لباس ستر پوشی اور زینت کا سامان
تحریر :مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
اسلام ایک ایسا مذہب ہے جواپنے ماننے والوں کے لئے ہر جگہ رہنمائی کرتاہے اور ہرطرح کے ہدایات جاری کرتاہے۔اس کی اپنی تہذیب اپنی ثقافت ہے وہ غیر قوموں کی تہذیبوں سے متاثر نہیں ہوتا بلکہ اپنی تہذیب وثقافت کوپوری انسانیت پر عام کرنے کی کوشش کرتاہے۔اس لئے کہ یہ دین اللہ کی طرف سے نازل کردہ دین ہے اوراللہ تعالیٰ نے اس دین کے ذریعہ انسانیت کووہ چیز عنایت فرمائی ہے جو سب سے اعلیٰ واولیٰ ہے۔ اس لئے مسلمانوں کوکسی تہذیب سے مرعوب ہوکر اپنی تہذیب کوچھوڑ نا نہیں چاہئے۔لباس انسان کی عام ضروریات میں سے ایک اہم ضرورت ہی نہیں بلکہ انسان اوردیگر حیوانات کے درمیان وجہ امتیاز بھی ہے۔لباس اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جس کے ذریعہ انسان اپنی ستر پوشی بھی کرتا ہے اور زینت بھی اختیار کرتاہے۔اسی لئے لباس سے متعلق اسلام میں معتدل احکام نازل کیئے گئے ہیں جن سے انسان کی ستر پوشی بھی ہوتی رہے اور اسراف و فضول خرچی بھی نہ ہو نیز لباس ایسانہ ہو جو انسان اور جانور کے درمیان یا مسلمان اور دوسرے اقوام کے درمیان وجہ امتیاز کومٹادے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَ رِیْشًاوَ لِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ(اعراف۔آیت٢٦ )
ترجمہ: اے آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوی کا لباس، یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ لوگ یاد رکھیں۔
لباس تقویٰ سے مرادمفسرین نے ایمان،عمل صالح، مشیت ربانی اور اللہ کے خوف سے ستر پوشی مراد لیا ہے۔درحقیقت ان تمام میں کوئی تفاوت نہیں ہے بلکہ سب کے سب ایمانی تقاضے کوپورا کرنے والے ہیں۔ لباس ایمانی تقاضہ بھی ہے،اللہ کی مشیت بھی ہے،عمل صالح بھی ہے اورستر پوشی بھی۔اس لئے اللہ تعالیٰ اور رسول کریم ﷺ نے لباس کے احکام تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے لباس اسی انداز کے اختیا رکرنے چاہئیں جواللہ اور اس کے رسول کوپسند ہیں۔جن سے مکمل پردہ پوشی ہواورانسانی تہذیب میں پسندیدہ اورعریانیت سے خالی ہو۔ایسا لباس جوپردہ کے تمام تقاضوں کو پورا نہ کرتاہو اسلام میں اسے منع کیا گیاہے۔نبی کریم ﷺ نے ایسی عورتوں کو موجب لعنت فرمایاہے جو لباس پہننے کے باوجود ننگی معلوم ہوتی ہیں۔
عَن ابی ھریرۃ ، قال: قال رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، لَمْ أَرَهُمَا قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ، وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ، رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ، لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا “.(صحیح مسلم کتاب اللباس والزینۃ۔باب النساء الکاسیات العاریات المائلات الممیلات۔حدیث نمبر٥٥٨٢ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دوزخیوں کی دو قسمیں ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا: ایک تو وہ لوگ جن کے پاس کوڑے ہیں بیلوں کی دموں کی طرح کہ لوگوں کو اس سے مارتے ہیں۔ دوسرے وہ عورتیں ہیں جو پہنتی ہیں مگر ننگی ہیں سیدھی راہ سے بہکانے والی، خود بہکنے والی، ان کے سر بختی اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے ہیں وہ جنت میں نہ جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی ان کو نہ ملے گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی دور سے آتی ہے۔
کپڑا پہننے کے باوجود ننگی ہونے کامطلب یہ ہے کہ یاتو ضرورت سے کم کپڑے پہنیں کہ ستر کی چیزیں کھلی رہ جائیں یا کپڑا اتناباریک ہوکہ بدن کے مضمرات سامنے نظر آنے لگیں یا لباس کی بناوٹ ایسی ہو کہ بدن کے نشیب وفراز ابھر کر سامنے آجائیں۔ایسے کپڑوں کے پہننے سے منع کیاگیا ہے اورمسلم مرد وں اور عورتوں کواس طرح کے لباس سے احتراز کرناچاہئے۔
ایسالباس جوکسی قوم کاخاص لباس ہے اوردوسری قومیں اس کے ذریعہ ان کوجانتی پہچانتی ہیں ایسے لباس سے بھی مسلمانوں کو احتراز کرناچاہئے نبی کریمﷺ نے ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:
عن عبد اللہ بن عمر ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ”(سنن ابو داؤد کتاب اللباس۔باب فی لباس الشھرۃ۔حدیث نمبر٤٠٣١ )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے“۔
تکبر کا لباس
ایسا لباس جس سے تکبر کی بوآتی ہونبی کریم ﷺ نے منع فرمایاہے۔اس کی ایک صورت یہ ہے کہ پاجامہ یاتہبند ٹخنوں سے نیچے ہوں۔ایسے لباس کو اللہ کے رسول ﷺ نے جہنم میں لے جانے والالباس قرار دیا ہے۔
عَن ابی ھریرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” مَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ مِنَ الْإِزَارِ فَفِي النَّارِ”.(صحیح بخاری،کتاب اللباس،باب ماسفل من الکعبین فھو فی النار۔حدیث نمبر٥٧٨٧ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تہبند کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے لٹکا ہو وہ جہنم میں ہو گا۔”
جو شخص اپنا تہبند غرور کی وجہ سے گھسیٹتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف دیکھے گا نہیں۔ہاں کوئی ایسا شخص جواپنے لباس کاخاص طور سے خیال رکھتاہو لیکن کبھی اتفاق سے اس کی چادر یاتہبند ٹخنوں سے نیچے چلے جائیں اور اس کے دل میں کبر پیدا نہ ہو تو اس کے لئے رخصت ہے۔
عن سالم بن عبد الہ عن ابیہ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلَاءَ، لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ”، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَحَدَ شِقَّيْ إِزَارِي يَسْتَرْخِي إِلَّا أَنْ أَتَعَاهَدَ ذَلِكَ مِنْهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” لَسْتَ مِمَّنْ يَصْنَعُهُ خُيَلَاءَ”. (صحیح بخاری۔کتاب اللباس۔ باب من جر ازارہ من غیر خیلاء۔حدیث نمبر٥٧٨٤ )
حضرت سالم بن عبداللہ اپنے والدسے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو شخص تکبر کی وجہ سے تہبند گھسیٹتا ہوا چلے گا تو اللہ پاک اس کی طرف قیامت کے دن نظر بھی نہیں کرے گا۔“ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے تہبند کا ایک حصہ کبھی لٹک جاتا ہے مگر یہ کہ خاص طور سے اس کا خیال رکھا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو ایسا تکبر سے کرتے ہیں۔”
جلدی بازی میں اگر کسی کالباس نیچے چلاجائے اور زمین پر گھسٹنے لگے تو معاف ہے۔نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک بار ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔کہ ایک بار سورج گرہن ہو ا تو آپ جلد بازی میں مسجد کی طرف تشریف لائے دراں حالیکہ آپ کاکپڑا گھسٹ رہا تھا۔
عن ابی بکرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ وَنَحْنُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ يَجُرُّ ثَوْبَهُ مُسْتَعْجِلًا حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ وَثَابَ النَّاسُ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَجُلِّيَ عَنْهَا، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا، وَقَالَ:” إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْهَا شَيْئًا فَصَلُّوا وَادْعُوا اللَّهَ حَتَّى يَكْشِفَهَا”. (صحیح بخاری۔کتاب اللباس۔ باب من جر ازارہ من غیر خیلاء۔حدیث نمبر٥٧٨٥ )
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ سورج گرہن ہوا تو ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ جلدی میں کپڑا گھسیٹتے ہوئے مسجد میں تشریف لائے لوگ بھی جمع ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھائی، گرہن ختم ہو گیا، تب آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ”سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں اس لیے جب تم ان نشانیوں میں سے کوئی نشانی دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ سے دعا کرو یہاں تک کہ وہ ختم ہو جائے۔
سادگی کا لباس اسلامی مزاج
مردوں کے لئے ریشمی کپڑ احرام ہے اس لئے کہ اسلام سادگی کو پسند کرتا ہے اورنبی کریمﷺ نے بھی پوری زندگی سادگی کوہی پسند کیا اس لئے مردوں کو ریشمی کپڑوں سے اجتناب برتنا ضروری ہے۔ ہاں کہیں کہیں گوٹے وغیرہ بنے ہوں توحرج نہیں لیکن ان کی مقدار بھی زیادہ نہ ہو۔زیب وزینت چونکہ عورتوں کی خاص صفت ہے اس لئے ان کے لئے ریشمی کپڑا استعمال کرناجائز ہے۔
عن ابی عثمان قَالَ: كَتَبَ إِلَيْنَا عُمَرُ وَنَحْنُ بِأَذْرَبِيجَانَ،” أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ إِلَّا هَكَذَا، وَصَفَّ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِصْبَعَيْهِ وَرَفَعَ زُهَيْرٌ الْوُسْطَى وَالسَّبابةَ”. (صحیح بخاری۔کتاب اللباس۔باب لبس الحریر وافتراشہ للرجال وقدر مایجوز منہ۔ حدیث نمبر ٥٨٢٨ )
حضرت ابوعثمان نے بیان کیا کہ ہمیں عمر رضی اللہ عنہ نے لکھا اس وقت ہم آذر بائیجان میں تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم پہننے سے منع فرمایا تھا سوا اتنے کے اور اس کی وضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو انگلیوں کے اشارے سے کی تھی۔ زہیر (راوی حدیث) نے بیچ کی اور شہادت کی انگلیاں اٹھا کر بتایا۔
عَن ابن الزبیر يَقُولُ: قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا لَمْ يَلْبَسْهُ فِي الْآخِرَةِ”. (صحیح بخاری۔کتاب اللباس۔باب لبس الحریر وافتراشہ للرجال وقدر مایجوز منہ۔حدیث نمبر٥٨٣٣ )
حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کو خطبہ دیتے ہوئے سناکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس مرد نے دنیا میں ریشم پہنا وہ آخرت میں اسے نہیں پہن سکے گا۔
عن علی بن ابی طالب ، قَالَ: ” نَهَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ التَّخَتُّمِ بِالذَّهَبِ، وَعَنْ لِبَاسِ الْقَسِّيِّ، وَعَنِ الْقِرَاءَةِ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ، وَعَنْ لِبَاسِ الْمُعَصْفَرِ (سنن الترمذی۔کتاب اللباس باب ماجاء فی کراھیۃ خاتم الذھب۔حدیث نمبر١٧٣٧ )
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سونے کی انگوٹھی،قسی(ایک ریشمی کپڑا) کا لباس، رکوع و سجود میں قرآن پڑھنے اورمعصفر (زعفران سے رنگے ہوئے زرد) کپڑے سے منع فرمایا۔
مردوں کے لئے زعفران میں رنگا ہوکپڑا پہننے سے نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے۔
عن انس بن مالک قَالَ:” نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَزَعْفَرَ الرَّجُلُ”.(صحیح بخاری۔کتاب اللباس۔باب التزعفر للرجال۔حدیث نمبر ٥٨٤٦ )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی مرد زعفران کے رنگ کا استعمال کرے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا تھا کہ کوئی محرم ورس یا زعفران سے رنگا ہوا کپڑا پہنے۔
رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:” نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَلْبَسَ الْمُحْرِمُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا بِوَرْسٍ أَوْ بِزَعْفَرَانٍ”. (صحیح بخاری۔کتاب اللباس۔باب الثوب المزعفر۔حدیث نمبر٥٨٤٧ )
صنف مخالف کی مشابہت اختیار کرنے والے ملعون ہیں
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اچھی صورت میں پیدا فرمایا ان میں سے کچھ مذکر اور کچھ مونث بنائے۔ اللہ تعالیٰ نے جس کو مناسب سمجھا مذکر بنایا اورجس کو مناسب سمجھا مونث بنایا۔مردوں کی وضع الگ ہے عورتوں کی وضع الگ ہے۔ان کے الگ الگ لباس بھی اللہ تعالیٰ نے متعین فرمادیا ہے۔اپنی اس قدرتی وضع میں تبدیلی کرناگویاقدرت کی تخلیق کو ناپسند کرناہے۔ چاہے وہ تبدیلی لباس کے ذریعے ہویا اپنے چہرے وغیرہ میں بدلاؤ کے ذریعے ہو۔جیسے کوئی مرد عورتوں کی ہیئت بنائے،عورتوں کی طرح چوٹیا ں بڑھائے، چوڑیاں پہنے یاکانوں میں بالیاں پہنے یاعورتیں مردوں کی طرح بال کٹوائیں، لباس مردوں کی طرح استعمال کریں یہ سب چیزیں ناجائز ہیں اورنبی کریم ﷺنے سختی سے منع فرمایا ہے۔ ایسے مرد وزن جواپنے صنف مخالف کی مشابہت اختیار کرتے ہیں ان کے لئے اللہ کے نبی ﷺ نے لعنت فرمائی ہے۔
عن عبد اللہ بن وباس عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” أَنَّهُ لَعَنَ الْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ، وَالْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ”. (ابوداؤدکتاب اللباس۔باب لباس النساء۔حدیث نمبر٤٠٩٧ )
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں سے مشابہت کرنے والی عورتوں پر اور عورتوں سے مشابہت کرنے والے مردوں پر لعنت فرمائی ہے۔
عَن بن ابی مُلَیکۃ قَالَ: قِيلَ لِعَائِشَۃَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: إِنَّ امْرَأَةً تَلْبَسُ النَّعْلَ، فَقَالَتْ” لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّجُلَةَ مِنَ النِّسَاءِ”. (ابوداؤدکتاب اللباس۔باب لباس النساء۔حدیث نمبر٤٠٩٩ )
حضرت ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ عورت جوتا پہنتی ہے (جو مردوں کے لیے مخصوص تھا) تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد بننے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔
آج کے دور میں یہ فتنہ عام ہوتاجارہاہے کہ عورتیں مردوں کے لباس اختیار کرتی جارہی ہیں اورمرد عورتو ں کے لباس اختیار کرتے جارہے ہیں،جو لعنت رسولؐ میں گرفتار ہونے کاسبب ہے مومنین مسلمین کو اس سے بچنے کی فکرکرنی چاہئے۔ایسے مرد جوعورتوں کی چال ڈھال اختیار کرتے ہیں یاایسی عورتیں جومردوں کی چال ڈھال اختیار کرتی ہیں نبی کریم ﷺ نے ان کے لئے لعنت فرمائی ہے۔
عن عبد اللہ بن عباس رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:” لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، وَالْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ” (صحیح بخاری۔کتاب اللباس۔باب المتشبھون بالنساء والمتشبھات بالرجال۔حدیث نمبر٥٨٨٥ )
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت بھیجی جو عورتوں جیسی چال چلن اختیار کریں اور ان عورتوں پر لعنت بھیجی جو مردوں جیسی چال چلن اختیار کریں۔
اسلام سادگی کا مذہب ہے اور سادگی کو پسند کرتاہے اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ سادگی کے ساتھ زندگی گذاریں ۔ لیکن ایک بات کا خاص طور پر لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ جس طرح زرق برق لباس پہن کر تکبر اختیار کرنا جائز نہیں اسی طرح وسعت ہونے کے باوجود پھٹے حال رہنا بھی جائز نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اگر نوازا ہے تو ہمارے جسم پر اس کی نعمتوں کا اثر دکھنا چاہئے ۔