وضو کی اہمیت اور مقصد

تحریر : مفتی محمدآصف اقبال قاسمی
وضو کالغوی معنی: پاکیزگی، صفائی اور روشنائی۔
شرعی معنی: مخصوص اعضا کو مقررہ ترتیب و طریقے سے دھو کر عبادت کے لیے طہارت حاصل کرنا۔
وضو صرف ظاہری اعضا کے دھونے اور صفائی کا نام نہیں بلکہ یہ روحانی پاکیزگی، عبادت کی تیاری اور بندے اور رب کے درمیان مضبوط تعلق کا بنیادی ذریعہ ہے۔ عبادت کا دروازہ ہے، کیونکہ نماز، تلاوتِ قرآن اور بہت سے دوسرے اعمالِ عبادت طہارت کے بغیر مکمل نہیں ہوتے۔ اس کی اہمیت قرآن و حدیث میں بارہا بیان ہوئی ہے۔
قرآن مجید میں وضو کی اہمیت
وضو نماز کی لازمی شرط ہے اس کے بغیر نماز پڑھنا گناہ کبیرہ کے زمرہ میں آتاہے۔ اس کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں صاف طورپر یہ حکم دیا ہےکہ جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو پہلےوضو کرلیاکرو۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ میں فرمایا:
یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَ اَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ
اے ایمان والو! جب نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہرے اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوؤ…”
اس آیت میں نماز سے پہلے وضو کو لازم قرار دیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کا آغاز طہارت سے ہوتا ہے۔ طہارت نہیں ہوگی تو عبادت بھی نہیں ہوگی ۔
کون کون سی عبادات بغیر وضو کے نہیں ہوسکتیں؟
نماز چاہے کوئی بھی ہو ، پنج وقتہ ، عیدین ، جنازہ ، نوافل تمام نمازوں کے لئےوضو شرط ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی بلکہ الٹا گناہ لازم ہوتاہے۔
رسو اللہ ﷺ نے فرمایا :لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ مَنْ أَحْدَثَ حَتَّى يَتَوَضَّأَ”( بخاری ۔135)
”جو شخص حدث کرے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ (دوبارہ) وضو نہ کر لے۔ “
قرآن کریم کو چھونے کے لئے بھی وضو شرط ہے اس کے بغیر قرآن کریم کو نہیں چھوا جاسکتا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ (واقعہ ۔٨٠ ) یعنی اسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔ اس لئے جب بھی قرآن کریم چھونا مقصود ہو تو پہلے طہارت حاصل کرلیں اس کے بعد ہی قرآن کریم کوہاتھ لگائیں۔ ہاں بدن پاک ہے تو زبانی تلاوت کے لئے وضو ضروری نہیں ہے۔

طواف کعبہ کے لئے بھی وضو شرط ہے ۔ اس کے بغیر طواف نہیں کرسکے ۔ اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے طواف کو نماز کے مثل قرار دیاہے ۔ تو جب نماز کےلئے وضو ضروری ہے تو طواف کے لئے بھی ضروری ہوگا ۔ آپ ﷺ فرمایا:الطَّوَافُ حَوْلَ الْبَيْتِ مِثْلُ الصَّلَاةِ (ترمذی ٩٦٠)یعنی طواف نماز کے مثل ہے۔ فرق یہ ہے کہ طواف میں کلام کرنا جائز ہے اور نماز میں کسی سے کلام نہیں کرسکتے ۔
گناہوں کے مٹنے کا ذریعہ
وضو صرف نماز کی صحت کے شرط ہی نہیں بلکہ اس کے بے شمار دینی و روحانی فوائد ہیں ۔اس کے ذریعہ قلبی بشاشت پیدا ہوتی ہے اور انسان اپنے آپ کو چاق وچوبند محسوس کرتاہے۔ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ گناہ ایسے ہی جھر جاتےہیں جس طرح کپڑے دھونے کے بعد اس کامیل کچیل جھڑ جاتاہے۔
نبی کریم ﷺ نے وضو کے بارے میں فرمایا:
إِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ، أَوِ الْمُؤْمِنُ، فَغَسَلَ وَجْهَهُ، خَرَجَ مِنْ وَجْهِهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ نَظَرَ إِلَيْهَا بِعَيْنَيْهِ مَعَ الْمَاءِ، أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ، فَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ خَرَجَ مِنْ يَدَيْهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ، كَانَ بَطَشَتْهَا يَدَاهُ مَعَ الْمَاءِ، أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ، فَإِذَا غَسَلَ رِجْلَيْهِ، خَرَجَتْ كُلُّ خَطِيئَةٍ مَشَتْهَا رِجْلَاهُ مَعَ الْمَاءِ، أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاء، حَتَّى يَخْرُجَ نَقِيًّا مِنَ الذُّنُوبِ۔(صحيح مسلم۔كتاب الطهارة۔حدیث نمبر: 577)
”جب ایک مسلم (یا مومن) بندہ وضو کرتا ہے اور اپنا چہرہ دھوتا ہے تو پانی (یا پانی کے آخری قطرے) کے ساتھ اس کے چہرے سے وہ سارے گناہ، جنہیں اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کیا تھا، خارج ہو جاتے ہیں اور جب وہ اپنے ہاتھ دھوتا ہے تو پانی (یا پانی کے آخری قطرے) کے ساتھ وہ سارے گناہ، جو اس کے ہاتھوں نے پکڑ کر کیے تھے، خارج ہو جاتے ہیں اور جب وہ اپنے دونوں پاؤں دھوتا ہے تو پانی (یا پانی کے آخری قطرے) کے ساتھ وہ تمام گناہ، جو اس کے پیروں نے چل کر کیے تھے، خارج ہو جاتے ہیں حتی کہ وہ گناہوں سے پاک ہو کر نکلتا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو نہ صرف جسم کی صفائی کرتا ہے بلکہ روح کو بھی پاک کرنے کاذریعہ ہے۔
ایمان میں اضافہ اور نور کا ذریعہ
وضو کے ذریعہ چہرے پر ایک ایسا نور پیدا ہوتاہے جوقیامت کے دن جب کے اولین و آخرین کااجتماع ہوگا۔ اور ہر شخص پریشان حال ہوگا ۔ رسول اللہ ﷺ اپنی امت کووضو سےپیدا ہونے والے نور سے پہچان لیں گے۔
رسول اللہ ﷺ نے قیامت کے دن اپنی امت کو “غُرّ مُحجّل” یعنی چمکتے ہوئے اعضاء سے پہچاننے کا ذکر کیا ہے۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے :
إِنَّ أُمَّتِي يُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ غُرًّا مُحَجَّلِينَ مِنْ آثَارِ الْوُضُوءِ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يُطِيلَ غُرَّتَهُ فَلْيَفْعَلْ”.(بخاری۔١٣٦)
”میری امت کے لوگ وضو کے نشانات کی وجہ سے قیامت کے دن سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں والوں کی شکل میں بلائے جائیں گے۔ تو تم میں سے جو کوئی اپنی چمک بڑھانا چاہتا ہے تو وہ بڑھا لے“
نماز کی قبولیت کا دروازہ
وضو کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔چونکہ نماز دین کی بنیاد ہے، لہٰذا وضو اس بنیاد کا پہلا اہم حصہ ہے۔ ایک درست اور مکمل وضو دل کو عبادت کے لیے تیار کرتا ہے اور نماز میں خشوع و خضوع بڑھاتا ہے۔
روحانی سکون اور نفسیاتی اثرات
وضو کرنے سےذہنی سکون ملتا ہےدل کی گھبراہٹ کم ہوتی ہےطہارت کے احساس سے عبادت میں لذت بڑھتی ہےیہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ صرف جسمانی عمل نہیں بلکہ روح پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔
مسلمان کی شناخت
ایک عام مسلمان جو دن میں پانچ نمازیں پڑھتاہے وہ کم از کم پانچ ر بار وضو کرتا ہے، جس سےصفائی کا معیار بلند ہوتا ہےطہارت مسلمان کی پہچان بنتی ہےمعاشرے میں پاکیزگی کا فروغ ہوتا ہے
سائنسی نقطۂ نظر سے بھی اس کے بے شمار فوائد ہیں۔
جلد کے مسام صاف ہوتے ہیں خون کی روانی بہتر ہوتی ہےآنکھوں، ناک اور ہاتھوں کی حفاظت ہوتی ہےذہنی تناؤ میں کمی آتی ہےیہ سب فوائد اس عبادت کی حکمت کو مزید واضح کرتے ہیں۔
وضو ایک چھوٹا سا عمل ہے لیکن اس کے فوائد بے شمار ہیں۔ یہ مسلمان کی ظاہری اور باطنی زندگی دونوں کو پاکیزہ اور روشن کرتا ہے۔ عبادت کی قبولیت، گناہوں کی معافی، روحانی سکون اور صحت، سب کچھ اس سے جڑا ہے۔
