قیامت
تحریر : مفتی محمدآصف اقبال قاسمی
قیامت کی اصطلاحی تعریف یہ ہے: وَتُطْلَقُ فِیْ عُرْفِ الشَّرْعِ عَلٰی یَوْمِ مَوْتِ الْخَلْقِ وَ عَلیٰ یَوْمِ قِیَامِ النَّاسِ لِرَ بِّ الْعَالِمِیْنَ۔ وہ دن جوساری مخلوق کے مرنے اور لوگوں کے اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونے کا ہے وہ قیامت کادن کہلاتا ہے۔
قیامت دنیا کاعظیم ترین واقعہ
قرآن و حدیث کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس دنیامیں ایک عظیم واقعہ رونما ہونے والاہے جوکائنات کا سب سے بڑا واقعہ ہوگا جس سے پوری کائنات زیر و زبر ہوجائے گی،ہرچیز فنا کے گھاٹ اتر جائے گی او ر یہ عالم تہہ و بالاہوکر بکھرجائے گا،جسے ہم قیامت کے نام سے جانتے ہیں۔ ایمان والوں کو اس کے وقوع کایقین رکھنا ضروری ہے۔
قرآن کریم میں قیامت کاتذکرہ بہت کثرت سے آیا ہے اور ا س کی ہولناکیوں کو بار بار بیان کیا گیاہے۔سورہ قارعہ میں اللہ تعالیٰ نے اس کانام القارعۃ (کھڑ کھڑانے والی) کے نام سے موسوم کیاہے جس سے مراد یہ ہے کہ قیامت وہ چیز ہے جو دلوں کو گھبراہٹ سے اور کانوں کو سخت آوازوں سے کھڑ کھڑا دینے والی ہوگی اوریہ ایسادن ہوگا کہ اس دن انسان کی حیثیت پروانوں جیسی ہوجائے گی کہ جس طرح پروانے بے چین ہوکر روشنی کے پیچھے دوڑتے بھاگتے نظر آتے ہیں اسی طرح انسان بھی بدحواسی کے عالم میں دوڑتے بھاگتے نظر آئیں گے اوردنیاکے عظیم الشان اور قوی الجثہ پہاڑ دُھنی ہوئی روئی کے گالوں کی طرح اڑتے ہوئے نظر آئیں گے اور کائنات کی ایک ایک چیز ریزہ ریزہ ہوکر بکھر جائے گی۔ سورہ واقعہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جب قیامت آئے گی اور اس کے وقوع میں کوئی خلاف نہیں، یقیناًآئے گی وہ ایسی ہوگی جو بعض لوگوں کو پست کرے گی اور بعض کوبلند کرے گی اور جب زلزلہ آئے گا اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر گردو غبار کی طرح بکھر جائیں گے۔ اسی طرح سورہ زلزال میں ہے جب زمین کابھونچال اسے ہلا ڈالے گا اورزمین اپنے اندر کے بوجھ کو نکال کر باہر کردے گی۔ اوراس دن انسان کہے گا کہ اس زمین کو کیاہوگیاہے۔سورۂ حج کی ابتدائی آیات میں ارشاد باری ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ(۱)یَوْمَ تَرَوْنَھَا تَذْھَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَھَا وَ تَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَ مَا ھُمْ بِسُکٰرٰی وَ لٰکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ(۲۔حج)
ترجمہ: قیامت کا زلزلہ ایک عظیم شئی ہے وہ ایسادن ہوگاکہ ہر دودھ پلانے و الی عورت اپنے دودھ پلائے کوبھول جائے گی اورآپ لوگوں کو مدہوش دیکھیں گے حالانکہ وہ مدہوشی نہیں ہوگی بلکہ اللہ کا سخت عذاب ہوگا۔
قیامت کا زلزلہ دنیا کا عظیم ترین حادثہ ہے جس کے وقوع ہوتے ہی انسان حواس باختہ ہو جائے گا۔دوددھ پلانے والی ماں اپنے دودھ پلائے بچے کو بھول جائے گی، انسان اللہ کے عذاب کے خوف سے اپنا ہوش وحواس کھوبیٹھے گا۔سورۂ طہٰ آیت 15 میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
اِنَّ السَّاعَۃَ آتِیَۃٌ بے شک قیامت آنے والی ہے اور سورہ حجر آیت٨٥ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے وَاِنَّ السَّاعَۃَ لَآتِیَۃٌاورقیامت بالضرور آنے والی ہے اورسورہ مومن آیت ٥٩ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے اِنَّ السَّاعَۃَ لَآتِیَۃٌ لَارَیْبَ فِیْھَا بے شک قیامت ضرور آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں او ر سورہ سباآیت ۳ میں قیامت کاانکار کرنے والوں کوسختی کے ساتھ فرمایا وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَاتَأْتِیْنَا السَّاعَۃُ قُلْ بَلیٰ وَرَبِّیْ لَتَأتِیَنَّکُمْ اور کافر یہ کہتے ہیں کہ قیامت نہیں آئے گی آپ کہہ دیجئے کہ ہرگز نہیں! میرے رب کی قسم وہ تمہارے پاس ضرور آئے گی۔
یہ آیات اوران کے علاوہ بہت سی آیات اس بات پردال ہیں کہ قیامت ضرور بالضرور آئے گی اورکوئی فردِ بشر بلکہ دنیا کی کوئی مخلوق اس سے بچ نہیں سکے گی۔ اس لئے ایک مومن کویہ ایمان رکھنا بھی ضروری ہے کہ ایک وقت ایساآئے گا کہ یہ کائنات،اس کی رنگینیاں اس کے زرق برق سب تباہ ہوجائیں گے اسی کوقیامت کے نام سے موسوم کیاجاتاہے۔
قیامت اچانک آئے گی
یہ سوال ہر آدمی کے ذہن و دماغ میں پیداہوتاہے کہ قیامت کب قائم ہوگی؟ اس کے متعلق اللہ تبارک وتعالیٰ نے وضاحت فرمادی ہے۔سورہ اعراف میں باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
یَسئَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرْسٰھَا قُلْ اِنَّمَا عِلْمُھَا عِنْدَ رَبِّیْ لَا یُجَلِّیْھَا لِوَقْتِھَآ اِلَّا ھُوَ ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَا تَاْتِیْکُمْ اِلَّا بَغْتَۃً یَسْئَلُوْنَکَ کَاَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْھَا قُلْ اِنَّمَا عَلْمُھَا عِنْدَ اللّٰہِ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(١٨٧ ۔اعراف)
ترجمہ: لوگ آپ سے قیامت کے متعلق پوچھتے ہیں کہ ا س کے قائم ہونے کاوقت کیا ہے آپ کہہ دیجئے کہ ا س کاعلم میرے رب کے پا س ہے وہی اس کو اس کے وقت پرکھول دکھائے گا، وہ آسمانوں اور زمین پربھاری ہے وہ جب تم پرآئے گی تو بے خبر (اچانک)آئے گی۔وہ آپؐ سے پوچھتے ہیں گویاآپؐ اس کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں آپؐ کہہ دیجئے کہ ا س کاعلم اللہ کے پاس ہے۔لیکن اکثرلوگ نہیں جانتے (سمجھتے)۔
اس آیت کریمہ کامطلب یہ ہے کہ یہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ وہ کب آئے گی، آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اس کے وقوع کاصحیح علم صرف میرے رب کے پا س ہے،نہ پہلے سے اورکسی کومعلوم ہے اور عین وقت پر بھی کسی کو پہلے معلوم نہ ہوگا، جب وقت مقدرآجائے گاتو خود اللہ تعالیٰ ہی اس کو ظاہر فرمادیں گے کوئی واسطہ درمیان میں نہ ہوگا، یہ حادثۂ قیامت آسمانوں اورزمین پربہت بھاری واقعہ ہوگا کہ ان کے ٹکڑے ہوکر اڑ جائیں گے اس لئے تقاضائے حکمت یہ ہے کہ ایسے شدید واقعہ کااظہا ر پہلے سے نہ کیاجائے ورنہ یقین کرنے والوں کی زندگی تلخ ہوجائے گی اورمنکرین کو مزید استہزا وتمسخر کاموقع ملے گا، اس لئے فرمایالَا تَاْتِیْکُمْ اِلَّا بَغْتَۃً یعنی قیامت تمہارے پاس اچانک ہی آئے گی۔
بخاری ومسلم کی حدیث میں بروایت حضرت ابو ہریرہ ؓ منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قیامت کے دفعۃً او راچانک آنے کے متعلق یہ بیان فرمایا کہ لوگ اپنے اپنے کاروبار میں مشغول ہوں گے، ایک شخص نے گاہک کودکھلانے کے لئے کپڑے کاتھان کھولا ہواہوگاوہ ابھی معاملہ طے نہ کرپائیں گے کہ قیامت قائم ہوجائے گی، ایک شخص اپنی اونٹنی کادودھ دوہ کر لے چلے گا اور ابھی اس کو استعمال کرنے نہ پائے گاکہ قیامت آجائے گی، کوئی شخص حوض کی مرمت کررہا ہوگا اس سے فارغ نہ ہوپائے گاکہ قیامت قائم ہوجائے گی، کوئی شخص کھانے کالقمہ ہاتھ میں اٹھائے گاابھی منھ تک نہ پہنچے گا کہ قیامت برپا ہوجائے گی۔(روح المعانی)
مقصد ا س کا یہ ہے کہ جس طرح انسان کی شخصی موت کی تاریخ اوروقت کو غیر معین ومبہم رکھنے میں بڑی حکمتیں ہیں اسی طرح قیامت کوجوپورے عالم کی اجتماعی موت کانام ہے اس کو مخفی اورمبہم رکھنے میں بڑی حکمتیں ہیں،اول تویہی ہے کہ یقین کرنے والوں کے لئے اس صورت میں زندگی دوبھر او ردنیاکے کام مشکل ہوجائیں گے اورمنکرین کو طویل میعاد سن کراستہزا و تمسخر کابہانہ ملے گااور ان کی سرکشی میں اور اضافہ ہوگا۔ اس لئے بتقاضائے حکمت اس کی تاریخ کو مبہم رکھا گیا تاکہ لوگ اس کے ہولناک واقعات سے ہمیشہ ڈرتے رہیں اوریہ ڈر ہی انسان کو جرائم سے باز رکھنے کاسب سے زیادہ موثر علاج ہے،ا س لئے ان آیات سے تعلیم یہ دی گئی کہ جب اس کایقین ہے کہ قیامت کسی روز آئے گی اوررب العالمین کے سامنے سب کی پیشی ہوگی،ان کے عمر بھر کے چھوٹے بڑے اچھے برے سب اعمال کاجائزہ لیا جائے گا،جس کے نتیجہ میں یاتو جنت کی ناقابل قیاس اورلازوال نعمتیں ملیں گی اوریامعاذ اللہ جہنم کاوہ شدید عذاب ہوگا جس کے تصور سے بھی پِتّہ پانی ہونے لگتاہے،تو پھر ایک عقلمند کاکام یہ نہیں ہونا چاہئے کہ فرصتِ عمل کوان بحثوں میں ضائع کرے کہ یہ واقعہ کب کس سن او رکس تاریخ میں ہوگا،بلکہ عقل کا تقاضہ یہ ہے کہ فرصت ِعمر کوغنیمت جان کر اس دن کے لئے تیاری میں مشغول ہوجائے،رب العالمین کے احکام کی خلاف ورزی سے ایساڈرے جیسے آگ سے ہر انسان ڈرتاہے۔
آیت کے آخر میں پھران لوگوں کے سوال کااعادہ کرکے فرمایا یَسْئَلُوْنَکَ کَاَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْھَا،پہلا سوال تو اس بات سے متعلق تھاکہ جب ایسااہم واقعہ ہونے والا ہے توہمیں اس کا پورا پوراصحیح تاریخ اوروقت کاعلم ہونا چاہئے،جس کا جواب دے دیاگیا کہ یہ سوال بے عقلی اوربے وقوفی سے پید اہواہے،عقل کاتقاضہ ہی یہ ہے کہ اس کی تعیین کی کسی کو خبر نہ کی جائے تاکہ ہرعمل کرنے والا ہروقت عذاب آخرت سے ڈر کر نیک عمل کے اختیا رکرنے اور برے اعمال سے باز رہنے میں پوری توجہ دے ا ور اس دوسرے سوال کامنشاء ان لوگوں کایہ سمجھنا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ضرور قیامت کی صحیح تاریخ اوروقت معلوم ہے اورآپ نے اللہ تعالیٰ سے تحقیق کرکے اس کاعلم ضرور حاصل کرلیا ہے مگر آپ کسی وجہ سے بتاتے نہیں اس لئے اپنی قرابت و رشتہ داری کاواسطہ دے کر آپ سے سوال کیا کہ ہمیں قیامت کاپور اپتہ بتلادیں،اس سوال کے جواب میں ارشاد ہواقُلْ اِنَّمَا عَلْمُھَا عِنْدَ اللّٰہِ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْن۔ یعنی آپ لوگوں کوبتلادیں کہ حقیقت یہی ہے کہ قیامت کی صحیح تاریخ کاسوائے اللہ جل شانہ کے کسی فرشتہ یانبی کوبھی علم نہیں ہے،مگر بہت سے لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ بہت سے علوم اللہ تعالیٰ صرف اپنے لئے محفوظ رکھتے ہیں جس کاکسی فرشتہ یا پیغمبر کو بھی پتہ نہیں ہوتا، لوگ اپنی جہالت سے یہ سمجھتے ہیں کہ تاریخ قیامت کا علم نبوت ورسالت کے لئے لازمی ہے اورپھراس کایہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جب آنحضرت ﷺ کواس کاپوراعلم نہیں تویہ علامت اس کی ہے کہ معاذ اللہ آپ نبی نہیں، مگر اوپرمعلوم ہوچکاکہ یہ خیال سرے سے غلط ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ ایسے سوالات کرنے والے بڑے بے وقوف اور بے خبرہیں، نہ ان کومسئلہ کی حقیقت معلوم ہے نہ اس کی حکمت اورنہ سوال کرنے کاطریقہ۔ہاں نبی کریم ﷺ کو قیامت کی کچھ علامات کاعلم دیاگیا تھا اوریہ کہ وہ اب قریب ہے، اس کو آنحضرت ﷺ نے بہت سے احادیث صحیحہ میں واضح طور پر بیان فرما دیاہے ارشادفرمایاکہ میری بعثت اورقیامت اس طرح ملی ہوئی ہیں جیسے ہاتھ کی دوانگلیاں۔ (ترمذی) اور بعض اسلامی کتابوں میں جو پوری دنیا کی عمر سات ہزار سال بتائی گئی ہے یہ کوئی آنحضرت ﷺ کی حدیث نہیں، بلکہ اسرائلی روایات سے لیا ہو ا مضمون ہے۔
علماء طبقات الارض نے جونئی تحقیقات سے دنیاکی عمر لاکھوں سال بتلائی ہے یہ نہ کسی قرآنی آیت سے ٹکراتی ہے نہ کسی حدیث صحیح سے، اسلامی روایت میں ایسی کچی بے سند باتوں کو داخل کردینے کا مقصد ہی شاید اسلام کے خلاف بدگمانیاں پیداکرنا ہو،جن کی تردید خو د صحیح احادیث میں موجود ہے،ایک صحیح حدیث میں خود رسول کریمﷺ کااپنی امت کو مخاطب کرکے ارشاد ہے کہ تمہاری مثال پچھلی امتوں کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے سیاہ بیل کے بدن پرایک سفید بال ہو،اس سے ہر شخص اندازہ لگاسکتاہے کہ آنحضرت ﷺ کی نظر میں دنیا کی عمر کتنی دراز ہے کہ اس کااندازہ لگانا بھی دشوار ہے،اسی لئے حافظ ابن حزم اندلسی نے فرمایاکہ ہمارااعتقاد یہ ہے کہ دنیا کی عمر کاکوئی صحیح اندازہ نہیں کیاجاسکتا، اس کا صحیح علم صرف پیداکرنے والے ہی کو ہے۔ (مراغی)۔“
(تفسیر معارف القرآن ج۴ ص ۱۴۱ ت ا۳۴۱)
علامات قیامت
منقولہ بالا تفسیر سے یہ بات بالکل عیاں ہوگئی کہ قیامت اچانک آئے گی ہاں اس کی کچھ علامات نبی کریمؐ نے بتادیئے ہیں جن کے ظاہر ہونے پر اہل ایمان کو متنبہ ہوجانا چاہئے کہ قیامت اب آنے ہی والی ہے پتہ نہیں کب آجائے اس لئے ہرمسلمان کو اس کے لئے تیاررہنا چاہئے اور اس کی ہولناکیوں سے ہمیشہ پناہ مانگتے رہنا چاہئے۔
عن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ، بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ، سَوَادِ الشَّعَرِ، لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَخْبِرْنِي عَنِ الإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” الإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا”، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ، وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِيمَانِ، قَالَ:” أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ”، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِحْسَانِ، قَالَ:” أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ”، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَتِهَا، قَالَ:” أَنْ تَلِدَ الأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ، يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ”، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا، ثُمَّ قَالَ لِي: يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ، أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ.( صحیح مسلم۔کتاب الایمان۔باب بیان الایمان والاسلام والاحسان………… حدیث نمبر٩٣ )
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک روز ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے۔ اتنے میں ایک شخص آیا جس کے کپڑے نہایت سفید تھے اور بال نہایت کالے تھے۔ یہ نہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ سفر سے آیا ہے اور کوئی ہم میں سے اس کو پہچانتا نہ تھا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کربیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے ملا دئیے اور دونوں ہاتھ اپنی رانوں پر رکھے،پھر بولا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)!مجھے بتائے کہ اسلام کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے بھیجے ہوئے ہیں اور نمازقائم کرے اورزکوۃ ادا کرے اوررمضان کے روزے رکھے اورخانہ کعبہ کا حج کرے اگر تجھ سے ہو سکے۔“ وہ بولا: سچ کہا آپ نے، ہم کو تعجب ہوا کہ آپ ہی پوچھتا ہے پھر آپ ہی کہتا ہے کہ سچ کہا پھر وہ شخص بولا: مجھ کو بتائیے ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان یہ ہے کہ تو یقین کرے اللہ پر، فرشتوں پراور اس کے پیغمبروں پراور پچھلے دن پر اور یقین کرے تو تقدیر پر کہ برا اور اچھا سب اللہ پاک کی طرف سے ہے۔“ وہ شخص بولا: سچ کہا آپ نے۔ پھر اس شخص نے پوچھا: مجھ کو بتائیے احسان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے جیسے تواللہ کو دیکھ رہا ہے۔“ اگر اتنا نہ ہو تو یہی سہی کہ وہ تجھ کو دیکھ رہا ہے۔ پھر وہ شخص بولا: بتائیے مجھ کو قیامت کب ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو جس سے پوچھتے ہو وہ خود پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔“ وہ شخص بولا تو مجھے اس کی نشانیاں بتلائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایک نشانی یہ ہے کہ) لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی۔(دوسری نشانی یہ ہے کہ) تو دیکھے گا ننگوں کو جن کے پاؤں میں جوتا نہ تھا، تن پہ کپڑا نہ تھا، کنگال بڑی بڑی عمارتیں ٹھونک رہے ہیں۔“(حضرت عمرؓ نے کہا) پھر وہ شخص چلا گیا۔ میں بڑی دیر تک ٹھہرا رہا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اے عمر! تو جانتا ہے یہ پوچھنے والا کون تھا؟“ میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”وہ جبرئیل علیہ السلام تھے تم کو تمھارا دین سکھانے آئے تھے۔
یہ حدیث،حدیث جبرئیل کے نام سے مشہور ہے اور تمام محدثین نے اس حدیث کو کتاب الایمان میں بیان کیا ہے۔اس میں حضرت جبریل ؑنے نبی کریم ﷺ سے چند سوالات کیے ہیں اور آپؐ نے ان کا جواب دیا ہے۔دوسرا سوال ایمان کے بارے میں ہے جس کا جواب نبی کریم ﷺ نے یہ دیاہے”ایمان یہ ہے کہ تو یقین کرے اللہ پر، فرشتوں پراور اس کے پیغمبروں پراور پچھلے دن پر اور یقین کرے تو تقدیر پر کہ برا اور اچھا سب اللہ پاک کی طرف سے ہے۔“یہ پچھلا دن کیا ہے؟ وہی قیامت کادن ہے جب کہ یہ دنیا ختم ہوجائے گی اور پھر اللہ تعالیٰ دوبارہ سب کو زندہ کرکے میدان حشر میں جمع کریں گے۔پھر جب جبرئیل علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ سے یہ سوال کیا کہ قیامت کب آئے گی تو آپؐ ارشاد فرمایا: مَاالْمَسْئُوْلُ عَنْھَا بِاَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ مسؤل سائل سے زیادہ نہیں جانتاہے۔ تو (جبرئیلؑ) نے کہا کہ فَاَخْبِرْنِیْ عَنْ اِمَارَاتِھَا آپ مجھے اس کی علامتیں بتادیں تو آپؐ نے فرمایا کہ اَنْ تَلِدَ الْاَمَۃَ رَبَّتَھَا وَاَنْ تَرَی الْحُفَاۃَ الْعُرَاۃَ الْعَالَۃَ رِعَاءَ الشَّاءِ یَتَطَاوَلُوْنَ فِی الْبُنْیَانِ (قیامت کی علامتیں یہ ہیں) لونڈی اپنے مالکہ کو جنے گی، برہنہ پا،برہنہ جسم، مفلس اور بکریاں چرانے والوں کوتم بلند وبالا عمارتیں بناتے ہوئے دیکھو گے۔
علامات قیامت میں میں رسول اللہ ﷺ نے جویہ فرمایا کہ “لونڈی اپنے مالکہ کو جنے گی ” اس کے متعلق آج ماحول میں یہ سوال ذہن میں آتاہے کہ آج پوری دنیا میں جب کہ انسانوں کی خرید وفروخت متفقہ طور پر غیر قانونی قرار دیا گیاہے اور لونڈی غلام کاکوئی تصور دنیا میں نہیں پایا جاتا تو یہ علامت کیسے پوری ہوگی کہ ایک لونڈی اپنے مالکہ کوجنے گی۔
اس کا ایک جواب جو پہلے سے علماء دیتے آئے ہیں وہ یہ ہے کہ لونڈیوں کی اتنی کثرت ہوجائے گی کہ ہر جگہ لونڈیا بےدریغ بکنی شروع ہوجائیں گی اور ایسا ممکن ہے کہ کسی نے کوئی لونڈی خریدی اور اس سے جماع کیا پھر اس سے اولاد ہوئی اور وہ لونڈی اپنے بچے کو چھوڑ کرکہیں اور چلی گئی اور کسی بازار میں دوبارہ بِک گئی اور اس کواسی بچے نے خرید لیا جو اس کی اپنی اولاد ہے لیکن نہ بچہ اپنی ماں کو پہچانتاہے اورنہ ماں اپنے بچے کو پہچانتی ہے۔اگر وہ بچہ مذکر ہے تو اپنی ماں کا آقا بن گیا اورمونث ہے تو اپنی ماں کی مالکہ بن گئی۔
ایک دوسرا جواب علماء کرام یہ دیتے ہیں کہ والدین کی نافرمانی اتنی عام ہو جائے گی کہ اولاد اپنی ماں کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرے گی جیسا کہ آقا اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔اس طرح گویا اشارہ ہے کہ ماں اگرچہ اصطلاحی طور پر لونڈی نہیں ہوگی لیکن اس کے ساتھ برتاؤ لونڈیوں والا کیا جانے لگے گا۔
آج کے اس سائنٹفک دور میں جب کہ میڈیکل سائنس اپنی ترقی کے عروج پر ہے ایسے ایجادات سامنے آرہے ہیں جس سے نبی کریم ﷺ کے اس بات کی صداقت بالکل عیاں ہوگئی ہے ۔ آج میڈیکل سائنس یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اگر کوئی شخص بذات خود بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا یا کوئی عورت بچے پیدا کرنے کی تکالیف برداشت نہیں کرنا چاہتی تو وہ اپنا مادۂ تولید نکال کر کسی دوسرے کے رحم میں ڈال دے اور اس سے جو بچہ پیدا ہو وہ لے لے اور بچہ پیدا کرنے والی ماں کو رحم کی اجرت دے دے ۔ آج کل کے ماحول میں یہ رجحان پایا جاتاہے کہ لوگ کرائے پر رحم لیتے ہیں اور بچے پید اکرواتے ہیں ۔ ایسا ممکن ہے کہ اس عمل سے جو بچہ پیدا ہو وہ حاکم بن جائے اور اس کی ماں جس کے پیٹ میں اس نے پرورش پائی وہ محکوم اور رعایا بن جائے تو اس طرح گویا بیٹا اپنی ماں کا آقا بن جائے گے ۔آنے والے وقت میں اور کیا صورت حال پیدا ہوتی ہے اس کاعلم تومحض اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔
بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس کے بعد قرآ ن کریم کی یہ آیت تلاوت کی:اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(34 ۔لقمان)(بے شک اللہ، اسی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہ بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا، پوری خبر رکھنے والا ہے۔)یعنی قیامت کے وقوع کاعلم ان چیزوں میں سے جنہیں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ہاں اس کی علامات اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو بتائے ہیں اور نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی امت کو اس سے خبردارکیا ہے۔تمام محدثین نے اپنی کتابوں میں ”ابواب الفتن یااشراط الساعۃ“ کے نام سے عنوان قائم کیا ہے جس میں قیامت کی علامات اوراس کی نشانیوں کو بیان کیا گیا ہے مسلم شریف کی ایک حدیث ہے۔
عن حذیفۃ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ اطَّلَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ، فَقَالَ: ” مَا تَذَاكَرُونَ؟ “، قَالُوا: نَذْكُرُ السَّاعَةَ، قَالَ: ” إِنَّهَا لَنْ تَقُومَ حَتَّى تَرَوْنَ قَبْلَهَا عَشْرَ آيَاتٍ، فَذَكَرَ الدُّخَانَ، وَالدَّجَّالَ، وَالدَّابَّةَ، وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَنُزُولَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَأَجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَثَلَاثَةَ خُسُوفٍ خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ، وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ، وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَآخِرُ ذَلِكَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنْ الْيَمَنِ تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَى مَحْشَرِهِمْ “.(مسلم کتاب الفتن باب فی الآیات التی تکون قبل الساعۃ)
حضرت حذیفہ بن اسید غفاریؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم باتیں کر رہے تھے کہ اچانک آنحضرت ﷺ ہمارے پا س تشریف لائے، آپ ؐ نے فرمایا، تم کیاباتیں کررہے ہو؟ ہم نے کہا ہم قیامت کاذکر کررہے تھے، آپؐ نے فرمایا، جب تک دس نشانیاں نہیں دیکھ لوگے،قیامت قائم نہ ہوگی،پھر آپ ؐ نے دھواں اور دجال،اور دابۃ الارض اورآفتاب کا مغرب سے طلوع ہونااور حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کانازل ہو نااوریاجوج ماجوج کانکلنا بیان کیااورتین جگہ زمین کے دھنس جانے کا ذکر کیا،ایک مشرق اورایک مغرب میں، اور ایک جزیرۂ عرب میں اورسب کے اخیر میں اس آگ کاذکر کیا جویمن سے برآمد ہوگی اورلوگوں کو ہنکاکر کو حشر کی طرف لے جائے گی۔
عن حذیفۃ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ : كُنَّا قُعُودًا نَتَحَدَّثُ فِي ظِلِّ غُرْفَةٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْنَا السَّاعَةَ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” لَنْ تَكُونَ أَوْ لَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ حَتَّى يَكُونَ قَبْلَهَا عَشْرُ آيَاتٍ طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَخُرُوجُ الدَّابَّةِ وَخُرُوجُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَالدَّجَّالُ وَعِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَالدُّخَانُ وَثَلَاثَةُ خُسُوفٍ: خَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ، وَخَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ، وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَآخِرُ ذَلِكَ تَخْرُجُ نَارٌ مِنْ الْيَمَنِ مِنْ قَعْرِ عَدَنَ تَسُوقُ النَّاسَ إِلَى الْمَحْشَرِ”. (سنن ابو داؤد۔کتاب الملاحم،باب امارات الساعۃ ۔٤٣١١ )
حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمرے کے زیر سایہ بیٹھے باتیں کر رہے تھے، ہم نے قیامت کا ذکر کیا تو ہماری آوازیں بلند ہو گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک نہیں ہو گی، یا قائم نہیں ہو گی جب تک کہ اس سے پہلے دس نشانیاں ظاہر نہ ہو جائیں: سورج کا پچھم سے طلوع ہونا، دابہ (چوپایہ) کا ظہور، یاجوج و ماجوج کا خروج، ظہور دجال، ظہور عیسیٰ بن مریم، ظہور دخان (دھواں) اور تین جگہوں: مغرب، مشرق اور جزیرہ عرب میں خسف (دھنسنا) اور سب سے آخر میں یمن کی طرف سے عدن کے گہرائی میں سے ایک آگ ظاہر ہو گی وہ ہانک کر لوگوں کو محشر کی طرف لے جائے گی۔
ان دونوں حدیثوں میں بھی رسول اللہ ﷺ نے قیامت کی کچھ علامات بتائی ہیں جن میں سورج کا پچھم سے نکلنا ، یاجوج ماجوج کا خروج، دجال کاظہور اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول یہ سب قیامت کی قریب ترین نشانیاں ہیں اور اس سے متعلق علماء کرام نے مستقل کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔ان شاء اللہ حالات نے ساتھ دیا اور اللہ کی مدد شامل حال رہی تو اس پر بھی تفصیل تحریر قارئین کے حوالے کی جائے گی یہاں بس اتنا ہی پر اکتفاکیا جاتاہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی قیامت کی ہولناکیوں سے حفاظت فرمائے ۔ آمین