِی جَہْدٍ إِلَّا مَنْ تَبِعَہُ، وَمَعَہُ نَہْرَانِ أَنَا أَعْلَمُ بِہِمَا مِنْہُ نَہَرٌ یَقُولُ: الْجَنَّۃُ، وَنَہَرٌ یَقُولُ: النَّارُ، فَمَنْ أُدْخِلَ الَّذِی یُسَمِّیہِ الْجَنَّۃَ فَہُوَ النَّارُ، وَمَنْ أُدْخِلَ الَّذِی یُسَمِّیہِ النَّارَ فَہُوَ الْجَنَّۃُ”، قَالَ:” وَیَبْعَثُ اللَّہُ مَعَہُ شَیَاطِینَ تُکَلِّمُ النَّاسَ، وَمَعَہُ فِتْنَۃٌ عَظِیمَۃٌ، یَأْمُرُ السَّمَائَ فَتُمْطِرُ فِیمَا یَرَی النَّاسُ، وَیَقْتُلُ نَفْسًا ثُمَّ یُحْیِیہَا فِیمَا یَرَی النَّاسُ، لَا یُسَلَّطُ عَلَی غَیْرِہَا مِنَ النَّاسِ، وَیَقُولُ: أَیُّہَا النَّاسُ، ہَلْ یَفْعَلُ مِثْلَ ہَذَا إِلَّا الرَّبُّ؟”، قَالَ: فَیَفِرُّ الْمُسْلِمُونَ إِلَی جَبَلِ الدُّخَانِ بِالشَّامِ، فَیَأْتِیہِمْ فَیُحَاصِرُہُمْ، فَیَشْتَدُّ حِصَارُہُمْ، وَیُجْہِدُہُمْ جَہْدًا شَدِیدًا، ثُمَّ یَنْزِلُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ فَیُنَادِی مِنَ السَّحَرِ، فَیَقُولُ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ، مَا یَمْنَعُکُمْ أَنْ تَخْرُجُوا إِلَی الْکَذَّابِ الْخَبِیثِ؟، فَیَقُولُونَ: ہَذَا رَجُلٌ جِنِّیٌّ، فَیَنْطَلِقُونَ، فَإِذَا ہُمْ بِعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ، فَتُقَامُ الصَّلَاۃُ، فَیُقَالُ لَہُ: تَقَدَّمْ یَا رُوحَ اللَّہِ، فَیَقُولُ: لِیَتَقَدَّمْ إِمَامُکُمْ فَلْیُصَلِّ بِکُمْ، فَإِذَا صَلَّی صَلَاۃَ الصُّبْحِ، خَرَجُوا إِلَیْہِ”، قَالَ:” فَحِینَ یَرَی الْکَذَّابُ، یَنْمَاثُ کَمَا یَنْمَاثُ الْمِلْحُ فِی الْمَائِ، فَیَمْشِی إِلَیْہِ فَیَقْتُلُہُ، حَتَّی إِنَّ الشَّجَرَۃَ، وَالْحَجَرَ یُنَادِی: یَا رُوحَ اللَّہِ، ہَذَا یَہُودِیٌّ، فَلَا یَتْرُکُ مِمَّنْ کَانَ یَتْبَعُہُ أَحَدًا إِلَّا قَتَلَہُ”.(مسند احمد ۔مسند جابر بن عبد اللہ ؓ حدیث نمبر 14954)
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دجال کا خروج اس وقت میں ہو گا جب دین میں سستی اور علم میں تنزل آ جائے گا وہ چالیس راتوں میں ساری زمین پھر جائے گا جس کا ایک دن سال کے برابر دوسرا مہینے کے برابر، تیسرا ہفتے کے برابر اور باقی ایام تمہارے ہی ایام کی طرح ہوں گے اس کے پاس ایک گدھا ہو گا جس پر وہ سواری کر ے گا اور جس کے دونوں کانوں کے درمیان چوڑائی چالیس گز کے برابر ہو گی اور وہ لوگوں سے کہے گا کہ میں تمہارا رب ہی ہوں حالانکہ وہ کانا ہو گا اور تمہارا رب کانا نہیں ہے۔ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان حروف تہجی سے کافر لکھا ہوا ہو گا جسے ہر مسلمان خواہ لکھنا پڑھنا جانتا ہو یا نہ پڑھ لے گا وہ مدینہ اور مکہ جنہیں اللہ نے اس پر حرام قرار دیا ہے اس کے علاوہ ہر پانی اور گھاٹ پر اترے گا اس کے ساتھ روٹیوں کے پہاڑ ہوں گے اس کے پیروکار کے علاوہ وہ تمام لوگ انتہائی پریشان ہوں گے اس کے ساتھ دو نہریں ہوں گی جن کو در حقیقت میں اس سے زیادہ جانتا ہوں ایک نہر کو وہ جنت اور دوسری نہر کو جہنم کہتا ہو گا جسے وہ اپنی جنت میں داخل کر ے گا وہ درحقیقت جہنم ہو گی اور جسے وہ اپنی جہنم میں داخل کر ے گا وہ جنت ہو گی۔ اللہ اس کے ساتھ شیاطین کو بھیج دے گا جو لوگوں سے باتیں کر یں گے اس کے ساتھ ایک عظیم فتنہ ہو گا وہ آسمان کو حکم دے اور لوگوں کو یوں محسوس ہو گا کہ جیسے بارش ہو رہی ہے وہ ایک آدمی کو قتل کر ے گا پھر لوگوں کی آنکھوں کے سامنے اسے دوبارہ زندہ کر ے گا اور لوگوں سے کہے گا کہ لوگوں یہ کام کوئی ایسا شخص کر سکتا ہے جو پروردگار نہ ہواس وقت حقیقی مسلمان بھاگ جائیں گے اور جا کر شام کے جبل دخان میں پناہ لیں گے دجال ان کا انتہائی سخت محاصرہ کر ے گا اور مسلمان انتہائی پریشان ہوں گے۔ پھرحضرت عیسیٰ کا نزول ہو گا اور وہ سحری کے وقت لوگوں کو پکار کر کہیں گے لوگو تمہیں اس کذاب خبیث کی طرف نکلنے سے کس چیز نے روک رکھا ہے لوگ کہیں گے یہ کوئی جن معلوم ہوتا ہے لیکن نکل کر دیکھیں گے تو وہ سیدنا عیسیٰ ہوں گے نماز کھڑی ہو گی اور ان سے کہا جائے گا کہ روح اللہ آگے بڑھ کر نماز پڑھائیں وہ فرمائیں گے تمہارے امام ہی کو آگے بڑھ کر نماز پڑھانی چاہیے نماز فجر کے بعد وہ دجال کی طرف نکلیں گے جب وہ کذاب سیدنا عیسیٰ کو دیکھے گا تو اس طرح پگھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں پگھل جاتا ہے سیدنا عیسیٰ بڑھ کر اسے قتل کر یں گے اور اس وقت وہ شجر اور حجر پکار اٹھیں گے اے روح اللہ یہ یہو دی یہاں چھپا ہوا ہے چنانچہ وہ دجال کے کسی پیروکار کو نہیں چھوڑیں گے اور سب کو قتل کر دیں گے۔‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index