مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

عزت کا راستہ: اسلام کی طرف واپسی

عزت کا راستہ

 

تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

عزت اسلام میں ہے 

اسلام ایک ابدی مذہب ہے اور وہ اپنے ماننے والوں  کے لئے مہد سے لے کر لحد کے اصول ضوابط بتاتاہے۔

اسلام کا ابتدائی دور: ذلت سے عزت تک

اسلام آنے سے پہلے عرب دنیا میں نہ کوئی نظام تھا، نہ اخلاق، نہ بھائی چارہ، نہ عدل و انصاف،چھوٹے چھوٹے قبیلے، مسلسل جنگیں، جہالت، ظلم، فکری پستی یہ سب کچھ عربوں کی پہچان تھی۔

لیکن جیسے ہی ایمان کی روشنی آئی، وہی کمزور لوگ دنیا کے امام بن گئے۔وہی گمنام قوم عدل کی علمبردار ہوئی۔وہی ریگستانی قبائل دنیا کے معلم و رہنما بن گئے۔کیوں؟

صرف ایک وجہ اللہ نے انہیں اسلام کے ذریعے عزت دی۔

بلکہ عزت تو وہاں سے ملتی ہے جس کے پاس عزت کاخزانہ ہے اور اس خزانے کامالک کون ہے قرآن نے بتادیاہے:

اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًا(نساء ١٣٩) کیا یہ ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں ؟ تو تمام عزتوں کا مالک اللہ ہے۔

مسلمان آج کیوں کمزور ہیں؟

آج پوری دنیا میں تقریباً ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں۔وسائل بےشمار ہیں، ذہانت بھی ہے، صلاحیت بھی ہےپھر بھی مسلمان سیاسی طور پر کمزور، معاشی طور پر محتاج، فکری طور پر منتشرہیں ۔اس کی وجہ کیاہے؟

وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے عزت کے خزانے کو چھوڑ کر وہاں عزت کوتلاش کرنا شروع کردیاجو خود محتاج ہیں،جن کے پاس اپنا کچھ نہیں، اپنے دین کو چھوڑ کر دوسری اقوا م کے پیچھے اندھا دھند چلنے لگے ، مغربی تہذیب کواسلامی تہذیب پر ترجیح دینے لگے نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ثریا سے اٹھا کر تحت الثری میں پھینک دیا۔
رسول اللہ ﷺ کی کی رحلت کے بعدبہت سارے فتنوں نے جنم لیالیکن حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی دور اندیشی اور صحابۂ کرام کی ثابت قدمی نے ان تمام فتنوں کو بہت جلد قابو پالیاا اور اس کے بعد جب حضرت عمر فاروق ؓ خلیفہ ہوئے تو اسلامی پرچم عرب سے نکل کر عجم تک پہنچ گیا اور اسلامی سلطنت کی دھاک بیٹھ گئی ۔

امن وامان کی ایسی فضا قائم ہوئی کہ دوسری قومیں بھی اسلامی سلطنت کے زیر نگیں رہنا اپنے لئے سلامتی کاباعث سمجھنے لگیں۔اس کی وجہ کیا تھی؟ اس کو سمجھنے کے لئے حضرت عمر فاروقؓ کے بیت المقدس کے سفر کا واقعہ کا فی رہنما ثابت ہوسکتاہے۔

حضرت عمر فاروق کاتاریخی سفر

وہ تاریخی سفر جب امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروقؓ بیت المقدس کو اپنی تحویل میں لینے کے لیے خود مدینہ سے روانہ ہوئے۔یہ وہ وقت تھا جب بیت المقدس فتح ہوچکا تھا، مگر اہلِ شہر نے اعلان کیا کہ:
”ہم چابیاں اس وقت تک نہیں دیں گے جب تک مسلمانوں کے خلیفہ خود تشریف نہ لائیں۔“
حضرت عمر تک یہ خبر پہنچی تو آپ نے فوجی شان و شوکت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ایک نہایت عاجزانہ فیصلہ کیااور آپ ؓ نے فرمایا:
”میں دو افراد کے ساتھ جاؤں گانہ لشکر، نہ فوج، نہ کوئی بڑی سواریوں کا قافلہ۔“
چنانچہ حضرت عمرؓ ایک اونٹ پر اپنے خادم کے ساتھ روانہ ہوئے۔راستے میں سواریاں باری باری بدلتے۔کبھی خادم سوار ہوتا اور عمرؓ نکیل پکڑ کر چلتے، اور کبھی حضرت عمرؓ سوار ہوتے۔
یہ تھا وہ خلیفہ جس کے نام سے قیصر و کسریٰ کے تاج لرزتے تھے، اور حالت یہ کہ سفر کے دوران کپڑوں پر دھول لگی ہے، ہاتھ میں لاٹھی ہے، پیوند لگا ہوا کرتا ہے۔جب بیت المقدس کے دروازے کے قریب پہنچے، اس وقت سواری کی باری خادم کی تھی!وہ سوار تھا اور حضرت عمرؓ اونٹ کی نکیل تھامے پیدل چل رہے تھے۔

صحابہؓ نے عرض کیا:“امیرالمؤمنین! آج تو کم از کم آپ ہی سوار ہوجائیں، لوگ دیکھ رہے ہیں!”حضرت عمرؓ نے اس وقت ایک ایسا جملہ ارشاد فرمایا جس نے سب کی عقلوں کو کھول دیااور عزت و ذلت کا پورا راز بالکل نمایا ں ہوکر سامنے آگیا ۔ آپ ؓ نے فرمایا:
“أنا كنا أذل قوم فأعزنا الله بالإسلام فمهما نطلب العز بغير ما أعزنا الله به أذلنا الله(مستدرک حاکم)
یعنی ہم ایک پست و کمزور قوم تھے، اللہ نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت دی، اور جب بھی ہم عزت کو کسی اور جگہ تلاش کریں گے، اللہ ہمیں ذلیل کر دے گا۔
آج مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ انہوں نے عزت کو دوسروں کی تہذیب میں، دوسروں کے طور طریقوں میں، بے دینی میں، گناہوں میں، مغربی سوچ میں، مادیت پرستی میں، نام نہاد “ترقی” میں تلاش کرنا شروع کردیاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری دنیا میں ذلت وپستی ان کا مقدر بن گئی ۔

عزت کہاں سے ملے گی؟

اخلاق کی عزت:اسلام نے وہ اخلاق سکھائے جنہیں دیکھ کر دشمن بھی دوست بن جاتے ہیں۔

عزت
آج ہمیں کیا کرناچاہئے؟

اگر ہم پھر سے عزت چاہتے ہیں تو راستہ وہی ہے جو صحابہ کا تھا۔

نوجوانوں کی تربیت

اصل سرمایہ نوجوان ہیں۔اگر نسلِ نو کو قرآن و سنت سے جوڑ دیا جائے تو امت خود بخود عروج پا لے گی۔
امت کے غم کو دل میں پیدا کریں مسلمان صرف اپنی فکر نہیں کرتا وہ پوری امت کا درد دل میں رکھتا ہے۔یہی ایمان کی علامت ہے۔

آج ہم ایک نہایت نازک، ہنگامہ خیز اور پُر فتن دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ دنیا کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھ لیںہر سمت ایک ہی منظر ہے: باطل طاقتیں، اسلام دشمن قوتیں، اور غیر مسلم طاقتیں، سب ایک صف میں کھڑی ہو کر امتِ مسلمہ پر اس طرح حملہ آور ہیں، جیسے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تھا: “جیسے بھوکے لوگ دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
ان کی سازشیں واضح ہیں، حملے کھلے ہوئے ہیں، اور ان کا بنیادی ہدف ایک ہے:امت مسلمہ کی روح،اس کا ایمان، اس کی شناخت، اس کی وحدت کو چھین لیا جائے۔آج حالات ایسے ہیں کہ ہر طرف انتشار ہے، ذہن الجھے ہوئے ہیں، اور ایسا طوفان کھڑا ہے جو ہماری تہذیب، ہماری تاریخ، ہمارے اقدار اور ہمارے ایمان کو جڑ سے اکھاڑ کر بہا لے جانا چاہتا ہے۔

دو محاذایمان والے اور منافقین

اس آزمائش کے دور میں امت دو حصوں میں بٹتی دکھائی دیتی ہے:ایک طرف اہلِ ایمان ہیںوہ لوگ جو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں، آزمائشوں کے باوجود ثابت قدم ہیں، نہ ایمان پر سودہ کرتے ہیں، نہ حق سے پیچھے ہٹتے ہیں۔
دوسری طرف منافقین ہیںجن کے دل ایمان سے خالی، نفاق سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اسی موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ دنیاوی مفاد کے لیے کفار کے قدموں میں جا گریں۔ یہ امت کے لیے باہر کے دشمن سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔

ہم کہاں جائیں؟

ایسے حالات میں ہر مسلمان کے دل میں ایک سوال تیر کی طرح پیوست ہوجاتا ہے:”ہم جائیں تو کہاں جائیں؟ ہماری پناہ کہاں ہے؟”بعض لوگ خوف سے غلط سمتوں میں بھاگتے ہیں، کچھ خیالی سہارے ڈھونڈتے ہیں، اور کچھ ایسی پناہ گاہوں میں چھپنا چاہتے ہیں جو دراصل مزید خطرات کا راستہ ہوتا ہے۔آج ہمیں انہی جھوٹی پناہ گاہوں کا جائزہ لینا ہے۔
پہلی غلط پناہ گاہ باطل کے آگے سرِ تسلیم خم کر دینا
ہماری پہلی غلطی یہ ہوتی ہے کہ ہم سمجھ لیتے ہیں:”اگر ہم دشمن کے سامنے جھک جائیں، اپنی اسلامی شناخت مٹا دیں، ان کے رنگ میں رنگ جائیں، تو شاید ہم محفوظ ہو جائیں گے!”لیکن یاد رکھیں!سلامتی ان کے پرچم تلے نہیں،سلامتی اللہ کے دین میں ہے۔ظالموں سے دوستی، ظلم سے خاموش سمجھوتہ… یہ سب اللہ کی سخت ممانعت میں آتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ (ہود: 113)
ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم تمہیں پکڑ لے گی”
باطل کا انجام ہمیشہ بربادی ہے۔حق باقی رہتا ہے، باطل مٹ جاتا ہے۔
قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ“حق آیا اور باطل مٹ گیا۔” (الإسراء: 81)

دوسری غلط پناہ گاہ منافقت اور دوہرے رویے کا راستہ

کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ “ذرا ادھر بھی، ذرا ادھر بھی…”
یعنی ظالم طاقتوں سے بھی تعلقات، مسلمانوں میں بھی نام۔یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں سے فائدہ اٹھا لیں گے۔لیکن دو کشتیوں کا سوار ہمیشہ ڈوبتا ہے!اللہ فرماتا ہے:
يُخْدِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ“
یہ اللہ اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، مگر دراصل اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں۔” (البقرہ: 9)
ان کا انجام؟إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ“
منافق جہنم کے سب سے نچلے گڑھے میں ہوں گے!” (النساء: 145)نچلا گڑھا… یعنی کفر سے بھی بدتر انجام!
تیسری غلط پناہ گاہ دین سے فرار، دنیا پرستی بعض لوگ حالات کی شدت سے گھبرا کر کہتے ہیں:”چھوڑو دین کا کام… اپنی زندگی بناو، بچوں کو سیٹ کرو، بس دنیا سنوارو!”وہ سمجھتے ہیں کہ دین کی ذمہ داری چھوڑ کر زندگی آسان ہوجائے گی۔لیکن اللہ فرماتا ہے:
وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ“اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو!” (البقرہ: 195)دنیا کی محبت اگر اللہ، اس کے رسول اور جہادِ فی سبیل اللہ سے بڑھ جائے، تو قرآن کہتا ہے:فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ“تو پھر انتظار کرو اللہ کے فیصلے کا!” (التوبہ: 24)دنیا وقتی سکون دیتی ہے…مگر یہ راستہ تباہی کا ہے، پناہ کا نہیں!حقیقی پناہ گاہ ایمان، اسلام اور اللہ پر توکل
میرے عزیز بھائیو!ہم نے تینوں جھوٹی پناہ گاہیں دیکھ لیں۔اب سوال یہ ہے کہ پناہ کہاں ہے؟پناہ صرف ایک ہے اللہ کی پناہ!ایمان وہ مضبوط قلعہ ہے جس میں داخل ہونے والا محفوظ ہوجاتا ہے۔قرآن نے صاف اعلان کیا:
أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ“امن انہی کے لیے ہے جو ایمان لائے اور اسے ظلم (شرک و نفاق) سے آلودہ نہ کیا۔” (الأنعام: 82)ہماری نجات اسی میں ہے کہ:ا ایمان پر جم جائیں، اسلام کو مضبوطی سے تھام لیں، اللہ پر سچا توکل اختیار کریںجیسے قرآن کہتا ہے:وَمَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّهِ“ہم اللہ پر بھروسہ کیوں نہ کریں؟” (ابراہیم: 12)خطاب کا اختتامی عہدآج ہم اس بات کا اعلان کریں:
ہماری پناہ اسلام ہے!ہماری عزت ایمان میں ہے!ہماری طاقت توکل میں ہے!اور ہمارا دل یہ دعا کرے:
تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ
اے اللہ! ہمیں اسلام پر زندگی دے، اسلام پر موت دے، اور صالحین میں ملا دے!” (یوسف: 101)اللہم آمین۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index