رنج وبلا ایک امتحان
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہیں اوررحم وکرم ہی پسند کرتے ہیں۔ انسان پر عیش ومسرت طاری کرنا یا اسے رنج وتکلیف میں مبتلا کرنا یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کی مرضی کے خلاف اس کائنات میں کوئی بھی شیئ حرکت نہیں کرتی۔ایک مومن بندہ کی یہ صفت ہوتی ہے کہ جب وہ عیش ونشاط کی حالت میں ہوتاہے تو اپنے رب کاشکر اداکرتا ہے اور جب اس پر رنج والم کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو وہ صبر سے کام لیتاہے جولوگ مصائب کی شدت اور آلام کی کثرت سے گھبراتے نہیں ان کواللہ تعالیٰ بہت پسند کرتے ہیں اور ان پراپنی رحمتوں کی بارشیں برساتے ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ کاارشاد ہے:
وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ(١٥٥ ) الَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ(١٥٦ ) اُولٰٓءِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃٌ وَ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ(١٥٧ ) (البقرۃ)
ترجمہ: اور یقینا ہم تمھیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دے۔ وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے توکہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے کئی مہربانیاں اور بڑی رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن بندہ کوایک پودے سے تعبیر کیا ہے کہ جب ہوائیں چلتی ہیں تو وہ ادھر ادھر لہراتاہے، جھکتاہے، اس کے پتے جھڑتے ہیں۔لیکن وہی پودا جب دھوپ کی شدت برداشت کرکے سردوگرم ہواؤں کو جھیل کر بڑا تناور درخت بن جاتاہے تو لوگوں کو پھل او ر سایہ کے ذریعہ فائدہ پہنچاتاہے۔آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:”مومن کی مثال پودے کی سب سے پہلی نکلی ہوئی ہری شاخ جیسی ہے کہ ہوا اسے کبھی جھکا دیتی ہے اور کبھی برابر کر دیتی ہے اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت جیسی ہے کہ وہ سیدھا ہی کھڑا رہتا ہے اور آخر ایک جھونکے میں کبھی اکھڑ ہی جاتا ہے۔”(بخاری۔ حدیث نمبر٥٦٤٣)
جب مومن بندہ پر کوئی مصیبت آتی ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس مصبیت کو بندہ مومن کے گناہوں کا کفارہ بنادیتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”مسلمان جب بھی کسی پریشانی، بیماری، رنج و ملال، تکلیف اور غم میں مبتلا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔”(بخاری۔ حدیث نمبر٥٦٤٢)
جب کوئی مومن بندہ مصیبت کے وقت کوئی دعاکرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعائیں ضرور قبول فرماتے ہیں۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا فرماتے تھے: ”کوئی مسلمان ایسا نہیں کہ اس کو مصیبت پہنچے اور وہ یہ کہے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْن اَللّٰھُمَّ اَجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَأَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِنْھَا اِلَّا اَخْلَفَ اللّٰہُ لَہٗ خَیْرًا مِّنْھَا۔ ہم سب اللہ کے لیے ہیں اور ہم سب اسی کی طرف لوٹ جانے والے ہیں۔ یا اللہ! مجھے اس مصیبت کا ثواب دے اور اس کے بدلہ میں اس سے اچھی چیزعنایت فرما مگر اللہ تعالیٰ اس سے بہتر چیز اس کو دیتا ہے۔” سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ابوسلمہ (یعنی ان کے شوہر) انتقال کر گئے تو میں نے کہا: اب ان سے بہتر کون ہو گا، اس لئے کہ ان کا پہلا گھر تھا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی تھی۔ پھر میں نے یہی دعا پڑھی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے بدلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شوہر بنا دیا۔ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا۔ وہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دینے آئے، میں نے عرض کیا کہ میری ایک بیٹی ہے اور مجھ میں غصہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کی بیٹی کے لئے تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ اللہ ان کو بیٹی کے فکر سے بے غم کر دے گا اور ان کے غصہ کے لئے ہم دعا کریں گے وہ اللہ کھو دے گا۔(ختم کردے گا)”(مسلم۔حدیث نمبر٢١٢٦ )
موت ایک ابدی حقیقت ہے جس کا سامنا ہر مخلوق کوکرناہے۔ مومن بندہ کے لئے موت اللہ سے ملنے کا ایک سبب ہے یہ ایک پُل ہے جو دنیا وآخرت کے درمیان ہے ایک طرف دنیا اور دوسری طرف آخرت کی منزل ہے جہاں کی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہوگی جس کی بنیاد دنیا کے اعمال پر قائم ہوگی اگر دنیاوی زندگی میں انسان نیک عمل کرتارہا اور اللہ تعالیٰ کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچتارہا تو اس کی عاقبت خیرسے مملو ہوگی اور اگر اس دنیا میں رہ کر اللہ کی نافرمانیاں کرتارہا تو آخرت میں اسے مشکلات کا سامنا ہوگا۔ دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں ان کے ساتھ خیروشر ہمیشہ لگا رہتاہے اور انسان سے کبھی نہ کبھی غلطی ہوہی جاتی ہے۔ بندہ ئ مومن کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے گناہوں پر مصر نہیں ہوتا بلکہ جیسے ہی اسے تنبہ ہوتا ہے فورا ً اپنے گناہوں سے توبہ کرتاہے۔ اگر کسی کو زندگی بھر توبہ کا موقع نہیں مل سکا اور اس کی موت کا وقت قریب آگیا تو ابھی بھی موقع ہے اسے فوراً اپنے گناہوں سے توبہ کرلینا چاہئے۔موت کے وقت بندہ ئ مومن کی کیفیت امید وبیم کی ہونی چاہئے یعنی جب وہ اپنے گناہوں کی طرف دیکھے تو اس پر خوف طاری ہوجائے اور جب اپنے رب کی رحمت کی طرف نظر کرے تو اسے اپنی مغفرت کی امید قائم ہوجانی چاہئے۔ ایک نوجوان صحابی جو موت و حیات کی کشمکش میں تھے ایسی حالت میں نبی کریم ﷺ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اورآپ نے ان سے پوچھا کہ تم کیا پارہے ہو یعنی کیسا محسوس کررہے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں خوف اور امید دونوں پارہاہوں توآپؐ نے فرمایا: لَایَجْتَمِعَانِ فِیْ قَلْبِ عَبْدٍ مِثْلَ ھٰذَاالْمَوْطِنٍِ اِلَّااَعْطَاہُ اللّٰہُ الَّذِیْ مَایَرْجُوْ،وَآمَنَہٗ مِمَّا یَخَافُ (ایسے موقع پرجس بندے کے دل میں یہ دو نوں کیفیتیں (امید وبیم) جمع ہوجاتی ہیں اللہ تعالیٰ اس کووہ چیز عطاکردیتاہے جس کی وہ امید کرتاہے اوراس چیز سے امن عطاکردیتا ہے جس سے وہ ڈرتاہے۔ (ابن ماجہ۔ حدیث نمبر ٤٢٦١ )
اپنے والدین ،رشتے دار اور دوست احباب کی وفات پریقیناً رنج ہوتاہے لیکن مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ ہر رنج وبلا کو اللہ کی طرف سے سمجھتا ہے اور اس پر صبر کرتا ہے ۔واویلا مچانا یا بین اور سینہ کوبی کرنا ایمانی صفات کے خلاف ہے ۔میت کے لئے اظہار ہمدردی کا سب سےبہتر طریقہ یہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے اس کے لیےایصال ثواب کا اھتمام کریں اور میت کی مغفرت کی دعا کریں۔