تعلیم قرآن اور اس کی عظمت

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی 

قرآن کریم اللہ تبار ک و تعالی کی آخری کتاب ہے اور یہ ا تنی بڑی نعمت ہے کہ دنیا جہاں کی کوئی بھی نعمت اس کامقابلہ نہیں کرسکتی اللہ تبارک وتعالیٰ کایہ بہت بڑ ااحسان ہے کہ اس نے دنیا کی ہدایت کے لئے قرآن کریم جیسی کتاب نازل فرمائی جس میں اولین وآخرین کاعلم جمع کردیا گیا اوراس کتاب کوپوری دنیا کے لئے سرچشمۂ ہدایت بنادیا گیا۔

قرآن کریم ایک ایسانامۂ ہدایت ہے جوخالق کائنات اورمالک کل کے ساتھ بندوں کا رشتہ جوڑتاہے جومخلوق کواپنے خالق کاپتہ دیتاہے اور زندگی کے کسی بھی موڑ پرانسان کو یکّاوتنہا نہیں چھوڑتا بلکہ اس کی راہنمائی کاسامان فراہم کرتاہے،لوگوں کوحسن معاشرت کی تعلیم دیتاہے تہذیب اخلاق کادرس دیتاہے اورانسانی زندگی کوخوشنما اورحسین بناتاہے۔یہ وہی سرچشمۂ ہدایت ہے جس نے عرب کے بدوؤں کو تہذیب وثقافت کاامام بنادیا۔ آداب زندگی اور حقوق انسانیت سے ناآشنالوگوں کو قوموں کارہنمابنادیا جس نے پوری دنیاکونور حق سے منور کرکے ہرطرف روشنیوں سے جگمگاتا سماں پیدا کردیا اورباطل کے اندھیروں کومٹاکر علم وحکمت کے جلوے بکھیر دیئے۔ایسی منور ودرخشاں اورروشن کتاب کاعلم حاصل کرنایقیناًسعادتمندی اورخوش بختی کی علامت ہے اور اس سے اعراض بدبختی اورشقاوت ہے اس لئے ہر مسلمان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم کوالفاظ کی صحت کے ساتھ پڑھناسیکھے اورجہاں تک ممکن ہوسکے اس کے معانی میں بھی غور فکر کرنے کی کوشش کرے اور اس کے احکامات کوسمجھے، اوراس پرعمل کرے۔

اللہ نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کردیا

 اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو تذکیر و ترہیب اورنصیحت وعبرت حاصل کرنے کے  لئے نہایت آسان کردیاہے تاکہ ہرشخص اس میں غور وفکر کرے اور عبرت حاصل کرے۔وَلَقَدْ یَسَّرْنَاالْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرْ کہ ہم نے قرآن کونصیحت کے لئے آسان کردیا توکیاکوئی نصیحت حاصل کرنے والاہے۔

 اللہ تعالیٰ نے قرآن کو یاد کرنا نہایت آسان بنادیاہے جو ایک بدیہی امر ہے اس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے آپ اپنے ارد گرد ایسے بچوں کو بآسانی دیکھ سکتے ہیں جونہایت آسانی سے قرآن کریم اپنے سینوں میں محفوظ کرلیتے ہیں۔نیز قرآن کریم میں جگہ جگہ مختلف قوموں کے واقعات بیان کئے گئے ہیں اور ان سے نصیحت و عبرت حاصل کرنے کی دعوت دی گئی ہے ان آیات کو پڑھنا اور ان سے عبرت ونصیحت حاصل کر ناایک ایساامر ہے جس کے لئے ماہر فن ہوناکوئی ضروری نہیں ہے۔ ہر وہ شخص جو ذرابھی شعور رکھتا ہو وہ ان کو پڑھ کر عبرت حاصل کرسکتاہے۔ رہیں وہ آیتیں جن میں احکام بیان کئے گئے ہیں ان کوسمجھنااور ان سے مسائل کااستنباط کرناایک دقیق امر ہے جس کے لئے خصوصی ملکہ،تحقیقی مہارت اور مختلف علوم وفنون میں کمال کاپایا جانا ضروری ہے جیسے لغت عرب کی جانکاری،عربی محاورات واصطلاحات کاعلم، احادیث پرگہری نظر نیز نزول آیات کے اسباب، محرکات اور ان کاشان نزول وغیرہ۔ یہ ماہر فن علماکاکام ہے وہی اس کاحق اداکرسکتے ہیں۔

قرآن کریم کی تعلیم و تعلم میں مشغول ہونا

 نبی کریم ﷺ نے اپنی تعلیمات میں قرآن کریم کی تعلیم و تعلم پربہت زور دیا ہے بلکہ ان لوگوں کوخیار امت میں شمار کیاہے جو قرآن کریم کی تعلیم و تعلم میں مشغو ل رہتے ہیں۔آپ ؐ کا ارشاد گرامی ہے:

عن عثمان بن عفان رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ”(بخاری کتاب فضائل القرآن۔ باب خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ۔حدیث نمبر  ٥٠٢٧ )

 حضرت عثمان ابن عفان ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ؐ نے فرمایا تم میں بہتر وہ ہے جوقرآن سیکھے اور سکھائے۔

 قرآن کریم اللہ تبارک تعالیٰ کاکلام ہے جوشخص اس کی تلاوت کرتاہے وہ گویا اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوتاہے۔ اسی طرح جواس کوسیکھنے سکھانے میں مشغول رہتاہے وہ اللہ تعالیٰ کامہمان ہوتاہے اور اللہ تعالیٰ کے دسترخوان سے کھاتاہے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے:

حضرت عبداللہ فرماتے ہیں یہ قرآن اللہ کا دسترخوان ہے تم اس کے دسترخوان سے جہاں تک استفادہ کرسکتے ہو کرو۔ یہ قرآن اللہ کی رسی ہے اور واضح کرنے والا نور ہے اور نفع دینے والی شفا ہے جو اس کے ذریعے تمسک کرے گا اس کے لئے پناہ ہے اور جو اس کی پیروی کرے گا اس کے لئے نجات ہے وہ شخص گمراہ نہیں ہوگا کہ اس کے پیچھے جایا جائے اور ٹیڑھا نہیں ہوگا کہ اسے سیدھا کیا جائے اس کے عجائب کبھی ختم نہیں ہوں گے اور بکثرت استعمال سے یہ پرانا نہیں ہوگا تم اس کی تلاوت کرو اللہ تمہیں اس کی تلاوت کے ہر ایک حرف کے عوض میں دس نیکیاں عطا کرے گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف، لام، م میں سے ہر ایک حرف کے عوض دس نیکیاں ملیں گی۔(بیہقی فی شعب الایمان۔)

اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے قرآن کریم کو اللہ کا دسترخوان  کہاہے جس کامطلب یہ ہے کہ جس طرح دعوت کرنے والا اپنے آنے والے مہمانوں کے لئے کھانا تیار کرتاہے اور بیٹھ کر اپنے مہمانوں کاانتظار کرتاہے تاکہ وہ آئیں اور کھاناکھائیں اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کوہدایت کادسترخوان بنایا ہے اور لوگوں کو دعوت دی کہ آکر اس دسترخوان سے جتنا ممکن ہو سکے فائدہ اٹھائیں اور ہدایت پائیں،  نیز اس قرآن کو رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی رسی، واضح روشنی، عفت وعصمت کا ذریعہ اور اس کی پیروی کرنے و الوں کے لئے نجات کا سبب بتایاہے۔ اس کی تلاوت کرنے و الوں کے لئے ہرحرف پر دس نیکیوں کاوعدہ بھی کیاہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو ہر آن اورہرلمحہ قرآن کریم کی تلاوت، اس کے معانی میں میں غور فکر اور اس کو سمجھنے سمجھانے میں مشغول رہتے ہیں اور اپنے نامۂ اعمال کونیکیوں سے بھرتے رہتے ہیں۔

ایک حدیث میں ارشاد نبویؐ ہے کہ قرآن کریم کی دو آیتوں کاسیکھ لینا دونوجوان اونٹنیوں سے بہتر ہے اسی طرح تین آیات کاسیکھنا تین اور چار آیات کا سیکھنا چار اونٹنیوں اور اونٹوں سے بہتر ہے۔

عن عقبۃ بن عامر رضی اللہ عنہ  قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ فِي الصُّفَّةِ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنْ يَغْدُوَ كُلَّ يَوْمٍ إِلَى بُطْحَانَ، أَوْ إِلَى الْعَقِيقِ فَيَأْتِيَ مِنْهُ بِنَاقَتَيْنِ كَوْمَاوَيْنِ، فِي غَيْرِ إِثْمٍ، وَلَا قَطْعِ رَحِمٍ؟ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نُحِبُّ ذَلِكَ، قَالَ: ” أَفَلَا يَغْدُو أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَيَعْلَمُ، أَوْ يَقْرَأُ آيَتَيْنِ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ نَاقَتَيْنِ، وَثَلَاثٌ خَيْرٌ لَهُ مِنْ ثَلَاثٍ، وَأَرْبَعٌ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَرْبَعٍ، وَمِنْ أَعْدَادِهِنَّ مِنَ الإِبِلِ؟ (صحیح مسلم۔ کتاب فضائل القرآن وما یتعلق بہ۔باب فضل تلاوۃ القران فی الصلوۃ وتعلمہ حدیث نمبر١٨٧٣ )

حضرت عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ ہماری طرف تشریف لائے، ہم لوگ صفہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور آپ ؐ نے فرمایاتم میں سے کون اس بات کو پسند کرتاہے کہ وہ بُطحان اور عقیق کی طرف جائے اور روزانہ دونوجوان خوبصورت اونٹنیاں اللہ کے نافرمانی اور قطع رحمی کے بغیر پکڑ لائے (عقبہ بن عامر) کہتے کہ ہم نے عرض کیا اس کوتو ہم میں سے ہر شخص پسند کرے گا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایاتم میں سے کوئی صبح مسجد میں جاکر اللہ کی کتاب سے دو آیات سیکھ لے یہ ا س کے لئے دو جوان اونٹنیوں سے زیادہ بہتر ہے اور تین آیات کاسیکھنا تین اونٹیوں سے اورچار آیات کاسیکھنا چاراونٹنیوں اور اسی تعدادمیں میں اونٹوں سے بہتر ہے۔

عرب اپنے مالوں میں اونٹ کو سب سے اعلیٰ مال سمجھتے ہیں اور یہ کافی قیمتی بھی ہوتاہے۔ اس زمانے میں اونٹ کی سواری سب سے بہتر سمجھی جاتی تھی اور لوگ اونٹوں کو بہت عزیز رکھتے تھے نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کو ترغیب دلائی کہ تمہارے لئے اونٹوں کے حصول کے لئے تگ ودو کرنے اور اس کے لئے اپنے اوقات اور صلاحیت کو خرچ کرنے سے بہتر قرآن کریم کی آیتوں کوسیکھنا ہے۔

 نبی کریم ﷺ نے قرآن کریم کو حبل اللہ یعنی اللہ کی رسی قرار دیا ہے جس کاایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ کے ہاتھ میں جب رسی کاسرا ہے تو اس کو مضبوطی سے پکڑنے والاکبھی گمراہ نہیں ہوسکتا  نیز یہ رسی امت مسلمہ کے اتحاد اور یکجہتی کاذریعہ بھی ہے۔

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے ا ور اس پر عمل کرنا، اس کی اشاعت کرنا اور اس کے پیغامات کوپوری دنیا تک پہونچانا یہی بعثت نبوی علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کامقصدہے۔امت جب تک قرآن کواپنا رہبر اوررہنما تسلیم کر کے اس پر عمل پیر ارہے گی، کامیابیاں اس کی قدمبوسی کرتی رہیں گی اورجب قرآن کادامن چھوڑ دے گی توگمراہی اورذلت اس کامقدر بن جائے گی اسی لئے نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑے جارہاہوں اگرتم نے ان کومضبوطی سے پکڑے رکھاتو کبھی گمراہ نہیں ہوگے ایک اللہ کی کتاب اوردوسری میری سنت۔ ایک حدیث میں نبی کریم ؐ نے قرآن پڑھنے و الے مومن کی مثال ترنج سے دی ہے اور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال کھجور سے دی ہے۔آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:

عن ابی موسی رضی اللہ عنہ  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْأُتْرُجَّةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ التَّمْرَةِ لَا رِيحَ لَهَا وَطَعْمُهَا حُلْوٌ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ الرَّيْحَانَةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْحَنْظَلَةِ لَيْسَ لَهَا رِيحٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ” (صحیح بخاری۔ کتاب الاطعمہ باب ذکر الطعام ۔مکررات۔حدیث نمبر٥٤٢٧ )

حضرت ابوموسیٰ (اشعری) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس (مومن کی)کی مثال جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے سنگترے کی سی ہے جس کا مزا بھی لذیذ ہوتا ہے اور خوشبو بھی بہترین ہوتی ہے اور جو(مومن) قرآن کی تلاوت نہیں کرتا اس کی مثال کھجور کی سی ہے کہ اس کا مزہ تو عمدہ ہوتا ہے لیکن اس میں خوشبو نہیں ہوتی اور اس بدکار (منافق) کی مثال جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے ریحانہ کی سی ہے کہ اس کی خوشبو تو اچھی ہوتی لیکن مزا کڑوا ہوتا ہے اور اس بدکار کی مثال جو قرآن کی تلاوت بھی نہیں کرتا اندرائن کی سی ہے جس کا مزا بھی کڑوا ہوتا ہے اور اس میں کوئی خوشبو بھی نہیں ہوتی۔

نبی کریم ﷺ نے ایسے مومن کو قابلِ رشک قراردیاہے جس کو کتاب اللہ کاعلم دیاگیااوروہ راتوں کواللہ کے سامنے اس کتاب کی تلاوت کرتاہے۔

عن عبد اللہ بن عمررَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:” لَا حَسَدَ إِلَّا عَلَى اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَقَامَ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ، وَرَجُلٌ أَعْطَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يَتَصَدَّقُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ”.(صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن۔باب اغتباط صاحب القرآن حدیث نمبر۔٥٠٢٥ )

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، رشک تو بس دو ہی آدمیوں پر ہو سکتا ہے ایک تو اس پر جسے اللہ نے قرآن مجید کا علم دیا اور وہ اس کے ساتھ رات میں کھڑا ہو کر نماز پڑھتا رہا اور دوسرا آدمی وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اسے رات دن خیرات کرتا رہا۔

بخاری ہی کی ایک دوسری روایت ہے کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رشک تو بس دو ہی آدمیوں پر ہونا چاہئے ایک اس پر جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا اور وہ رات دن اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے کہ اس کا پڑوسی سن کر کہہ اٹھے کہ کاش مجھے بھی اس جیسا علم قرآن ہوتا اور میں بھی اس کی طرح عمل کرتا اور وہ دوسرا جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے حق کے لیے لٹا رہا ہے (اس کو دیکھ کر) دوسرا شخص کہہ اٹھتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی اس کے جتنا مال ہوتا اور میں بھی اس کی طرح خرچ کرتا۔نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سب میں بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھے اور پڑھائے۔قرآن کریم ایک عظیم دولت ہے۔جس کی دنیامیں کوئی قیمت نہیں لگاسکتا۔ اس لئے مسلمانوں کو قرآن کریم کی تعلیم کو اپنا شغل بنانا، اس کی تلاوت کرنا اور اس کی تبلیغ واشاعت میں مشغول رہنا، ان کی عظمت و بقا کا ضامن ہے۔اس لئے کسی بھی مسلمان کو قرآن کی تعلیم سے محروم نہیں رہنا چاہئے۔

آج کے دور میں مسلمانوں کے یہاں سے قرآن کی تعلیم مفقود ہوتی جارہی ہے۔ عصری تعلیم حاصل کرنے کی ایسی دوڑ لگی ہوئی کہ ہماری نئی نسل کو قرآن پڑھنے کاموقع ہی نہیں ملتاجس کی وجہ سے وہ ایما ن اور اسلام سے دور ہوتے جارہے ہیں جن کی حفاظت ہماری ذمہ داری بنتی ہے اس لئے تمام مسلمانوں کوچاہئے کہ اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم ضروردیں اور انہیں قرآن کریم کی اہمیت اور اس کی فضیلت سے روشناس کرائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *