رسول اللہ ؐ سے محبت

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی 

نبی کرم ﷺ کی محبت ایمان کے اولین شرائط میں سے ہے اس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ ظاہر ہے نبی کریم ﷺ کے احسانات پوری انسانیت پر اس قدر ہیں کہ ان کااحصاء نہیں کیاجاسکتا اورمحبت کے جولازمی اجزا ہیں وہ سب بطوراحسن و اتم نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس میں موجود ہیں۔شیخ حلیمی نے فرمایا:

”………… ایک مسلمان رسول اللہ ﷺ کی مدحتوں اورخوبیوں سے واقف ہو جوآپ ﷺ کی ذات اقدس کے لئے ثابت ہیں۔ اس کے بعد آپ کے ان آثار سے واقف ہوجواللہ کے دین میں آپ کے آثار ہیں اور آپ کے ان تمام حقوق سے واقف ہو جو شرعا یا عادۃً آپ کی امت پر واجب ہیں، جوشخص ان باتوں کااحاطہ کرلیتاہے اوراس کی عقل بھی صحیح سالم ہے وہ اس بات کو اچھی طرح جان لیتاہے کہ آپ  ﷺ  محبت کے زیادہ حقدار ہیں ایک شفیق باپ سے بھی زیادہ جواپنی ذات کے اعتبار سے فضل و شرف کاحامل ہو۔ جواپنی اولاد پر شفیق اور محسن ہواوراس شفیق استاد سے بھی زیادہ جواپنی ذات کے اعتبار سے پسندیدہ ہو سکھانے اور تربیت کرنے پر توجہ رکھنے والا ہو اورانتہائی کوشش کرنے والاہو۔رسول اللہ ﷺ کی مدحتیں کثیر ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

”ان میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک طینتی اور اصل کی شرافت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبع ظہو راورمقام ولادت کی پاکیزگی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء مبارک اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جن کاانتخاب فرمایا تھااورجن کے ساتھ آپؐ کوموسوم کیاتھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کاتعریف کرنا یا آپؐ کی پیدائش سے قبل یہاں تک کہ آپؐ کوانبیائے علیھم الصلوۃ  والسلام نے پہچان لیا اوران کی امتوں نے بھی ان کوپہچان لیا آپ ؐکے اپنے آپؐ کو پہچاننے سے بھی پہلے اورآپ ؐ کی امت کے بھی آپؐ کے پہچاننے سے پہلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت کا حسین ہونا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کابھی حسین ہونا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائل وعادات کاکریم ہونا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فصاحت و بلاغت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمانا کہ اُوْتِیْتُ بِجَوَامِعِ الْکَلِمِ کہ مجھے تکلم کی جامعیت عطاکی گئی ہے۔ میرے لئے بات مختصر کردی گئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کااپنی امت پررحیم ہونا اورشفقت کرنا،اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں کی طرف دنیا میں جو جو عظیم بھلائیاں بھیجی ہیں،آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاتمام امتوں کے لئے سفارش کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا سے بے رغبت ہونا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کادنیا کے شدائد ومصائب پر صبرکرنا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاسب سے بڑا مقام ہونا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامرتبہ عظمیٰ اور سب سے اونچامقام اور سب سے اونچا منصب، منصب نبوت و رسالت ہے۔ اس منصب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے بلند عظمت کے نشانات ہیں اوربڑی عظمتیں اورخوبیاں ہیں ان میں سب سے بڑی خصوصیت اور سب سے بڑی عظمت آپ کی عالمگیر رسالت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کاجنات اورانسانوں کے لئے عام ہونا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کامشرق سے مغرب تک سب کے لئے شامل ہونا، یہ کہ آپ خاتم النبیین ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سید المرسلین ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیامیں اپنی رفعت کے اعتبار سے سب سے زیادہ عزت والے ہیں،آپ آخرت میں اپنے مرتبہ کے اعتبار سے سب رسولوں سے زیادہ تعریف کے مستحق ہیں،آپ وہ ہیں کہ سب سے پہلے جن کے لئے زمین پھٹے گی اورآپ زمین سے باہر تشریف لائیں گے، آپ سب سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں لوگوں کے لئے سفارش کرنے والے ہوں گے، آپ کی سب سے پہلے سب امتوں کے لئے سفارش قبول ہوگی،آپ صاحب لواء الحمد ہونگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی صاحب حوض کوثر ہوں گے۔ جس پر پینے کے لئے سب لوگ آئیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بندگی اوربقاکی اللہ نے قسم کھائی ہے، اللہ تعالی نے آپؐ کوقرآن مجید میں آپ کے نام کے ساتھ مخاطب نہیں فرمایااورنہ ہی آپ کی نسبت کے ساتھ پکاراہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کی نبوت ورسالت کے نام کے ساتھ پکاراہے، تمام انبیاء کواللہ تعالی نے ان کے ناموں کے ساتھ پکارااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ورسالت کے ساتھ پکارنے کے لئے تمام جماعت میں آپ کاانتخاب فرمایاہے۔“(بیہقی فی شعب الایمان حب النبی ﷺ جلد ۲ ص 508)

مندرجہ بالا عبارت جو بیہقی سے ماخوذ ہے اس میں نبی کریم ﷺ سے محبت کے چند وجوہات بیان کئے گئے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ آپ کی شفقت و رافت، الفت و محبت،رحمت و مہربانی اپنی امت پراس قدر زیادہ ہیں کہ محبت کرنے کے قابل جتنے بھی رشتے ہیں ان سب سے زیادہ آپ ؐ سے محبت کی جائے یہاں تک کہ اپنی جان، مال،اولاد، ماں باپ حتی کہ تمام لوگوں سے زیادہ آپ سے محبت کی جائے۔آپ  ﷺ نے فرمایا:وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَایُؤمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ  وَوَلَدِہٖ(قسم ہے اس ذات کے جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میری محبت اس کے اپنے باپ اور اولاد سے زیادہ نہ ہو۔) (صحیح بخاری کتاب الایمان باب حب الرسول ﷺ من الایمان حدیث نمبر١٤ )

ایک دوسری روایت میں آپ نے فرمایا:

 لَایُؤمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ  وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ (تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میری محبت اس کے اپنے باپ اپنی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ نہ ہو۔)(صحیح بخاری کتاب الایمان باب حب الرسول ﷺ  من الایمان۔ حدیث نمبر 15)

نیز آ پ نے فرمایا:  ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ، أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ”.جس شخص میں تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کامزہ پائے گا ایک یہ کہ اللہ اوراس کے رسول کی محبت اس کوسب سے زیادہ ہو دوسرے یہ کہ فقط اللہ کے لئے کسی سے دوستی رکھے تیسرے یہ کہ دوبارہ کافر بننا اس کواتناناگوار ہوجیسے آگ میں جھونکا جانا۔(صحیح بخاری کتاب الایمان باب حلاوۃ الایمان۔حدیث نمبر16)

رسول اللہ ؐ کی محبت دنیا کی ہرچیز سے زیادہ مطلوب ہے

اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی  الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۔(سورہ توبہ آیت ٢٤ )

ترجمہ:    آپ کہہ دیجئے کہ اگرتمہارے باپ، تمہارے بیٹے اورتمہارے بھائی اورتمہاری بیبیاں اورتمہاراکنبہ اور وہ مال جوتم نے کمائے ہیں اوروہ تجارت جس میں نکاسی نہ ہونے کا تم کواندیشہ ہو اور وہ گھر جن کوتم پسند کرتے ہو تم کواللہ سے اوراس کے رسول ؐ سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہوں تو تم منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپناحکم بھیج دیں اوراللہ تعالیٰ نافرمانی کرنے والوں کوان کے مقصود تک نہیں پہونچاتا۔

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی نور اللہ مرقدہ نے اپنی معرکۃ الآرا تفسیر معارف القرآن میں جو کچھ لکھا ہے اس سے اللہ اوراس کے رسول کی محبت، اس کی نوعیت، محبت کے اقسام اورمندرجہ بالاحدیثوں کی واضح تشریح بھی ہوجاتی ہے اس لئے وہ مندرجات جو اس موضوع سے متعلق ہیں ان کو یہاں پر من و عن نقل کرتاہوں:

”آیت مذکورہ میں براہ راست تو خطاب ان لوگوں سے ہے جنہوں نے ہجرت فرض ہونے کے وقت دنیوی تعلقات کی محبت سے مغلوب ہوکر ہجرت نہیں کی، لیکن الفاظِ آیت کاعموم تمام مسلمانوں کو یہ حکم دیتاہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ   کی محبت اس درجہ ہونا لازم وواجب ہے کہ دوسرا کوئی تعلق اورکوئی محبت ا س پرغالب نہ آئے اور جس نے اس درجے کی محبت پید انہ کی وہ مستحق عذاب ہوگیا۔ اس کوعذاب الٰہی کامنتظر رہناچاہئے۔

…………اسی لئے ایک صحیح حدیث میں جوصحیحین میں بروایت انسؓ منقول ہے رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک کہ میں اس   کے نزدیک اس کے باپ اوراولاد اوردنیا کے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاوں۔

 اورابوداؤد ترمذی میں بروایت ابوامامہؓ  منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے کسی سے دوستی کی تو اللہ کے لئے کی اوردشمنی کی تووہ بھی اللہ کے لئے کی اورمال کو خرچ کیا تو وہ بھی اللہ کے لئے اورکسی جگہ خرچ کرنے سے رکا تو وہ بھی اللہ کے لئے، اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا۔

 ان روایات حدیث سے بھی ثابت ہواکہ ایمان کی تکمیل اس پرموقوف ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی محبت سب محبتوں پرغالب ہو اورانسان کی دوستی، دشمنی، دینا یا نہ دیناسب اللہ کے حکم اوررسول کے تابع ہو۔

امامِ تفسیرقاضی بیضاوی وغیرہ نے فرمایاکہ بہت کم لوگ ہیں جواس آیت کی وعید سے مستثنیٰ ہوں کیونکہ عام طو پر بڑے سے بڑے عابدوزاہد اورعالم ومتقی بھی اہل وعیال اورمال ومتاع کی محبت سے مغلوب نظرآتے ہیں الّا ماشاء اللہ مگر ساتھ ہی قاضی بیضاوی نے فرمایا کہ محبت سے مراد اس جگہ اختیاری محبت ہے غیر اختیاری اورطبعی محبت مراد نہیں، کیونکہ اللہ تعالی کسی انسان کو اس کی طاقت واختیار سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، ا س لئے اگر کسی شخص کادل ان دنیوی تعلقات کی طبعی محبت سے لبریز ہومگر ان سے اتنا مغلوب نہ ہوکہ اللہ ورسول کے احکام کی خلاف ورزی کی پرواہ نہ کرے تووہ بھی اس وعید سے خارج اوراللہ ورسول کی محبت کو غالب رکھنے والاہے جیسے کوئی بیماردواکی تلخی یاآپریشن کی تکلیف سے طبعاً گھبراتا ہے مگرعقلاً اس کو اپنی نجات و سلامتی کاذریعہ سمجھ کر اختیارکرتاہے تو وہ کسی کے نزدیک قابلِ ملامت نہیں۔اورنہ کوئی عقل سلیم اس کوا س پر مجبور کرتی ہے، کہ طبعی اورغیر اختیاری گھبراہٹ اورکراہیت کوبھی دل سے نکال دے، اسی طرح اگر کسی کومال واولاد وغیرہ کی محبت کے سبب بعض احکام الہیہ کی تعمیل میں غیر اختیاری طور پر تکلیف محسوس ہو، مگر ا س کے باوجود وہ اس تکلیف کوبرداشت کرکے احکام الہیہ بجالائے تووہ بھی قابل ملامت نہیں،بلکہ قابل تحسین ہے اوراللہ ورسول کی محبت کواس آیت کے مطابق غالب رکھنے والاکہلائے گا۔

ہاں اس میں شبہہ نہیں کہ محبت کااعلی مقام یہی ہے کہ محبت طبیعت پر بھی غالب آجائے، اورمحبوب کے حکم کی تعمیل کی لذت ہر تلخی و تکلیف کوبھی لذیذ بنادے جیسا دنیا کی فانی لذت و راحت کے طلبگار وں کورات دن دیکھاجاتاہے کہ بڑی سے بڑی محنت ومشقت کو ہنس کھیل کراختیار کرلیتے ہیں کسی دفتر کی ملازمت میں مہینہ کے ختم پر ملنے والے چند سکّوں کی محبت انسان کی نیند، آرام اورسارے تعلقات پرایسی غالب آجاتی ہے کہ اس کے پیچھے ہزاروں مشقتوں کو بڑی کوششوں،سفارشوں اور رشوتوں کے ذریعہ حاصل کرتاہے   ۔اللہ والوں کویہ مقام اللہ اوررسول اورنعمائے آخرت کی محبت میں ایساہی حاصل ہوتاہے کہ اس کے مقابلہ میں کوئی تکلیف تکلیف نظر نہیں آتی۔ صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایاکہ تین خصلتیں ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں پائی جاویں تواس کوایمانی حلاوت حاصل ہوجاتی ہے، وہ تین خصلتیں یہ ہیں۔ایک یہ کہ اللہ اوراس کے رسول اس کے نزدیک ان کے ماسوا ہرچیز سے زیادہ محبوب ہوں، دوسرے یہ کہ وہ کسی اللہ کے بندے سے صرف اللہ کے لئے محبت رکھے، تیسرے یہ کہ کفر وشرک (میں واپس آنا) اس کوآگ میں ڈالے جانے کے برابر محسوس ہو۔

اس حدیث میں حلاوت ایمان سے مراد محبت کاوہ مقام ہے جوانسان کے لئے ہرمشقت و محنت کو لذیذ بنادیتاہے۔     ع

از محبت تلخہا شیریں شود

 اسی مقام کے متعلق علماء نے فرمایا ہے    ؎

وَ  اِذَا حَلَّتِ   الْحَلَاوَۃُ    قَلْبًا

نَشَطَتْ فِی الْعِبَادَۃِ الْاَعْضَاءِ

 یعنی جب کسی دل میں حلاوتِ ایمان پیدا ہوجاتی ہے توعبادت واطاعت میں اس کے اعضاء لذت پانے لگتے ہیں۔ اسی کو بعض روایات میں میں بشاشتِ ایمان سے تعبیرکیاگیا ہے اورحدیث میں رسول للہ ﷺ نے فرمایاکہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔

قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے تفسیر مظہری میں فرمایاکہ محبت اللہ اوررسول کایہ مقام ایک نعمت کبریٰ ہے۔ مگر وہ صرف اللہ والوں کی صحبت ومعیت ہی سے حاصل ہوتی ہے، اس لئے صوفیائے کرام اس کو خدمت مشائخ سے حاصل کرنا ضروری قرار دیتے ہیں، صاحب روح البیان نے فرمایاکہیہ مقام خلت اسی کوحاصل ہوتاہے جوخلیل اللہ ؑ کی طرح اپنے مال، اولاد اورجان کواللہ کی محبت میں قربان کرنے کے لئے تیا رہو       ؎

خلیل آسا درِ ملک یقین زن

نوائے لا احب الآفلین زن

یعنی خلیل اللہ کی طرح یقین کے دروازے کو دستک دے اور لااُحْبّ الآفلین (میں غروب ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا) کی آواز بلند کر۔

قاضی بیضاوی نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت و شریعت کی حفاظت اوراس میں رخنے ڈالنے والوں کی مخالفت بھی اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی محبت کاایک کھلانشان ہے، رزقنااللہ تعالی وجمیع المسلمین حبہ وحب رسولہ کمایحب ویرضاہ۔(معارف القرآن جلد چہارم ص  ٣٤٢ )

نبی کریم ﷺ سے محبت اورآپ سے عشق کے نمونے صحابہ کرام کی زندگی میں کثرت سے موجودہیں انہوں نے اپنے جان ومال کو اللہ کے رسول پر نچھاور کرنا اپنی خوش بختی کی علامت سمجھ رکھاتھا۔ مکہ کے گلیوں میں حضرت بلالؓ  اورحضرت خبیبؓ کوگھسیٹاجانا منظورتھالیکن آپ ﷺ کا ساتھ چھوڑنابالکل منظورنہیں تھا یہاں تک کہ حضرت خبیبؓ کومکہ والوں نے پکڑ لیااور مکہ میں پھانسی دینے کی پوری تیاری ہوگئی اس وقت کسی نے پوچھا کہ کیا ہی اچھاہوتاکہ تم اپنے گھر میں آرام سے ہوتے اور تمہاری جگہ محمد (ﷺ) کو پھانسی دی جاتی۔قربان جائیے حضرت خبیبؓ کے جواب پرانہوں نے کہا کہ میں تو اس بات کو بھی پسند نہیں کرتا کہ میں اپنے گھرمیں آرام سے بیٹھارہوں اور آپؐ  کے پائے اقدس میں کوئی کانٹابھی چبھ جائے۔ غزوۂ بدر، احد،طائف، حنین کے حالات پڑھیں کس طرح صحابہ کرام نے آپ ؐ کے اوپر اپنی جانیں نچھاور کردیں۔

نبی کریم ﷺ سے محبت کا طریقہ یہ ہے کہ آپ ؐ جس مقصد کے لئے اس دنیا میں تشریف لائے جس کے لئے آپؐ پوری زندگی محنت کرتے رہے اس مقصد کو ہم اپنا مقصد بنالیں اور آپ ؐ نے جن چیزوں کو پسند فرمایا ان چیزوں کوہم بھی پسند کریں، اس لئے کہ محبوب کی پسند کومحبوب بنالینا محبت کی علامت ہے اگر زبانی طور پر عشق ومحبت کا دعویٰ توہے لیکن آپؐ کی سنت وسیرت سے دوری ہے تویہ خالی خولی دعویٰ ہے اس میں کوئی جان نہیں ہے۔ محبت رسول کامطلب تویہ ہے کہ آپؐ کی ایک ایک سنت پرہم جان نثار کرنے کو تیار رہیں اورحالات چاہے ہمارے موافق ہوں یا مخالف رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سے سرِ مو انحراف نہ ہو جو شخص رسول اللہ کی سنت پرجتنا زیادہ عمل کرنے والاہے وہ اتنا ہی زیادہ محبت کرنے والاہے اور جو شخص رسول اللہ کی سنت سے جتنا دور ہے وہ محبت کے دعویٰ میں اتنا ہی جھوٹا ہے۔

 صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں اللہ کے رسولؐ کی محبت رچی بسی تھی ان کاہر عمل نبی کریم ﷺ کے عمل کی عکاسی کرنے والا تھا انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک ہر جگہ انہوں نے آپ ﷺ کی سنت اور آپؐ کی تعلیمات کو اپنامشعل راہ بنایا جس کا ثمرہ اللہ تعالیٰ نے دنیامیں عزت ومنصب اور آخرت میں اپنی رضاوخوشنودی کی بشارت کی صورت میں عطا فرمایا۔

آج بھی امت مسلمہ اگر سیرت رسول اور سنت نبوی کو اپنی زندگیوں میں داخل کرلے تو فتح وکامرانی اس کی قدم بوسی کرے گی۔

دوجہاں    کی  کامیابی  گر  تجھے  درکار ہے

 ان کا دامن تھام  لے جن کامحمد ؐ نام ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *